صحيح البخاري
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
کتاب: جہاد کا بیان
166. بَابُ مَنْ رَأَى الْعَدُوَّ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ يَا صَبَاحَاهْ. حَتَّى يُسْمِعَ النَّاسَ:
باب: دشمن کو دیکھ کر بلند آواز سے یا صباحاہ پکارنا تاکہ لوگ سن لیں اور مدد کو آئیں۔
حدیث نمبر: 3041
حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ قَالَ: خَرَجْتُ مِنْ الْمَدِينَةِ ذَاهِبًا نَحْوَ الْغَابَةِ حَتَّى إِذَا كُنْتُ، بِثَنِيَّةِ الْغَابَةِ لَقِيَنِي غُلَامٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قُلْتُ: وَيْحَكَ مَا بِكَ، قَالَ: أُخِذَتْ لِقَاحُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: مَنْ أَخَذَهَا، قَالَ: غَطَفَانُ وَفَزَارَةُ فَصَرَخْتُ ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ أَسْمَعْتُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا يَا صَبَاحَاهْ يَا صَبَاحَاهْ، ثُمَّ انْدَفَعْتُ حَتَّى أَلْقَاهُمْ وَقَدْ أَخَذُوهَا فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ، وَأَقُولُ أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعْ فَاسْتَنْقَذْتُهَا مِنْهُمْ قَبْلَ أَنْ يَشْرَبُوا فَأَقْبَلْتُ بِهَا أَسُوقُهَا، فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْقَوْمَ عِطَاشٌ وَإِنِّي أَعْجَلْتُهُمْ أَنْ يَشْرَبُوا سِقْيَهُمْ فَابْعَثْ فِي إِثْرِهِمْ، فَقَالَ:" يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ إِنَّ الْقَوْمَ يُقْرَوْنَ فِي قَوْمِهِمْ".
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو یزید بن ابی عبید نے خبر دی ‘ انہیں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں مدینہ منورہ سے غابہ (شام کے راستے میں ایک مقام) جا رہا تھا ‘ غابہ کی پہاڑی پر ابھی میں پہنچا تھا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ایک غلام (رباح) مجھے ملا۔ میں نے کہا ‘ کیا بات پیش آئی؟ کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودہیل اونٹنیاں (دودھ دینے والیاں) چھین لی گئیں ہیں۔ میں نے پوچھا کس نے چھینا ہے؟ بتایا کہ قبیلہ غطفان اور قبیلہ فزارہ کے لوگوں نے۔ پھر میں نے تین مرتبہ بہت زور سے چیخ کر ”یا صباحاہ ‘ یا صباحاہ“ کہا۔ اتنی زور سے کہ مدینہ کے چاروں طرف میری آواز پہنچ گئی۔ اس کے بعد میں بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھا ‘ اور ڈاکوؤں کو جا لیا ‘ اونٹنیاں ان کے ساتھ تھیں ‘ میں نے ان پر تیر برسانا شروع کر دیا ‘ اور کہنے لگا ‘ میں اکوع کا بیٹا سلمہ ہوں اور آج کا دن کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے۔ آخر اونٹنیاں میں نے ان سے چھڑا لیں ‘ ابھی وہ لوگ پانی نہ پینے پائے تھے اور انہیں ہانک کر واپس لا رہا تھا کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھ کو مل گئے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ڈاکو پیاسے ہیں اور میں نے مارے تیروں کے پانی بھی نہیں پینے دیا۔ اس لیے ان کے پیچھے کچھ لوگوں کو بھیج دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اے ابن الاکوع! تو ان پر غالب ہو چکا اب جانے دے ‘ درگزر کر وہ تو اپنی قوم میں پہنچ گئے جہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3041 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3041
حدیث حاشیہ:
:
لفظ رضع راضع کی جمع ہے بمعنی پاجی‘ کمینہ اور بدمعاش بعض نے کہا بخیل جو بخل کی وجہ سے اپنے جانور کا دودھ منہ سے چوستا ہے دوہتا نہیں کہ کہیں دوہنے کی آواز سن کر دوسرے لوگ نہ آجائیں اور ان کو دودھ دینا پڑے‘ ایک بخیل کا ایسا ہی قصہ مشہور ہے۔
بعضوں نے کہا ترجمہ یوں ہے آج معلوم ہو جائے گا کس نے شریف ماں کا دودھ پیا ہے اور کس نے کمینی کا۔
عرب کا قاعدہ ہے کہ کوئی آفت آتی ہے تو زور سے پکارتے ہیں‘ یا صبا حاہ! یعنی یہ صبح مصیبت کی ہے‘ جلد آؤ اور ہماری مدد کرو۔
غابہ ایک مقام کا نام ہے مدینہ سے کئی میل پر شام کی طرف۔
وہاں درخت بہت تھے‘ وہیں کے جھاؤ سے منبر نبوی بنایا گیا تھا۔
غطفان اور فزارہ دو قبیلوں کے نام ہیں سلمہ بن اکوع ؓنے کہا تھا کہ وہ ڈاکو پانی پینے کو ٹھہرے ہوں گے‘ فوج کے لوگ ان کو پالیں گے اور پکڑ لائیں گے۔
ابن سعد کی روایت میں ہے کہ میرے ساتھ سو آدمی دیجئے تو میں ان کو معہ ان کے اسباب کے گرفتار کرکے لاتا ہوں۔
آپﷺ نے جو جواب دیا وہ آپ کا معجزہ تھا۔
واقعی وہ ڈاکو اپنے قبیلہ غطفان میں پہنچ چکے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3041
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3041
حدیث حاشیہ:
1۔
غابہ،مدینہ طیبہ سے شام کی طرف تقریبا چھ کلو میٹر کے فاصلے پر ایک جنگل کا نام ہے،وہاں بہت درخت تھے،وہیں کے جھاؤ کے درخت سے منبر نبوی بنایا گیا تھا۔
2۔
دور جاہلیت میں جب مصیبت آتی تو بآواز بلند یا صباحاہ یا صباحاہ پکاراجاتا، یعنی یہ صبح مصیبت بھری ہے جلدآؤ اور مدد کوپہنچو۔
اس طرح کی آواز اگرکفار اور مشرکین کے خلاف استعمال کی جائے تو جائز ہے۔
یہ دعوت جاہلیت نہیں بلکہ کفار کے خلاف مدد طلب کرناہے اور اس سے دشمن کو خوفزدہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔
بصورت دیگر منع ہے۔
(فتح الباري: 197/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3041
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4677
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ ابھی صبح کی اذان نہیں ہوئی تھی، میں نکلا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں ذی قرد مقام پر چرتی تھیں، مجھے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کا غلام ملا اور اس نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں پکڑی گئی ہیں، تو میں نے پوچھا، انہیں کس نے پکڑا ہے؟ اس نے کہا، غطفان نے، تو میں نے تین دفعہ چلا کر کہا، مدد کے لیے پہنچو، (ہائے صبح کا حملہ) اس طرح میں نے اپنی آواز تمام... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4677]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
مفردات الحدیث:
:
(1)
قَبْلَ أَنْ يُؤَذَّنَ بِالْأُولَي:
ابھی صبح کی اذان نہیں ہوئی تھی۔
(2)
لِقَاحُ:
لقحة کی جمع ہے،
دودھ دینے والی اونٹنیاں،
جن کی تعداد بیس تھی،
حضرت ابوذر کا بیٹا اور اس کی بیوی ان کے نگران تھے،
يَا صَبَاحَاهْ:
حملہ عام طور پر صبح کے وقت ہوتا تھا،
اس لیے لوگوں کو اس سے آگاہ کرنے کے لیے یہ کلمہ استعمال ہوتا تھا،
تاکہ وہ مقابلہ کے لیے تیار ہو جائیں۔
(3)
انْدَفَعْتُ عَلَى وَجْهِي:
ادھر ادھر دیکھے بغیر سیدھا سرپٹ دوڑا۔
(4)
الْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ:
دونوں پر رفع یا پہلے پر نصب اور دوسرے پر رفع ہے)
رضع،
راضع کی جمع ہے،
کمینے کو کہتے ہیں،
اس لیے مراد ہے،
آج کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے اور بقول بعض آج پتہ چلے گا،
کس نے شریف ماں کا دودھ پیا ہے اور کس کی ماں کمینی تھی،
یا آج پتہ چلے گا،
کس نے بچپن سے ہی لڑائیوں میں زندگی گزاری ہے اور ان میں مہارت حاصل کی ہے۔
(5)
حَمَيْتُ الْقَوْمَ الْمَاءَ:
لوگوں کو میں نے پانی سے منع کر رکھا ہے،
فاسجح:
نرمی اور سہولت اختیار کر۔
فوائد ومسائل:
یہ غزوہ جنگ خیبر سے صرف تین دن پہلے پیش آیا،
تفصیل کے لیے الرحیق المختوم دیکھئے،
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4677
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4194
4194. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں صبح کی اذان سے پہلے گھر سے نکلا جبکہ رسول اللہ ﷺ کی دودھ والی اونٹنیاں مقام ذی قرد میں چر رہی تھیں۔ اس دوران میں مجھے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کا غلام ملا تو اس نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ کی دودھ دینے والی اونٹنیاں پکڑ لی گئی ہیں۔ میں نے پوچھا: انہیں کس نے پکڑا ہے؟ اس نے کہا: قبیلہ غطفان کے لوگ لے گئے ہیں۔ میں نے دستور کے مطابق يا صباحاه کی تین چیخیں لگائیں اور مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان اپنی آواز پہنچائی، پھر سامنے کی طرف تیز دوڑا یہاں تک کہ میں نے ان کو ایک چشمے پر پانی پیتے ہوئے پا لیا۔ میں چونکہ تیر انداز، اس لیے انہیں تیر مارنا شروع کر دیے، ساتھ ہی یہ شعر پڑھتا تھا: ”میں ہوں سلمہ بن اکوع جان لو۔۔۔ آج کمینے سب مریں گے مان لو“ میں نے تمام اونٹنیاں واپس کر لیں اور ان سے تیس چادریں بھی چھین لیں۔ پھر نبی ﷺ اور دوسرے لوگ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4194]
حدیث حاشیہ:
مسلمانوں کا یہ ڈاکوؤں سے مقابلہ تھا جو بیس عدد دودھ دینے والی اونٹنیاں اہل اسلام کی پکڑ کر لے جارہے تھے۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کی بہادری نے اس میں مسلمانوں کو کامیابی بخشی اور جانور ڈاکوؤں سے حاصل کر لئے گئے۔
ایک روایت میں ان کو فزارہ کے لوگ بتلایا گیا ہے۔
یہ بھی غطفان قبیلے کی شاخ ہے۔
سلمہ ؓ کا بیان ایک روایت یوں ہے کہ میں سلع پہاڑی پر چڑھ گیا اور میں نے ایسے موقع کا لفظ یا صباحاہ اس زور سے نکالا کہ پورے شہر مدینہ میں اس کی خبر ہو گئی۔
چار شنبہ کا دن تھا آواز پر نبی کریم ﷺ پانچ سات سو آدمیوں سمیت نکل کر باہر آ گئے۔
اس موقع پر حضرت سلمہ ؓ نے کہا حضور اکرم ﷺ سو جوان میرے ساتھ کردیں تو جس قدر بھی ان کے پاس جانور ہیں سب کو چھین کر ان کو گرفتار کر کے لے آتا ہوں۔
آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر کیا زریں ارشاد فرمایا کہ ”دشمن قابو میں آجائے تب اس پر نرمی ہی کرنا مناسب ہے۔
“
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4194
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4194
4194. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں صبح کی اذان سے پہلے گھر سے نکلا جبکہ رسول اللہ ﷺ کی دودھ والی اونٹنیاں مقام ذی قرد میں چر رہی تھیں۔ اس دوران میں مجھے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ؓ کا غلام ملا تو اس نے مجھے بتایا کہ رسول اللہ کی دودھ دینے والی اونٹنیاں پکڑ لی گئی ہیں۔ میں نے پوچھا: انہیں کس نے پکڑا ہے؟ اس نے کہا: قبیلہ غطفان کے لوگ لے گئے ہیں۔ میں نے دستور کے مطابق يا صباحاه کی تین چیخیں لگائیں اور مدینہ طیبہ کے دونوں کناروں کے درمیان اپنی آواز پہنچائی، پھر سامنے کی طرف تیز دوڑا یہاں تک کہ میں نے ان کو ایک چشمے پر پانی پیتے ہوئے پا لیا۔ میں چونکہ تیر انداز، اس لیے انہیں تیر مارنا شروع کر دیے، ساتھ ہی یہ شعر پڑھتا تھا: ”میں ہوں سلمہ بن اکوع جان لو۔۔۔ آج کمینے سب مریں گے مان لو“ میں نے تمام اونٹنیاں واپس کر لیں اور ان سے تیس چادریں بھی چھین لیں۔ پھر نبی ﷺ اور دوسرے لوگ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4194]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام مسلم ؒ نے یہ واقعہ بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ بہترین تیر انداز تھے جو تیر مارتے تھے وہ ڈاکوؤں کو جا لگتا، وہ خفت مٹانے کے لیے دوڑ رہے تھے اور اپنی چادریں بھی چھوڑتے جاتے تھے۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ ان چادروں پر پتھررکھ دیتے، اس طرح انھوں نے تیس چادریں جمع کر لیں اور اونٹنیاں بھی چھڑالیں۔
(صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 4678۔
(1807)
2۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کی خواہش تھی کہ ان ڈاکوؤں کا پیچھا کر کے انھیں کیفرکردار تک پہنچا یا جائے لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ہم نے اپنا مال واپس لے لیا۔
اب درگزر سے کام لیا جائے۔
“ ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اے ابن اکوع ؓ! تو ان پر غالب ہو چکا ہے اب جانے دے۔
وہ اپنی قوم میں پہنچ گئے ہیں اور وہاں ان کی مہمان نوازی ہو رہی ہے۔
“ (صحیح مسلم، الجهاد، حدیث: 4678۔
(1807)
3۔
واضح رہے کہ حضرت سلمہ ابن اکوع ؓ نے طویل عمر پائی اس وجہ سے امام بخاری ؒ کے پاس جو ثلاثیات ہیں وہ اکثر حضرت سلمہ ابن اکوع ؓ سے مروی ہیں امام بخاری ؒ اور ان کے درمیان صرف تین آدمیوں کا واسطہ ہے، ان کی ثلاثیات کی تعداد سترہ (17)
ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4194