سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی تمیم کے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اے بنی تمیم (کے لوگو)! خوش ہو جاؤ۔“ انھوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بشارت دی اب (کچھ مال بھی) ہمیں دیجئیے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن کے لوگ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اہل یمن! تم بشارت کو قبول کرو کیونکہ اس کو بنی تمیم (کے لوگوں) نے قبول نہیں کیا۔“ انھوں نے کہا کہ ہم نے قبول کیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائے آفرینش اور عرش کی باتیں کرنے لگے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے (مجھ سے) کہا کہ اے عمران! تمہاری اونٹنی کھل گئی ہے (اس کو جا کر پکڑو۔ میں اٹھ کر چلا گیا مگر میرے دل میں یہ حسرت رہ گئی کہ) کاش میں نہ اٹھتا۔
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ایک روایت میں کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تھا اور اس کے سوا کچھ نہ تھا اور اس کا عرش پانی پر تھا اور لوح محفوظ میں اس نے ہر چیز لکھ دی تھی اور اس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا ....۔“ پھر ایک شخص نے آواز دی کہ اے ابن حصین! تمہاری اونٹنی کھل گئی تو میں چلا گیا مگر وہ اونٹنی اب سراب (یعنی وہ ریت جو دھوپ میں پانی کی طرح چمکتی ہے) سے آگے جا چکی تھی مگر اللہ کی قسم! میں یہ چاہتا تھا کہ کاش! میں اس اونٹنی کو چھوڑ دیتا اور وہاں سے نہ اٹھتا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے گالی دیتا ہے، اسے زیبا نہیں کر وہ مجھے گالی دے اور میری تکذیب کرتا ہے حالانکہ اسے زیبا نہیں۔ اس کا گالی دینا، اس کا یہ قول ہے۔ کہ اللہ کی اولاد ہے اور تکذیب، اس کا یہ کہنا ہے کہ اللہ مجھے پھر زندہ نہ کرے گا جیسے اس نے مجھے پیدا کیا تھا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کر چکا تو اس نے اپنی کتاب میں لکھ دیا اور وہ کتاب اس کے پاس عرش کے اوپر ہے کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔“
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت پر آ گیا جیسے اس دن تھا کہ جس دن اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، اس میں سے چار مہینے حرام ہیں تین تو پے درپے ہیں، ذیقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور (چوتھا) رجب مضر، (قبیلہ مضر کے کافر اس کی بہت تعظیم کرتے تھے) جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان ہوتا ہے۔“
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر سے جبکہ آفتاب غروب ہو رہا تھا یہ فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ یہ (آفتاب) کہاں جاتا ہے؟ میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب واقف ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جا کر عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے پھر (مشرق سے) طلوع ہونے کی (اللہ سے) اجازت مانگتا ہے تو اسے اجازت دے دی جاتی ہے اور قریب ہے کہ وہ سجدہ کرے اور اس کا سجدہ قبول نہ کیا جائے اور اجازت مانگے مگر اسے اجازت نہ ملے بلکہ اس سے کہہ دیا جائے کہ تو جہاں سے آیا ہے وہیں لوٹ جا پس وہ مغرب سے طلوع ہو گا یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا ”اور آفتاب اپنی جگہ پر چلتا ہے، یہ غالب دانا کی مقرر کی ہوئی بات ہے۔“(سورۃ یٰسین: 38)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورج اور چاند قیامت کے دن لپیٹ دیے جائیں گے۔ (بےنور ہو جائیں گے)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی ابر (بادل) کا ٹکڑا آسمان پر دیکھتے تو کبھی آگے بڑھتے کبھی پیچھے ہٹتے، کبھی اندر آتے کبھی باہر جاتے اور چہرہ مبارک کا رنگ بدل جاتا۔ پھر جب پانی برسنے لگتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حالت دور ہو جاتی۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس کا سبب پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے کیا معلوم، شاید یہ وہ بادل نہ ہو کہ جسے دیکھ کر قوم عاد نے کہا تھا ”پس جب انھوں نے اپنی وادیوں کی طرف بادل کو آتے دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ ہم پر برسنے والا ہے .... الآیۃ (سورۃ الاحقاف: 24)
سیدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا ”اور وہ پکاریں گے کہ اے مالک۔“(سورۃ الزخرف: 77)(مالک نام ہے داروغہ جہنم کا)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس رات مجھے معراج ہوئی، میں نے موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ ایک گندمی رنگ، دراز قامت اور پیچ دار بالوں والے آدمی ہیں، جیسے قبیلہ شنوۃ کے لوگ ہوتے ہیں۔ اور میں نے عیسیٰ علیہ السلام کو بھی دیکھا کہ وہ میانہ قامت، میانہ بدن، سرخ سفید، سیدھے بالوں والے آدمی ہیں اور میں نے اس فرشتے کو بھی دیکھا جو دوزخ کا داروغہ ہے۔ اور دجال کو بھی منجملہ اور آیات الٰہی کے دیکھا جو اللہ نے مجھے (اس روز) دکھائیں۔ اور (سورۃ السجدہ: 23 میں) جو ہے ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز اس ملاقات میں شک نہیں کرنا چاہیے“(اس سے مراد معراج کی رات موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہے)۔