امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی نضیر کے اموال اس قسم میں تھے جو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر جنگ کے دلا دیے تھے۔ مسلمانوں نے اس پر گھوڑے اور سوار نہ دوڑائے تھے یعنی جنگ کی نوبت نہ آئی تھی۔ پس وہ مال خاص کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لیا اور اس میں سے ایک سال کا خرچ اپنے گھر والوں کو دے دیتے تھے، سال کے بعد جو باقی رہتا تھا اس کو ہتھیار میں اور گھوڑوں میں اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے خرچ کرتے تھے۔
امیرالمؤمنین علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے سوا کسی اور شخص کے لیے اپنے ماں باپ کے فدا ہونے کو کہتے ہوں (غزوہ احد میں) میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”تیر چلاؤ سعد! تم پر میرے ماں باپ فدا ہو جائیں۔“
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بیشک یہ تمام فتوحات ان لوگوں نے کی ہیں جن کی تلواروں میں نہ سونے کا کام تھا، نہ چاندی کا۔ ان کی تلوار پر چمڑے کا اور سیسہ اور لوہے کا کام ہوتا تھا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبہ کے اندر تھے، یہ فرمایا: ”اے اللہ! میں تجھے تیرے عہد اور تیرے وعدے کا واسطہ دیتا ہوں کہ (مسلمانوں کو فتح دیدے) اے اللہ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد پھر کبھی تیری عبادت نہ کی جائے گی۔“ پس سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! (اسی قدر دعا) آپ کو کافی ہے، بیشک آپ نے اپنے پروردگار سے دعا کی حد کر دی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس وقت) زرہ پہنے ہوئے تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ (الفاظ) کہتے ہوئے باہر تشریف لائے: ”عنقریب یہ جماعت بھگا دی جائے گی اور یہ لوگ پیٹھ پھیر لیں گے، بلکہ قیامت کا ان سے وعدہ ہے اور قیامت بہت سخت اور تلخ چیز ہے۔“(سورۃ القمر 45 , 46) اور ایک روایت میں ہے کہ یہ بدر کے دن کا واقعہ ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو ریشمی قمیض پہننے کی اجازت دے دی تھی، اس وجہ سے کہ ان کے جسم پر خارش تھی۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ سیدنا عبدالرحمن اور زبیر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جوؤں کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ریشمی کپڑے پہننے کی اجازت دے دی۔
ام حرام رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”میری امت میں سب سے پہلے جو لوگ سمندر میں جنگ کریں گے ان کے لیے جنت واجب ہے۔“ میں نے عرض کی یا رسول اللہ! میں انھیں میں ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم انھیں میں ہو۔ ام حرام رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے سے پہلے جو لوگ قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) میں جہاد کریں گے وہ مغفور ہیں۔“ میں نے عرض کی یا رسول اللہ! میں ان لوگوں میں ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں (تو ان میں سے نہیں)۔“
سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم یہودیوں سے جنگ کرو گے یہاں تک کہ کوئی یہودی پتھر کی آڑ میں چھپے گا تو وہ پتھر بولے گا کہ اے اللہ کے (مسلمان) بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ اسے قتل کر دے۔“ دوسری روایت میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ تم یہودیوں سے لڑو ....“ پھر باقی ساری حدیث بیان کی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہ ہو گی، جب تک کہ تم ترکوں سے نہ لڑو گے جن کی آنکھیں چھوٹی، منہ سرخ، ناک موٹی پھیلی ہوئی ہوں گی۔ ان کے منہ ایسے ہوں گے جیسے چمڑا لگی ہوئی ڈھالیں ہوتی ہیں۔ اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک تم ایسے لوگوں سے جنگ نہ کرو جو بالوں کے جوتے پہنتے ہوں۔“
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے دن مشرکوں کے لیے یہ بددعا کی تھی: ”اے اللہ! کتاب کے نازل کرنے والے! حساب کے جلد لینے والے! اے اللہ! ان جماعتوں کو شکست دے، ان کے قدم اکھیڑ دے، ان کو بھگا دے (اے اللہ! ان کو بھگا دے اور ان کو ہلاک کر دے، بھگا دے، ڈگمگا دے)۔“