سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مشرکوں کا ایک جاسوس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس وقت) سفر میں تھے پس وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگا۔ اس کے بعد وہ چلا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے پکڑ لو اور اس کو قتل کر دو۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سامان قاتل کو دلا دیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا جمعرات کا دن، ہائے جمعرات کا دن۔ پھر رونے لگے اتنا روئے کہ زمین کی کنکریوں کو تر کر دیا۔ پھر کہنے لگے کہ جمعرات کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض بڑھ گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس لکھنے کی کوئی چیز لاؤ تاکہ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں کہ پھر میرے بعد تم گمراہ نہ ہو گے۔“ مگر لوگوں نے اختلاف کیا، حالانکہ نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس اختلاف کرنا زیبا نہیں۔ پھر لوگوں نے کہا کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی شدت سے) جدائی کی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے چھوڑ دو کیونکہ میں جس حالت میں ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس کی طرف تم مجھے بلاتے ہو۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت تین باتوں کی وصیت فرمائی۔ (1) یہ کہ مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دینا (2) اور سفیروں سے ایسے ہی سلوک کرنا جیسا میں کیا کرتا تھا اور تیسری بات میں بھول گیا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف کی جیسی کہ اس کو سزاوار ہے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا: ”میں تمہیں دجال سے ڈراتا ہوں اور ہر نبی نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایا ہے مگر میں تم سے ایک ایسی بات کہتا ہوں جو کسی نبی نے اپنی قوم سے نہیں کہی۔ تم یہی سمجھ لو کہ وہ کانا ہو گا اور اللہ عزوجل کانا نہیں۔“(پوری حدیث، کتاب: جنازہ کے بیان میں۔۔۔ باب: جب کوئی بچہ اسلام لایا اور پھر انتقال کر گیا تو کیا اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور کیا بچے پر اسلام کی دعوت پیش کی جا سکتی ہے؟ کے تحت گزر چکی ہے۔ اس میں یہ حصہ نہیں لہٰذا دونوں ساتھ ملا کر پڑھیں)
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک مرتبہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جتنے لوگ اسلام کا کلمہ پڑھتے ہیں ان سب کے نام لکھ کر میرے سامنے لے آؤ۔“ چنانچہ ہم نے ایک ہزار پانچ سو آدمیوں کے نام لکھے پھر ہم نے (اپنے دل میں) کہا کہ کیا ہم (اب بھی کافروں کا) خوف کریں حالانکہ ہم ایک ہزار پانچ سو آدمی ہیں؟ پھر بیشک ہم نے اپنے آپ کو دیکھا کہ خوف میں مبتلا کر دیے گئے حتیٰ کہ کوئی (کوئی) آدمی مارے خوف کے تنہا نماز پڑھتا۔
سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم پر غالب ہو جاتے تو تین دن تک اسی میدان میں ٹھہرے رہتے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کا ایک گھوڑا بھاگ نکلا۔ دشمن اسے پکڑ کر لے گئے۔ پھر مسلمانوں نے کافروں پر غلبہ پایا تو گھوڑا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں واپس کر دیا گیا اور ان کا ایک غلام (بھی) بھاگ گیا تھا۔ وہ روم میں (کافروں سے) جا ملا۔ مسلمان جب ان پر غالب ہوئے تو سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ غلام سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو واپس دلا دیا۔
85. جس شخص نے فارسی زبان میں یا کسی اور غیر عربی زبان میں کلام کیا اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الروم میں یہ) فرمانا ”اور تمہارے رنگ اور زبانوں کا اختلاف ہے“۔ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہر زبان میں کلام کرنا جائز ہے۔ اور (سورۃ ابراہیم میں) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی قوم کی اپنی زبان میں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے (ایک مرتبہ) عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم نے بکری کا ایک چھوٹا بچہ ذبح کیا ہے۔ اور ایک صاع جو کا آٹا پیسا ہے لہٰذا آپ چند صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف لے چلیے۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا: ”اے اہل خندق جابر (رضی اللہ عنہ) نے تمہارے لیے کچھ کھانا تیار کیا ہے لہٰذا جلدی سے چلو۔“(لفظ ”سورًا“ فارسی ہے یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے)۔
سیدہ ام خالد بنت خالد بن سعید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور میرے جسم پر (اس وقت) ایک زرد (رنگ کا) کرتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سنہ سنہ۔“ اور یہ حبشی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ہیں حسنہ (یعنی اچھی ہے)۔ ام خالد رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پھر میں مہر نبوت کے ساتھ کھیلنے لگی تو میرے والد نے مجھے ڈانٹا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے رہنے دو۔“ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے درازی عمر کی دعا دی یعنی) فرمایا: پرانا کرو اور پھاڑو۔ پھر پرانا کرو اور پھاڑو پھر پرانا کرو اور پھاڑو۔“
86. غنیمت میں خیانت کرنا (سخت گناہ ہے) اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ آل عمران میں یہ) فرمانا ”اور جو شخص خیانت کرے گا، قیامت کے دن اس چیز کو (اپنی گردن پر لاد کر) لائے گا جس کی اس نے خیانت کی ہے“۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے (مجمع) میں کھڑے ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت میں خیانت کا ذکر کیا اور اس کو بڑا (سخت گناہ) ظاہر کیا اور اس کے معاملہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سخت ظاہر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم میں سے کسی شخص کو قیامت کے دن اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری سوار ہو اور وہ بول رہی ہو (یا) اس کی گردن پر گھوڑا سوار ہو اور وہ ہنہنا رہا ہو۔ (تو یہ شخص) کہے کہ یا رسول اللہ! میری فریاد رسی کیجئیے اور میں کہہ دوں کہ تیرے لیے میں کچھ اختیار نہیں رکھتا، میں نے تو تجھے (پیغام الٰہی) پہنچا دیا تھا اور اس کی گردن پر اونٹ بلبلا رہا ہو، اور وہ کہے کہ یا رسول اللہ! میری فریاد رسی کیجئیے اور میں کہہ دوں کہ میں تیرے لیے کچھ اختیار نہیں رکھتا، میں تو تجھے (پیغام الٰہی) پہنچا چکا ہوں اور اس کی گردن پر (سونا، چاندی، اسباب) لادے ہوئے ہوں اور مجھ سے کہے یا رسول اللہ! میری مدد فرمائیے۔ لیکن میں اس سے کہہ دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا یا میں تو تجھے پیغام پہنچا چکا ہوں یا اس کی گردن پر کپڑے ہوں جو ہل رہے ہوں اور وہ کہے کہ یا رسول اللہ! میری فریاد رسی کیجئیے تو میں کہہ دوں کہ میں تیرے لیے کچھ اختیار نہیں رکھتا میں تو تجھے (پیغام الٰہی) پہنچا چکا ہوں۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان پر ایک شخص متعین تھا، اس کا نام ”کرکرہ“ تھا پھر وہ مر گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ دوزخ میں ہے، پھر لوگ اس کی حالت دیکھنے لگے تو انھوں نے (اس کے مال میں مال غنیمت کی) ایک عبا (چادر) پائی جس کو اس نے خیانت سے لے لیا تھا۔