ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حجرہ کے دروازے پر جھگڑے کی آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے (مقدمہ پیش ہوا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی ایک بشر ہوں (غیب نہیں جانتا) میرے پاس جھگڑنے والے لوگ فیصلہ کروانے آتے ہیں تو شاید تم میں ایک شخص باعتبار دوسرے کے زیادہ چرب زبان ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ اسی نے سچ کہا ہے تو میں اس سبب سے اسی کے موافق فیصلہ کر دیتا ہوں۔ پس اگر میں (نادانستہ طور پر) کسی کو کسی دوسرے مسلمان کا حق دلا دوں تو (وہ سمجھ لے کہ) یہ دوزخ کا ایک ٹکڑا ہے اب چاہے لے اور چاہے اسے چھوڑ دے۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں باہر روانہ کرتے ہیں تو کبھی ہم ایسے لوگوں میں جا کر اترتے ہیں جو ہماری ضیافت تک نہیں کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ایسے لوگوں میں جاؤ اور وہ تمہارے لیے ایسا سامان مہیا کر دیں جو مہمان کے لیے چاہیے تو تم قبول کر لو اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے اپنی مہمان نوازی کا حق لے لو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی پڑوسی کسی پڑوسی کو اس بات سے نہ روکے کہ وہ اپنی دیوار میں کھونٹیاں گاڑے۔“ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ ”کیا بات ہے کہ میں تم لوگوں کو اس حدیث سے اعراض کرنے والا پاتا ہوں؟ قسم اللہ کی! میں یہ حدیث تمہارے سامنے ضرور بیان کروں گا۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ راستوں میں بیٹھنے سے پرہیز کرو۔ لوگوں نے عرض کی کہ ہم مجبور ہیں کیونکہ وہی تو ہمارے بیٹھنے کے مقامات ہیں، ہم وہیں (بیٹھ کر) باہم بات چیت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا! جب تم وہاں بیٹھنا چاہتے ہو تو راستے کا حق ادا کر دیا کرو لوگوں نے عرض کی کہ راستے کا حق کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آنکھ کا (نامحرموں کے دیکھنے سے) بند رکھنا اور تکلیف دہی سے باز رہنا اور سلام کا جواب دینا اور اچھی بات کا حکم دینا اور بری بات سے روکنا۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں قتل کیا جائے، وہ شہید ہے۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک بیوی (ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا) کے پاس تھے تو ایک ام المؤمنین (صفیہ رضی اللہ عنہا یا حفصہ رضی اللہ عنہا) نے ایک خادم کے ہاتھ ایک پیالہ بھیجا جس میں کچھ کھانا تھا تو انھوں نے جن کے ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، اپنا ہاتھ مارا اور پیالہ توڑ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جوڑ دیا اور اس میں کھانا رکھ دیا اور فرمایا: ”کھاؤ۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قاصد کو اور پیالے کو روک لیا یہاں تک کہ جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سالم پیالہ دے دیا اور ٹوٹا ہوا رکھ لیا۔