ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شعبان سے بڑھ کر کسی اور مہینہ میں (نفلی) روزے نہ رکھتے تھے بلکہ یوں سمجھیں کہ شعبان تقریباً روزوں میں ہی گزارتے تھے اور مزید کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ”اے لوگو! اسی قدر عبادت اپنے ذمہ لو جن کی تم برداشت کر سکو، اس کے لیے کہ اللہ تعالیٰ (ثواب دینے سے) نہیں تھکتا یہاں تک کہ تم عبادت کرنے سے تھک جاؤ اور عمدہ نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک وہ تھی جس پر مداومت کی جائے اگرچہ وہ تھوڑی ہی ہو اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نماز پڑھتے تو اس پر ہمیشگی اختیار کرتے تھے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ میں جب چاہتا کہ کسی مہینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روزہ رکھتا ہوا دیکھ لوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روزہ رکھتا ہوا دیکھ لیتا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر روزہ رکھے دیکھنا چاہتا تو بھی دیکھ لیتا اور جب کبھی رات کو نماز پڑھتا ہوا دیکھنا چاہتا تو نماز پڑھتا ہوا دیکھ لیتا اور جب (سوتا ہوا دیکھنا چاہتا تو) سوتا ہوا دیکھ لیتا اور میں نے کسی سمور اور ریشمی کپڑے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے زیادہ نرم نہیں دیکھا اور نہ میں نے کبھی مشک عنبر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے پسینہ) کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار پایا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ اس روایت میں کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما جب بوڑھے ہو گئے تو کہا کرتے تھے کہ اے کاش! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی (ہر ماہ میں تین روزے رکھنے کی) اجازت قبول کر لی ہوتی۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داؤد علیہ السلام کے روزہ کا ذکر کیا تو فرمایا: ”ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن نہ رکھتے اور جب دشمن سے میدان جنگ میں مقابلہ کرتے تو بھاگتے نہ تھے۔“ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ! کوئی ہے جو میری طرف سے (بھی داؤد علیہ السلام کی) اسی بات (یعنی عمل) کی ذمہ داری قبول کر لے (یعنی میں بھی یہی عمل کروں) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہمیشہ روزہ رکھے اس نے روزہ ہی نہیں رکھا۔“ دو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا۔ (عطاء کہتے ہیں کہ پتہ نہیں یہاں صوم دہر کا ذکر کس طرح ہوا البتہ انہیں اتنا یاد تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ یہی فرمایا)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم کے پاس تشریف لائے تو ام سلیم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھجور اور گھی رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گھی واپس اس کے ڈبے میں اور کھجوریں اس کے برتن میں رکھ دو، اس لیے کہ میں روزہ سے ہوں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے ایک گوشہ میں کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفل نماز پڑھی اور ام سلیم کے لیے اور ان کے گھر والوں کے لیے دعا فرمائی۔ ام سلیم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف میرے ہی لیے دعا فرمائی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور کیا۔“ تو ام سلیم نے عرض کی کہ اپنے خادم انس (رضی اللہ عنہ) کے لیے (بھی دعا کیجئیے) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا و آخرت کی کوئی بھلائی ایسی نہ چھوڑی جس کی میرے لیے دعا نہ کی ہو، اس طرح کہ: ”اے اللہ! اسے مال و اولاد عطا فرما اور اسے برکت عطا فرما دے۔“ تو دیکھ لو کہ انصار میں سے میں سے سب زیادہ مالدار ہوں اور مجھ سے میری بیٹی امینہ بیان کرتی تھیں کہ جس وقت حجاج بصرہ آیا تو اس وقت تک ایک سو بیس سے کچھ زیادہ میرے حقیقی بچے دفن ہو چکے تھے۔
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی شخص سے پوچھا: ”اے فلاں کے باپ! کیا تم نے اس مہینے کے آخر میں روزے نہیں رکھے؟“ تو اس نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم (رمضان کے) روزوں سے فارغ ہو جاؤ تو وہ روزے رکھ لینا۔“ دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شعبان کے اخیر میں دو روزے نہیں رکھے؟“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں منع فرمایا ہے۔
ام المؤمنین جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن ان کے ہاں تشریف لائے اور وہ روزہ سے تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے کل روزہ رکھا تھا؟“ انھوں نے عرض کی کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم کل روزہ رکھنا چاہتی ہو؟“ تو انھوں نے پھر عرض کی کہ نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اگر نہیں) تو تم (آج بھی) روزہ نہ رکھو یعنی توڑ دو۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (عبادت کے لیے) چند دنوں کی تخصیص فرما لیا کرتے تھے؟ تو انھوں نے کہا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت دائمی ہوتی تھی اور تم میں کون شخص اس چیز کی طاقت رکھتا ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طاقت رکھا کرتے تھے۔