ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات سے ایک مہینہ کا ایلاء کیا (یعنی ترک تعلق کی قسم کھائی) پھر جب انتیس دن گزر گئے تو صبح کے وقت یا دوپہر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنی بیویوں کے پاس) تشریف لے گئے۔ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو قسم کھائی تھی کہ میں ایک مہینہ تک (بیویوں کے پاس) نہ جاؤں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ انتیس دن کا (بھی ہوتا) ہے۔“
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دو مہینے ایسے ہیں کہ کم نہیں ہوتے دونوں مہینے عید کے ہیں (1) رمضان (2) ذی الحجہ۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم امی (ان پڑھ) لوگ ہیں، حساب کتاب نہیں جانتے، (پھر انگلیوں کے اشارے سے بیان فرمایا کہ) مہینہ اس طرح اور کبھی اس طرح ہوتا ہے یعنی کبھی انتیس دن کا اور کبھی تیس دن کا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ نہ رکھے۔ ہاں اگر کسی شخص کے روزے رکھنے کا دن آ جائے کہ جس دن وہ ہمیشہ روزہ رکھا کرتا تھا تو اس دن روزہ رکھ لے۔ (خاص طور پر استقبال رمضان کے لیے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے)۔“
11. اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ“ تمہارے لیے روزوں کی رات میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا حلال کر دیا گیا ہے تم اپنی بیویوں کے لباس ہو اور وہ تمہارا لباس ہیں ....“۔
“ अल्लाह तआला ने फ़रमाया : रोज़ों की रात के दौरान अपनी पत्नियों के साथ संबंध बनाना आपके लिए हलाल करदिया गया है। आप अपनी पत्नियों का लिबास हैं और वे आपका लिबास हैं ”
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی روزہ دار ہوتا اور افطار کے وقت افطار کرنے سے پہلے سو جاتا تو پھر باقی رات میں کچھ نہ کھاتا اور نہ (اگلے) دن میں یہاں تک کہ (پھر) شام ہو جاتی اور سیدنا قیس بن صرمہ انصاری رضی اللہ عنہ روزہ دار تھے تو جب افطار کا وقت آیا تو وہ اپنی بیوی کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ کیا کچھ کھانے کو ہے؟ تو انھوں نے کہا نہیں مگر میں جاتی ہوں اور کچھ ڈھونڈ کر لاتی ہوں۔ اور قیس بن صرمہ رضی اللہ عنہ تمام دن محنت کیا کرتے تھے، ان پر نیند غالب آ گئی (اور وہ سو گئے پھر) جب ان کی بیوی (کھانا لے کر) آئیں اور ان کو (سوتا ہوا) دیکھا تو کہنے لگیں کہ تمہاری خرابی آ گئی۔ دوسرے دن جب دوپہر ہوئی تو وہ بیہوش ہو گئے۔ یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا گیا تو اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی: ”تمہارے لیے روزوں کی رات میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا حلال کر دیا گیا ہے۔“ پس صحابہ بےانتہا خوش ہوئے تو اسی آیت کے یہ الفاظ بھی نازل ہوئے: ”کھاؤ اور پیو، یہاں تک کہ تم کو (صبح کی) سفید دھاگہ (یعنی فجر کی سفیدی) رات کی سیاہ دھاری سے نمایاں نظر آنے لگے۔“
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت: ”یہاں تک کہ سفید دھاری سے تمہارے لیے واضح ہو جائے۔“(سورۃ البقرہ: 187) نازل ہوئی تو میں نے ایک سیاہ رسی اور ایک سفید رسی لے لی اور ان دونوں کو اپنے تکیہ کے نیچے رکھ لیا اور رات کو (اٹھ اٹھ کر ان کو) دیکھتا رہا مگر مجھے کچھ معلوم نہ ہوا تو صبح کو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ (سیاہ دھاگا) تو رات کی سیاہی اور (سفید دھاگا) صبح کی سفیدی ہے۔“
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سحری کھائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ (سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے ان سے) پوچھا کہ اذان اور سحری کے درمیان کتنا وقت تھا؟ تو انھوں نے کہا کہ جتنے وقت میں پچاس آیتوں کی تلاوت کی جا سکے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اے لوگو!) سحری کھاؤ، اس لیے کہ سحری کھانے میں برکت ہوتی ہے۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنے سے عملی فائدہ بھی ہے اور آخرت کا ثواب بھی)۔“
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ(ایک مرتبہ) عاشورہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اس امر کا اعلان کرنے کے لیے مقرر فرمایا: ”(آج) جس شخص نے کچھ کھا لیا وہ اب کچھ نہ کھائے اور جس نے نہ کھایا ہو وہ (روزہ کی نیت کر لے یعنی) روزہ رکھ لے۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں صبح ہو جایا کرتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے جنبی ہوتے تھے پھر غسل فرما لیتے اور روزہ رکھتے تھے۔