سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے وہ بات لکھی جس کا اللہ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ جس کسی پر صدقہ میں ایک برس کی اونٹنی واجب ہو اور اس کے پاس نہ ہو اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہو تو وہ اس سے قبول کر لی جائے گی اور صدقہ وصول کرنے والا بیس درہم یا دو بکریاں اسے واپس دے گا اور اگر اس کے پاس ایک برس کی اونٹنی نہ ہو اور (دو برس کی بھی نہ ہو بلکہ) اس کے پاس دو برس کا اونٹ ہو تو وہ اس سے قبول کر لیا جائے گا اور اس کے ساتھ اسے کچھ نہیں دیا جائے گا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کے لیے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو کچھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (زکوٰۃ کے متعلق) مقرر کیا ہے وہ لکھ دیا (اس میں یہ مضمون بھی تھا کہ) صدقہ کے خوف سے متفرق مال یکجا نہ کیا جائے اور یکجا مال متفرق نہ کیا جائے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کی ہدایت کے لیے وہ باتیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کے بارے میں فرض کی تھیں لکھوا دیں (اس میں یہ مضمون بھی تھا) کہ جو مال دو شراکت داروں کا ہو وہ دونوں زکوٰۃ دینے کے بعد آپس میں برابر برابر سمجھ لیں۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کی بابت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیری خرابی ہو ہجرت کا معاملہ بہت سخت ہے۔ کیا تیرے پاس کچھ اونٹ ہیں جن کی تو زکوٰۃ دے؟“ اس نے عرض کی کہ ہاں پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(جا تجھے ہجرت کی کچھ ضرورت نہیں) تو دریاؤں کے اس پار (یعنی اپنے ملک میں) بھی عبادت کر اس لیے کہ اللہ تیری عبادت میں سے کچھ ضائع نہ کرے گا۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے صدقہ کے فرائض، جن کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا لکھ دیئے تھے (اس میں یہ مضمون بھی تھا) کہ جس شخص کے پاس (61 سے 75 تک) اونٹوں کی زکوٰۃ میں چار برس کی اونٹنی واجب ہوئی اور وہ اس کے پاس نہ ہو اور اس کے پاس تین برس کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے لے لی جائے اور اس کے ساتھ دو بکریاں اگر اس کو مل جائیں یا بیس درہم اس سے لیے جائیں اور جس شخص کے پاس زکوٰۃ میں (46 سے 60 تک) اونٹوں کی تین برس کی اونٹنی واجب ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی ہو تو اس سے لے لی جائے اور زکوٰۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں دیدے اور جس شخص کے پاس زکوٰۃ میں تین برس کی اونٹنی دینا واجب ہو اور اس کے پاس وہ نہ ہو بلکہ دو برس کی اونٹنی ہو تو اس سے وہی لے لی جائے اور وہ اس کے ساتھ بیس درہم یا دو بکریاں اور دے۔ اور جس شخص پر (36 سے 45 تک) اونٹوں کی زکوٰۃ دو برس کی اونٹنی واجب ہو اور اس کے پاس تین برس کی اونٹنی ہو تو اس سے وہی قبول کر لی جائے اور اسے دو بکریاں یا بیس درہم واپس دیدے اور جس شخص پر زکوٰۃ میں دو برس کی اونٹنی دینا واجب ہو اور اس کے پاس وہ نہ ہو بلکہ ایک برس کی اونٹنی ہو تو اس سے وہی لے لی جائے اور وہ (زکوٰۃ دینے والا) اس کے ساتھ بیس درہم یا دو بکریاں اور دیدے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب انہیں زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بحرین کی طرف بھیجا تو انہیں یہ تحریر لکھ دی تھی: بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ صدقہ یعنی زکوٰۃ کے فرائض ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض کیے ہیں اور جس کی بابت اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے، پس مسلمانوں میں جس شخص سے اس تحریر کے مطابق زکوٰۃ طلب کی جائے وہ اسے ادا کر دے اور جس شخص سے اس تحریر سے زیادہ زکوٰۃ طلب کی جائے وہ ادا نہ کرے۔ چوبیس یا اس سے کم اونٹوں پر ایک بکری (پانچ سے کم پر زکوٰۃ نہیں) پھر جب پچیس سے پینتیس تک اونٹ ہوں تو ان میں ایک برس کی اونٹنی پھر جب چھتیس سے پینتالیس تک اونٹ ہوں تو ان میں دو برس کی ایک اونٹنی، پھر جب چالیس سے ساٹھ تک ہوں تو ان میں تین برس کی اونٹنی جفتی کے لائق دینا ہو گی پھر جب اکسٹھ سے پچھتر تک ہوں تو ان میں چار برس کی ایک اونٹنی پھر جب چھہتر سے نوے تک ہوں تو ان میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں، پھر جب اکیانوے سے ایک سو بیس تک ہوں تو ان میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں جفتی کے لائق دینا ہوں گی۔ پھر جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو جائیں تو ہر چالیس میں دو برس کی ایک اونٹنی اور ہر پچاس میں تین برس کی ایک اونٹنی دینا ہو گی اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو ان میں زکوٰۃ فرض نہیں ہاں اگر ان کا مالک چاہیے تو دیدے۔ پھر جب پانچ ہوں تو ان میں ایک بکری زکوٰۃ کے طور پر دینا ہو گی اور جنگل میں چرنے والی بکریوں کی زکوٰۃ میں جب وہ چالیس سے ایک سو بیس تک ہوں ایک بکری فرض ہے پھر جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو جائیں تو دو سو تک دو بکریاں پھر جب دو سو سے زیادہ تین سو تک ہو جائیں ان میں تین بکریاں پھر جب تین سو سے زیادہ ہو جائیں تو ہر سو میں ایک بکری اور اگر کسی کے پاس جنگل میں چرنے والی بکریاں چالیس سے کم ہوں اگرچہ ایک بکری بھی کم ہو تو اس میں کچھ زکوٰۃ نہیں، ہاں اگر ان کا مالک دینا چاہے تو دیدے۔ اور زکوٰۃ صرف ان ہی اونٹوں، گائے اور بکریوں پر فرض ہے جو چھ ماہ سے زیادہ جنگل میں چرتی ہوں۔ اگر چھ ماہ سے زیادہ اپنے پاس سے چارہ وغیرہ کھلانا ہو تو ان پر زکوٰۃ نہیں ہے اور ان تین جانوروں کے علاوہ کسی اور جانور پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے ہاں البتہ بھینس گائے ہی کی ایک قسم ہے اور چاندی میں چالیسواں حصہ زکوٰۃ ہے بشرطیکہ بقدر دو سو درہم کے ہو اور اگر ایک سو نوے درہم ہیں تو اس میں کچھ زکوٰۃ نہیں ہاں اگر اس کا مالک دینا چاہے تو دیدے۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو ایک تحریر لکھ دی تھی (اس میں زکوٰۃ کے وہ مسائل تھے) جن کا اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے (اس میں یہ مضمون بھی تھا کہ)”زکوٰۃ میں بوڑھا، عیب دار اور نہ نر جانور لیا جائے یعنی بکرا وغیرہ۔ ہاں اگر صدقہ دینے والا چاہے۔“(تو پھر نر لینے میں کچھ حرج نہیں)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا (یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے دیکھے کتاب: زکوٰۃ کے بیان میں۔۔۔ باب: زکوٰۃ کا واجب ہونا شریعت سے ثابت ہے۔۔۔) یہاں اس روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تم اہل کتاب (یعنی یہود و نصاریٰ) کے پاس جا رہے ہو ....“ اور پھر (انہوں نے) باقی حدیث ذکر کی۔ پھر آخر میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے) فرمایا: ”۔۔۔۔۔ اور تم لوگوں کے عمدہ عمدہ مال لینے سے پرہیز کرنا۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ میں تمام انصار سے زیادہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس مال تھا، ازقسم باغات اور سب سے زیادہ پسند ان کو بیرحاء نامی باغ تھا اور وہ مسجدنبوی کے سامنے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے جاتے تھے اور اس میں جو خوشگوار پانی تھا اس کو نوش فرماتے تھے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب (سورۃ آل عمران کی 29 آیت) نازل ہوئی: ”تم لوگ ہرگز نیکی کو نہ پہنچو گے یہاں تک کہ جس چیز کو تم دوست رکھتے ہو، اس میں سے خرچ کرو۔“ تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو گئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! اللہ بزرگ و برتر فرماتا ہے کہ ”تم لوگ ہرگز نیکی کو نہ پہنچو گے یہاں تک کہ جس چیز کو تم دوست رکھتے ہو اس میں سے خرچ کرو۔“ تو بیشک مجھے اپنے سب مالوں میں زیادہ محبوب ”بیرحاء“ ہے اور وہ (اب) اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ میں اس کے ثواب کی اللہ کے ہاں امید رکھتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو جہاں مناسب سمجھیے صرف کیجئیے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”شاباش! یہ تو ایک مفید مال ہے، یہ تو ایک مفید مال ہے اور میں نے سن لیا جو تم نے کہا اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ تم اس کو قرابت داروں میں تقسیم کر دو۔“ تو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں ایسا ہی کروں گا چنانچہ انہوں نے اس کو اپنے قرابت داروں میں اور چچا کے بیٹوں میں تقسیم کر دیا۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی یا عیدالفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے .... یہ حدیث گزر چکی ہے (دیکھیں کتاب: عیدین کا بیان۔۔۔ باب: عیدگاہ کی طرف بغیر منبر کے جانا۔۔۔) یہاں اس روایت میں یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہو کر اپنے مکان کی طرف تشریف لے گئے تو سیدہ زینب سیدنا ابن مسعود کی بیوی آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگنے لگیں۔ عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ! زینب (آئی) ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ”کون زینب؟“(کیونکہ زینب نام کی بہت سے عورتیں تھیں) تو عرض کی گئی کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی بیوی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا ان کو اجازت دے دو۔ ان کو اجازت دے دی گئی (جب وہ آئیں تو) انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج (ہم عورتوں کو) صدقہ دینے کا حکم دیا ہے اور میرے پاس کچھ زیور ہے میں نے چاہا کہ اسے خیرات کر دوں مگر ابن مسعود نے کہا کہ وہ اور ان کی اولاد سب سے زیادہ مستحق اس بات کے ہیں کہ میں انہی کو صدقہ دوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن مسعود نے سچ کہا تمہارا شوہر اور تمہارے بچے سب سے زیادہ مستحق اس بات کے ہیں کہ تم انہیں صدقہ دو۔“