سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت کہ جس میں یہ ذکر تھا کہ”ہم باعتبار ترتیب امم، سب امتوں کے بعد آئے ہیں لیکن قیامت کے دن حساب و کتاب اور جنت میں لے جانے کے حساب سے سب سے آگے ہوں گے۔“ گزر چکی ہے۔ (دیکھئیے باب: جمعہ کی فرضیت۔۔۔) اس روایت کے آخر میں اتنا زیادہ ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ ہر ہفتہ میں ایک دن غسل کرے، اس دن اپنا سر اور اپنا بدن اچھی طرح صاف کرے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ کہتی ہیں کہ لوگ اپنے گھروں سے اور مدینہ کی نواحی بستیوں سے نماز جمعہ میں باری باری آیا کرتے تھے۔ گرد و غبار کی وجہ سے ان (کے جسم) پر غبار اور پسینہ بہت آتا تھا پھر ان کے بدن سے بھی پسینہ نکلتا تھا تو بدبو ہوا کرتی تھی پس ایک آدمی ان میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس وقت) میرے ہاں تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کاش تم لوگ اس دن (گرد و غبار اور بدبو سے) صاف رہا کرتے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے ہی روایت ہے کہ لوگ اپنے کام کاج خود کیا کرتے تھے اور جب جمعہ کے لیے جاتے تو اپنی اسی حالت میں چلے جاتے تو ان سے کہا گیا: ”کاش تم غسل کر لیا کرو۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب خوب سردی ہوتی تھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز جلدی پڑھتے تھے وہ جب گرمی زیادہ ہوتی تھی تو نماز کو ٹھنڈا کر کے (ٹھنڈے وقت) پڑھتے تھے یعنی جمعہ کی نماز۔
سیدنا ابوعبس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اور وہ اس وقت نماز جمعہ کے لیے جا رہے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے: ”جس کے دونوں پاؤں اللہ کی راہ میں غبارآلود ہو جائیں تو اس کو اللہ نے (دوزخ کی) آگ پر حرام کر دیا ہے (یعنی دوزخ کی آگ اس کو نہیں چھو سکتی)۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ: ”کوئی شخص اپنے بھائی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ پر بیٹھ جائے۔“ عرض کیا گیا کہ کیا صرف جمعہ میں؟ فرمایا: ”جمعہ اور اس کے علاوہ اور موقع پر بھی۔“
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن اذان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور امیرالمؤمنین ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے دور میں اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا پھر عثمان رضی اللہ عنہ (خلیفہ) ہوئے اور (مسلمان) لوگ زیادہ ہو گئے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے زوراء پر تیسری اذان بڑھا دی۔ (امام بخاری رحمتہ اللہ نے کہا کہ زوراء مدینہ کے بازار میں مقام کا نام ہے)۔
سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ ایک دوسری روایت میں کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں صرف ایک ہی مؤذن تھا اور وہ جمعہ کے دن کی اذان اسی وقت دیتا تھا جب امام بیٹھ جاتا تھا یعنی اپنے منبر پر (بیٹھ جاتا تھا)۔
سیدنا معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ منبر پر بیٹھے ہوئے تھے کہ مؤذن نے اذان کہی۔ تو جب اس نے کہا (اﷲاکبر اﷲاکبر) معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی کہا (اﷲاکبر اﷲاکبر) پھر مؤذن نے کہا ((اشھد ان لا الہٰ الا اللہ)) تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ((وانا)) مؤذن نے کہا ((اشھد ان محمد رسول اللہ)) تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا ((وانا)) پھر اذان ختم ہو چکی تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے لوگو! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مقام (یعنی منبر) پر سنا کہ جب مؤذن نے اذان دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی فرماتے جاتے تھے جو تم نے میری گفتگو سنی۔