سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس بات میں کمی نہ کروں گا کہ تمہیں ویسی ہی نماز پڑھاؤں جیسا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھاتے دیکھا ہے .... یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے (دیکھئیے باب: جب رکوع سے اپنا سر اٹھائے تو اس وقت اطمینان سے کھڑا ہونا چاہیے)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سجدوں میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی شخص اپنی دونوں کہنیاں (زمین پر)، جس طرح کہ کتا بچھا لیتا ہے، نہ بچھائے۔“
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا تو (دیکھا کہ) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کی طاق رکعت میں ہوتے تھے تو جب تک سیدھے نہ بیٹھ جاتے تھے کھڑے نہ ہوتے تھے۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نماز پڑھائی تو جس وقت انہوں نے اپنا سر (پہلے) سجدے سے اٹھایا اور دوسرا سجدہ کیا اور جب (دوسرے سجدے سے) سر اٹھایا اور جب دو رکعتوں سے (فراغت کر کے) اٹھے تو (ان سب مواقع پر) بلند آواز سے تکبیر کہی اور کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب (ان کے باپ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما) نماز میں بیٹھتے تو چارزانو بیٹھتے تھے، میں بھی اسی طرح بیٹھا، میں ان دنوں کمسن تھا تو (میرے باپ) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے انھیں منع کیا اور کہا کہ نماز کا طریقہ تو یہی ہے کہ تم اپنا داہنا پاؤں کھڑا کر لو اور بایاں دہرا کر لو اس پر میں نے کہا آپ (یعنی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) بھی تو ایسا کرتے ہیں تو وہ بولے کہ میرے پاؤں (کمزور ہو گئے ہیں اور) میرا وزن اٹھا نہیں سکتے۔
سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یاد ہے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) پڑھی تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی بلندی تک اٹھائے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لیے پھر اپنی پیٹھ کو جھکا دیا اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر (رکوع سے) اٹھایا تو سیدھے ہو گئے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی اپنی جگہ پر چلی گئی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ زمین پر رکھ دیے نہ ان کو بچھایا اور نہ سمیٹا اور اپنے پاؤں کی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ رخ کر لی تھیں پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پاؤں پر بیٹھے اور داہنے پاؤں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑا کر لیا پھر جب آخری رکعت میں بیٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بائیں پاؤں کو آگے کر دیا اور داہنے پاؤں کو کھڑا کر لیا اور اپنی سرین پر بیٹھ گئے۔
سیدنا عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ قبیلہ ازدشنوۃ کے ہیں اور نبی عبدمناف کر حلیف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھائی تو (بھولے سے) پہلی دو رکعتوں (کے اختتام) پر کھڑے ہو گئے اور بیٹھے نہیں تو لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مکمل کر چکے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام پھیرنے کے منتظر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھے ہی بیٹھے تکیبر کہی اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کیے اس کے بعد سلام پھیرا۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے تو (قعدہ میں) یہ پڑھا کرتے تھے کہ اللہ پر سلام، جبرائیل پر سلام، میکائیل پر سلام اور فلاں پر سلام اور فلاں پر سلام تو (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف دیکھا اور فرمایا: ”اللہ تو خود ہی سلام ہے تو اس پر سلام بھیجنے کی کیا ضرورت؟ پس جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو کہے“ تمام قولی، بدنی اور مالی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں۔ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! تم پر سلام اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں (نازل ہوں) ہم پر سلام اور اللہ تعالیٰ کے سب نیک بندوں پر سلام۔“ کیونکہ جس وقت تم یہ کہہ دو گے تو یہ دعا اللہ کے ہر نیک بندے کو پہنچ جائے گی خواہ وہ آسمان میں ہو یا زمین میں۔ (اور) میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں یہ دعا کیا کرتے تھے: ”اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور دجال کے فساد سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور زندگی اور موت کی خرابی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اے اللہ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ ایک کہنے والے نے کہا کہ آپ قرض سے بہت پناہ مانگتے ہیں (اس کی کیا وجہ ہے؟) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی قرض دار ہو جاتا ہے تو جب وہ بات کہتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔“
امیرالمؤمنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ مجھے کوئی ایسی دعا تعلیم فرمائیے جسے میں اپنی نماز میں مانگوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ (دعا) پڑھا کرو کہ ”اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور گناہوں کو تیرے سوا کوئی معاف کرنے والا نہیں پس تو مجھے اپنی رحمت سے معاف کر دے اور مجھ پر مہربانی کر بیشک تو معاف کرنے والا مہربان ہے۔“