ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور اپنے سجدوں میں کہا کرتے تھے۔ ((سبحانک اللّٰھمّ ربّنا وبحمدک اللّٰھمّ اغفرلی۔))”اے اللہ! میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں۔ اے ہمارے پروردگار! تیری تعریف بیان کرتا ہوں، اے اللہ! مجھے معاف فرما دے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم کہو اللّٰھمّ ربّنا لک الحمد۔ جس کا قول ملائکہ کے قول کے موافق (یعنی ہم آواز) ہوا تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بیشک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کو قریب کر دوں گا (یعنی جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے تھے، میں بھی اسی طرح سے نماز پڑھاؤں گا کیونکہ بیشک میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہے) اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ظہر اور عشاء اور فجر کی نماز کی آخری رکعت میں سمع اللہ لمن حمدہ کہنے کے بعد (دعائے) قنوت پڑھتے تو مسلمانوں کے لیے دعا کرتے اور کافروں پر لعنت کرتے۔
سیدنا رفاعہ بن رافع زرقی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے تو (ہم نے دیکھا کہ) جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر رکوع سے اٹھایا تو فرمایا سمع اللہ لمن حمدہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک شخص نے کہا ((ربّنا ولک الحمد حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ)) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب فارغ ہوئے تو فرمایا: ”بولنے والا کون تھا؟“ اس شخص نے کہا کہ میں تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے تیس سے کچھ زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ اس پر باہم سبقت کرتے تھے کہ ان میں کون اس کو پہلے لکھ لے۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کرتے تھے تو وہ نماز پڑھ کر بتاتے تھے پس جس وقت وہ اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو کھڑے ہو جاتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ یقیناً آپ (سجدے میں جانا) بھول گئے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنا سر (رکوع سے) اٹھاتے تھے تو ((سمع اللہ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد)) کہتے تھے (اور) کچھ آدمیوں کے نام لے کر دعا کرتے تھے (اور) فرماتے تھے: ”اے اللہ! ولید بن ولید اور سلمہ بن ہشام کو اور عیاش بن ابی ربیعہ اور کمزور مسلمانوں کو (کفار مکہ کے پنجہ ظلم سے) نجات دے۔ اے اللہ! اپنا عذاب مضر (قبیلہ مضر) پر سخت کر دے اور اس سے ان کو قحط سالی میں مبتلا کر دے جیسے یوسف علیہ السلام (کے دور) کی قحط سالی تھی۔ اس وقت اہل مشرق سے (قبیلہ مضر) مضر کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف تھے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم چودھویں رات کے چاند (کو دیکھنے) میں شک کرتے ہو، جب اس کے اوپر بادل نہ ہو؟“ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کیا تم آفتاب (دیکھنے) میں شک کرتے ہو جب کہ اس کے اوپر ابر نہ ہو؟“ لوگوں نے عرض کی کہ نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پس تم اسی طرح اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن لوگ (زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو (دنیا میں) جس کی پرستش کرتا تھا وہ اس کے پیچھے ہو لے۔ چنانچہ کوئی ان میں سے آفتاب کے پیچھے ہو جائے گا اور کوئی ان سے چاند کے پیچھے ہو جائے گا اور کوئی ان میں سے بتوں کے پیچھے ہو جائے گا اور یہ (ایمانداروں کا) گروہ باقی رہ جائے گا اور اسی میں اس امت کے منافق (بھی شامل) ہوں گے۔ پس اللہ تعالیٰ اس صورت میں جس کو وہ نہیں پہچانتے، ان کے پاس آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا پروردگار ہوں تو وہ کہیں گے (ہم تجھے نہیں جانتے) ہم اس جگہ کھڑے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارا پروردگار ہمارے پاس آ جائے اور جب وہ آئے گا ہم اسے پہچان لیں گے۔ پھر اللہ عزوجل ان کے پاس (اس صورت میں) آئے گا (جس کو وہ پہچانتے ہیں) اور فرمائے گا کہ میں تمہارا پروردگار ہوں؟ تو وہ کہیں گے ہاں تو ہمارا پروردگار ہے پس اللہ انھیں بلائے گا اور جہنم کی پشت پر پل صراط رکھ دیا جائے گا تو تمام پیغمبر جو اپنی امتوں کے ساتھ (اس پل سے) گزریں گے، ان سب میں سے پہلا میں ہوں گا اور اس دن سوائے پیغمبروں کے کوئی بول نہ سکے گا اور پیغمبروں کا کلام اس دن (االلّٰھمّ سلّم سلّم) ہو گا اور جہنم میں سعد ان کے کانٹوں کے مشابہ آنکڑے ہوں گے، کیا تم لوگوں نے سعدان کے کانٹے دیکھے ہیں؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو وہ سعدان کے کانٹوں کے مشابہ ہوں گے سوائے اس کے کہ ان کی بڑائی کی مقدار سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔ وہ آنکڑے لوگوں پر ان کے اعمال کے موافق اچکیں گے تو ان میں سے کوئی اپنے اعمال کے سبب (جہنم میں گر کر) ہلاک ہو جائے گا اور کوئی ان میں سے (مارے زخموں کے) ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا، اس کے بعد نجات پائے گا، یہاں تک کہ جب اللہ دوزخیوں میں سے جن پر مہربانی کرنا چاہے گا تو اللہ فرشتوں کو حکم دے گا کہ جو اللہ کی پرستش کرتے تھے وہ نکال لیے جائیں، چنانچہ فرشتے انھیں نکالیں گے اور فرشتے انھیں سجدوں کے نشانوں سے پہچان لیں گے اور اللہ تعالیٰ نے (دوزخ کی) آگ پر حرام کر دیا ہے وہ سجدے کے نشان کو کھائے۔ پس ابن آدم کے کل جسم کو آگ کھا لے گی سوائے سجدوں کے نشان کے، تو آگ سے وہ نکالے جائیں گے (اس حال میں کہ) وہ سیاہ ہو گئے ہوں گے پھر ان کے اوپر آب حیات ڈالا جائے گا تو (اس کے پڑنے سے) وہ ایسا نمو پکڑیں گے جیسے دانہ سیل کے بہاؤ میں اگتا ہے۔ اس کے بعد اللہ بندوں کے درمیان میں فیصلہ کرنے سے فارغ ہو جائے گا اور ایک شخص جنت اور دوزخ کے درمیان باقی رہ جائے گا اور وہ تمام دوزخیوں میں سے سب سے آخر میں جنت میں جائے گا۔ اس کا منہ دوزخ کی طرف ہو گا کہے گا کہ اے میرے پروردگار! میرا منہ دوزخ (کی طرف) سے پھیر دے چونکہ مجھے اس کی ہوا نے زہر آلود کر دیا ہے اور مجھے اس کے شعلہ نے جلا دیا ہے۔ اللہ فرمائے گا، اچھا، اگر تیرے ساتھ یہ احسان کر دیا جائے تو تو اس کے علاوہ کچھ اور تو نہ مانگے گا؟ وہ کہے گا کہ تیری بزرگی کی قسم نہیں کچھ نہیں مانگوں گا۔ پھر اللہ عزوجل اس بات پر، جس قدر اللہ چاہے گا، اس شخص سے پختہ وعدہ لے گا اور اللہ تعالیٰ اس شخص کا منہ دوزخ (کی طرف) سے پھیر دے گا پھر جب وہ جنت کی طرف منہ کرے گا تو اس کی تروتازگی دیکھے گا۔ پھر جس قدر اللہ تعالیٰ اس شخص کا خاموش رہنا پسند کرے گا، وہ آدمی چپ رہے گا اس کے بعد کہے گا کہ اے پروردگار! مجھے جنت کے دروازے کے پاس بٹھا دے تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ تو نے اس بات پر قول و قرار نہ کیے تھے کہ اس کے سوا جو تو مانگ چکا ہے کچھ اور نہ مانگے گا؟ وہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار! مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب تو نہ کر۔ تو اللہ فرمائے گا کہ اگر تجھے یہ بھی عطا کر دیا جائے تو تو اس کے علاوہ کچھ اور تو نہ مانگے گا؟ وہ عرض کرے گا کہ قسم تیری بزرگی کی! نہیں میں اس کے سوا اور کوئی سوال نہیں کروں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے، جس قدر اللہ چاہے گا، قول و قرار لے گا۔ پس اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے دروازے کے پاس بٹھا دے گا۔ پس جب وہ جنت کے دروازے پر پہنچ جائے گا اور اس کی تروتازگی اور سرور اس میں دیکھے گا تو جتنی دیر اللہ اس کا چپ رہنا چاہے گا وہ چپ رہے گا۔ اس کے بعد کہے گا کہ اے میرے پروردگار!، مجھے جنت میں داخل کر دے۔ پھر عزوجل فرمائے گا کہ اے ابن آدم! تو کس قدر عہد شکن ہے، کیا تو نے اس بات پر قول و قرار نہ کیے تھے کہ اس کے علاوہ جو تجھے دیا جا چکا ہے اور کچھ نہ مانگے گا؟ وہ عرض کرے گا کہ اے میرے پروردگار! مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ کر۔ پس اللہ تعالیٰ (اس کی باتوں سے) ہنسنے لگے گا اور خوش ہو گا۔ اس کے بعد اس کو جنت میں جانے کی اجازت دے گا اور فرمائے گا کہ خواہش کر (یعنی جو جو کچھ تو مانگ سکتا ہے مانگ) چنانچہ وہ خواہش کرنے لگے گا، یہاں تک کہ اس کی خواہشیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ بزرگ و برتر فرمائے گا کہ یہ یہ چیزیں اور مانگ۔ اب اللہ تعالیٰ اسے یاد دلائے گا یہاں تک کہ جب اس کی خواہشیں تمام ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تجھے یہ بھی سب کچھ دیا جاتا ہے (یعنی تیری خواہشوں کے مطابق) اور اسی کے برابر اور (بھی)۔“(یہ حدیث سن کر) سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقام پر یہ فرمایا تھا: ”اللہ عزوجل نے فرمایا کہ تجھے یہ بھی سبھی کچھ اور اس کے ساتھ اسی کی مثل دس گنا اور بھی دیا جاتا ہے۔“ تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھے اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف یہی قول یاد ہے کہ تجھے یہ بھی دیا جاتا ہے اور اسی کے مثل اور (بھی) تو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”تجھے یہ اور اسی کی مثل دس گنا اور دیا جاتا ہے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ کو سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے (وہ سات اعضاء یہ ہیں) پیشانی (مع ناک کی نوک کے)۔“ یہ بتاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ناک کی طرف اشارہ کیا۔ اور دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کی انگلیاں، اور یہ بھی حکم دیا گیا ہے کہ ہم کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹیں۔