-" إذا مر رجال بقوم فسلم رجل عن الذين مروا على الجالسين، ورد من هؤلاء واحد اجزا عن هؤلاء وعن هؤلاء".-" إذا مر رجال بقوم فسلم رجل عن الذين مروا على الجالسين، ورد من هؤلاء واحد أجزأ عن هؤلاء وعن هؤلاء".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کچھ لوگ کسی قوم کے پاس سے گزریں اور گزرنے والوں میں سے ایک سلام کہہ دے اور بیٹھنے والوں میں سے ایک جواب دے دے تو ان کی طرف سے بھی کفایت کرے گا اور ان کی طرف سے بھی۔“
-" إن المؤمن إذا لقي المؤمن فسلم عليه واخذ بيده فصافحه تناثرت خطاياهما كما-" إن المؤمن إذا لقي المؤمن فسلم عليه وأخذ بيده فصافحه تناثرت خطاياهما كما
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ایک مومن دوسرے مومن کو ملتا ہے، اسے سلام کہتا ہے اور اسے مصافحہ کرتا ہے تو اس کے گناہ درخت کے پتوں کی طرح جھڑ جاتے ہیں۔“
-" ما من مسلمين يلتقيان فيتصافحان إلا غفر لهما قبل ان يتفرقا".-" ما من مسلمين يلتقيان فيتصافحان إلا غفر لهما قبل أن يتفرقا".
سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو دو مسلمان باہم ملاقات کریں اور مصافحہ کریں تو قبل اس کے کہ وہ جدا ہوں، ان کو بخش دیا جاتا ہے۔“
-" لا، ولكن تصافحوا. يعني لا ينحني لصديقه ولا يلتزمه، ولا يقبله حين يلقاه".-" لا، ولكن تصافحوا. يعني لا ينحني لصديقه ولا يلتزمه، ولا يقبله حين يلقاه".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، البتہ مصافحہ کر لیا کرو۔“ یعنی کوئی آدمی بوقت ملاقات اپنے دوست کے لیے نہ جھکے اور نہ اس کا بوسہ لے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! جب کوئی آدمی اپنے دوست سے ملتا ہے تو کیا اسے اس کے لیے جھکنا چاہئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ اس نے پھر پوچھا: کیا اس کا معانقہ کرے اور اس کا بوسہ لے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ اس نے تیسری بار پوچھا: کیا اس سے مصافحہ کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اگر چاہے تو۔“ یہ سیاق حدیث امام احمد کا روایت کردہ ہے، امام ترمذی نے بھی اسی طرح کی روایت بیان کی ہے، البتہ ان کی روایت میں «إن شاء» ”اگر چاہے تو“ کے الفاظ نہیں ہیں۔
-" كان اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إذا تلاقوا تصافحوا، وإذا قدموا من سفر تعانقوا".-" كان أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم إذا تلاقوا تصافحوا، وإذا قدموا من سفر تعانقوا".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام باہمی ملاقات کے وقت مصافحہ کرتے اور جب سفر سے آتے تو معانقہ کرتے۔
سیدہ ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزری، جبکہ آپ حطیم میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”ام الفضل!“ میں نے کہا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول!۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے تو بچے کا حمل ہو گیا ہے۔“ میں نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے، جب کہ قریشیوں نے قسمیں اٹھائی ہیں کہ عورتیں بچہ نہیں جنیں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہی ہو گا جو میں کہہ رہا ہوں، جب بچہ پیدا ہو تو میرے پاس لے آنا۔“ چنانچہ جب بچہ پیدا ہوا تو وہ آپ کے پاس لے آئی، آپ نے اس کا نام عبداللہ رکھا، اسے اپنے لعاب دہن کی گھٹی دی اور فرمایا: ”لے جاؤ، تم اسے عقلمند پاؤ گی۔“ وہ کہتی ہیں: میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے پاس گئی اور ساری بات انہیں بتلا دی، انہوں نے اپنا لباس زیب تن کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے، وہ خوبصورت اور دراز قد آدمی تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا تو ان کی طرف کھڑے ہوئے، ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور انہیں اپنی دائیں جانب بٹھا لیا، پھر فرمایا: ”یہ میرا چچا ہے، جو چاہتا ہے وہ اپنے چچا پر فخر کرے۔“ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اتنی تعریف نہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایسے کیوں نہ کہوں؟ حالانکہ آپ میرے چچا ہیں، میرے آباؤ اجداد کی نشانی ہیں اور چچا تو باپ ہی ہوتا ہے۔“
- عن عبد الله الخطمي قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اراد ان يستودع الجيش، قال:" استودع الله دينك وامانتك وخواتيم عملك".- عن عبد الله الخطمي قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا أراد أن يستودع الجيش، قال:" أستودع الله دينك وأمانتك وخواتيم عملك".
سیدنا عبداللہ خطمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی لشکر کو الوداع کہنے کا ارادہ کرتے تو فرماتے: ”میں تیرے دین کو، تیری امانت کو اور تیرے آخری عمل کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔“
- عن ابى هريرة: ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا ودع احدا قال:" استودع الله دينك وامانتك وخواتيم عملك".- عن أبى هريرة: أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا ودع أحدا قال:" أستودع الله دينك وأمانتك وخواتيم عملك".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو الوداع کہتے تو فرماتے: ”میں تیرے دین کو، تیری امانت کو اور تیرے آخری عمل کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔“
-" لا، ولكن تصافحوا. يعني لا ينحني لصديقه ولا يلتزمه، ولا يقبله حين يلقاه".-" لا، ولكن تصافحوا. يعني لا ينحني لصديقه ولا يلتزمه، ولا يقبله حين يلقاه".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔ البتہ مصافحہ کر لیا کرو۔“ یعنی کوئی آدمی بوقت ملاقات اپنے دوست کے لیے نہ جھکے اور نہ اس کا بوسہ لے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! جب کوئی آدمی اپنے دوست سے ملتا ہے تو کیا اس کے لیے جھکنا چاہئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ اس نے پھر پوچھا: کیا اس سے معانقہ کرے اور اس کا بوسہ لے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ اس نے تیسری بار پوچھا: کیا اس سے مصافحہ کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اگر چاہے تو۔“ یہ سیاق حدیث امام احمد کا روایت کردہ ہے، امام ترمذی نے بھی اسی طرح کی روایت بیان کی ہے، البتہ ان کی روایت میں «ان شاء الله»”اگر چاہے تو“ کے الفاظ نہیں ہیں۔