سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4035 :ترقیم البانی
سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4103 :حدیث نمبر
سلسله احاديث صحيحه
सिलसिला अहादीस सहीहा
آداب اور اجازت طلب کرنا
अख़लाक़ और अनुमति मांगना
حدیث نمبر: 2784
Save to word مکررات اعراب Hindi
-" لو يعلم الناس في الوحدة ما اعلم ما سار راكب بليل وحده (ابدا)".-" لو يعلم الناس في الوحدة ما أعلم ما سار راكب بليل وحده (أبدا)".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو پتہ چل جائے کہ تنہائی (‏‏‏‏کے کیا نقصانات) ہیں تو رات کو کوئی مسافر اکیلا سفر پر نہ نکلے۔
حدیث نمبر: 2785
Save to word مکررات اعراب Hindi
-" الراكب شيطان والراكبان شيطانان والثلاثة ركب".-" الراكب شيطان والراكبان شيطانان والثلاثة ركب".
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مسافر شیطان ہوتا ہے، دو مسافر بھی شیطان ہوتے ہیں، البتہ تین مسافر ہوں تو قافلہ بنتا ہے۔
حدیث نمبر: 2786
Save to word مکررات اعراب Hindi
-" نهى عن الوحدة: ان يبيت الرجل وحده، او يسافر وحده".-" نهى عن الوحدة: أن يبيت الرجل وحده، أو يسافر وحده".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنہائی، یعنی آدمی کو اکیلا رات گزارنے اور اکیلا سفر کرنے سے منع فرمایا۔
1871. بنو قریظہ کی عہد شکنی کا انجام
“ बनि कुरैज़ा के लिए समझौते को तोड़ने का नतीजा ”
حدیث نمبر: 2787
Save to word مکررات اعراب Hindi
-" قوموا إلى سيدكم فانزلوه، فقال عمر: سيدنا الله عز وجل، قال: انزلوه، فانزلوه".-" قوموا إلى سيدكم فأنزلوه، فقال عمر: سيدنا الله عز وجل، قال: أنزلوه، فأنزلوه".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: میں غزوہ خندق والے دن نکلی اور لوگوں کے پیچھے چل پڑی۔ میں نے چلتے ہوئے پیچھے سے قدموں کی پرزور آواز سنی۔ جب میں نے ادھر توجہ کی، تو کیا دیکھتی ہوں کہ سعد بن معاذ ہیں اور ان کے ساتھ ان کا بھتیجا حارث بن اوس ہے، جس نے ڈھال اٹھا رکھی تھی۔ میں زمین پر بیٹھ گئی۔ سعد گزرے، انہوں نے لوہے کی زرہ پہن رکھی تھی اور اس کے کنارے نکلے ہوئے تھے، مجھے خطرہ لاحق ہونے لگا کہ کہیں اس سے سعد کے اعضائے جسم (‏‏‏‏زخمی نہ ہو جائیں)۔ وہ گزرتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہے تھے: ذرا ٹہیرو کہ لڑائی زوروں پر آ جائے کتنی اچھی ہو گی موت، جب اس کا مقررہ وقت آ جائے گا۔ وہ کہتی ہیں: میں کھڑی ہوئی اور ایک باغ میں گھس گئی، وہاں (‏‏‏‏پہلے سے) چند مسلمان موجود تھے، ان میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے اور ایک اور آدمی بھی تھا، اس نے خود پہنا ہوا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا: آپ یہاں کیوں آئی ہیں؟ بخدا! آپ نے تو بڑی جرأت کی ہے۔ آپ کو اس سے کیا اطمینان کہ آپ پر کوئی بلا آ پڑے یا کہیں بھاگنا پڑ جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ مجھے ملامت کرتے رہے، حتیٰ کہ مجھے یہ خواہش ہونے لگی کہ اسی وقت زمین پھٹے اور میں اس میں گھس جاؤں۔ ا‏‏‏‏دھر جب اس بندے نے خود اتارا، تو معلوم ہوا کہ وہ طلحہ بن عبیداللہ تھے۔ اس نے کہا: عمر! آپ نے تو آج بہت باتیں کر دی ہیں۔ آج صرف اللہ تعالیٰ کی طرف فرار اختیار کرنا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک قریشی مشرک، جس کو ابن عرقہ کہتے تھے، نے سعد کو تیر مارا اور کہا: لو، میں تو ابن عرقہ ہوں۔ وہ تیر ان کے بازو کی رگ میں لگا اور وہ کٹ گئی۔ سعد نے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی: اے اللّٰہ! مجھے (‏‏‏‏اس وقت تک) موت سے بچانا، جب تک بنو قریظہ کے بارے میں میری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب نہ ہو جائے۔ وہ جاہلیت میں سعد کے موالی کے حلیف تھے۔ پس ان کے زخم (‏‏‏‏سے بہنے والا خون) رک گیا۔ ا‏‏‏‏دھر اللہ تعالیٰ نے مشرکوں پر (‏‏‏‏تند و تیز) ہوا بھیجی اور اس لڑائی میں مومنوں کے لیے کافی ہوا، اور اللہ تعالیٰ طاقتور اور غالب ہے۔ ابوسفیان اپنے ساتھیوں سمیت تہامہ میں پہنچ گیا اور عینیہ بن بدر نے اپنے ساتھیوں سمیت نجد میں پناہ لی۔ بنو قریظہ (‏‏‏‏ کے یہودی) واپس آ گئے اور قلعہ بند ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں لوٹ آئے، اسلحہ اتارا اور سعد کے لیے مسجد میں چمڑے کا ایک خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا۔ لیکن اسی اثنا میں جبرائیل علیہ السلام پہنچ گئے، ان کے دانتوں پر غبار چمک رہا تھا۔ انہوں نے کہا: (‏‏‏‏ اے محمد!) آپ نے اسلحہ اتار دیا تھا؟ اللہ کی قسم! فرشتوں نے تو ابھی تک نہیں اتارا۔ چلیے بنو قریظہ کی طرف اور ان سے قتال کیجئیے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی خاطر اسلحہ زیب تن کیا اور لوگوں میں کوچ کرنے کا اعلان کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل پڑے اور بنو غنم، جو مسجد کے قریب سکونت پذیر تھے، کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا: کون تمہارے پاس سے گزرا ہے؟ انہوں نے کہا: دحیہ کلبی گزرے ہیں، دراصل سیدنا دحیہ کلبی کی داڑھی، دانت اور چہرہ جبرائیل علیہ السلام کے مشابہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قریظہ کے پاس پہنچے اور ان کا محاصرہ کر لیا، جو پچیس دن تک جاری رہا۔ جب ان پر محاصرے نے شدت اختیار کی اور ان کی تکلیف بڑھ گئی، تو ان سے کہا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر راضی ہو جاؤ۔ انہوں نے ابولبابہ بن عبد المنذر سے مشورہ کیا، اس نے اشارہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تو قتل ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا: تو پھر سعد بن معاذ کے فیصلے کو قابل تسلیم سمجھ لیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد بن معاذ کے فیصلے پر راضی ہو جاؤ۔ پس انہوں نے تسلیم کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کو بلا بھیجا۔ سو ایک گدھا لایا گیا، اس پر کھجور کے درخت کے چھال کی پالان تھی، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو اس پر سوار کر دیا گیا، ان کی قوم نے ان کو گھیر لیا اور کہا: اے ابو عمرو! وہ (‏‏‏‏بنو قریظہ والے) آپ کے حلیف بھی ہیں، معاہد بھی ہیں، شکست و ریخت والے بھی ہیں اور تم جانتے ہو کہ وہ ایسے ایسے بھی ہیں۔ لیکن انہوں نے نہ ان کا جواب دیا اور نہ ان کی طرف توجہ کی، (‏‏‏‏چلتے گئے)، جب ان کے گھروں کے قریب جا پہنچے تو اپنی قوم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اب وہ وقت آ گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کروں۔ ابوسعید کہتے ہیں: جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جا پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (‏‏‏‏اٹھو) اپنے سردار کی طرف جاؤ اور ان کو (‏‏‏‏سواری سے) اتارو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمارا سردار تو اللہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو اتارو۔ پس انہوں نے ان کو اتارا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد! ان کے بارے میں فیصلہ کرو۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے جنگجوؤں کو قتل کر دیا جائے، ان کے بچوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے مالوں کو (‏‏‏‏مسلمانوں میں) تقسیم کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے تو وہی فیصلہ کیا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا فیصلہ تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر سعد رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی: اے اللہ! اگر تو نے ابھی تک اپنے نبی کی قسمت میں قریشیوں سے لڑنا رکھا ہوا ہے، تو مجھے اس کے لیے زندہ رکھ اور اگر ان کے مابیں جنگ و جدل ختم ہو گیا ہے، تو مجھے اپنے پاس بلا لے۔ وہ کہتی ہیں: ان کا زخم پھوٹ پڑا، حالانکہ وہ مندمل ہو چکا تھا اور وہاں انگوٹھی کی طرح کا نشان نظر آتا تھا اور وہ اس خیمہ میں واپس چلے گئے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے نصب کروایا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما وہاں پہنچ گئے۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد ‏‏‏‏ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، میں اپنے حجرے میں بیٹھی ہوئی عمر اور ابوبکر رضی اللہ عنہما کے رونے کی آواز پہچان رہی تھی، وہ (‏‏‏‏صحابہ کرام) آپس میں ایسے ہی تھے، جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ آپس میں رحمدل ہیں۔ علقمہ نے پوچھا: امی جان! اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا تھا؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: کسی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو نہیں بہتے تھے، لیکن جب وہ غمگین ہوتے تو اپنی داڑھی مبارک پکڑ لیتے تھے۔
1872. ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق
“ एक मुसलमान का दूसरे मुसलमान पर अधिकार ”
حدیث نمبر: 2788
Save to word مکررات اعراب Hindi
-" خمس من حق المسلم على المسلم: رد التحية وإجابة الدعوة وشهود الجنازة وعيادة المريض وتشميت العاطس إذا حمد الله".-" خمس من حق المسلم على المسلم: رد التحية وإجابة الدعوة وشهود الجنازة وعيادة المريض وتشميت العاطس إذا حمد الله".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، دعوت قبول کرنا، جنازوں کے پیچھے چلنا، مریض کی بیمار پرسی کرنا اور چھینکنے والے کی چھینک کا جوب دینا، بشرطیکہ وہ «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» کہے۔
حدیث نمبر: 2789
Save to word مکررات اعراب Hindi
-" للمسلم على المسلم اربع خلال: يشمته إذا عطس ويجيبه إذا دعاه ويشهده إذا مات ويعوده إذا مرض".-" للمسلم على المسلم أربع خلال: يشمته إذا عطس ويجيبه إذا دعاه ويشهده إذا مات ويعوده إذا مرض".
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چار حقوق ہیں: جب وہ چھینکے اور (‏‏‏‏ «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» کہے) تو اسے «يرحمك الله» ‏‏‏‏ اللّٰہ تجھ پر رحم کرے کہا جائے، جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کی جائے، جب وہ مر جائے تو اس کے جنازہ میں حاضری دی جائے اور جب وہ بیمار پڑ جائے تو اس کی تیمارداری کی جائے۔
1873. اہل و عیال کے حق میں بہترین سب سے بہترین ہوتا ہے
“ अच्छा इंसान वह है जो अपने घर वालों के साथ अच्छा है ”
حدیث نمبر: 2790
Save to word مکررات اعراب Hindi
-" خيركم خيركم لاهله، وإذا مات صاحبكم فدعوه".-" خيركم خيركم لأهله، وإذا مات صاحبكم فدعوه".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے بہتر ہو اور جب کوئی آدمی مر جائے تو اس (‏‏‏‏کا برا تذکرہ) ترک کر دیا کرو۔
1874. مردوں کا تذکرہ شر کرنے سے اجتناب کرنا
“ मरे हुए लोगों की बुराई करना मना है ”
حدیث نمبر: 2791
Save to word مکررات اعراب Hindi
-" خيركم خيركم لاهله، وإذا مات صاحبكم فدعوه".-" خيركم خيركم لأهله، وإذا مات صاحبكم فدعوه".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے بہتر ہو اور جب کوئی آدمی مر جائے تو اس (‏‏‏‏کا برا تذکرہ) ترک کر دیا کرو۔
1875. مسجد میں جنگی آلات کے ساتھ کھلینا
“ मस्जिद में हथियारों के साथ खेलना ”
حدیث نمبر: 2792
Save to word مکررات اعراب Hindi
- (دعهم [يا عمر!] ؛ فإنهم بنو ارفدة).- (دعْهُم [يا عُمرُ!] ؛ فإنَّهم بنو أَرفدةَ).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آئے اور حبشی لوگ مسجد میں کھیل رہے تھے، انھوں نے ان کو منع کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمر! ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو، یہ بنوارفدہ (‏‏‏‏حبشی لوگ) ہیں۔
1876. نبی مہربان کا نابینے کی تمارداری کرنا
“ रसूल अल्लाह ﷺ का एक अंधे की देखभाल करना ”
حدیث نمبر: 2793
Save to word مکررات اعراب Hindi
-" الناس يومئذ على جسر جهنم".-" الناس يومئذ على جسر جهنم".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیں اس صاحب بصیرت آدمی کے پاس لے چلو جو بنو واقف قبیلے کا ہے، تاکہ ہم اس کی تیمارداری کر سکیں۔ اور وہ نابینا آدمی تھا۔

Previous    17    18    19    20    21    22    23    24    25    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.