سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4035 :ترقیم البانی
سلسله احاديث صحيحه کل احادیث 4103 :حدیث نمبر

سلسله احاديث صحيحه
सिलसिला अहादीस सहीहा
آداب اور اجازت طلب کرنا
अख़लाक़ और अनुमति मांगना
1871. بنو قریظہ کی عہد شکنی کا انجام
“ बनि कुरैज़ा के लिए समझौते को तोड़ने का नतीजा ”
حدیث نمبر: 2787
Save to word مکررات اعراب Hindi
-" قوموا إلى سيدكم فانزلوه، فقال عمر: سيدنا الله عز وجل، قال: انزلوه، فانزلوه".-" قوموا إلى سيدكم فأنزلوه، فقال عمر: سيدنا الله عز وجل، قال: أنزلوه، فأنزلوه".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: میں غزوہ خندق والے دن نکلی اور لوگوں کے پیچھے چل پڑی۔ میں نے چلتے ہوئے پیچھے سے قدموں کی پرزور آواز سنی۔ جب میں نے ادھر توجہ کی، تو کیا دیکھتی ہوں کہ سعد بن معاذ ہیں اور ان کے ساتھ ان کا بھتیجا حارث بن اوس ہے، جس نے ڈھال اٹھا رکھی تھی۔ میں زمین پر بیٹھ گئی۔ سعد گزرے، انہوں نے لوہے کی زرہ پہن رکھی تھی اور اس کے کنارے نکلے ہوئے تھے، مجھے خطرہ لاحق ہونے لگا کہ کہیں اس سے سعد کے اعضائے جسم (‏‏‏‏زخمی نہ ہو جائیں)۔ وہ گزرتے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہے تھے: ذرا ٹہیرو کہ لڑائی زوروں پر آ جائے کتنی اچھی ہو گی موت، جب اس کا مقررہ وقت آ جائے گا۔ وہ کہتی ہیں: میں کھڑی ہوئی اور ایک باغ میں گھس گئی، وہاں (‏‏‏‏پہلے سے) چند مسلمان موجود تھے، ان میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے اور ایک اور آدمی بھی تھا، اس نے خود پہنا ہوا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا: آپ یہاں کیوں آئی ہیں؟ بخدا! آپ نے تو بڑی جرأت کی ہے۔ آپ کو اس سے کیا اطمینان کہ آپ پر کوئی بلا آ پڑے یا کہیں بھاگنا پڑ جائے۔ عمر رضی اللہ عنہ مجھے ملامت کرتے رہے، حتیٰ کہ مجھے یہ خواہش ہونے لگی کہ اسی وقت زمین پھٹے اور میں اس میں گھس جاؤں۔ ا‏‏‏‏دھر جب اس بندے نے خود اتارا، تو معلوم ہوا کہ وہ طلحہ بن عبیداللہ تھے۔ اس نے کہا: عمر! آپ نے تو آج بہت باتیں کر دی ہیں۔ آج صرف اللہ تعالیٰ کی طرف فرار اختیار کرنا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک قریشی مشرک، جس کو ابن عرقہ کہتے تھے، نے سعد کو تیر مارا اور کہا: لو، میں تو ابن عرقہ ہوں۔ وہ تیر ان کے بازو کی رگ میں لگا اور وہ کٹ گئی۔ سعد نے اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی: اے اللّٰہ! مجھے (‏‏‏‏اس وقت تک) موت سے بچانا، جب تک بنو قریظہ کے بارے میں میری آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب نہ ہو جائے۔ وہ جاہلیت میں سعد کے موالی کے حلیف تھے۔ پس ان کے زخم (‏‏‏‏سے بہنے والا خون) رک گیا۔ ا‏‏‏‏دھر اللہ تعالیٰ نے مشرکوں پر (‏‏‏‏تند و تیز) ہوا بھیجی اور اس لڑائی میں مومنوں کے لیے کافی ہوا، اور اللہ تعالیٰ طاقتور اور غالب ہے۔ ابوسفیان اپنے ساتھیوں سمیت تہامہ میں پہنچ گیا اور عینیہ بن بدر نے اپنے ساتھیوں سمیت نجد میں پناہ لی۔ بنو قریظہ (‏‏‏‏ کے یہودی) واپس آ گئے اور قلعہ بند ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں لوٹ آئے، اسلحہ اتارا اور سعد کے لیے مسجد میں چمڑے کا ایک خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا۔ لیکن اسی اثنا میں جبرائیل علیہ السلام پہنچ گئے، ان کے دانتوں پر غبار چمک رہا تھا۔ انہوں نے کہا: (‏‏‏‏ اے محمد!) آپ نے اسلحہ اتار دیا تھا؟ اللہ کی قسم! فرشتوں نے تو ابھی تک نہیں اتارا۔ چلیے بنو قریظہ کی طرف اور ان سے قتال کیجئیے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کی خاطر اسلحہ زیب تن کیا اور لوگوں میں کوچ کرنے کا اعلان کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل پڑے اور بنو غنم، جو مسجد کے قریب سکونت پذیر تھے، کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا: کون تمہارے پاس سے گزرا ہے؟ انہوں نے کہا: دحیہ کلبی گزرے ہیں، دراصل سیدنا دحیہ کلبی کی داڑھی، دانت اور چہرہ جبرائیل علیہ السلام کے مشابہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قریظہ کے پاس پہنچے اور ان کا محاصرہ کر لیا، جو پچیس دن تک جاری رہا۔ جب ان پر محاصرے نے شدت اختیار کی اور ان کی تکلیف بڑھ گئی، تو ان سے کہا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر راضی ہو جاؤ۔ انہوں نے ابولبابہ بن عبد المنذر سے مشورہ کیا، اس نے اشارہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تو قتل ہی ہو گا۔ انہوں نے کہا: تو پھر سعد بن معاذ کے فیصلے کو قابل تسلیم سمجھ لیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد بن معاذ کے فیصلے پر راضی ہو جاؤ۔ پس انہوں نے تسلیم کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کو بلا بھیجا۔ سو ایک گدھا لایا گیا، اس پر کھجور کے درخت کے چھال کی پالان تھی، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو اس پر سوار کر دیا گیا، ان کی قوم نے ان کو گھیر لیا اور کہا: اے ابو عمرو! وہ (‏‏‏‏بنو قریظہ والے) آپ کے حلیف بھی ہیں، معاہد بھی ہیں، شکست و ریخت والے بھی ہیں اور تم جانتے ہو کہ وہ ایسے ایسے بھی ہیں۔ لیکن انہوں نے نہ ان کا جواب دیا اور نہ ان کی طرف توجہ کی، (‏‏‏‏چلتے گئے)، جب ان کے گھروں کے قریب جا پہنچے تو اپنی قوم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اب وہ وقت آ گیا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کروں۔ ابوسعید کہتے ہیں: جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جا پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (‏‏‏‏اٹھو) اپنے سردار کی طرف جاؤ اور ان کو (‏‏‏‏سواری سے) اتارو۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمارا سردار تو اللہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو اتارو۔ پس انہوں نے ان کو اتارا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد! ان کے بارے میں فیصلہ کرو۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے جنگجوؤں کو قتل کر دیا جائے، ان کے بچوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے مالوں کو (‏‏‏‏مسلمانوں میں) تقسیم کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے تو وہی فیصلہ کیا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا فیصلہ تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر سعد رضی اللہ عنہ نے یہ دعا کی: اے اللہ! اگر تو نے ابھی تک اپنے نبی کی قسمت میں قریشیوں سے لڑنا رکھا ہوا ہے، تو مجھے اس کے لیے زندہ رکھ اور اگر ان کے مابیں جنگ و جدل ختم ہو گیا ہے، تو مجھے اپنے پاس بلا لے۔ وہ کہتی ہیں: ان کا زخم پھوٹ پڑا، حالانکہ وہ مندمل ہو چکا تھا اور وہاں انگوٹھی کی طرح کا نشان نظر آتا تھا اور وہ اس خیمہ میں واپس چلے گئے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے نصب کروایا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما وہاں پہنچ گئے۔ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں محمد ‏‏‏‏ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، میں اپنے حجرے میں بیٹھی ہوئی عمر اور ابوبکر رضی اللہ عنہما کے رونے کی آواز پہچان رہی تھی، وہ (‏‏‏‏صحابہ کرام) آپس میں ایسے ہی تھے، جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا کہ وہ آپس میں رحمدل ہیں۔ علقمہ نے پوچھا: امی جان! اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا تھا؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: کسی کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو نہیں بہتے تھے، لیکن جب وہ غمگین ہوتے تو اپنی داڑھی مبارک پکڑ لیتے تھے۔
हज़रत आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा से रिवायत है, वह कहती हैं कि मैं ख़ंदक़ की लड़ाई वाले दिन निकली और लोगों के पीछे चल पड़ी। मैं ने चलते हुए पीछे से क़दमों की ज़बरदस्त आवाज़ सुनी। जब मैं ने उधर देखा, तो क्या देखती हूँ कि सअद बिन मआज़ हैं और उन के साथ उन का भतीजा हरिस बिन ओस है, जिस ने ढाल उठा रखी थी। मैं ज़मीन पर बैठ गई। सअद गुज़रे, उन्हों ने लोहे का कवच पहन रखा था और उस के किनारे निकले हुए थे, मुझे डर हुआ कि कहीं इस से सअद का शरीर (घायल न हो जाए)। वह गुज़रते हुए यह कविता पढ़ रहे थे “ज़रा ठहरो कि लड़ाई ज़ोरों पर आ जाए कितनी अच्छी होगी मौत, जब उस का लिखा हुआ समय आ जाए गा।” वह कहती हैं कि मैं खड़ी हुई और एक बाग़ में घुस गई, वहां (पहले से) कुछ मुसलमान मौजूद थे, उन में उमर बिन ख़त्ताब रज़ि अल्लाहु अन्ह भी थे और एक और आदमी भी था, उस ने कवच पहना हुआ था। उमर रज़ि अल्लाहु अन्ह ने मुझ से कहा कि आप यहाँ क्यों आई हैं ? अल्लाह की क़सम आप ने तो बड़ी हिम्मत की है। आप को इस से क्या इतमीनान कि आप पर कोई बला आ पड़े या कहीं भागना पड़ जाए। उमर रज़ि अल्लाहु अन्ह मुझे मलामत करते रहे, यहां तक कि मुझे यह इच्छा होने लगी कि इसी समय ज़मीन फटे और मैं उस में घुस जाऊँ। इधर जब उस बंदे ने कवच उतारा, तो मालूम हुआ कि वह तल्हा बिन उबेदुल्लाह थे। उस ने कहा कि उमर, आप ने तो आज बहुत बातें करदी हैं। आज केवल अल्लाह तआला की ओर ही जाना है। हज़रत आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा कहती हैं कि एक क़ुरैशी मुशरिक, जिस को इब्न अरिक़ह कहते थे उस ने सअद को तीर मारा और कहा कि लो, मैं तो इब्न अरिक़ह हूँ। वह तीर उन के बाज़ू की रग में लगा और वह कट गई। सअद ने अल्लाह तआला से दुआ की, ऐ अल्लाह मुझे (उस समय तक) मौत से बचाना, जब तक बनि क़ुरैज़ह के बारे में मेरी आँखों को ठंडक नसीब न हो जाए। वह जाहिलियत में सअद के मवाली के सहयोगी थे। बस उन के घाव (से बहने वाला ख़ून) रुक गया। इधर अल्लाह तआला ने मुशरिकों पर (तेज़) हवा भेजी और इस लड़ाई में मोमिनों के लिये काफ़ी हुआ, और अल्लाह तआला शक्तिशाली और हावी है। अबु सुफ़ियान अपने साथियों सहित तिहामा में पहुंच गया और उयेनह बिन बदर ने अपने साथियों सहित नज्द में शरण ली। बनि क़ुरैज़ह (के यहूदी) वापस आ गए और क़िले में बंद हो गए और रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम मदीने लोट आए, हथियार उतारे और सअद के लिये मस्जिद में चमड़े का एक तम्बू लगाने का हुक्म दिया। लेकिन इसी बीच में जिब्राईल अलैहिस्सलाम पहुंच गए, उन के दांतों पर धूल चमक रही थी। उन्हों ने कहा (‏‏‏‏ ऐ मुहम्मद) आप ने हथियार उतार दिए ? अल्लाह की क़सम फ़रिश्तों ने तो अभी तक नहीं उतारे। चलिये बनि क़ुरैज़ह की ओर और उन से जंग कीजिए। हज़रत आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा कहती हैं कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने अपनी उम्मत के लिये हथियार उठाए और चलने का एलान कर दिया। रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम निकल पड़े और बनि ग़न्म, जो मस्जिद के पास रहता था, उस के पास से गुज़रे और उस से पूछा “कौन तुम्हारे पास से गुज़रा है ?” उस ने कहा कि दहयह कल्बी गुज़रे हैं, असल में हज़रत दहयह कल्बी की दाढ़ी, दांत और चेहरा जिब्राईल अलैहिस्सलाम के जैसे थे। रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम बनि क़ुरैज़ह के पास पहुंचे और उन की घेराबंदी कर ली, जो पच्चीस दिन तक जारी रही, जब उन पर घेराबंदी ने ज़ोर पकड़ा और उन की मुश्किलें बढ़ गईं, तो उन से कहा गया कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के फ़ैसले को स्वीकार कर लो। उन्हों ने अबू लुबाबह बिन अब्दि अल-मुन्ज़िर से मश्वरा किया, उस ने कहा कि आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम का फ़ैसला तो क़त्ल ही होगा। उन्हों ने कहा तो फिर सअद बिन मआज़ के फ़ैसले को स्वीकार कर लेंगे। रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “सअद बिन मआज़ के फ़ैसले को स्वीकार करलो।” बस उन्हों ने स्वीकार कर लिया। रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने सअद को बुला भेजा। तो एक गधा लाया गया, उस पर खजूर के पेड़ की छाल की पालान थी, हज़रत सअद रज़ि अल्लाहु अन्ह को उस पर सवार कर दिया गया, उन की क़ौम ने उन को घेर लिया और कहा कि ऐ अबु अमरो, वे (बनि क़ुरैज़ह वाले) आप के समर्थक भी हैं, सहयोगी भी हैं, हारे हुए और तबाह भी हैं और तुम जानते हो कि वह ऐसे ऐसे भी हैं। लेकिन उन्हों ने न उन का जवाब दिया और न उन की ओर ध्यान किया (चलते गए) जब उन के घरों के पास जा पहुंचे तो अपनी क़ौम की ओर ध्यान किया और कहा, अब वह समय आ गया है कि मैं अल्लाह तआला के बारे में किसी मलामत करने वाले की मलामत की परवाह न करूँ। अबु सईद कहते हैं कि जब वह रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम के सामने जा पहुंचे तो आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “(उठो) अपने सरदार की ओर जाओ और उन को (सवारी से) उतारो।” हज़रत उमर रज़ि अल्लाहु अन्ह ने कहा कि हमारा सरदार तो अल्लाह है। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “उन को उतारो” बस उन्हों ने उन को उतारा। रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “सअद, इन के बारे में फ़ैसला करो” हज़रत सअद रज़ि अल्लाहु अन्ह ने कहा, मैं यह फ़ैसला करता हूँ कि इन के योद्धाओं को क़त्ल कर दिया जाए, इन के बच्चों को क़ैदी बना लिया जाए और इन के मालों को (मुसलमनों में) बांट दिया जाए। रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “तू ने तो वही फ़ैसला किया जो अल्लाह तआला और उस के रसूल का फ़ैसला था।” हज़रत आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा कहती हैं फिर सअद रज़ि अल्लाहु अन्ह ने यह दुआ की, ऐ अल्लाह यदि तू ने अभी तक अपने नबी के नसीब में क़ुरैश से लड़ना लिखा हुआ है, तो मुझे इस के लिये जीवित रख और यदि इन के बीच जंग और विवाद ख़त्म हो गया है, तो मुझे अपने पास बुला ले। वह कहती हैं कि उन का घाव फूट पड़ा, हालांकि वह भर चूका था और वहां अंगूठी की तरह का निशान नज़र आता था और वह उस तम्बू में वापस चले गए, जो नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने उन के लिये लगवाया था। हज़रत आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा कहती हैं कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम, अबु बक्र और उमर रज़ि अल्लाहु अन्हुमा वहां पहुंच गए। उस ज़ात की क़सम जिस के हाथ में मुहम्मद सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम की जान है, मैं अपने हुजरे में बैठी हुई उमर और अबु बक्र रज़ि अल्लाहु अन्हुमा के रोने की आवाज़ पहचान रही थी, वह (सहाबा कराम) आपस में ऐसे ही थे, जैसे अल्लाह तआला ने उन के बारे में फ़रमाया कि “वे आपस में रहम दिल हैं”। अलक़मह ने पूछा, अम्मी जान उस समय रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने क्या किया था ? हज़रत आयशा रज़ि अल्लाहु अन्हा ने जवाब दिया कि किसी के लिये आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम की आंखों से आंसू नहीं बहते थे, लेकिन जब वह उदास होते तो अपनी मुबारक दाढ़ी पकड़ लेते थे।
سلسله احاديث صحيحه ترقیم البانی: 67

قال الشيخ الألباني:
- " قوموا إلى سيدكم فأنزلوه، فقال عمر: سيدنا الله عز وجل، قال: أنزلوه، فأنزلوه ".
‏‏‏‏_____________________
‏‏‏‏
‏‏‏‏أخرجه الإمام أحمد (6 / 141 - 142) عن محمد بن عمرو عن أبيه عن علقمة
‏‏‏‏ابن وقاص، قال: أخبرتني عائشة قالت:
‏‏‏‏" خرجت يوم الخندق أقفو آثار الناس، قالت: فسمعت وئيد الأرض ورائي، يعني حس
‏‏‏‏الأرض، قالت: فالتفت، فإذا أنا بسعد بن معاذ ومعه ابن أخيه الحارث بن أوس
‏‏‏‏يحمل مجنه، قالت: فجلست إلى الأرض، فمر سعد وعليه درع من حديد قد خرجت منها
‏‏‏‏أطرافه، فأنا أتخوف على أطراف سعد، قالت: فمر وهو يرتجز ويقول:
‏‏‏‏ليت قليلا يدرك الهيجا جمل ما أحسن الموت إذا حان الأجل قالت: فقمت فاقتحمت
‏‏‏‏حديقة، فإذا فيها نفر من المسلمين، وإذا فيهم عمر ابن الخطاب، وفيهم رجل
‏‏‏‏عليه سبغة له، يعني: مغفرا، فقال عمر: ما جاء بك؟
‏‏‏‏__________جزء : 1 /صفحہ : 143__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏لعمري والله إنك لجريئة
‏‏‏‏! وما يؤمنك أن يكون بلاء أو يكون تحوز؟ قالت: فمازال يلومني حتى تمنيت أن
‏‏‏‏الأرض انشقت لي ساعتئذ فدخلت فيها! قالت: فرفع الرجل السبغة عن وجهه فإذا
‏‏‏‏طلحة بن عبيد الله، فقال: يا عمر إنك قد أكثرت منذ اليوم، وأين التحوز
‏‏‏‏أو الفرار إلا إلى الله عز وجل؟ قالت: ويرمي سعدا رجل من المشركين من قريش
‏‏‏‏يقال له: ابن العرقة بسهم له، فقال له: خذها وأنا ابن العرقة، فأصاب أكحله
‏‏‏‏فقطعه، فدعا الله عز وجل سعد فقال: اللهم لا تمتني حتى تقر عيني من قريظة،
‏‏‏‏قالت: وكانوا حلفاء مواليه في الجاهلية، قالت: فرقى كلمه، (أي جرحه)
‏‏‏‏وبعث الله عز وجل الريح على المشركين، فكفى الله المؤمنين القتال وكان الله
‏‏‏‏قويا عزيزا، فلحق أبو سفيان ومن معه بتهامة، ولحق عيينة بن بدر ومن معه
‏‏‏‏بنجد، ورجعت بنو قريظة فتحصنوا في صياصيهم، ورجع رسول الله صلى الله عليه
‏‏‏‏وسلم إلى المدينة، فوضع السلاح وأمر بقبة من أدم فضربت على سعد في المسجد،
‏‏‏‏قالت: فجاء جبريل عليه السلام وإن على ثناياه لنقع الغبار فقال: أو قد وضعت
‏‏‏‏السلاح؟ والله ما وضعت الملائكة بعد السلاح، اخرج إلى بني قريظة فقاتلهم.
‏‏‏‏قالت: فلبس رسول الله صلى الله عليه وسلم لأمته وأذن في الناس بالرحيل أن
‏‏‏‏يخرجوا. فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فمر على بني غنم، وهم جيران
‏‏‏‏المسجد حوله، فقال: من مر بكم؟ قالوا: مر بنا دحية الكلبي، وكان دحية
‏‏‏‏الكلبي تشبه لحيته وسنه ووجهه جبريل عليه السلام، فقالت: فأتاهم رسول الله
‏‏‏‏صلى الله عليه وسلم فحاصرهم خمسا وعشرين ليلة، فلما اشتد حصرهم، واشتد
‏‏‏‏البلاء قيل لهم: انزلوا على حكم رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فاستشاروا
‏‏‏‏أبا لبابة بن عبد المنذر فأشار إليهم أنه الذبح، قالوا: ننزل على حكم سعد
‏‏‏‏بن معاذ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : انزلوا على حكم سعد بن معاذ،
‏‏‏‏فنزلوا، وبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى سعد بن معاذ، فأتي به على
‏‏‏‏حمار عليه أكاف من ليف، وقد حمل عليه، وحف به قومه فقالوا: يا أبا عمرو
‏‏‏‏حلفاؤك ومواليك وأهل النكاية ومن قد علمت، فلم يرجع إليهم شيئا ولا يلتفت
‏‏‏‏__________جزء : 1 /صفحہ : 144__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏إليهم، حتى إذا دنا من دورهم التفت إلى قومه فقال: قد آن أن لا أبالي في الله
‏‏‏‏لومة لائم، قال: قال أبو سعيد: فلما طلع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:
‏‏‏‏قوموا إلى سيدكم ... الحديث، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : احكم فيهم،
‏‏‏‏قال سعد: فإني أحكم أن تقتل مقاتلهم، وتسبى ذراريهم، وتقسم أموالهم. فقال
‏‏‏‏رسول الله صلى الله عليه وسلم : لقد حكمت بحكم الله عز وجل وحكم رسوله، قالت
‏‏‏‏: ثم دعا سعد، قال: اللهم إن كنت أبقيت على نبيك صلى الله عليه وسلم من حرب
‏‏‏‏قريش شيئا فأبقني لها، وإن كنت قطعت الحرب بينه وبينهم فاقبضني إليك، قالت
‏‏‏‏: فانفجر كلمه، وكان قد برئ حتى ما يرى منه إلا مثل الخرص ورجع إلى قبته
‏‏‏‏التي ضرب عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ، قالت عائشة: فحضره رسول الله
‏‏‏‏صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وعمر، قالت:
‏‏‏‏فوالذي نفس محمد بيده إني لأعرف بكاء عمر من بكاء أبي بكر وأنا في حجرتى،
‏‏‏‏وكانوا كما قال الله عز وجل: (رحماء بينهم) قال علقمة: قلت: أي أمه فكيف
‏‏‏‏كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع؟ قالت: كانت عينه لا تدمع على أحد
‏‏‏‏ولكنه كان إذا وجد فإنما هو آخذ بلحيته ".
‏‏‏‏قلت: وهذا إسناد حسن. وقال الهيثمي في " مجمع الزوائد " (6 / 128) :
‏‏‏‏" رواه أحمد وفيه محمد بن عمرو بن علقمة وهو حسن الحديث، وبقية رجاله
‏‏‏‏ثقات ".
‏‏‏‏وقال الحافظ في " الفتح " (11 / 43) : " وسنده حسن ".
‏‏‏‏قلت: وأخرجه البخاري (4 / 175) ، وأبو داود (5215) ، وأحمد (2 / 22،
‏‏‏‏71) ، وأبو يعلى
‏‏‏‏__________جزء : 1 /صفحہ : 145__________
‏‏‏‏
‏‏‏‏في " مسنده " (ق 77 / 2) ، من حديث أبي سعيد الخدري:
‏‏‏‏" أن أهل قريظة نزلوا على حكم سعد، فأرسل النبي صلى الله عليه وسلم إليه،
‏‏‏‏فجاء، فقال: قوموا إلى سيدكم، أو قال: خيركم، فقعد عند النبي صلى الله
‏‏‏‏عليه وسلم، فقال: هؤلاء نزلوا على حكمك، قال: فإني أحكم أن تقتل مقاتلهم،
‏‏‏‏وتسبى ذراريهم، فقال: لقد حكمت بما حكم به الملك ".
‏‏‏‏فائدتان
‏‏‏‏1ـ اشتهر رواية هذا الحديث بلفظ: " لسيدكم "، والرواية في الحديثين كما
‏‏‏‏رأيت: " إلى سيدكم "، ولا أعلم للفظ الأول أصلا، وقد نتج منه خطأ فقهي
‏‏‏‏وهو الاستدلال به على استحباب القيام للقادم كما فعل ابن بطال وغيره، قال
‏‏‏‏الحافظ محمد بن ناصر أبو الفضل في " التنبيه على الألفاظ التي وقع في نقلها
‏‏‏‏وضبطها تصحيف وخطأ في تفسيرها ومعانيها وتحريف في كتاب الغريبين عن أبي
‏‏‏‏عبيد الهروي " (ق 17 / 2) :
‏‏‏‏ومن ذلك ما ذكره في هذا الباب من ذكر السيد، وقال كقوله لسعد حين قال:
‏‏‏‏" قوموا لسيدكم ". أراد أفضلكم رجلا.
‏‏‏‏قلت: والمعروف أنه قال: " قوموا إلى سيدكم ". قاله صلى الله عليه وسلم
‏‏‏‏لجماعة من الأنصار لما جاء سعد بن معاذ محمولا على حمار وهو جريح ... أي
‏‏‏‏أنزلوه وحملوه، لا قوموا له، من القيام له فإنه أراد بالسيد: الرئيس
‏‏‏‏والمتقدم عليهم، وإن كان غيره أفضل منه ".
‏‏‏‏2 - اشتهر الاستدلال بهذا الحديث على مشروعية القيام للداخل، وأنت إذا تأملت
‏‏‏‏في سياق القصة يتبين لك أنه استدلال ساقط من وجوه كثيرة أقواها قوله صلى الله
‏‏‏‏عليه وسلم " فأنزلوه " فهو نص قاطع على أن الأمر بالقيام إلى سعد إنما كان
‏‏‏‏لإنزاله من أجل كونه مريضا، ولذلك قال الحافظ: " وهذه الزيادة تخدش في
‏‏‏‏الاستدلال بقصة سعد على مشروعية القيام المتنازع فيه. وقد احتج به النووي
‏‏‏‏في (كتاب القيام) ... ".
‏‏‏‏__________جزء : 1 /صفحہ : 146__________ ¤


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.