- (ما تعدون الرقوب فيكم؟ قال: قلنا: الذي لا يولد له. قال: ليس ذاك بالرقوب، ولكنه الرجل الذي لم يقدم من ولده شيئا. قال: فما تعدون الصرعة فيكم؟ قال: قلنا: الذي لا يصرعه الرجال. قال: ليس بذلك، ولكنه الذي يملك نفسه عند الغضب).- (ما تَعُدُّون الرَّقُوب فيكم؟ قال: قلنا: الذي لا يولدُ له. قالَ: ليسَ ذاكَ بالرّقُوبِ، ولكنّه الرّجلُ الذي لم يقدِّم من ولده شيئاً. قال: فما تعدُّون الصُّرَعةَ فيكُم؟ قال: قلنا: الذي لا يصرَعُه الرجِال. قال: ليسَ بذلكَ، ولكنّه الذي يملِكُ نفسهُ عند الغَضَبِ).
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے مابین کس کو ” «رقوب» “ یعنی لاولد شمار کرتے ہو؟“ صحابہ نے کہا: جس کی اولاد نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے آدمی کو «رقوب» نہیں کہتے، بلکہ ایسے شخص کو کہتے ہیں جس نے اپنی اولاد میں سے ( کوئی بچہ) آگے نہ بھیجا ہو۔ ( یعنی اس کا کوئی بچہ فوت نہ ہوا ہو)“ پھر فرمایا: ”تم کس کو زبردست پہلوان شمار کرتے ہو؟“ صحابہ نے کہا: جسے کوئی آدمی پچھاڑ نہ سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا شخص تو پہلوان نہیں ہوتا، بلکہ پہلوان تو وہ ہے جو غصے کی وقت اپنے نفس پر قابو پا لے۔“
- (اجل، فلا ترد عليه، ولكن قل: غفر الله لك يا ابا بكر! غفر الله لك يا ابا بكر!).- (أجل، فلا ترُدَّ عليهِ، ولكن قل: غفر اللهُ لك يا أبا بكرٍ! غفر الله لك يا أبا بكرٍ!).
سیدنا ربیعہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زمین دی اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی زمین دی۔ ہم پر دنیا غالب آ گئی، کھجور کے ایک درخت کے بارے میں ہمارا جھگڑا ہو گیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ میری زمین کی حد میں ہے۔ میں نے کہا: یہ میری حد میں ہے۔ میرے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے درمیان سخت کلامی ہوئی تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایسا کلمہ کہا جس کو میں نے ناپسند کیا اور وہ خود بھی شرمندہ ہوئے۔ (بالآخر) انہوں نے مجھے کہا: اے ربیعہ! مجھے یہی کلمہ کہو تاکہ بدلہ ہو جائے۔ لیکن میں نے کہا کہ میں ایسا نہیں کروں گا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تجھے ضرور کہنا پڑے گا، ورنہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فریاد کروں گا۔ میں نے کہا: میں ایسا (جملہ) نہیں کہوں گا۔ ربیعہ کہتے ہیں: ابوبکر رضی اللہ عنہ زمین چھوڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیے، میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا۔ بنو اسلم قبیلہ کے چند لوگ آئے اور انہوں نے کہا: اللہ ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے، بھلا وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے کس چیز کے متعلق تیرے خلاف فریاد کریں گے۔ حالانکہ انہوں نے جو کچھ کہنا تھا وہ کہہ چکے۔ میں نے کہا: تم جانتے ہو کہ یہ کون ہے؟ یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، (غار ثور) کے دونوں میں سے دوسرے وہ تھے اور وہ مسلمانوں کے بزرگ ہیں۔ پس تم بچو (کہیں ایسا نہ ہو) کہ وہ تم کو اپنے خلاف میری مدد کرتے ہوئے دیکھ کر غصے ہو جائیں، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں اور آپ اس کے غصے کی وجہ سے ناراض ہو جائیں اور پھر اللہ تعالیٰ ان دونوں کی ناراضگی کی وجہ سے ناراض ہو جائے اور ربیعہ ہلاک ہو جائے۔ انہوں نے کہا: تو (پھر ایسے میں) تم ہمیں کیا حکم دیتے ہو؟ اس نے کہا: تم چلے جاؤ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلے اور میں بھی اکیلا ہی ان کے پیچھے چل پڑا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور جیسی بات تھی ویسے ہی بیان کر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر میری طرف اٹھایا اور فرمایا: ”اے ربیعہ تیرے اور صدیق کے مابین کیا معاملہ ہے؟“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! معاملہ تو ایسے ایسے تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایسا کلمہ کہا جس کو میں نے ناپسند کیا، پھر انہوں نے مجھے یہ بھی کہا کہ میں بھی ان کو وہی بات کہہ دوں تاکہ لے پلے ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھیک ہے، تم نے اب (قصاصًا) وہ بات دوہرانی نہیں ہے، بلکہ یہ کہنا ہے کہ اے ابوبکر! اللہ تجھے معاف کر دے۔ اے ابوبکر! اللہ تجھے معاف کر دے۔“ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے تو وہ رو رہے تھے۔
-" عليك بحسن الخلق وطول الصمت، فوالذي نفسي بيده ما عمل الخلائق بمثلهما".-" عليك بحسن الخلق وطول الصمت، فوالذي نفسي بيده ما عمل الخلائق بمثلهما".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے ملے اور فرمایا: ”اے ابوذر! کیا میں تجھے دو خوبیوں سے آگاہ نہ کر دوں، جن کی ادائیگی آسان ہے، لیکن وہ ترازو میں دیگر تمام نیکیوں سے بھاری ہوں گی؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں! اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو حسن خلق اور طویل خاموشی کو لازم پکڑ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! مخلوقات نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو (ان دو نیکیوں کے) برابر ہو۔“
-" احفظ لسانك. ثكلتك امك معاذ! وهل يكب الناس على وجوههم إلا السنتهم".-" احفظ لسانك. ثكلتك أمك معاذ! وهل يكب الناس على وجوههم إلا ألسنتهم".
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے مرسلاً مروی ہے: اے معاذ! تیری ماں تجھے گم پائے، تو اپنی زبان کی حفاظت کیا کر، کیونکہ لوگوں کو جہنم میں ان کی زبانوں کی وجہ سے ہی پھینکا جائے گا۔“
-" إذا اتى احدكم خادمه بطعام قد ولى حره ومشقته ومؤنته فليجلسه معه: فإن ابى فليناوله اكلة في يده".-" إذا أتى أحدكم خادمه بطعام قد ولى حره ومشقته ومؤنته فليجلسه معه: فإن أبى فليناوله أكلة في يده".
سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”غلام تمہارا بھائی ہے، پس جب وہ تیرے لیے کھانا بنائے تو اسے اپنے پاس بٹھا لے ( تاکہ وہ بھی کھا لے)، اگر وہ انکار کر دے تو اسے کھانا کھلا دیا کر اور ان کے چہروں پر نہ مارا کرو۔“
-" إذا اتى احدكم خادمه بطعام قد ولى حره ومشقته ومؤنته فليجلسه معه: فإن ابى فليناوله اكلة في يده".-" إذا أتى أحدكم خادمه بطعام قد ولى حره ومشقته ومؤنته فليجلسه معه: فإن أبى فليناوله أكلة في يده".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کے لیے اس کا خادم کھانا لائے، چونکہ وہی کھانے کی حرارت اور محنت و مشقت برداشت کرتا ہے، اس لیے (مالک کو) چاہئے کہ وہ اسے اپنے ساتھ بٹھا لے، اگر وہ ایسا کرنے سے انکار کرے تو اسے اس کے ہاتھ میں کھانا تھما دے۔“
-" إذا جاء خادم احدكم بطعامه قد كفاه حره وعمله، فإن لم يقعده معه لياكل، فليناوله اكلة من طعامه".-" إذا جاء خادم أحدكم بطعامه قد كفاه حره وعمله، فإن لم يقعده معه ليأكل، فليناوله أكلة من طعامه".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کا خادم اس کا کھانا لائے، تو چونکہ اس نے ( کھانا پکانے کی) حرارت اور (مزید) محنت و مشقت برداشت کی ہوتی ہے، (اس لیے مالک کو چاہئیے کہ اسے اپنے ساتھ بٹھا لے تاکہ وہ بھی کھانا تناول کر سکے) اگر وہ اسے کھانے کے لیے اپنے ساتھ نہ بٹھانا چاہے تو اسے کچھ کھانا تھما دیا کرے۔“
-" ارقاءكم، ارقاءكم، اطعموهم مما تاكلون واكسوهم مما تلبسون، فإن جاءوا بذنب لا تريدون ان تغفروه فبيعوا عباد الله ولا تعذبوهم".-" أرقاءكم، أرقاءكم، أطعموهم مما تأكلون واكسوهم مما تلبسون، فإن جاءوا بذنب لا تريدون أن تغفروه فبيعوا عباد الله ولا تعذبوهم".
سیدنا یزید بن جاریہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: ”اپنے غلاموں کا خیال رکھنا، اپنے غلاموں کا خیال رکھنا، اپنے غلاموں کا خیال رکھنا۔ جیسا خود کھاتے ہو ویسا ان کو بھی کھلاؤ۔ جیسا خود پہنتے ہو ویسا ان کو بھی پہناؤ۔ اگر وہ کوئی ایسا گناہ کر بیٹھیں جو تم معاف نہیں کرنا چاہتے تو اللہ کے ان بندوں کو بیچ دو اور ان کو عذاب نہ دو۔“
-" اعفوا عنه (يعني الخادم) في كل يوم سبعين مرة".-" اعفوا عنه (يعني الخادم) في كل يوم سبعين مرة".
عباس بن جلید حجری سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے ہوئے سنا: ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! ہم کتنی دفعہ خادم سے درگزر کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ اس نے پھر یہی جملہ دہرایا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش رہے۔ جب اس نے تیسری مرتبہ کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزانہ ستر بار درگزر کیا کرو۔“
-" إذا احب احدكم اخاه في الله فليبين له، فإنه خير في الإلفة وابقى في المودة".-" إذا أحب أحدكم أخاه في الله فليبين له، فإنه خير في الإلفة وأبقى في المودة".
علی بن حسین سے مرسلاً روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو اپنے بھائی سے الله تعالیٰ کے لیے محبت ہو تو وہ اس پر واضح کر دے، کیونکہ یہ وضاحت الفت میں بہتری اور محبت کو تادیر رکھنے والی ہے۔“