-" ما ابتلى الله عبدا ببلاء وهو على طريقة يكرهها، إلا جعل الله ذلك البلاء له كفارة وطهورا، ما لم ينزل ما اصابه من البلاء بغير الله، او يدعو غير الله في كشفه".-" ما ابتلى الله عبدا ببلاء وهو على طريقة يكرهها، إلا جعل الله ذلك البلاء له كفارة وطهورا، ما لم ينزل ما أصابه من البلاء بغير الله، أو يدعو غير الله في كشفه".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ام عبداللہ بنت ابو ذباب کو تکلیف تھی، میں تیمارداری کرنے کے لیے ان کے پاس گیا۔ انہوں نے کہا: اے ابوہریرہ! ایک دفعہ میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا، جو کہ بیمار تھیں، کی تیمارداری کرنے کے لیے ان کے پاس گئی۔ انہوں نے میرے ہاتھ پر نکلا ہوا پھوڑا دیکھا تو کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”جب اللہ تعالیٰ بندے کو آزماتا ہے اور وہ اپنی حالت و کیفیت کی بنا پر اسے ناپسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس تکلیف کو اس کے گناہوں کا کفارہ اور اسے پاک کرنے کا سبب بنا دیتا ہے، جب تک وہ لاحق ہونے والی بیماری (سے شفا حاصل کرنے کے لیے) اس کو غیر اللہ کے در پر پیش نہیں کرتا یا اسے دور کرنے کے لیے غیر اللہ کو نہیں پکارتا۔“
-" إن الله تعالى يقول: إذا ابتليت عبدا من عبادي مؤمنا، فحمدني وصبر على ما ابتليته به، فإنه يقوم من مضجعه ذلك كيوم ولدته امه من الخطايا، ويقول الرب للحفظة: إني انا قيدت عبدي هذا وابتليته، فاجروا (له) من الاجر ما كنتم تجرون له قبل ذلك وهو صحيح".-" إن الله تعالى يقول: إذا ابتليت عبدا من عبادي مؤمنا، فحمدني وصبر على ما ابتليته به، فإنه يقوم من مضجعه ذلك كيوم ولدته أمه من الخطايا، ويقول الرب للحفظة: إني أنا قيدت عبدي هذا وابتليته، فأجروا (له) من الأجر ما كنتم تجرون له قبل ذلك وهو صحيح".
ابو اشعث صنعانی کہتے ہیں: میں مسجد دمشق کی طرف گیا اور اول وقت میں گیا، مجھے شداد بن اوس رضی اللہ عنہ ملے، ان کے ساتھ صنابحی بھی تھے۔ میں نے ان سے پوچھا: اللہ تم پر رحم کرے، کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا: ہم اپنے ایک بھائی کی تیمارداری کرنے کے لیے جا رہے، (یہ سن کر) میں بھی ان کے ساتھ چل دیا۔ ہم اس مریض کے پاس پہنچ گئے۔ ان دونوں نے اس سے پوچھا: حالات کیسے ہیں؟ اس نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے۔ سیدنا شداد رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: جب میں اپنے مومن بندے کو آزماتا ہوں اور وہ میری تعریف کرتے ہوئے میری آزمائش پر صبر کرتا ہے تو (شفا یاب ہو کر) اپنے بستر سے اس دن کی طرح گناہ سے پاک ہو کر اٹھتا ہے جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ اعمال لکھنے والے فرشتوں سے فرماتے ہیں: میں نے اپنے اس بندے کو پابند کر لیا ہے اور اسے آزما رہا ہوں، تم اس کی تندرستی کی حالت میں اس کے (اعمال پر) جو جو لکھتے تھے اس کو برقرار رکھو (اگرچہ یہ عمل نہیں کر رہا)۔“
-" إن عظم الجزاء مع عظم البلاء، وإن الله إذا احب قوما ابتلاهم، فمن رضي فله الرضا، ومن سخط فله السخط".-" إن عظم الجزاء مع عظم البلاء، وإن الله إذا أحب قوما ابتلاهم، فمن رضي فله الرضا، ومن سخط فله السخط".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اجر و ثواب میں اضافہ آزمائش میں اضافے کے ساتھ ہے (یعنی آزمائش جتنی عظیم ہو گی، اس کا بدلہ بھی اسی قدر عظیم ہو گا) اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو پسند فرماتا ہے تو ان کو آزمائش سے دو چار کر دیتا ہے، پس جو اس میں صبر و رضا کا مظاہرہ کرتا ہے، اس کے لیے (اللہ کی) رضا ہے اور جو اس کی وجہ سے اللہ سے ناراضگی اور برہمی کا اظہار کرتا ہے، اس کے لیے (اللہ کی) ناراضی ہے۔“
-" إن الرجل ليكون له عند الله المنزلة، فما يبلغها بعمل، فما يزال الله يبتليه بما يكره حتى يبلغه إياها".-" إن الرجل ليكون له عند الله المنزلة، فما يبلغها بعمل، فما يزال الله يبتليه بما يكره حتى يبلغه إياها".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک آدمی کے لیے بلند مرتبے کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے، لیکن وہ اپنے اعمال کے بل بوتے پر وہاں تک رسائی حاصل نہیں کر رہا ہوتا، اس لیے اللہ تعالیٰ اسے (ایسی) آزمائشوں کے ساتھ آزماتا رہتا ہے جنہیں وہ ناپسند کرتا ہے، یہاں تک کے وہ اپنے (معینہ) مرتبے تک پہنچ جاتا ہے۔“
-" إن شئت دعوت الله لك فشفاك، وإن شئت صبرت ولا حساب عليك".-" إن شئت دعوت الله لك فشفاك، وإن شئت صبرت ولا حساب عليك".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جنون والی کیفیت میں مبتلا ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے شفا عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو چاہتی ہے تو میں دعا کر دیتا ہوں، اللہ تعالیٰ تجھے شفا دے دے گا اور اگر چاہتی ہے تو صبر کر لے، (اس کے نتیجے میں) تجھ پر کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا۔“
-" لا تسبي الحمى، فإنها تذهب خطايا بني آدم كما يذهب الكير خبث الحديد".-" لا تسبي الحمى، فإنها تذهب خطايا بني آدم كما يذهب الكير خبث الحديد".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سائب یا ام مسیب کے پاس آئے اور پوچھا: ”ام سائب! تجھے کیا ہو گیا ہے؟ کانپ رہی ہو۔“ انہوں نے جواب دیا: بخار ہے، اللہ اس کو بے برکتا کر دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخار کو برا بھلا مت کہہ، یہ تو بنی آدم کے گناہوں کو اس طرح صاف کر دیتا ہے جیسے دھونکنی لوہے کی کھوٹ کو دور کر دیتی ہے۔“
-" ما اختلج عرق ولا عين إلا بذنب، وما يدفع الله عنه اكثر".-" ما اختلج عرق ولا عين إلا بذنب، وما يدفع الله عنه أكثر".
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بھی کسی رگ یا آنکھ کو نقصان پہنچتا ہے تو وہ کسی نہ کسی گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے، لیکن جو تکالیف اللہ تعالیٰ ویسے ہی ٹالتا رہتا ہے وہ کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔“
-" ليس من عمل يوم إلا وهو يختم عليه، فإذا مرض المؤمن قالت الملائكة: يا ربنا! عبدك فلان قد حبسته، فيقول الرب: اختموا له على مثل عمله حتى يبرا او يموت".-" ليس من عمل يوم إلا وهو يختم عليه، فإذا مرض المؤمن قالت الملائكة: يا ربنا! عبدك فلان قد حبسته، فيقول الرب: اختموا له على مثل عمله حتى يبرأ أو يموت".
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں ہے کسی دن کا کوئی عمل، مگر عمل کرنے والے کا اسی پر خاتمہ ہوتا ہے، (اس کی تفصیل یہ ہے کہ) جب مومن بیمار ہو جاتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! تو نے فلاں بندے کو (عمل کرنے سے) روک لیا ہے (اب اس کے نیک اعمال کے بارے میں کیا کیا جائے؟) اللہ تعالیٰ جواباً فرماتے ہیں: اس بندے کے شفایاب ہونے تک یا فوت ہونے تک اسی عمل کا اعتبار کرو جس پر یہ بندہ (بیمار ہونے سے پہلے قائم) تھا۔“
-" إن البلايا اسرع إلى من يحبني من السيل إلى منتهاه".-" إن البلايا أسرع إلى من يحبني من السيل إلى منتهاه".
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! بخدا! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ سے محبت کرنے والوں پر آزمائشیں اس طرح ٹوٹ پڑتی ہیں جیسے سیلاب کا بہاؤ (تیزی کے ساتھ) اپنی جائے انتہا تک پہنچتا ہے۔“