-" لا تقولوا: ما شاء الله وشاء فلان، ولكن قولوا: ما شاء الله ثم شاء فلان".-" لا تقولوا: ما شاء الله وشاء فلان، ولكن قولوا: ما شاء الله ثم شاء فلان".
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس طرح نہ کہا: کرو کہ (وہی ہوتا ہے یا ہو گا) جو اللہ تعالیٰ چاہے گا اور فلاں چاہے گا، بلکہ یوں کہا کرو کہ (وہ ہوا یا ہوتا ہے یا ہو گا) جو اللہ تعالیٰ چاہے گا اور پھر فلاں چاہے گا۔“
- (لا تحلفوا بآبائكم (وفي رواية: بغير الله)، وإذا خلوتم؛ فلا تستقبلوا القبلة ولا تستدبروها، ولا تستنجوا بعظم ولا ببعر).- (لا تحلفُوا بآبائِكم (وفي رواية: بغيرِ الله)، وإذا خلوتُم؛ فلا تستقبلُوا القِبلةَ ولا تستدبرُوها، ولا تستنجُوا بعظمٍ ولا بِبَعرٍ).
سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بیان کیا: ”تو اہل مکہ کی طرف میرا قاصد ہے، ان کو میرا سلام کہنا اور ان کو بتلانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں تین چیزوں کا حکم دیتے ہیں: ?? اپنے آباء و اجداد (اور ایک روایت کے مطابق غیر اللہ) کی قسمیں نہ اٹھاؤ، ② جب تم قضائے حاجت کرو تو قبلہ کی طرف منہ کرو نہ پیٹھ اور ③ اور ہڈی اور مینگنی کے ساتھ استنجا نہ کرو۔“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: میں نے رات کو ایک خواب دیکھا، کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سائباں ہے، اس سے گھی اور شہد ٹپک رہا تھا، میں نے دیکھا کہ لوگ اس سے چلو بھر رہے ہیں، کوئی زیادہ لے رہا ہے اور کوئی کم۔ ادھر ایک رسی ہے جو زمین سے آسمان تک پہنچ رہی ہے۔ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے اس کو پکڑا اور اوپر چڑھ گئے، پھر ایک دوسرے آدمی نے اس کو پکڑا اور وہ بھی چڑھ گیا، پھر ایک تیسرے آدمی نے پکڑا، اور وہ بھی اوپر چڑھ گیا، پھر ایک آدمی نے اس کو پکڑا لیکن وہ رسی ٹوٹ گئی، پھر اسے جوڑا گیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ مجھے اجازت دیں میں اس کی تعبیر بیان کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ٹھیک ہے) تم اس کی تعبیر بیان کرو۔“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: سائبان اسلام ہے اور اس سے ٹپکنے والے شہد اور گھی سے مراد قرآن کی مٹھاس ہے۔ پس کوئی قرآن کا زیادہ حصہ سیکھنے والا ہے اور کوئی کم اور جو آسمان سے زمین تک پہنچنے والی رسی ہے، وہ حق ہے، جس پر آپ قائم ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے ذریعے سربلند فرمائے گا۔ پھر اس کو ایک آدمی پکڑے گا، وہ بھی اس کے ساتھ بلندی پر فائز ہو گا، پھر اس کو ایک دوسرا آدمی پکڑے گا وہ اس کے ساتھ بلند ہو گا، پھر اس کو تیسرا آدمی پکڑے گا، پس وہ ٹوٹ جائے گی۔ پھر اس کو جوڑا جائے گا، پھر وہ اس کے ساتھ بلند ہو گا، اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے بتلائیے میری یہ بیان کردہ تعبیر صحیح ہے یا غلط؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بعض حصہ درست بیان کیا اور بعض میں غلطی کی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! آپ ضرور میری غلطی کو بیان کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر! قسم نہ اٹھاؤ۔“
-" احلفوا بالله وبروا واصدقوا، فإن الله يكره ان يحلف إلا به".-" احلفوا بالله وبروا واصدقوا، فإن الله يكره أن يحلف إلا به".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم اٹھایا کرو، اسے پورا کیا کرو اور سچ بولا کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ غیر کی قسم اٹھانے کو ناپسند کرتا ہے۔“
-" قولوا: ما شاء الله ثم شئت، وقولوا: ورب الكعبة".-" قولوا: ما شاء الله ثم شئت، وقولوا: ورب الكعبة".
جہینہ قبیلے کی خاتون سیدہ قتیلہ بنت صیفی رضی اللہ عنہما کہتی ہیں: ایک یہودی عالم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: تم لوگ شرک کرتے ہو، تم کہتے ہو: (وہ ہوتا ہے) جو اللہ چاہے اور تم چاہو۔ نیز تم یہ بھی کہتے ہو: کعبہ کی قسم۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کہا کرو: (وہ ہوتا ہے) جو اللہ چاہے اور پھر تم چاہو اور قسم اٹھاتے وقت کہا کرو: رب کعبہ کی قسم۔“
-" ليس منا من حلف بالامانة، ومن خبب على امرئ زوجته او مملوكه فليس منا".-" ليس منا من حلف بالأمانة، ومن خبب على امرئ زوجته أو مملوكه فليس منا".
عبداللہ بن بریدہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے امانت کی قسم اٹھائی وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے کسی آدمی کے حق میں اس کی بیوی یا خادم کو خراب کر دیا، وہ بھی ہم میں سے نہیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جھوٹی قسم سودا تو بیچنے والی ہے، لیکن کمائی مٹا دینے والی ہے۔“ اور ایک روایت کے لفظ ہیں: ”برکت مٹا دینے والی ہے۔“
- (من اقتطع مال امرئ مسلم؛ بيمين كاذبة؛ كانت نكتة سوداء في قلبه، لا يغيرها شيء إلى يوم القيامة).- (من اقتطع مال امرئ مسلم؛ بيمين كاذبة؛ كانت نكتة سوداء في قلبه، لا يغيرها شيء إلى يوم القيامة).
سیدنا ابوامامہ بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے جھوٹی قسم کے ساتھ کسی مسلمان کے مال پر قبضہ کیا، اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے، جس کو قیامت تک کوئی چیز نہیں مٹا سکتی۔“