- (الا اخبركم بخير الشهداء؟! الذي ياتي بشهادته قبل ان يسالها).- (ألا أخبرُكم بخيرِ الشُّهداءِ؟! الذي يأتي بشهادتِه قبل أن يُسأَلَها).
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں افضل گواہوں کے بارے میں بتلاؤں؟ وہ ہیں جو مطالبہ کرنے سے پہلے گواہی دے دیتے ہیں۔“
-" العارية مؤداة والمنحة مرودة ومن وجد لقطة مصراة، فلا يحل له صرارها حتى يريها".-" العارية مؤداة والمنحة مرودة ومن وجد لقطة مصراة، فلا يحل له صرارها حتى يريها".
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عاریۃ لی ہوئی چیز واپس کی جائے گی اور دودھ والی بکری (جو عارضی طور پر عطیہ دی گئی ہو) لوٹا دی جائے گی، جس آدمی نے ایسی گری پڑی چیز اٹھائی، جسے دھاگے وغیرہ کے ساتھ باندھا ہوا ہو، تو اس کے لیے اسے کھولنا حلال نہیں، جب تک کسی دوسرے کو دکھا کر (اسے گواہ) نہ بنا لے۔“
امیہ بن صفوان بن امیہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے حنین والے دن کچھ زرہیں استعارۃ ( عارضی طور پر) لیں۔ اس نے کہا: اے محمد! کیا ان کو غصب کر لیا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، یہ ایسا عاریہ ہے کہ ہلاک ہونے کی صورت میں قیمت کی ضمانت ہو گی۔“
یعلیٰ بن امیہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تیرے پاس میرے قاصد آئیں تو انہیں تیس زرہیں اور تیس اونٹ دے دینا۔“ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر (یہ چیزیں جو میں) عاریۃ (دے رہا ہوں) ہلاک ہو گئیں تو ان کی قیمت کی ضمانت ہو گی یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ چیزیں بعینہ موجود رہیں تو واپسی کی ضمانت ہو گی اور تلف ہونے کی صورت میں کوئی ذمہ داری نہیں ہو گی۔“
-" الا إن العارية مؤداة والمنحة مردودة والدين مقضي والزعيم غارم".-" ألا إن العارية مؤداة والمنحة مردودة والدين مقضي والزعيم غارم".
سعید بن ابوسعید، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے والے صحابی رسول سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خبردار! عاریہ (عارضی طور پر لی ہوئی چیز) واپس کی جائے گی، منحہ (وہ عطیہ جو استفادہ کے لیے کچھ مدت کے لیے دیا جائے) بھی واپس کیا جائے گا، قرضہ چکایا جائے گا اور چیز کا ضامن اس کی ادائیگی کا ذمہ دار ہو گا۔“
-" الا من ظلم معاهدا، او انتقصه، او كلفه فوق طاقته، او اخذ منه شيئا بغير طيب نفس فانا حجيجه يوم القيامة".-" ألا من ظلم معاهدا، أو انتقصه، أو كلفه فوق طاقته، أو أخذ منه شيئا بغير طيب نفس فأنا حجيجه يوم القيامة".
صفوان بن سلیم، کئی ایک ابنائے (صحابہ، امام بیہقی کے قول کے مطابق وہ تیس ہیں) سے اور وہ اپنے آباء سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگاہ ہو جاؤ! جس نے ذمی پر ظلم کیا یا اس کے حق میں کمی کی یا اس پر اس کی طاقت سے زیادہ مشقت ڈالی یا اس کی رضا مندی کے بغیر اس سے کوئی چیز لے لی، تو میں ایسے آدمی پر بروز قیامت دلیل کے ذریعے غالب آ جاؤں گا۔“
-" الا لا يجني جان إلا على نفسه، لا يجني والد على ولده ولا مولود على والده".-" ألا لا يجني جان إلا على نفسه، لا يجني والد على ولده ولا مولود على والده".
سیدنا عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر فرماتے سنا: ”خبردار! ہر مجرم صرف اپنے حق میں برا کرے گا، والد اپنے بیٹے کی حق میں برا کر سکتا ہے نہ بیٹا والد کے حق میں، (یعنی دونوں اپنے اپنے جرائم کے خود ذمہ دار ہوں گے)۔“
-" اما إنك لا تجني عليه، ولا يجني عليك".-" أما إنك لا تجني عليه، ولا يجني عليك".
سیدنا ابورمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اپنے باپ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے باپ سے پوچھا: ”یہ تیرے ساتھ کون ہے؟“ انہوں نے کہا: یہ میرا بیٹا ہے، میں اس بات پر گواہی دے سکتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگاہ ہو جا! تو اس کے حق میں برا کر سکتا ہے نہ وہ تیرے حق میں۔“
-" لا تجني ام على ولد لا تجني ام على ولد".-" لا تجني أم على ولد لا تجني أم على ولد".
سیدنا طارق محاربی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ماں اپنے بیٹے کے حق میں برا نہیں کر سکتی، ماں اپنے بیٹے کے حق میں برا نہیں کر سکتی (یعنی وہ اپنے جرم کی خود ذمہ دار ہو گی)۔“
-" لا تجني عليه ولا يجني عليك".-" لا تجني عليه ولا يجني عليك".
سیدنا خشخاش عنبری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اپنے بیٹے کے ہمراہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ تیرا بیٹا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اس کے حق میں برا نہیں کر سکتا اور وہ تیرے حق میں برا نہیں کر سکتا (یعنی تم دونوں اپنے اپنے جرائم کے خود ذمہ دار ہو)۔“