ـ (يقول الله عز وجل: استقرضت عبدي فلم يقرضني، وشتمني عبدي وهو لا يدري (وفي رواية: ولا ينبغي له شتمي)، يقول: وادهراه! وادهراه! [ثلاثا]، وانا الدهر).ـ (يقولُ اللهُ عزّ وجلّ: استقرضْتُ عبدِي فلم يُقرضْنِي، وشتمَني عبدِي وهو لا يدْري (وفي روايةٍ: ولا ينبغِي له شتْمِي)، يقولُ: وادهْراه! وادهراه! [ثلاثاً]، وأنا الدهرُ).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے بندے سے قرضے کا سوال کیا، لیکن اس نے مجھے قرضہ نہیں دیا اور میرا بندہ مجھے لاشعوری کیفیت میں گالی دے رہا ہوتا ہے، حالانکہ اسے یہ زیب نہیں دیتا۔ وہ کہتا ہے: ہائے! افسوس زمانے پر، ہائے! افسوس زمانے پر، ہائے! افسوس زمانے پر، جبکہ میں (اللہ) زمانہ ہوں۔ ”
-" يقول الله عز وجل: من عمل حسنة فله عشر امثالها او ازيد ومن عمل سيئة فجزاؤها مثلها او اغفر ومن عمل قراب الارض خطيئة، ثم لقيني لا يشرك بي شيئا جعلت له مثلها مغفرة ومن اقترب إلي شبرا اقتربت إليه ذراعا ومن اقترب إلي ذراعا اقتربت إليه باعا ومن اتاني يمشي اتيته هرولة".-" يقول الله عز وجل: من عمل حسنة فله عشر أمثالها أو أزيد ومن عمل سيئة فجزاؤها مثلها أو أغفر ومن عمل قراب الأرض خطيئة، ثم لقيني لا يشرك بي شيئا جعلت له مثلها مغفرة ومن اقترب إلي شبرا اقتربت إليه ذراعا ومن اقترب إلي ذراعا اقتربت إليه باعا ومن أتاني يمشي أتيته هرولة".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کہتے ہیں: جس نے ایک نیکی کی، اسے دس گنا یا اس سے بھی زیادہ اجر و ثواب عطا کروں گا اور جس نے ایک برائی کی تو ایک برائی کا ہی بدلہ دوں گا یا وہ بھی معاف کر دوں گا۔ جو زمین کے لگ بھگ گناہ کرنے کے بعد مجھے اس حالت میں ملے کہ اس نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا رکھا ہو تو میں اسے اتنی ہی مغفرت عطا کر دوں گا۔ جو ایک بالشت میرے قریب ہو گا میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوں گا، جو ایک ہاتھ میرے قریب ہو گا میں دو ہاتھوں کے پھیلاؤ کے بقدر اس کے قریب ہوں گا اور جو میری طرف چل کے آئے گا میں اس کی طرف لپک کر جاؤں گا۔“
- (طوبى له، ثم طوبى له، ثم طوبى له. يعني: من آمن به - صلى الله عليه وسلم - ولم يره).- (طوبَى له، ثم طوبَى له، ثم طوبى له. يعنِي: من آمنَ به - صلى الله عليه وسلم - ولم يَره).
سیدنا ابوعبد الرحمٰن جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ہمیں دو سوار دکھائی دئیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا: ”یہ دو کندی باشندے ہیں اور مذحجی قبیلے سے ان کا تعلق ہے۔“ وہ دونوں آپ کے پاس پہنچ گئے، واقعی وہ مذحج قبیلے کے آدمی تھے۔ ان میں سے ایک بیعت کرنے کے لیے آپ کے قریب ہوا۔ جب آپ نے اس کا ہاتھ پکڑا تو اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو آدمی آپ کا دیدار کرے، آپ پر ایمان لائے، آپ کی تصدیق کرے اور آپ کی پیروی کرے، اسے کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے خوشخبری ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ پھیرا اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔ پھر دوسرا آگے بڑھا، جب آپ نے بیعت لینے کے لیے اس کا ہاتھ پکڑا تو اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! جو آدمی آپ پر ایمان لائے، آپ کی تصدیق کرے، آپ کی اطاعت کرے لیکن دیدار نہ کر سکے تو اسے کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے خوشخبری ہے، پھر خوشخبری ہے، پھر خوشخبری ہے۔“ پھر آپ نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ پھیرا اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔
-" الطير تجري بقدر. وكان يعجبه الفال الحسن".-" الطير تجري بقدر. وكان يعجبه الفأل الحسن".
سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور کہا: امی جان! مجھے کوئی حدیث بیان کیجئے، جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پرندہ (کسی کی قسمتوں کے فیصلے نہیں کرتا بلکہ) اپنی تقدیر کے مطابق اڑتا ہے۔“ اور آپ کو اچھی فال پسند تھی۔
-" كان لا يتطير من شيء وكان إذا بعث عاملا سال عن اسمه، فإذا اعجبه اسمه فرح به ورؤي بشر ذلك في وجهه وإن كره اسمه رؤي كراهية ذلك في وجهه، وإذا دخل قرية سال عن اسمها، فإن اعجبه اسمها، فرح بها ورؤي بشر ذلك في وجهه وإن كره اسمها رؤي كراهية ذلك في وجهه".-" كان لا يتطير من شيء وكان إذا بعث عاملا سأل عن اسمه، فإذا أعجبه اسمه فرح به ورؤي بشر ذلك في وجهه وإن كره اسمه رؤي كراهية ذلك في وجهه، وإذا دخل قرية سأل عن اسمها، فإن أعجبه اسمها، فرح بها ورؤي بشر ذلك في وجهه وإن كره اسمها رؤي كراهية ذلك في وجهه".
عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہما اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے بدشگونی اور بری فال نہیں لیتے تھے، لیکن جب کسی کو عامل بنا کر کہیں بھیجنے کا ارادہ کرتے تو اس کا نام پوچھتے۔ اگر اس کا نام پسند آ جاتا تو اس کے ساتھ خوش ہو جاتے اور خوشی کے آثار آپ کے چہرے میں نظر آتے اور اگر اس کا نام آپ کو ناپسند ہوتا تو (کراہت کے علامتیں) چہرے میں دکھائی دیتیں۔ اسی طرح جب کسی گاؤں میں داخل ہوتے تو اس کا نام پوچھتے، اگر اس کا پسندیدہ نام ہوتا تو آپ خوش ہو جاتے اور خندہ روئی کے آثار نظر آنے لگتے اور اگر ناپسندیدہ نام ہوتا تو چہرے پر ناپسندیدگی کی نشانیاں دکھائی دیتی تھیں۔
-" لا عدوى ولا طيرة واحب الفال الصالح".-" لا عدوى ولا طيرة وأحب الفأل الصالح".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بیماری متعدی نہیں، نہ فال بد کوئی چیز ہے، البتہ مجھے نیک فال پسند ہے۔“
-" الطيرة شرك، وما منا إلا، ولكن الله يذهبه بالتوكل".-" الطيرة شرك، وما منا إلا، ولكن الله يذهبه بالتوكل".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”برا شگون شرک ہے اور ہم میں سے جو بھی ہے اللہ تعالیٰ توکل کے ذریعے اس چیز کو ختم کر دیتا ہے۔“
-" لا عدوى ولا طيرة ولا هام إن تكن الطيرة في شيء ففي الفرس والمراة والدار، وإذا سمعتم بالطاعون بارض فلا تهبطوا، وإذا كان بارض وانتم بها فلا تفروا منه".-" لا عدوى ولا طيرة ولا هام إن تكن الطيرة في شيء ففي الفرس والمرأة والدار، وإذا سمعتم بالطاعون بأرض فلا تهبطوا، وإذا كان بأرض وأنتم بها فلا تفروا منه".
سعید بن مسیب کہتے ہیں: میں نے سیدنا سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ سے بدشگونی کے بارے میں پوچھا: انہوں نے مجھے جھڑک دیا اور کہا: تجھے یہ کس نے بیان کیا؟ میں نے ناپسند کیا کہ بیان کرنے والے کا نام بتاؤں۔ پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ کوئی بیماری متعدی ہے، نہ کوئی بدفال ہے اور نہ الو کا بولنا کوئی اثر رکھتا ہے، اگر بدشگونی ہوتی تو گھوڑے، بیوی اور گھر میں ہوتی۔ جب تم سنو کہ فلاں علاقے میں طاعون کی بیماری پھیل گئی ہے تو وہاں نہ جاؤ اور اگر تم اسی علاقہ میں ہو تو وہاں سے مت نکلو۔“
-" لا عدوى ولا طيرة وإنما الشؤم في ثلاثة: المراة والفرس والدار".-" لا عدوى ولا طيرة وإنما الشؤم في ثلاثة: المرأة والفرس والدار".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی بیماری متعدی نہیں ہے، نہ فال بد کوئی چیز ہے اور تین چیزوں میں بدشگونی (یا نحوست) ہوتی ہے: بیوی، گھوڑا اور گھر۔“