-" ذر الناس يعملون، فإن في الجنة مائة درجة ما بين كل درجتين كما بين السماء والارض، والفردوس اعلى الجنة واوسطها وفوق ذلك عرش الرحمن ومنها تفجر انهار الجنة، فإذا سالتم الله فاسالوه الفردوس".-" ذر الناس يعملون، فإن في الجنة مائة درجة ما بين كل درجتين كما بين السماء والأرض، والفردوس أعلى الجنة وأوسطها وفوق ذلك عرش الرحمن ومنها تفجر أنهار الجنة، فإذا سألتم الله فاسألوه الفردوس".
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے، نماز قائم کی اور بیت اللہ کا حج کیا۔ مجھے اس بات کا علم نہ ہو سکا آیا آپ نے زکاۃ کا ذکر کیا یا نہیں۔ مگر اللہ تعالی پر لازم ہے کہ اسے بخش دے، اگرچہ اس نے اللہ کے راستے میں ہجرت کی ہو یا اپنے پیدائشی علاقے میں ٹھہرا ہوا ہو۔“ سیدنا معاذ نے کہا: کیا میں لوگوں کو یہ حدیث بیان کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہنے دو، تاکہ وہ مزید عمل کرتے رہیں، کیونکہ جنت میں سو درجے ہیں، ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے مابین ہے اور جنت کا اعلیٰ و افضل مقام فردوس ہے، اس کے اوپر رحمٰن کا عرش ہے، وہاں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔ جب اللہ تعالی سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کیا کرو۔“
- (إني رايت في المنام كان جبريل عند راسي، وميكائيل عند رجلي، يقول احدهما لصاحبه: اضرب له مثلا، فقال: اسمع سمعت اذنك، واعقل عقل قلبك؛ إنما مثلك ومثل امتك: كمثل ملك اتخذ دارا، ثم بنى فيها بيتا، ثم جعل فيها مائدة، ثم بعث رسولا يدعو الناس إلى طعامه؛ فمنهم من اجاب الرسول، ومنهم من تركه؛ فالله هو الملك، والدار الإسلام، والبيت الجنة، وانت- يا محمد- رسول؛ فمن اجابك دخل الإسلام، ومن دخل الإسلام دخل الجنة، ومن دخل الجنة اكل ما فيها).- (إنّي رأيتُ في المنام كأنّ جبريل عند رأسي، وميكائيل عند رِجلَيَّ، يقولُ أحدُهما لصاحبه: اضرب له مثلاً، فقال: اسمع سمعَت أذنُك، واعقِلْ عَقَلَ قلبُك؛ إنّما مثلُك ومَثَلُ أمتك: كمَثَل ملك اتخَذَ داراً، ثم بنى فيها بيتاً، ثم جعل فيها مائدةً، ثم بعث رسولاً يدعو الناس إلى طعامه؛ فمنهم من أجاب الرسول، ومنهم من تركه؛ فالله هو الملك، والدار الإسلام، والبيت الجنة، وأنت- يا محمد- رسول؛ فمن أجابك دخل الإسلام، ومن دخل الإسلام دخل الجنة، ومن دخل الجنة أكل ما فيها).
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”میں نے خواب دیکھا جبریل (علیہ السلام) میرے سر کے پاس اور میکائل (علیہ السلام) میرے پاؤں کے پاس بیٹھ گئے۔ ایک نے دوسرے سے کہا: اس (نبی) کی کوئی مثال بیان کیجئے۔ دوسرے نے کہا: سنو! تمہارا کان سنے، سمجھو تمہارا دل سمجھے، تم اور تمہاری امت کی مثال یہ ہے: ایک بادشاہ نے ایک جاگیر حاصل کی، اس میں ایک محل بنایا اور اس میں کھانے کی دعوت کا اہتمام کیا، لوگوں کو دعوت دینے کے لئے قاصد بھیجا، کسی نے قاصد کا پیغام قبول کیا اور کسی نے نہ کیا (اس مثال کی وضاحت یہ ہے کہ) اللہ بادشاہ ہے، اسلام جاگیر ہے، جنت محل ہے اور اے محمد! آپ قاصد ہیں، جس نے آپ کا پیغام قبول کیا وہ اسلام میں داخل ہو جائے گا اور اسلام میں داخل ہونے والا جنت میں چلا جائے گا اور جو جنت میں داخل ہو گیا وہ اس کے کھانے کھائے گا۔“
- (ايما اهل بيت من العرب او العجم اراد الله بهم خيرا ادخل عليهم الإسلام، ثم تقع الفتن كانها الظل، قال [رجل]: كلا والله إن شاء الله! قال: بلى والذي نفسي بيده! ثم تعودون فيها اساود صبا يضرب بعضكم رقاب بعض).- (أيُّما أهل بيتٍ من العرب أو العجم أراد اللهُ بهم خيراً أدخل عليهم الإسلام، ثم تقع الفتن كأنها الظُّلَُ، قال [رجل]: كلا والله إن شاء الله! قال: بلى والذي نفسي بيده! ثم تعودون فيها أساود صُبَاًَ يضرب بعضكم رقاب بعض).
سیدنا کرز بن علقمہ خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اسلام کی کوئی انتہا بھی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالی عرب و عجم کے جس جس گھر کے ساتھ خیر و بھلائی کا ارادہ کرے گا، وہاں اسلام پہنچا دے گا، پھر سایوں کی طرح فتنے برپا ہو جائیں گے۔“ ایک آدمی نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ نے چاہا تو ایسا ہرگز نہیں ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! پھر تم کثیر تعداد میں پلٹ آؤ گے اور ایک دوسرے کا خون کرو گے۔“
-" اين ذهبتم؟! إنما هي يا ايها الذين آمنوا لا يضركم من ضل - من الكفار - إذا اهتديتم".-" أين ذهبتم؟! إنما هي يا أيها الذين آمنوا لا يضركم من ضل - من الكفار - إذا اهتديتم".
سیدنا ابوعامر اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمارا ایک آدمی جنگ اوطاس میں قتل ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ”ابو عامر! تو نے دیت کیوں نہیں لی؟“ میں نے جواباً یہ آیت پڑھی: «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم»”اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ ہے اس سے تمھارا کوئی نقصان نہیں“(سورہ مائدہ: ۱۰۵) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ گئے اور فرمایا: ”تم کہاں چلے گئے ہو؟ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب تم راہ راست پر آ جاؤ تو کفار لوگ تمہیں گمراہ نہ کرنے پائیں۔“ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں: ”سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کوئی وجہ تھی جس کی بنا پر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رکا رہا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ تجھے کس چیز نے روکے رکھا ہے تو میں نے یہ آیت پڑھی: «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم»”اے ایمان والو! اپنی فکر کرو، جب راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ ہے اس سے تمھارا کوئی نقصان نہیں۔“
-" الإيمان بضع وسبعون بابا، فادناه إماطة الاذى عن الطريق، وارفعها قول: لا إله إلا الله".-" الإيمان بضع وسبعون بابا، فأدناه إماطة الأذى عن الطريق، وأرفعها قول: لا إله إلا الله".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان کے تہتر چوہتر شعبے ہیں، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا سب سے ادنی اور «لا إله إلا الله» سب سے اعلیٰ شعبہ ہے۔“
- (الإيمان يمان، هكذا إلى لخم وجذام).- (الإيمانُ يَمانٍ، هكذا إلى لَخْمٍ وجُذامٍ).
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ایمان تو یمنی لوگوں کا ہے، اسی طرح لحم اور جذام قبیلوں کے لوگوں کا۔“
-" الإيمان يمان والكفر من قبل المشرق وإن السكينة في اهل الغنم وإن الرياء والفخر في اهل الفدادين: اهل الوبر واهل الخيل، وياتي المسيح من قبل المشرق وهمته المدينة، حتى إذا جاء دبر احد تلقته الملائكة فضربت وجهه قبل الشام، هنالك يهلك، هنالك يهلك".-" الإيمان يمان والكفر من قبل المشرق وإن السكينة في أهل الغنم وإن الرياء والفخر في أهل الفدادين: أهل الوبر وأهل الخيل، ويأتي المسيح من قبل المشرق وهمته المدينة، حتى إذا جاء دبر أحد تلقته الملائكة فضربت وجهه قبل الشام، هنالك يهلك، هنالك يهلك".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان تو یمنی ہے اور کفر مشرق کی طرف ہے اور بکری والوں میں سکینت ہوتی ہے اور نمود و نمائش اور فخر و غرور گھوڑوں اور اونٹوں کے مالکوں میں پایا جاتا ہے۔ مسیح دجال مشرق کی طرف سے آئے گا، اس کا ہدف مدینہ ہو گا، لیکن جب وہ احد پہاڑ کے پیچھے پہنچے گا تو فرشتے اس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے، وہیں ہلاک ہو جائے گا، وہیں ہلاک ہو جائے گا۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”میں نے حجون (پہاڑ) میں رات گزاری اور جنوں کی جماعت کو قرآن مجید پڑھ کر سنایا۔“
- (بسم الله الرحمن الرحيم: من محمد عبد الله ورسوله: إلى هرقل عظيم الروم؛ سلام على من اتبع الهدى، اما بعد: فإني ادعوك بدعاية الإسلام: اسلم تسلم: يؤتك الله اجرك مرتين؛ فإن توليت فإن عليك إثم الاريسيين؛ و (يا اهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم ان لا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بانا مسلمون)).- (بسم الله الرحمن الرحيم: من محمد عبد الله ورسوله: إلى هرقل عظيم الروم؛ سلام على من اتبع الهدى، أما بعد: فإني أدعوك بدعاية الإسلام: أسلم تسلم: يؤتك الله أجرك مرتين؛ فإن توليت فإن عليك إثم الأريسيين؛ و (يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم أن لا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئاً ولا يتخذ بعضنا بعضاً أرباباً من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون)).
سیدنا ابوسفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں (شاہ روم) ہرقل نے اس کو بلانے کے لئے اس کی طرف ایک آدمی بھیجا، جبکہ وہ قریش کے ایک قافلے میں تھا، اس وقت یہ لوگ تجارت کے لئے شام گئے ہوئے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور سفیان سے ایک وقتی عہد کیا ہوا تھا، ابوسفیان اور دوسرے لوگ ہرقل کے پاس ایلیا پہنچ گئے، ہرقل نے دربار طلب کیا تھا، اس کے اردگرد روم کے بڑے بڑے لوگ (علماء، وزرا اور امرا) بیٹھے ہوئے تھے۔ ہرقل نے ان کو اور اپنے ترجمان کو بلوایا، پھر ان سے پوچھا کہ تم میں سے کون شخص مدعی رسالت کا زیادہ قریبی عزیز ہے؟ ابوسفیان کہتے ہیں: میں بول اٹھا کہ میں اس کا سب سے زیادہ قریبی رشتہ دار ہوں (یہ سن کر) ہرقل نے حکم دیا کہ اس (سفیان) کو میرے قریب لا کر بٹھاؤ اور اس کے ساتھیوں کو اس کے پیٹھ کے پیچھے بٹھا دو، پھر اپنے ترجمان سے کہا: ان لوگوں سے کہہ دو کہ میں ابوسفیان سے اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حالات پوچھتا ہوں، اگر یہ مجھ سے کسی بات میں جھوٹ بول دے تو تم اس کا جھوٹ ظاہر کر دینا۔ (ابوسفیان کا قول ہے کہ) خدا کی قسم! اگر مجھے یہ غیرت نہ آتی کہ یہ لوگ مجھ کو جھٹلائیں گے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ضرور غلط گوئی سے کام لیتا۔ خیر پہلی بات جو ہرقل نے مجھ سے پوچھی۔ (ہم آسانی کے لئے روایت کا ترجمہ مکالمے کی صورت میں پیش کرتے ہیں) ہرقل: تم لوگوں میں اس شخص کا خاندان کیسا ہے؟ ابوسفیان: وہ بڑے عالی نسب والا ہے۔ ہرقل: اس سے پہلے بھی کسی نے تم لوگوں میں ایسی بات کہی تھی؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ ہوا تھا؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: بڑے لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ہے یا کمزوروں نے؟ ابوسفیان: کمزوروں نے کی ہے۔ ہرقل: اس کے تابعدار روز بروز بڑھ رہے ہیں یا گھٹ رہے ہیں؟ ابوسفیان: بڑھ رہے ہیں۔ ہرقل: کیا کوئی اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد اس دین کو ناپسند کرتے ہوئے مرتد بھی ہوا ہے؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: کیا اس دعوئ نبوت سے پہلے تم لوگ اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ ابوسفیان: نہیں۔ ہرقل: کیا وہ دھوکا کرتا ہے؟ ابوسفیان: نہیں اور اب ہماری اس سے (صلح کی) مقرہ مدت ٹھہری ہوئی ہے، معلوم نہیں وہ اس میں کیا کرنے والا ہے۔ میں اس بات کے سوا اور کوئی (جھوٹ) اس گفتگو میں شامل نہ کر سکا۔ ہرقل: کیا تمہاری اس سے کبھی لڑائی ہوئی ہے؟ ابوسفیان: ہاں۔ ہرقل: تمہاری اور اس کی جنگ کا کیا حال ہوا؟ ابوسفیان: کبھی اس کے فریق کو کامیابی ہوئی اور کبھی ہمارے فریق کو، کبھی وہ جیت جاتے کبھی ہم۔ ہرقل: وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے؟ ابوسفیان: وہ کہتا ہے اللہ کی عبادت کرو، جو یکتا و یگانہ ہے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور اپنے باپ دادا والی (شرک والی) باتیں چھوڑ دو اور ہمیں نماز پڑھنے، سچ بولنے، پرہیزگاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ (یہ سب سن کر) ہرقل نے اپنے ترجمان کو کہا: ابوسفیان سے کہہ دے کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہے اورر پیغمبر اپنی قوم میں عالی نسب ہی ہوتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ (دعوئ نبوت کی) یہ بات تمہارے اندر اس سے پہلے کسی اور نے بھی کہی تھی، تم نے جواب دیا نہیں۔ تب میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ اگر یہ بات اس سے پہلے کسی نے کہی ہوتی تو میں یہ سمجھتا کہ اس شخص نے بھی اس بات کی تقلید کی ہے، جو پہلے کہی جا چکی ہے۔ میں نے تم سے پوچھا اس کے بڑوں میں کوئی بادشاہ بھی گزرا ہے، تم نے کہا نہیں، میں نے (دل میں) کہا کہ اگر ان کے بزرگوں میں سے کوئی بادشاہ گزرا ہوتا تو کہہ دیتا وہ شخص (یہ بہانا بنا کر) اپنے آباؤ اجداد کی بادشاہت اور ان کا ملک (دوبارہ) حاصل کرنا چاہتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ اس بات کے کہنے (یعنی پیغمبری کا دعوئ کرنے) سے پہلے تم نے کبھی اس پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا ہے، تم نے کہا کہ نہیں، میں نے سمجھ لیا جو شخص آدمیوں کے ساتھ دروغ گوئی سے بچے وہ اللہ کے بارے میں کیسے جھوٹی بات کہہ سکتا ہے، اور میں نے تم سے پوچھا کہ بڑے اس کے پیرو ہیں یا کمزور آدمی، تم نے کہا کہ کمزوروں نے اس کی اتباع کی ہے، (دراصل) یہی لوگ پیغمبروں کے متبعین ہوتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا اس کے ساتھی بڑھ رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں، تم نے کہا وہ بڑھ رہے ہیں اور ایمان کی کیفیت یہی ہوتی ہے حتی کے وہ کامل ہو جاتا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا کوئی شخص اس دین سے ناخوش ہو کر مرتد بھی ہو جاتا ہے، تم نے کہا نہیں۔ درحقیقت ایمان کی خاصیت بھی یہی ہے جن کے دلوں میں اس کی مسرت رچ بس جائے وہ اس سے لوٹا نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا، آیا اس نے کبھی عہدشکنی بھی کی ہے، تم نے کہا کہ نہیں، پیغمبروں کا یہی حال ہوتا ہے وہ عہد کی خلاف ورزی نہیں کرتے اور میں نے تم سے کہا کہ وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے، تم نے کہا وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ اللہ تعالی کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تمہیں بتوں کی پرستش سے روکتا ہے، سچ بولنے اور پرہیزگاری کا حکم دیتا ہے۔ اگر یہ باتیں، جو تم کہہ رہے ہو، سچ ہیں تو عنقریب وہ اس جگہ کا مالک بن جائے گا، جہاں میرے دو پاؤں ہیں۔ مجھے معلوم تھا وہ (پیغمبر) آنے والا ہے، لیکن یہ معلوم نہیں تھا وہ تمہارے اندر ہو گا، اگر میں جانتا کہ اس تک پہنچ سکوں گا تو اس سے ملنے کے لئے ہر تکلیف گوارا کرتا۔ اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس پاؤں دھوتا۔ ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ خط منگوایا، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے ذریعے حاکم بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور اس نے وہ ہرقل کے پاس بھیج دیا تھا، پھر اس کو پڑھا تو اس میں (لکھا تھا): «بسم اللہ الرحمٰن الرحیم» یہ خط اللہ کے بندے اور پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شاہ روم کی طرف ہے۔ اس شخص پر سلام جو ہدایت کی پیروی کرے اس کے بعد میں تم پر دعوت اسلام پیش کرتا ہوں، اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو (آپ کو دین و دنیا میں) سلامتی نصیب ہو گی، اللہ تعالی آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ (میری دعوت) سے روگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی آپ ہی پر ہو گا اور اے اہل کتاب! ایک ایسی بات پر آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا رب بنائے۔ پھر اگر وہ اہل کتاب (اس بات سے) منہ پھیر لیں تو (مسلمانو!) تم ان سے کہہ دو کہ (تم مانو یا نہ مانو) ہم تو ایک اللہ کے اطاعت گزار ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں: جب ہرقل نے جو کچھ کہنا تھا کہہ دیا اور خط پڑھ کر فارغ ہوا تو اس کے اردگرد بہت شور و غوغا ہوا۔ بہت سی آوازیں اٹھیں اور ہمیں باہر نکال دیا گیا۔ تب میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا ابوکبشہ کے بیٹے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معاملہ تو بہت بڑھ گیا۔ (دیکھو کہ) اس سے بنو اصفر (رومیوں) کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔ مجھے اس وقت اس بات کا یقین ہو گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عنقریب غالب ہو کر رہیں گے، حتی کہ اللہ تعالی نے مجھے مسلمان کر دیا۔ (راوی کا بیان ہے کہ) ابن ناطور ایلیا کا حاکم ہرقل کا مصائب اور شام کے نصاریٰ کا لاٹ پادری بیان کرتا ہے کہ ہرقل جب ایلیا آیا، تو ایک دن صبح کو پریشان اٹھا، اس کے درباریوں نے دریافت کیا کہ آج ہم آپ کی حالت بدلی ہوئی پاتے ہیں، (کیا وجہ ہے؟) ابن ناطور کا بیان ہے کہ ہرقل نجومی تھا، وہ علم نجوم میں پوری مہارت رکھتا تھا، اس نے اپنے ہم نشینوں کو بتایا میں نے آج رات ستاروں پر نظر ڈالی کہ ختنہ کرنے والوں کا بادشاہ ہمارے ملک پر غالب آ گیا ہے، (بھلا) اس زمانے میں کون لوگ ختنہ کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا یہود کے سوا کوئی ختنہ نہیں کرتا، سو ان کی وجہ سے پریشان نہ ہوں، سلطنت کے تمام شہروں میں یہ حکم لکھ بھیجئے کہ وہاں جتنے یہودی ہوں سب قتل کر دیئے جائیں۔ وہ لوگ انہیں باتوں میں مشغول تھے کہ ہرقل کے پاس ایک آدمی لایا گیا، جسے شاہ غسان نے بھیجا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کئے۔ جب ہرقل نے سارے حالات سن لئے تو کہا جا کر دیکھو کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے یا نہیں؟ انھوں نے اسے دیکھا تو بتلایا کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے۔ ہرقل نے جب اس شخص سے عرب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتلایا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں، تب ہرقل نے کہا کہ یہ وہی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اس امت کے بادشاہ ہیں جو پیدا ہو چکے ہیں۔ پھر اس نے اپنے ایک دوست کو رومیہ خط لکھا اور وہ بھی علم نجوم میں ہرقل کی طرح ماہر تھا۔ پھر وہاں سے ہرقل حمص چلا گیا۔ ابھی حمص سے نکلا نہیں تھا کہ اس کے دوست کا جوابی خط آ گیا۔ اس کی رائے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کے موافق تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم (واقعی) پیغمبر ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے روم کے بڑے آدمیوں کو حمص کے محل میں طلب کیا اور اس کے حکم سے محل کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ پھر وہ (اپنے خاص محل سے) باہر آیا اور کہا: اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں کچھ حصہ تمہارے لئے بھی ہے؟ اگر تم اپنی سلطنت کی بقاء چاہتے ہو تو پھر اس نبی کی بیعت کر لو اور مسلمان ہو جاؤ (یہ سننا ہی تھا کہ) وہ سب وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے، مگر دروازوں کو بند پایا۔ آخر جب ہرقل نے (اس بات سے) ان کی یہ نفرت دیکھی اور ان کے ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو کہنے لگا کہ ان لوگوں کو میرے پاس لاؤ۔ (جب وہ دوبارہ آئے) تو اس نے کہا: میں نے جو بات کہی تھی اس سے تمہاری دینی پختگی کی آزمائش مقصود تھی، سو میں نے اس کو دیکھ لی۔ تب (یہ بات سن کر) وہ سب کے سب اس کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور اس سے خوش ہو گئے۔ یہ ہرقل کا آخری معاملہ تھا۔
- (ثلاث من كن فيه؛ وجد حلاوة الإيمان وطعمه: ان يكون الله عز وجل ورسوله احب إليه مما سواهما. وان يحب في الله ويبغض في الله. وان توقد نار عظيمة فيقع فيها؛ احب إليه من ان يشرك بالله شيئا).- (ثلاثٌ من كنَّ فيه؛ وجدَ حلاوةَ الإِيمانِ وطعمَه: أن يكونَ اللهُ عزّ وجلّ ورسولهُ أحبَّ إليه مّما سواهما. وأن يحبَّ في الله ويبغضَ في الله. وأن توقَدَ نارٌ عظيمةٌ فيقعَ فيها؛ أحبُّ إليه من أن يشركَ بالله شيئاً).
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس میں تین خسائل پائے جائیں گے وہ ایمان کی مٹھاس اور ذائقہ چکھ لے گا: اللہ اور اس کا رسول اسے بقیہ تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں، کسی سے اللہ کے لئے محبت کرے اور اسی کے لئے اس سے بغض رکھے اور اسے بہت بڑی آگ میں گرنا اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرانے کی بہ نسبت زیادہ پسند ہو۔“