(مرفوع) حدثنا خلاد بن يحيى، حدثنا مسعر، حدثنا محارب بن دثار، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد، قال مسعر: اراه قال: ضحى، فقال:" صل ركعتين، وكان لي عليه دين فقضاني وزادني".(مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ، حَدَّثَنَا مُحَارِبُ بْنُ دِثَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ مِسْعَرٌ: أُرَاهُ قَالَ: ضُحًى، فَقَالَ:" صَلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَكَانَ لِي عَلَيْهِ دَيْنٌ فَقَضَانِي وَزَادَنِي".
ہم سے خلاد نے بیان کیا، ان سے مسعر نے بیان کیا، ان سے محارب بن دثار نے بیان کیا، اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف رکھتے تھے۔ مسعر نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ انہوں نے چاشت کے وقت کا ذکر کیا۔ (کہ اس وقت خدمت نبوی میں حاضر ہوا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو رکعت نماز پڑھ لو۔ میرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرض تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ادا کیا، بلکہ زیادہ بھی دے دیا۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: I went to the Prophet while he was in the Mosque. (Mas`ar thinks, that Jabir went in the forenoon.) After the Prophet told me to pray two rak`at, he repaid me the debt he owed me and gave me an extra amount.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 579
(8) Chapter. If somebody repays less than what he owes, (and the creditor accepts it) or if the creditor exempt the debtor from paying (there is no objection).
(مرفوع) حدثنا عبدان، اخبرنا عبد الله، اخبرنا يونس، عن الزهري، قال: حدثني ابن كعب بن مالك، ان جابر بن عبد الله رضي الله عنهما اخبره،" ان اباه قتل يوم احد شهيدا وعليه دين، فاشتد الغرماء في حقوقهم، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فسالهم، ان يقبلوا تمر حائطي ويحللوا ابي، فابوا، فلم يعطهم النبي صلى الله عليه وسلم حائطي، وقال: سنغدو عليك، فغدا علينا حين اصبح، فطاف في النخل ودعا في ثمرها بالبركة فجددتها، فقضيتهم وبقي لنا من تمرها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَهُ،" أَنَّ أَبَاهُ قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ شَهِيدًا وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَاشْتَدَّ الْغُرَمَاءُ فِي حُقُوقِهِمْ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُمْ، أَنْ يَقْبَلُوا تَمْرَ حَائِطِي وَيُحَلِّلُوا أَبِي، فَأَبَوْا، فَلَمْ يُعْطِهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَائِطِي، وَقَالَ: سَنَغْدُو عَلَيْكَ، فَغَدَا عَلَيْنَا حِينَ أَصْبَحَ، فَطَافَ فِي النَّخْلِ وَدَعَا فِي ثَمَرِهَا بِالْبَرَكَةِ فَجَدَدْتُهَا، فَقَضَيْتُهُمْ وَبَقِيَ لَنَا مِنْ تَمْرِهَا".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے بیان کیا، ان سے کعب بن مالک نے بیان کیا، اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ ان کے والد (عبداللہ رضی اللہ عنہ) احد کے دن شہید کر دیئے گئے تھے۔ ان پر قرض چلا آ رہا تھا۔ قرض خواہوں نے اپنے حق کے مطالبے میں سختی اختیار کی تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرما لیا کہ وہ میرے باغ کی کھجور لے لیں۔ اور میرے والد کو معاف کر دیں۔ لیکن قرض خواہوں نے اس سے انکار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں میرے باغ کا میوہ نہیں دیا۔ اور فرمایا کہ ہم صبح کو تمہارے باغ میں آئیں گے۔ چنانچہ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے باغ میں تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم درختوں میں پھرتے رہے۔ اور اس کے میوے میں برکت کی دعا فرماتے رہے۔ پھر میں نے کھجور توڑی اور ان کا تمام قرض ادا کرنے کے بعد بھی کھجور باقی بچ گئی۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: My father was martyred on the day (of the battle) of Uhud, and he was in debt. His creditors demanded their rights persistently. I went to the Prophet (and informed him about it). He told them to take the fruits of my garden and exempt my father from the debts but they refused to do so. So, the Prophet did not give them my garden and told me that he would come to me the next morning. He came to us early in the morning and wandered among the date-palms and invoked Allah to bless their fruits. I then plucked the dates and paid the creditors, and there remained some of the dates for us.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 580
9. باب: اگر قرض ادا کرتے وقت کھجور کے بدل اتنی ہی کھجور یا اور کوئی میوہ یا اناج کے بدل برابر ناپ تول کر یا اندازہ کر کے دے تو درست ہے۔
(9) Chapter. It is permissible for one to settle one’s accounts by repaying for the dates one owes, dates or other things, and one can repay them without weighing or measuring them (if the creditor agrees).
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا انس، عن هشام، عن وهب بن كيسان، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، انه اخبره،"ان اباه توفي وترك عليه ثلاثين وسقا لرجل من اليهود، فاستنظره جابر، فابى ان ينظره، فكلم جابر رسول الله صلى الله عليه وسلم ليشفع له إليه، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وكلم اليهودي لياخذ ثمر نخله بالذي له، فابى، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم النخل فمشى فيها، ثم قال لجابر: جد له، فاوف له الذي له، فجده بعد ما رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاوفاه ثلاثين وسقا، وفضلت له سبعة عشر وسقا، فجاء جابر رسول الله صلى الله عليه وسلم ليخبره بالذي كان فوجده يصلي العصر، فلما انصرف اخبره بالفضل، فقال: اخبر ذلك ابن الخطاب، فذهب جابر إلى عمر فاخبره، فقال له عمر: لقد علمت حين مشى فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم ليباركن فيها".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ،"أَنَّ أَبَاهُ تُوُفِّيَ وَتَرَكَ عَلَيْهِ ثَلَاثِينَ وَسْقًا لِرَجُلٍ مِنْ الْيَهُودِ، فَاسْتَنْظَرَهُ جَابِرٌ، فَأَبَى أَنْ يُنْظِرَهُ، فَكَلَّمَ جَابِرٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَشْفَعَ لَهُ إِلَيْهِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَلَّمَ الْيَهُودِيَّ لِيَأْخُذَ ثَمَرَ نَخْلِهِ بِالَّذِي لَهُ، فَأَبَى، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخْلَ فَمَشَى فِيهَا، ثُمَّ قَالَ لِجَابِرٍ: جُدَّ لَهُ، فَأَوْفِ لَهُ الَّذِي لَهُ، فَجَدَّهُ بَعْدَ مَا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْفَاهُ ثَلَاثِينَ وَسْقًا، وَفَضَلَتْ لَهُ سَبْعَةَ عَشَرَ وَسْقًا، فَجَاءَ جَابِرٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُخْبِرَهُ بِالَّذِي كَانَ فَوَجَدَهُ يُصَلِّي الْعَصْرَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَخْبَرَهُ بِالْفَضْلِ، فَقَالَ: أَخْبِرْ ذَلِكَ ابْنَ الْخَطَّابِ، فَذَهَبَ جَابِرٌ إِلَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: لَقَدْ عَلِمْتُ حِينَ مَشَى فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُبَارَكَنَّ فِيهَا".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے کہا کہ ہم سے انس نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے وہب بن کیسان نے اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ جب ان کے والد شہید ہوئے تو ایک یہودی کا تیس وسق قرض اپنے اوپر چھوڑ گئے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے اس سے مہلت مانگی، لیکن وہ نہیں مانا۔ پھر جابر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس یہودی (ابوشحم) سے (مہلت دینے کی) سفارش کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور یہودی سے یہ فرمایا کہ جابر رضی اللہ عنہ کے باغ کے پھل (جو بھی ہوں) اس قرض کے بدلے میں لے لے۔ جو ان کے والد کے اوپر اس کا ہے، اس نے اس سے بھی انکار کیا۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں داخل ہوئے اور اس میں چلتے رہے پھر جابر رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باغ کا پھل توڑ کے اس کا قرض ادا کرو۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو انہوں نے باغ کی کھجوریں توڑیں اور یہودی کا تیس وسق ادا کر دیا۔ سترہ وسق اس میں سے بچ بھی رہا۔ جابر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ کو بھی یہ اطلاع دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت عصر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی خبر ابن خطاب کو بھی کر دو۔ چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں تو اسی وقت سمجھ گیا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں چل رہے تھے کہ اس میں ضرور برکت ہو گئی۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: When my father died he owed a Jew thirty Awsuq (of dates). I requested him to give me respite for repaying but he refused. I requested Allah's Apostle to intercede with the Jew. Allah's Apostle went to the Jew and asked him to accept the fruits of my trees in place of the debt but the Jew refused. Allah's Apostle entered the garden of the date-palms, wandering among the trees and ordered me (saying), "Pluck (the fruits) and give him his due." So, I plucked the fruits for him after the departure of Allah's Apostle and gave his thirty Awsuq, and still had seventeen Awsuq extra for myself. Jabir said: I went to Allah's Apostle to inform of what had happened, but found him praying the `Asr prayer. After the prayer I told him about the extra fruits which remained. Allah's Apostle told me to inform (`Umar) Ibn Al-Khattab about it. When I went to `Umar and told him about it, `Umar said, "When Allah's Apostle walked in your garden, I was sure that Allah would definitely bless it."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 581
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري. ح وحدثنا إسماعيل، قال: حدثني اخي، عن سليمان، عن محمد بن ابي عتيق، عن ابن شهاب، عن عروة، ان عائشة رضي الله عنها اخبرته، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو في الصلاة، ويقول:" اللهم إني اعوذ بك من الماثم والمغرم، فقال له قائل: ما اكثر ما تستعيذ يا رسول الله من المغرم؟ قال: إن الرجل إذا غرم حدث، فكذب، ووعد، فاخلف".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ. ح وحَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَتِيقٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو فِي الصَّلَاةِ، وَيَقُولُ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ، فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ: مَا أَكْثَرَ مَا تَسْتَعِيذُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِنَ الْمَغْرَمِ؟ قَالَ: إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَرِمَ حَدَّثَ، فَكَذَبَ، وَوَعَدَ، فَأَخْلَفَ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، وہ زہری سے روایت کرتے ہیں (دوسری سند) ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے محمد بن ابی عتیق نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ نے بیان کیا، اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا کرتے تو یہ بھی کہتے ”اے اللہ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ قرض سے اتنی پناہ مانگتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ جب آدمی مقروض ہوتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
Narrated `Aisha: Allah's Apostle used to invoke Allah in the prayer saying, "O Allah, I seek refuge with you from all sins, and from being in debt." Someone said, O Allah's Apostle! (I see you) very often you seek refuge with Allah from being in debt. He replied, "If a person is in debt, he tells lies when he speaks, and breaks his promises when he promises."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 582
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص (اپنے انتقال کے وقت) مال چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے اور جو قرض چھوڑے تو وہ ہمارے ذمہ ہے۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "If someone leaves some property, it will be for the inheritors, and if he leaves some weak offspring, it will be for us to support them."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 583
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا ابو عامر، حدثنا فليح، عن هلال بن علي، عن عبد الرحمن بن ابي عمرة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" ما من مؤمن إلا وانا اولى به في الدنيا والآخرة، اقرءوا إن شئتم النبي اولى بالمؤمنين من انفسهم سورة الاحزاب آية 6، فايما مؤمن مات وترك مالا فليرثه عصبته من كانوا، ومن ترك دينا او ضياعا فلياتني فانا مولاه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَأَنَا أَوْلَى بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ سورة الأحزاب آية 6، فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ مَاتَ وَتَرَكَ مَالًا فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ كَانُوا، وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَلْيَأْتِنِي فَأَنَا مَوْلَاهُ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعامر نے بیان کیا، ان سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہر مومن کا میں دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ قریب ہوں۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو «النبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم»”نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) مومنوں سے ان کی جان سے بھی زیادہ قریب ہیں۔“ اس لیے جو مومن بھی انتقال کر جائے اور مال چھوڑ جائے تو چاہئے کہ ورثاء اس کے مالک ہوں۔ وہ جو بھی ہوں اور جو شخص قرض چھوڑ جائے یا اولاد چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آ جائیں کہ ان کا ولی میں ہوں۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "I am closer to the believers than their selves in this world and in the Hereafter, and if you like, you can read Allah's Statement: "The Prophet is closer to the believers than their own selves." (33.6) So, if a true believer dies and leaves behind some property, it will be for his inheritors (from the father's side), and if he leaves behind some debt to be paid or needy offspring, then they should come to me as I am the guardian of the deceased."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 584
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا عبد الاعلى، عن معمر، عن همام بن منبه اخي وهب بن منبه، انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مطل الغني ظلم".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ أَخِي وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام بن منبہ، وہب بن منبہ کے بھائی نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مالدار کی طرف سے (قرض کی ادائیگی میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔
ويذكر عن النبي صلى الله عليه وسلم لي الواجد يحل عقوبته وعرضه، قال سفيان: عرضه يقول مطلتني وعقوبته الحبس.وَيُذْكَرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُّ الْوَاجِدِ يُحِلُّ عُقُوبَتَهُ وَعِرْضَهُ، قَالَ سُفْيَانُ: عِرْضُهُ يَقُولُ مَطَلْتَنِي وَعُقُوبَتُهُ الْحَبْسُ.
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ(قرض کے ادا کرنے پر) قدرت رکھنے کے باوجود ٹال مٹول کرنا، اس کی سزا اور اس کی عزت کو حلال کر دیتا ہے۔ سفیان نے کہا کہ عزت کو حلال کرنا یہ ہے کہ قرض خواہ کہے ”تم صرف ٹال مٹول کر رہے ہو“ اور اس کی سزا قید کرنا ہے۔
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة، عن سلمة، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، اتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل يتقاضاه، فاغلظ له فهم به اصحابه، فقال:" دعوه، فإن لصاحب الحق مقالا".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ يَتَقَاضَاهُ، فَأَغْلَظَ لَهُ فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُهُ، فَقَالَ:" دَعُوهُ، فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سلمہ نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص قرض مانگنے اور سخت تقاضا کرنے لگا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کی گوشمالی کرنی چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو، حقدار ایسی باتیں کہہ سکتا ہے۔
Narrated Abu Huraira: A man came to the Prophet and demanded his debts and used harsh words. The companions of the Prophet wanted to harm him, but the Prophet said, "Leave him, as the creditor (owner of the right) has the right to speak."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 41, Number 586
14. باب: اگر بیع یا قرض یا امانت کا مال بجنسہ دیوالیہ شخص کے پاس مل جائے تو جس کا وہ مال ہے دوسرے قرض خواہوں سے زیادہ اس کا حقدار ہو گا۔
(14) Chapter. If somebody lends something or sells it on credit or deposits it as a trust, and the new possessor gets the bankrupt, the former owner has a more right than the other creditors to restore that thing if he find it with the bankrupt.
وقال الحسن: إذا افلس وتبين لم يجز عتقه ولا بيعه ولا شراؤه، وقال سعيد بن المسيب: قضى عثمان من اقتضى من حقه قبل ان يفلس فهو له، ومن عرف متاعه بعينه فهو احق به.وَقَالَ الْحَسَنُ: إِذَا أَفْلَسَ وَتَبَيَّنَ لَمْ يَجُزْ عِتْقُهُ وَلَا بَيْعُهُ وَلَا شِرَاؤُهُ، وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ: قَضَى عُثْمَانُ مَنِ اقْتَضَى مِنْ حَقِّهِ قَبْلَ أَنْ يُفْلِسَ فَهُوَ لَهُ، وَمَنْ عَرَفَ مَتَاعَهُ بِعَيْنِهِ فَهُوَ أَحَقُّ بِهِ.
اور حسن رحمہ اللہ نے کہا کہ جب کوئی دیوالیہ ہو جائے اور اس کا (دیوالیہ ہونا حاکم کی عدالت میں) واضح ہو جائے تو نہ اس کا اپنے کسی غلام کو آزاد کرنا جائز ہو گا اور نہ اس کی خرید و فروخت صحیح مانی جائے گی۔ سعید بن مسیب نے کہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا تھا کہ جو شخص اپنا حق دیوالیہ ہونے سے پہلے لے لے تو وہ اسی کا ہو جاتا ہے۔ اور جو کوئی اپنا ہی سامان اس کے ہاں پہچان لے تو وہی اس کا مستحق ہوتا ہے۔