عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ”کتنا پاکیزہ شہر ہے تو اور تو کتنا مجھے محبوب ہے، میری قوم نے مجھے تجھ سے نہ نکالا ہوتا تو میں تیرے علاوہ کہیں اور نہ رہتا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى الازدي، واحمد بن منيع، وغير واحد، قالوا: حدثنا ابو بدر شجاع بن الوليد، عن قابوس بن ابي ظبيان، عن ابيه، عن سلمان، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا سلمان، لا تبغضني فتفارق دينك "، قلت: يا رسول الله، كيف ابغضك وبك هدانا الله؟ قال: " تبغض العرب فتبغضني ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب لا نعرفه إلا من حديث ابي بدر شجاع بن الوليد، وسمعت محمد بن إسماعيل، يقول: ابو ظبيان لم يدرك سلمان، مات سلمان قبل علي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْأَزْدِيُّ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا سَلْمَانُ، لَا تَبْغَضْنِي فَتُفَارِقَ دِينَكَ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أَبْغَضُكَ وَبِكَ هَدَانَا اللَّهُ؟ قَالَ: " تَبْغَضُ الْعَرَبَ فَتَبْغَضُنِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَدْرٍ شُجَاعِ بْنِ الْوَلِيدِ، وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، يَقُولُ: أَبُو ظَبْيَانَ لَمْ يُدْرِكْ سَلْمَانَ، مَاتَ سَلْمَانُ قَبْلَ عَلِيٍّ.
سلمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سلمان! تم مجھ سے بغض نہ رکھو کہ تمہارا دین ہاتھ سے جاتا رہے“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں کیسے آپ سے بغض رکھ سکتا ہوں اور حال یہ ہے کہ اللہ نے آپ ہی کے ذریعہ ہمیں ہدایت بخشی ہے، آپ نے فرمایا: ”تم عربوں سے بغض رکھو گے تو مجھ سے بغض رکھو گے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف ابوبدر شجاع بن ولید کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: ابوظبیان نے سلمان کا زمانہ نہیں پایا ہے اور سلمان علی سے پہلے وفات پا گئے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4488) (ضعیف) (سند میں قابوس لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (2020)، المشكاة (5989) // ضعيف الجامع الصغير (6394) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3927) إسناده ضعيف قابوس ضعيف (تقدم:1053)
عثمان بن عفان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے عربوں کو دھوکہ دیا وہ میری شفاعت میں شامل نہ ہو گا اور اسے میری محبت نصیب نہ ہو گی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف حصین بن عمر احمسی کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ مخارق سے روایت کرتے ہیں، اور حصین محدثین کے نزدیک زیادہ قوی نہیں ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9812) (موضوع) (سند میں حصین بن عمر الاحمسی“ متروک راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: موضوع، الضعيفة (545)، المشكاة (5990) // ضعيف الجامع الصغير (5715) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3928) إسناده ضعيف جدًا حصين بن عمر: متروك (تق:1378) وقال الهيثمي: وضعفه الجمهور (مجمع الزوائد 53/10)
(مرفوع) حدثنا يحيى بن موسى، قال: حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا محمد بن ابي رزين، عن امه، قالت: كانت ام الحرير إذا مات احد من العرب اشتد عليها، فقيل لها: إنا نراك إذا مات رجل من العرب اشتد عليك، قالت: سمعت مولاي , يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من اقتراب الساعة هلاك العرب "، قال محمد بن ابي رزين: ومولاها طلحة بن مالك. قال ابو عيسى: هذا حديث غريب إنما نعرفه من حديث سليمان بن حرب.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي رَزِينٍ، عَنْ أُمِّهِ، قَالَتْ: كَانَتْ أُمُّ الْحُرَيْرِ إِذَا مَاتَ أَحَدٌ مِنَ الْعَرَبِ اشْتَدَّ عَلَيْهَا، فَقِيلَ لَهَا: إِنَّا نَرَاكِ إِذَا مَاتَ رَجُلٌ مِنَ الْعَرَبِ اشْتَدَّ عَلَيْكِ، قَالَتْ: سَمِعْتُ مَوْلَايَ , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِنَ اقْتِرَابِ السَّاعَةِ هَلَاكُ الْعَرَبِ "، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي رَزِينٍ: وَمَوْلَاهَا طَلْحَةُ بْنُ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ حَرْبٍ.
محمد بن رزین کی والدہ کہتی ہیں کہ جب کوئی عرب مرتا تو ام جریر پر اس کی موت بڑی سخت ہو جاتی یعنی انہیں زبردست صدمہ ہوتا تو ان سے کہا گیا کہ ہم آپ کو دیکھتے ہیں کہ جب کوئی عرب مرتا ہے تو آپ کو بہت صدمہ پہنچتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے اپنے مالک کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عربوں کی ہلاکت قرب قیامت کی نشانی ہے“۔ محمد بن رزین کہتے ہیں: ان کے مالک کا نام طلحہ بن مالک ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف سلیمان بن حرب کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5022) (ضعیف) (سند میں ام الحریر اور ام محمد بن ابی رزین دونوں مجہول ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (4515)
قال الشيخ زبير على زئي: (3929) إسناده ضعيف أم [محمد بن أبى زرين] مجهولة (تحفة الأحوذي 376/4) ولم أجد من وثقها
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى الازدي، حدثنا حجاج بن محمد، عن ابن جريج، اخبرني ابو الزبير، انه سمع جابر بن عبد الله، يقول: حدثتني ام شريك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ليفرن الناس من الدجال حتى يلحقوا بالجبال "، قالت ام شريك: يا رسول الله، فاين العرب يومئذ؟ قال: " هم قليل ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ شَرِيكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَيَفِرَّنَّ النَّاسُ مِنَ الدَّجَّالِ حَتَّى يَلْحَقُوا بِالْجِبَالِ "، قَالَتْ أُمُّ شَرِيكٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيْنَ الْعَرَبُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: " هُمْ قَلِيلٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
ام شریک رضی الله عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ دجال سے بھاگیں گے، یہاں تک کہ پہاڑوں پر جا رہیں گے“، ام شریک رضی الله عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت عرب کہاں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ”وہ (تعداد میں) تھوڑے ہوں گے“۔
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «سام» عربوں کے جد امجد ہیں اور «یافث» رومیوں کے اور «حام» حبشیوں کے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے اور «یافث»، «یافِتُ» اور «یَفِتُ» تینوں لغتیں ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3231 (ضعیف)»
وضاحت: ۱؎: یہ تینوں نوح علیہ السلام کے بیٹوں کے نام ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (3683) // تقدم برقم (635 / 3461)، ضعيف الجامع الصغير (3214) //
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا يحيى بن آدم، عن ابي بكر بن عياش، حدثنا صالح بن ابي صالح مولى عمرو بن حريث، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: ذكرت الاعاجم عند النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لانا بهم او ببعضهم اوثق مني بكم او ببعضكم ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث ابي بكر بن عياش، وصالح بن ابي صالح هذا يقال له: صالح بن مهران مولى عمرو بن حريث.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: ذُكِرَتِ الْأَعَاجِمُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَأَنَا بِهِمْ أَوْ بِبَعْضِهِمْ أَوْثَقُ مِنِّي بِكُمْ أَوْ بِبَعْضِكُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، وَصَالِحُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ هَذَا يُقَالُ لَهُ: صَالِحُ بْنُ مِهْرَانَ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عجم کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”مجھے ان پر یا ان کے بعض لوگوں پر تم سے یا تمہارے بعض لوگوں سے زیادہ اعتماد ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے ہم اسے صرف ابوبکر بن عیاش کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اور صالح بن ابی صالح کو صالح بن مہران مولی عمرو بن حریث بھی کہا جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13502) (ضعیف) (سند میں صالح بن ابی صالح ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (6245)
قال الشيخ زبير على زئي: (3932) إسناده ضعيف صالح: ضعيف (تق:2867) وسفيان بن وكيع: ضعيف (تقدم:3082)
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا عبد الله بن جعفر، حدثني ثور بن زيد الديلي، عن ابي الغيث، عن ابي هريرة، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم حين انزلت سورة الجمعة، فتلاها، فلما بلغ وآخرين منهم لما يلحقوا بهم سورة الجمعة آية 3، قال له رجل: يا رسول الله، من هؤلاء الذين لم يلحقوا بنا؟ فلم يكلمه، قال: وسلمان الفارسي فينا، قال: فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده على سلمان , فقال: " والذي نفسي بيده، لو كان الإيمان بالثريا لتناوله رجال من هؤلاء ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن وقد روي من غير وجه عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وابو الغيث اسمه: سالم مولى عبد الله بن مطيع مدني.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ الدِّيلِيُّ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُنْزِلَتْ سُورَةُ الْجُمُعَةِ، فَتَلَاهَا، فَلَمَّا بَلَغَ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ سورة الجمعة آية 3، قَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِنَا؟ فَلَمْ يُكَلِّمْهُ، قَالَ: وَسَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ فِينَا، قَالَ: فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ , فَقَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ بِالثُّرَيَّا لَتَنَاوَلَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلَاءِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو الْغَيْثِ اسْمُهُ: سَالِمٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ مَدَنِيٌّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت سورۃ الجمعہ نازل ہوئی ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، آپ نے اس کی تلاوت فرمائی، جب «وآخرين منهم لما يلحقوا بهم» پر پہنچے تو آپ سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں جو ابھی ہم سے ملے نہیں ہیں تو آپ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا، وہ کہتے ہیں: اور سلمان فارسی ہم میں موجود تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سلمان کے اوپر رکھا اور فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ایمان ثریا پر بھی ہو گا تو بھی اس کے کچھ لوگ اسے حاصل کر لیں گے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور یہ متعدد سندوں سے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مرفوع طریقہ سے آئی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الجمعة 1 (4897)، 4898)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 59 (2526) (تحفة الأشراف: 12917)، و مسند احمد (2/297، 420، 469) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: سلمان فارسی رضی الله عنہ عجمی (ملک ایران کے) تھے اور اس آیت میں انہیں لوگوں کی طرف اشارہ ہے، عجم میں بےشمار محدثین اور عظیم امامان اسلام پیدا ہوئے۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن ابي زياد القطواني، وغير واحد، قالوا: حدثنا ابو داود الطيالسي، حدثنا عمران القطان، عن قتادة، عن انس، عن زيد بن ثابت رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم نظر قبل اليمن , فقال: " اللهم اقبل بقلوبهم، وبارك لنا في صاعنا ومدنا ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب لا نعرفه من حديث زيد بن ثابت إلا من حديث عمران القطان.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْقَطَوَانِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظَرَ قِبَلَ الْيَمَنِ , فَقَالَ: " اللَّهُمَّ أَقْبِلْ بِقُلُوبِهِمْ، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِنَا وَمُدِّنَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ.
زید بن ثابت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”اے اللہ! ان کے دلوں کو ہماری طرف پھیر دے اور ہمارے صاع اور مد میں ہمیں برکت دے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ہم اسے یعنی زید بن ثابت کی اس حدیث کو صرف عمران قطان کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: مدینہ میں زیادہ تر علم یمن سے آیا کرتا تھا، اس لیے آپ نے اہل یمن کی دلوں کو مدینہ کی طرف پھیر دینے کی دعا فرمائی، اسی مناسبت سے آپ نے مدینہ کی صاع اور مد (یعنی صاع اور مد میں ناپے جانے غلے) میں برکت کی دعا فرمائی۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، المشكاة (6263 / التحقيق الثانى)، الإرواء (4 / 176)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اتاكم اهل اليمن هم اضعف قلوبا , وارق افئدة الإيمان يمان , والحكمة يمانية ". وفي الباب عن ابن عباس، وابن مسعود. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَاكُمْ أَهْلُ الْيَمَنِ هُمْ أَضْعَفُ قُلُوبًا , وَأَرَقُّ أَفْئِدَةً الْإِيمَانُ يَمَانٍ , وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةٌ ". وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس اہل یمن آئے وہ نرم دل اور رقیق القلب ہیں، ایمان یمنی ہے اور حکمت بھی یمنی ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: بقول بعض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان و حکمت کو جو یمنی فرمایا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان و حکمت دونوں مکہ سے نکلے ہیں اور مکہ تہامہ سے ہے اور تہامہ سر زمین یمن میں داخل ہے، اور بقول بعض یہاں ظاہری معنی ہی مراد لینے میں کوئی حرج نہیں، یعنی یہاں خاص یمن جو معروف ہے کہ وہ لوگ مراد ہیں جو اس وقت یمن سے آئے تھے، نہ کہ ہر زمانہ کے اہل یمن مراد ہیں، نیز یہ معنی بھی بیان کیا گیا ہے کہ یمن والوں سے بہت آسانی سے ایمان قبول کر لیا، جبکہ دیگر علاقوں کے لوگوں پر بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی تھی، اس لیے اہل یمن (اس وقت کے اہل یمن) کی تعریف کی، «واللہ اعلم»