(موقوف) حدثنا حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن وهب بن منبه، عن اخيه همام بن منبه، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: " ليس احد اكثر حديثا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم مني إلا عبد الله بن عمرو , فإنه كان يكتب وكنت لا اكتب ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَخِيهِ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: " لَيْسَ أَحَدٌ أَكْثَرَ حَدِيثًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي إِلَّا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو , فَإِنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ وَكُنْتُ لَا أَكْتُبُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں مجھ سے زیادہ کسی کو یاد نہیں، سوائے عبداللہ بن عمرو کے کیونکہ وہ لکھ لیتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2668) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: لکھ لینے کے باوجود عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی روایات ابوہریرہ رضی الله عنہ سے زیادہ نہیں ہیں، یہ صرف ان کا گمان تھا کہ لکھ دینے کی وجہ سے زیادہ ہوں گی، نیز اس روایت میں یہ بات بھی ہے کہ عہد نبوی میں بھی لوگ احادیث رسول لکھا کرتے تھے، خود ابوہریرہ رضی الله عنہ کے پاس بعد میں تحریری شکل میں احادیث کا مجموعہ ہو گیا تھا۔ یہ بھی واضح رہے کہ ابوہریرہ رضی الله عنہ نے علم حدیث کے سیکھنے سکھانے کو اپنی زندگی کا مشغلہ بنا لیا تھا، جب سے مدینہ آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دن رات رہ کر احادیث کا علم حاصل کیا، بعد میں ۵۷ھ سے ۵۸ھ تک اسی کے نشر و اشاعت میں مدینۃ الرسول اور مسجد رسول میں بیٹھ کر مشغول رہے، جب کہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما نے مدینہ چھوڑ کر طائف کی سکونت اختیار کر لی، اور شاید اسی وجہ سے آپ کی احادیث ہم تک نہیں پہنچ سکیں۔
صحابی رسول عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا: ”اے اللہ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے، اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اور یہ دعا آپ کی ان دعاؤں میں سے نہیں ہے جو قبول نہیں ہوئیں تھیں، یہ مقبول دعاؤں میں سے ہے، ثابت ہوا کہ معاویہ رضی الله عنہ خود ہدایت پر تھے اور لوگوں کے لیے ہدایت کا معیار تھے، «رضی الله عنہ» ۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (623)، الصحيحة (1969)
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى، حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، حدثنا عمرو بن واقد، عن يونس بن حلبس، عن ابي إدريس الخولاني، قال: لما عزل عمر بن الخطاب عمير بن سعد، عن حمص ولى معاوية، فقال الناس: عزل عميرا وولى معاوية، فقال عمير: لا تذكروا معاوية إلا بخير , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " اللهم اهد به ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، قال: وعمرو بن واقد يضعف.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ حَلْبَسٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، قَالَ: لَمَّا عَزَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عُمَيْرَ بْنَ سَعْدٍ، عَنْ حِمْصَ وَلَّى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ النَّاسُ: عَزَلَ عُمَيْرًا وَوَلَّى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ عُمَيْرٌ: لَا تَذْكُرُوا مُعَاوِيَةَ إِلَّا بِخَيْرٍ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ اهْدِ بِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، قَالَ: وَعَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ يُضَعَّفُ.
ابوادریس خولانی کہتے ہیں کہ جب عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے عمیر بن سعد کو حمص سے معزول کیا اور ان کی جگہ معاویہ رضی الله عنہ کو والی بنایا تو لوگوں نے کہا: انہوں نے عمیر کو معزول کر دیا اور معاویہ کو والی بنایا، تو عمیر نے کہا: تم لوگ معاویہ رضی الله عنہ کا ذکر بھلے طریقہ سے کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: «اللهم اهد به»”اے اللہ! ان کے ذریعہ ہدایت دے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- عمرو بن واقد حدیث میں ضعیف ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10892) (صحیح) (سند میں عمرو بن واقد ضعیف ہے، اوپر کی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح بما قبله (3842)
قال الشيخ زبير على زئي: (3843) إسناده ضعيف جدًا عمرو بن واقد متروك (تقدم: 2340) والحديث السابق(الأصل:3842) يغني عنه
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن مشرح بن هاعان، عن عقبة بن عامر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اسلم الناس , وآمن عمرو بن العاص ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث ابن لهيعة، عن مشرح بن هاعان، وليس إسناده بالقوي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَسْلَمَ النَّاسُ , وَآمَنَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنْ مِشْرَحِ بْنِ هَاعَانَ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِالْقَوِيِّ.
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ اسلام لائے اور عمرو بن العاص رضی الله عنہ ایمان لائے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ مشرح بن ہاعان سے روایت کرتے ہیں اور اس کی سند زیادہ قوی نہیں ہے۔
وضاحت: ۱؎: عمرو بن العاص رضی الله عنہ فتح مکہ سے ایک سال یا دو سال پہلے اسلام لا کر مدینہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے، اور اہل مکہ میں سے جو لوگ فتح مکہ کے بعد اسلام لائے ان کی بنسبت عمرو بن العاص کا اسلام لانا کسی زور و زبردستی اور خوف و ہراس سے بالاتر تھا اسی لیے آپ نے ان کے متعلق فرمایا کہ دوسرے لوگ (جو لوگ فتح مکہ کے دن ایمان لائے وہ) تو خوف و ہراس کے عالم میں اسلام لائے، لیکن عمرو بن العاص رضی الله عنہ کا ایمان ان کے دلی اطمینان اور چاہت و رغبت کا مظہر ہے، گویا اللہ نے انہیں اس ایمان قلبی سے نوازا ہے جس کا درجہ بڑھا ہوا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، الصحيحة (115)، المشكاة (6236)
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا ابو اسامة، عن نافع بن عمر الجمحي، عن ابن ابي مليكة، قال: قال طلحة بن عبيد الله سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن عمرو بن العاص من صالحي قريش ". قال ابو عيسى: هذا حديث إنما نعرفه من حديث نافع بن عمر الجمحي، ونافع ثقة , وليس إسناده بمتصل، وابن ابي مليكة لم يدرك طلحة.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ الْجُمَحِيِّ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: قَالَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ مِنْ صَالِحِي قُرَيْشٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ الْجُمَحِيِّ، وَنَافِعٌ ثِقَةٌ , وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، وَابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ لَمْ يُدْرِكْ طَلْحَةَ.
طلحہ بن عبیداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”عمرو بن العاص رضی الله عنہ قریش کے نیک لوگوں میں سے ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس حدیث کو ہم صرف نافع بن عمر جمحی کی روایت سے جانتے ہیں اور نافع ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل نہیں ہے، اور ابن ابی ملیکہ نے طلحہ کو نہیں پایا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5001) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابن ابی ملیکہ اور طلحہ کے درمیان انقطاع ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (3845) إسناده ضعيف / السند منقطع
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن هشام بن سعد، عن زيد بن اسلم، عن ابي هريرة، قال: نزلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم منزلا، فجعل الناس يمرون , فيقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من هذا يا ابا هريرة؟ " , فاقول: فلان، فيقول: " نعم عبد الله هذا "، ويقول: " من هذا؟ " , فاقول: فلان، فيقول: " بئس عبد الله هذا "، حتى مر خالد بن الوليد , فقال: " من هذا؟ " , فقلت: هذا خالد بن الوليد، فقال: " نعم عبد الله خالد بن الوليد سيف من سيوف الله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، ولا نعرف لزيد بن اسلم سماعا من ابي هريرة، وهو عندي حديث مرسل. قال: وفي الباب عن ابي بكر الصديق.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: نَزَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْزِلًا، فَجَعَلَ النَّاسُ يَمُرُّونَ , فَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ هَذَا يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ " , فَأَقُولُ: فُلَانٌ، فَيَقُولُ: " نِعْمَ عَبْدُ اللَّهِ هَذَا "، وَيَقُولُ: " مَنْ هَذَا؟ " , فَأَقُولُ: فُلَانٌ، فَيَقُولُ: " بِئْسَ عَبْدُ اللَّهِ هَذَا "، حَتَّى مَرَّ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ , فَقَالَ: " مَنْ هَذَا؟ " , فَقُلْتُ: هَذَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، فَقَالَ: " نِعْمَ عَبْدُ اللَّهِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ اللَّهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَا نَعْرِفُ لِزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ سَمَاعًا مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَهُوَ عِنْدِي حَدِيثٌ مُرْسَلٌ. قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک منزل پر پڑاؤ کیا، جب لوگ آپ کے سامنے سے گزرتے تو آپ پوچھتے: ”ابوہریرہ! یہ کون ہے؟“ میں کہتا: فلاں ہے، تو آپ فرماتے: ”کیا ہی اچھا بندہ ہے یہ اللہ کا“، پھر آپ فرماتے: ”یہ کون ہے؟“ تو میں کہتا: فلاں ہے تو آپ فرماتے: ”کیا ہی برا بندہ ہے یہ اللہ کا ۱؎“، یہاں تک کہ خالد بن ولید گزرے تو آپ نے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ میں نے عرض کیا: یہ خالد بن ولید ہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا ہی اچھے بندے ہیں اللہ کے خالد بن ولید، وہ اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہیں“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اور ہم نہیں جانتے کہ زید بن اسلم کا سماع ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ہے کہ نہیں اور یہ میرے نزدیک مرسل روایت ہے، ۲- اس باب میں ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: جن لوگوں کے بارے میں آپ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا شاید وہ منافقین ہوں گے، ورنہ کسی صحابی کے بارے میں آپ ایسا نہیں فرما سکتے تھے
۲؎: خالد بن ولید رضی الله عنہ کے حق میں آپ کا یہ فرمان عمر رضی الله عنہ کے دور خلافت میں سچ ثابت ہوا، اللہ نے خالد بن ولید رضی الله عنہ کے ذریعہ دین کی ایسی تائید فرمائی کہ ان کے ہاتھوں متعدد فتوحات حاصل ہوئیں، خالد بن ولید رضی الله عنہ حقیقت میں اس ملت کی ایسی تلوار تھے جسے اللہ نے کافروں کی برتری کے لیے میان سے باہر نکالی تھی۔ اور خالد بن ولید رضی الله عنہ کے وہ اکیلے جرنیل ہیں جنہوں نے زندگی بھر کبھی کسی جنگ میں شکست نہیں کھائی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (6253 / التحقيق الثاني)، الصحيحة (1237 - 1826)، أحكام الجنائز (166)
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن ابي إسحاق، عن البراء، قال: اهدي لرسول الله صلى الله عليه وسلم ثوب حرير , فجعلوا يعجبون من لينه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اتعجبون من هذا , لمناديل سعد بن معاذ في الجنة احسن من هذا ". وفي الباب عن انس. قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ: أُهْدِيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبُ حَرِيرٍ , فَجَعَلُوا يَعْجَبُونَ مِنْ لِينِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَعْجَبُونَ مِنْ هَذَا , لَمَنَادِيلُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فِي الْجَنَّةِ أَحْسَنُ مِنْ هَذَا ". وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
براء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ ریشمی کپڑے ہدیہ میں آئے، ان کی نرمی کو دیکھ کر لوگ تعجب کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں سعد بن معاذ رضی الله عنہ کے رومال اس سے بہتر ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس رضی الله عنہ بھی حدیث مروی ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا ابن جريج، اخبرني ابو الزبير، انه سمع جابر بن عبد الله، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول وجنازة سعد بن معاذ بين ايديهم: " اهتز له عرش الرحمن ". قال: وفي الباب عن اسيد بن حضير، وابي سعيد، ورميثة. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَجَنَازَةُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ: " اهْتَزَّ لَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ ". قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَرُمَيْثَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: ”اور سعد بن معاذ رضی الله عنہ کا جنازہ (اس وقت لوگوں کے سامنے رکھا ہوا تھا): ”ان کے لیے رحمن کا عرش (بھی خوشی سے) جھوم اٹھا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں اسید بن حضیر، ابو سعید خدری اور رمیثہ رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی: ان کے آسمان پر آ جانے کی خوشی میں، بعض لوگوں نے ”رحمان کے عرش کو اٹھانے والے فرشتے“ مراد لیا ہے کہ وہ سعد بن معاذ رضی الله عنہ کے آسمان پر آنے کی خوشی میں جھوم اٹھے، بہرحال یہ ان کے مقرب بارگاہ الٰہی ہونے کی دلیل ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن قتادة، عن انس بن مالك قال: لما حملت جنازة سعد بن معاذ قال المنافقون: ما اخف جنازته , وذلك لحكمه في بني قريظة، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم , فقال: " إن الملائكة كانت تحمله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: لَمَّا حُمِلَتْ جَنَازَةُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ قَالَ الْمُنَافِقُونَ: مَا أَخَفَّ جَنَازَتَهُ , وَذَلِكَ لِحُكْمِهِ فِي بَنِي قُرَيْظَةَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: " إِنَّ الْمَلَائِكَةَ كَانَتْ تَحْمِلُهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب سعد بن معاذ رضی الله عنہ کا جنازہ اٹھایا گیا تو منافقین کہا: کتنا ہلکا ہے ان کا جنازہ؟ اور یہ طعن انہوں نے اس لیے کیا کہ سعد نے بنی قریظہ کے قتل کا فیصلہ فرمایا تھا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا: ”فرشتے اسے اٹھائے ہوئے تھے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب خندق کی لڑائی سے فارغ ہو گئے اور بنی قریظہ کا رخ کیا تو اس وقت یہ لوگ ایک قلعہ میں محبوس تھے، لشکر اسلام نے انہیں چاروں طرف سے گھیر لیا، پھر یہ لوگ سعد بن معاذ رضی الله عنہ کے فیصلہ پر راضی ہوئے، چنانچہ سعد نے ان کے حق میں یہ فیصلہ دیا کہ ان کے جنگجو جوان قتل کر دیئے جائیں، مال مسلمانوں میں تقسیم ہوں اور عورتیں بچے غلام و لونڈی بنا لیے جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کا یہ فیصلہ بہت پسند فرمایا اور اسی پر عمل ہوا، اسی فیصلہ کی وجہ سے منافقوں نے ان سے جل کر یہ طعن کیا کہ ان کا جنازہ کیسا ہلکا ہے، ان احمقوں کو یہ خبر نہ تھی کہ اسے ملائکہ اٹھائے ہوئے ہیں (یہ ان کے اللہ کے ازحد محبوب بندہ ہونے کی دلیل ہے)۔
(موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن مرزوق البصري، حدثنا محمد بن عبد الله الانصاري، حدثني ابي، عن ثمامة، عن انس، قال: " كان قيس بن سعد من النبي صلى الله عليه وسلم بمنزلة صاحب الشرط من الامير ". قال الانصاري: يعني مما يلي من اموره. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث الانصاري.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ ثُمَامَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: " كَانَ قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَنْزِلَةِ صَاحِبِ الشُّرَطِ مِنَ الْأَمِيرِ ". قَالَ الْأَنْصَارِيُّ: يَعْنِي مِمَّا يَلِي مِنْ أُمُورِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْأَنْصَارِيِّ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قیس بن سعد رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسے ہی تھے جیسے امیر (کی حفاظت) کے لیے پولیس والا ہوتا ہے۔ راوی حدیث (محمد بن عبداللہ) انصاری کہتے ہیں: یعنی وہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے) آپ کے بہت سے امور انجام دیا کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف انصاری کی روایت سے جانتے ہیں۔