(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا ابن جريج، اخبرني ابو الزبير، انه سمع جابر بن عبد الله، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول وجنازة سعد بن معاذ بين ايديهم: " اهتز له عرش الرحمن ". قال: وفي الباب عن اسيد بن حضير، وابي سعيد، ورميثة. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَجَنَازَةُ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ: " اهْتَزَّ لَهُ عَرْشُ الرَّحْمَنِ ". قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَرُمَيْثَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا: ”اور سعد بن معاذ رضی الله عنہ کا جنازہ (اس وقت لوگوں کے سامنے رکھا ہوا تھا): ”ان کے لیے رحمن کا عرش (بھی خوشی سے) جھوم اٹھا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں اسید بن حضیر، ابو سعید خدری اور رمیثہ رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی: ان کے آسمان پر آ جانے کی خوشی میں، بعض لوگوں نے ”رحمان کے عرش کو اٹھانے والے فرشتے“ مراد لیا ہے کہ وہ سعد بن معاذ رضی الله عنہ کے آسمان پر آنے کی خوشی میں جھوم اٹھے، بہرحال یہ ان کے مقرب بارگاہ الٰہی ہونے کی دلیل ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3848
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی: ان کے آسمان پر آ جانے کی خوشی میں، بعض لوگوں نے ”رحمان کے عرش کو اٹھانے والے فرشتے“ مراد لیا ہے کہ وہ سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کے آسمان پر آنے کی خوشی میں جھوم اٹھے، بہرحال یہ ان کے مقرب بارگاہِ الٰہی ہونے کی دلیل ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3848
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث158
´سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سعد بن معاذ کی موت کے وقت رحمن کا عرش جھوم اٹھا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 158]
اردو حاشہ: (1) مومن کی روح جب آسمان پر جاتی ہے تو جہاں جہاں سے گزرتی ہے، سب فرشتے خوش ہوتے ہیں۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات پر جب ان کی روح مبارک آسمانوں پر گئی تو عرش الہی کو بھی اس کی آمد پر خوشی ہوئی اور اس میں خوشی کے اظہار کے طور پر حرکت پیدا ہوئی۔
(2) اللہ کی مخلوق جو انسان کی نظر میں بے جان اور سمجھ بوجھ سے خالی ہے، حقیقت میں ایسے نہیں، بلکہ بے جان مخلوق میں بھی شعور اور احساس ہے لیکن وہ انسان کے حواس سے بالاتر ہے۔
(3) بعض علماء نے عرش کی خوشی سے مقرب فرشتوں کی خوشی مراد لی ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 158
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6345
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبکہ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جنازہ ان کے سامنے رکھا ہواتھا،فرمایا:"ان کی(موت کی) وجہ سے عرش الٰہی جھوم گیا۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6345]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اللہ تعالیٰ نے جمادات میں بھی کچھ نہ کچھ شعور و احساس رکھا ہے، اس لیے پتھر بھی اللہ کے خوف و خشیت سے گرتے ہیں اور اگر قرآن مجید پہاڑ پر اتار دیا جاتا تو وہ بھی خشوع و خضوع کی بنا پر ریزہ ریزہ ہو جاتا، اس طرح حضرت سعد بن معاذ کی روح کے پرواز کرنے پر اس کی آمد پر اظہار مسرت و شادمانی کے لیے عرش الٰہی مسرت سے جھوم اٹھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6345
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3803
3803. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”سعد بن معاذ کی موت پر عرش جھوم اٹھا۔“ اعمش سے روایت ہے، انہوں نے ابوصالح سے بیان کیا، انہوں نے حضرت جابر ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے اسی کے مثل روایت بیان کی۔ ایک شخص نے حضرت جابر ؓ سے کہا کہ حضرت براء ؓ کا بیان ہے کہ جنازے کی چارپائی حرکت میں آئی تھی۔ حضرت جابر ؓ نے کہا: ان دونوں قبیلوں کے درمیان (زمانہ جاہلیت میں) دشمنی تھی۔ میں نے خود نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”سعد بن معاذ کی موت سے رحمٰن کا عرش جھوم اٹھا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3803]
حدیث حاشیہ: روایت میں اس عداوت اور دشمنی کی طرف اشارہ ہے جو انصار کے دونوں قبیلوں، اوس و خزرج کے درمیان زمانہ جاہلیت میں تھی، لیکن اسلام کے بعد اس کے اثرات کچھ بھی باقی نہیں رہ گئے تھے، حضرت سعد ؓ قبیلہ اوس کے سردار تھے اور حضرت براء کا تعلق خزرج سے تھا، حضرت جابر ؓ کا مقصد یہ ہے کہ اس پرانی دشمنی کی وجہ سے انہوں نے پوری طرح حدیث نہیں بیان کی، بہر حال عرش رحمان اور سریر ہر دو کے ہلنے کے بارے میں حدیث آئی ہیں اور دونوں صورتوں کی محدثین نے یہ تشریح کی ہے کہ اس میں حضرت سعد بن معاذ ؓ کی موت کو ایک حادثہ عظیم بتایا گیا ہے آپ کے مرتبہ کو گھٹانا کسی کے بھی سامنے نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3803
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3803
3803. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”سعد بن معاذ کی موت پر عرش جھوم اٹھا۔“ اعمش سے روایت ہے، انہوں نے ابوصالح سے بیان کیا، انہوں نے حضرت جابر ؓ سے، انہوں نے نبی ﷺ سے اسی کے مثل روایت بیان کی۔ ایک شخص نے حضرت جابر ؓ سے کہا کہ حضرت براء ؓ کا بیان ہے کہ جنازے کی چارپائی حرکت میں آئی تھی۔ حضرت جابر ؓ نے کہا: ان دونوں قبیلوں کے درمیان (زمانہ جاہلیت میں) دشمنی تھی۔ میں نے خود نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”سعد بن معاذ کی موت سے رحمٰن کا عرش جھوم اٹھا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3803]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت براء بن عازب ؓ کو اس بات پر تعجب ہوا کہ ایک بندے کی موت پر اللہ کا عرش کیسے حرکت کر سکتا ہے لہذا اس سے مرادان کی چارپائی ہے۔ انھوں نے یہ بات کسی دشمنی کی بنا پر نہیں کہی تھی بلکہ اپنی سمجھ کے مطابق اس کا اظہار کیا لیکن حضرت جابر ؓ نے سمجھا کہ شاید حضرت براء بن عازب ؓ کسی اور وجہ سے یہ بات کہہ رہے ہیں انھوں نے اس کا ازالہ فرمایا کہ بات سمجھ میں آئے یا نہ آئے حقیقت یہ ہے کہ حضرت سعد بن معاذ ؓ کی موت پر عرش الٰہی ہی حرکت میں آیا تھا اس کے متعلق تاویل کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے خود یہ الفاظ سنے تھے۔ 2۔ عرش الٰہی کا حرکت میں آنا خوشی کی بنا پر تھا اور اللہ کے عرش کا خوشی کی وجہ سے حرکت کرنا ممکن ہے جیسا کہ ایک مرتبہ خوشی کی بنا پر احد پہاڑ نے بھی حرکت کی تھی اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے کچھ پتھر بھی تواللہ کے خوف سے پہاڑوں سے گرپڑتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3803