جریر بن عبداللہ بجلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب سے میں اسلام لایا ہوں مجھے (اندر جانے سے) منع نہیں کیا اور جب بھی آپ نے مجھے دیکھا آپ مسکرائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، وهو بهذا اللفظ أرجح انظر ما قبله (3820)
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، ومحمود بن غيلان , قالا: حدثنا ابو احمد، عن سفيان، عن ليث، عن ابي جهضم، عن ابن عباس " انه راى جبريل عليه السلام مرتين , ودعا له النبي صلى الله عليه وسلم مرتين ". قال ابو عيسى: هذا حديث مرسل، ولا نعرف لابي جهضم سماعا من ابن عباس وقد، روى عن عبيد الله بن عبد الله بن عباس، عن ابن عباس , وابو جهضم اسمه: موسى بن سالم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ أَبِي جَهْضَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ " أَنَّهُ رَأَى جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام مَرَّتَيْنِ , وَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ، وَلَا نَعْرِفُ لِأَبِي جَهْضَمٍ سَمَاعًا مِنَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَقَدْ، رَوَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , وَأَبُو جَهْضَمٍ اسْمُهُ: مُوسَى بْنُ سَالِمٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے جبرائیل علیہ السلام کو دو بار دیکھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دو مرتبہ دعائیں کیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث مرسل ہے، ہمیں نہیں معلوم کہ ابوجہضم کا ابن عباس سے سماع ہے یا نہیں ۲- یہ حدیث عبیداللہ بن عبداللہ بن عباس سے بھی ابن عباس کے واسطہ سے آئی ہے، ۳- اور ابوجہضم کا نام موسیٰ بن سالم ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6502) (ضعیف) (سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: (3822) إسناده ضعيف ليث:ضعيف (تقدم:218) والسند منقطع و سفيان الثوري عنعن (تقدم:746)
وضاحت: ۱؎: ایک مرتبہ اپنے سینہ سے چمٹا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں یہ دعا کی کہ رب العالمین انہیں علم و حکمت عطا فرما اور دوسری مرتبہ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کا پانی رکھ رہے تھے تو یہ دعا کی کہ اللہ تو انہیں دین کی سمجھ عطا فرما۔
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سینے سے لگا کر فرمایا: «اللهم علمه الحكمة»”اے اللہ! اسے حکمت سکھا دے“۱؎۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، قال: رايت في المنام كانما في يدي قطعة إستبرق ولا اشير بها إلى موضع من الجنة إلا طارت بي إليه، فقصصتها على حفصة، فقصتها حفصة على النبي صلى الله عليه وسلم , فقال: " إن اخاك رجل صالح , او إن عبد الله رجل صالح ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ كَأَنَّمَا فِي يَدِي قِطْعَةُ إِسْتَبْرَقٍ وَلَا أُشِيرُ بِهَا إِلَى مَوْضِعٍ مِنَ الْجَنَّةِ إِلَّا طَارَتْ بِي إِلَيْهِ، فَقَصَصْتُهَا عَلَى حَفْصَةَ، فَقَصَّتْهَا حَفْصَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: " إِنَّ أَخَاكِ رَجُلٌ صَالِحٌ , أَوْ إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ رَجُلٌ صَالِحٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا میرے ہاتھ میں موٹے ریشم کا ایک ٹکڑا ہے اور اس سے میں جنت کی جس جگہ کی جانب اشارہ کرتا ہوں تو وہ مجھے اڑا کر وہاں پہنچا دیتا ہے، تو میں نے یہ خواب (ام المؤمنین) حفصہ رضی الله عنہا سے بیان کیا پھر حفصہ رضی الله عنہا نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ”تیرا بھائی ایک مرد صالح ہے“ یا فرمایا: ”عبداللہ مرد صالح ہیں“۱؎۔ امام ترمذی: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن إسحاق الجوهري، حدثنا ابو عاصم، عن عبد الله بن المؤمل، عن ابن ابي مليكة، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم راى في بيت الزبير مصباحا، فقال: " يا عائشة ما ارى اسماء إلا قد نفست , فلا تسموه حتى اسميه "، فسماه عبد الله , وحنكه بتمرة بيده. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِسْحَاق الْجَوْهَرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُؤَمَّلِ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى فِي بَيْتِ الزُّبَيْرِ مِصْبَاحًا، فَقَالَ: " يَا عَائِشَةُ مَا أُرَى أَسْمَاءَ إِلَّا قَدْ نُفِسَتْ , فَلَا تُسَمُّوهُ حَتَّى أُسَمِّيَهُ "، فَسَمَّاهُ عَبْدَ اللَّهِ , وَحَنَّكَهُ بِتَمْرَةٍ بِيَدِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (خواب میں) زبیر کے گھر میں ایک چراغ دیکھا تو آپ نے عائشہ رضی الله عنہا سے فرمایا: ”عائشہ! میں یہی سمجھا ہوں کہ اسماء کے یہاں ولادت ہونے والی ہے، تو اس کا نام تم لوگ نہ رکھنا، میں رکھوں گا“، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام عبداللہ رکھا، اور اپنے ہاتھ سے ایک کھجور کے ذریعہ ان کی تحنیک کی ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے چبا کر ان کے منہ میں ڈال دیا جس کے منہ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن گیا وہ منہ کتنا مبارک ہو گیا! «ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء»(الجمعة: ۴)۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: (3826) إسناده ضعيف عبدالله بن المؤمل: ضعيف الحديث (تق: 3648) و حديث مسلم (2146) هو المحفوظ
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا جعفر بن سليمان، عن الجعد ابي عثمان، عن انس بن مالك، قال: " مر رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمعت امي ام سليم صوته، فقالت: بابي وامي يا رسول الله انيس، قال: فدعا لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث دعوات قد رايت منهن اثنتين في الدنيا , وانا ارجو الثالثة في الآخرة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وقد روي هذا الحديث من غير وجه عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ الْجَعْدِ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ صَوْتَهُ، فَقَالَتْ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ أُنَيْسٌ، قَالَ: فَدَعَا لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ دَعَوَاتٍ قَدْ رَأَيْتُ مِنْهُنَّ اثْنَتَيْنِ فِي الدُّنْيَا , وَأَنَا أَرْجُو الثَّالِثَةَ فِي الْآخِرَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تو میری ماں ام سلیم نے آپ کی آواز سن کر بولیں: میرے باپ اور میری ماں آپ پر فدا ہوں اللہ کے رسول! یہ انیس ۱؎ ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے تین دعائیں کیں، ان میں سے دو کو تو میں نے دنیا ہی میں دیکھ لیا ۲؎ اور تیسرے کا آخرت میں امیدوار ہوں ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- یہ حدیث انس سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے، اور وہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
۲؎: ان دونوں دعاؤں کا تعلق مال و اولاد کی کثرت سے تھا، انس رضی الله عنہ کا خود بیان ہے کہ میری زمین سال میں دو مرتبہ پیداوار دیتی تھی، اور میری اولاد میں میرے پوتے اور نواسے اس کثرت سے ہوئے کہ ان کی تعداد سو کے قریب ہے (دیکھئیے اگلی حدیث رقم: ۳۸۴۶)۔
۳؎: اس دعا کا تعلق گناہوں کی مغفرت سے تھا جو انہیں آخرت میں نصیب ہو گی۔ «إن شاء اللہ»
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو اسامة، عن شريك، عن عاصم الاحول، عن انس، قال: ربما قال لي النبي صلى الله عليه وسلم: " يا ذا الاذنين "، قال ابو اسامة: يعني يمازحه. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عَاصِمٍ الأَحْوَلِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: رُبَّمَا قَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا ذَا الْأُذُنَيْنِ "، قَالَ أَبُو أُسَامَةَ: يَعْنِي يُمَازِحُهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کبھی کبھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کہتے: ”اے دو کانوں والے“۔ ابواسامہ کہتے ہیں: یعنی آپ ان سے یہ مذاق کے طور پر فرماتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1192 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور مذاق کسی محبوب آدمی ہی سے کیا جاتا ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، قال: سمعت قتادة يحدث، عن انس بن مالك، عن ام سليم، انها قالت: يا رسول الله انس خادمك ادع الله له، قال: " اللهم اكثر ماله , وولده , وبارك له فيما اعطيته ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَال: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ، أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَسٌ خَادِمُكَ ادْعُ اللَّهَ لَهُ، قَالَ: " اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ , وَوَلَدَهُ , وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام سلیم رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! انس آپ کا خادم ہے، آپ اللہ سے اس کے لیے دعا فرما دیجئیے۔ آپ نے فرمایا: «اللهم أكثر ماله وولده وبارك له فيما أعطيته»”اے اللہ! اس کے مال اور اولاد میں زیادتی عطا فرما اور جو تو نے اسے عطا کیا ہے اس میں برکت دے“۔
(مرفوع) حدثنا زيد بن اخزم الطائي، حدثنا ابو داود، عن شعبة، عن جابر، عن ابي نصر، عن انس رضي الله عنه، قال: " كناني رسول الله صلى الله عليه وسلم ببقلة كنت اجتنيها ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث جابر الجعفي، عن ابي نصر , وابو نصر هو خيثمة بن ابي خيثمة البصري روى عن انس احاديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَخْزَمَ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي نَصْرٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " كَنَّانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَقْلَةٍ كُنْتُ أَجْتَنِيهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جَابِرٍ الْجُعْفِيِّ، عَنْ أَبِي نَصْرٍ , وَأَبُو نَصْرٍ هُوَ خَيْثَمَةُ بْنُ أَبِي خَيْثَمَةَ الْبَصْرِيُّ رَوَى عَنْ أَنَسٍ أَحَادِيثَ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری کنیت ایک ساگ (گھاس) کے ساتھ رکھی جسے میں چن رہا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اس حدیث کو ہم صرف جابر جعفی کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ ابونصر سے روایت کرتے ہیں، ۲- ابونصر کا نام خیثمہ بن ابی خیثمہ بصریٰ ہے، انہوں نے انس سے کئی حدیثیں روایت کی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 826) (ضعیف) (سند میں خیثمہ ابو نصر العبدی لین الحدیث راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (4773 / التحقيق الثاني)
قال الشيخ زبير على زئي: (3830) إسناده ضعيف جدًا جابر الجعفي: ضعيف جدًا (تقدم: 206) وشيخه أبونصر خيثمة أبى خيثمة: لين الحديث (تق:1772)