سنن ترمذي
كتاب المناقب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: فضائل و مناقب
43. باب مَنَاقِبِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضى الله عنه
باب: عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان
حدیث نمبر: 3823
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ الْمُؤَدِّبُ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " دَعَا لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُؤْتِيَنِي اللَّهُ الْحِكْمَةَ مَرَّتَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ 74 مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، مِنْ حَدِيثِ عَطَاءٍ , وَقَدْ رَوَاهُ عِكْرِمَةُ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بار مجھے حکمت سے نوازے جانے کی دعا فرمائی
۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے عطا کی روایت سے غریب ہے اور اسے عکرمہ نے ابن عباس سے روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) وانظر مایأتي (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایک مرتبہ اپنے سینہ سے چمٹا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں یہ دعا کی کہ رب العالمین انہیں علم و حکمت عطا فرما اور دوسری مرتبہ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کا پانی رکھ رہے تھے تو یہ دعا کی کہ اللہ تو انہیں دین کی سمجھ عطا فرما۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (395)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3823 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3823
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ایک مرتبہ اپنے سینہ سے چمٹا کر آپ ﷺ نے ان کے حق میں یہ دعا کی کہ رب العالمین انہیں علم و حکمت عطا فرما اور دوسری مرتبہ جب وہ آپ ﷺ کے لیے وضو کا پانی رکھ رہے تھے تو یہ دعا کی کہ اللہ تو انہیں دین کی سمجھ عطا فرما۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3823
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 143
´بیت الخلاء کے قریب پانی رکھنا بہتر ہے۔`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْخَلَاءَ، فَوَضَعْتُ لَهُ وَضُوءًا، قَالَ: مَنْ وَضَعَ هَذَا؟ فَأُخْبِرَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ فَقِّهْهُ فِي الدِّينِ . . .»
”. . . وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں تشریف لے گئے۔ میں نے (بیت الخلاء کے قریب) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا۔ (باہر نکل کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کس نے رکھا؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا تو آپ نے (میرے لیے دعا کی اور) فرمایا «اللهم فقهه في الدين» اے اللہ! اس کو دین کی سمجھ عطا فرمائیو . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ وَضْعِ الْمَاءِ عِنْدَ الْخَلاَءِ: 143]
� تشریح:
یہ ام المومنین سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ کے گھر کا واقعہ ہے۔ آپ کو خبر دینے والی بھی سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا ہی تھیں۔ آپ کی دعا کی برکت سے ابن عباس رضی اللہ عنہما فقیہ امت قرار پائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 143
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3756
3756. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ مجھے نبی ﷺ نے اپنے سینے سے لگا کر دعا فرمائی: ”اے اللہ!اسے حکمت سکھا دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3756]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کی دعاکی برکت تھی کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ علوم قرآن میں سب پرفوقیت لے گئے
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3756
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث166
´عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے مناقب و فضائل۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سینہ سے لگایا، اور یہ دعا فرمائی: «اللهم علمه الحكمة وتأويل الكتاب» ”اے اللہ! اس کو میری سنت اور قرآن کی تفسیر کا علم عطاء فرما۔“ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 166]
اردو حاشہ:
(1)
اس حدیث میں حکمت یعنی دانائی سے مراد حدیث کا علم ہے، قرآن مجید میں یہ لفظ اس مفہوم میں وارد ہے۔
ارشاد ہے:
(وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتٰـبَ وَالحِكمَةَ) (البقرۃ: 129) (حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ اے اللہ! ان میں رسول مبعوث فرما، جو)
”انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے۔“
(2)
اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی علیہ السلام کی یہ دعا قبول فرمائی اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو علم تفسیر میں وہ بلند مقام ملا کہ انہیں امیر المفسرین کہا گیا۔
تفسیر ابن عباس قرآن کی مشہور تفسیر ہے جو بازار سے دستیاب ہو سکتی ہے۔
3)
چھوٹے بچوں کو، خصوصاً جو بزرگوں کی خدمت کریں، دعا دینی چاہیے۔
(4)
بچوں کے اظہار شفقت کے لیے سینے سے لگانا جائز ہے۔
بشرطیکہ لوگوں کے دلوں میں غلط قسم کے شکوک و شبہات پیدا ہونے کا خدشہ نہ ہو۔
(5)
علم نافع کے حصول کی دعا ایک بہترین دعا ہے کیونکہ اس سے دنیا میں بھی عزت ملتی ہے اور آخرت میں بھی بلند درجات حاصل ہوتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 166
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3822
´عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے جبرائیل علیہ السلام کو دو بار دیکھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دو مرتبہ دعائیں کیں۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3822]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف راوی ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3822
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3824
´عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے سینے سے لگا کر فرمایا: «اللهم علمه الحكمة» ”اے اللہ! اسے حکمت سکھا دے“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3824]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
حکمت سے مراد ”سنت“ ہے قرآن کی تفسیر کی تعلیم کی دعا بھی آپﷺ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے لیے کی تھی،
یہاں سنت کی تعلیم کی دعا کا تذکرہ ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3824
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:143
143. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، ایک دفعہ نبی ﷺ بیت الخلا گئے تو میں نے آپ کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا۔ آپ نے (باہر نکل کر) پوچھا: ”یہ پانی کس نے رکھا ہے؟“ آپ کو بتایا گیا، تو آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! اسے دین کی سمجھ عطا فرما۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:143]
حدیث حاشیہ:
عرب کے ہاں استنجا کا عمل عموماً ڈھیلوں سے ہوتا تھا۔
وہاں سے الگ ہوکر پھر پانی استعمال کرتے تھے۔
قضائے حاجت کے وقت پانی ساتھ لے جانا یا پانی اپنے نزدیک رکھ لینا دونوں ہی درست ہیں۔
اس سے پانی پاک ہی رہتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نےکمال ادب کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی رکھ دیا۔
آپ کے سامنے اس کے متعلق تین راستے تھے:
(الف)
۔
بیت الخلا میں داخل ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی دے آتے۔
(ب)
۔
سرے سے پانی ہی نہ دیتے۔
(ج)
۔
پانی بیت الخلاء کے قریب رکھ دیتے تاکہ اس کے حصول میں سہولت رہے۔
پہلی دوصورتیں تو مناسب نہ تھیں کیونکہ اگر پانی دینے کے لیے بیت الخلاء میں جاتے تو یہ درست نہیں تھا، بالکل نہ دیتے تو یہ بھی مناسب نہیں تھا کہ آپ کو پانی لینے میں دقت ہوتی، اس لیے سب سےبہتر صورت یہی تھی کہ دروازے پر پانی رکھ دیا جائے چونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ خدمت بجا لا کر عقلمندی کا ثبوت دیا تھا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ویسی ہی دعا فرمائی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے شرف قبولیت سے نوازا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حبر الامۃ اور ترجمان القرآن کے لقب سے مشہور ہوئے۔
(فتح الباري: 322/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 143
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3756
3756. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا کہ مجھے نبی ﷺ نے اپنے سینے سے لگا کر دعا فرمائی: ”اے اللہ!اسے حکمت سکھا دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3756]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ بیت الخلاء داخل ہوئے تو ابن عباس ؓ نے آپ کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا۔
جب آپ فارغ ہوئے تو پوچھا:
پوچھا یہ پانی کس نے رکھا ہے؟بتایا گیا کہ ابن عباس ؓنے خدمت گزاری کی ہے توآپ ﷺنے یوں دعا فرمائی:
"اے اللہ! اسے دین میں سمجھ عطا فرما۔
"(فتح الباری 126/7۔
)
رسول اللہ ﷺ کی دعاؤں میں برکت تھی کہ حضرت ابن عباس ؓ قرآن فہمی اوردینی فقاہت میں کمال مہارت رکھتے تھے،چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓآپ کے متعلق فرماتے ہیں:
آپ بہترین ترجمان القرآن تھے۔
مسند بزار میں رسول اللہﷺ کی دعا کے یہ الفاظ بیان کیے گئے ہیں:
اے اللہ!اسے قرآن کی تاویل سکھادے۔
(صحیح البخاری الوضوء حدیث 143۔
)
2۔
لفظ حکمت حضرات انبیاءؑاور غیر انبیاء ؑدونوں کے لیے مستعمل ہے۔
اگرانبیاءؑکے لیے ہےتو اس کے معنی ہیں:
نبوت اور اصابت جیسا کہ حضرت داؤدؑکے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"ہم نے اس کو حکمت عطا فرمائی۔
"(فتح الباری 127/7۔
)
اس حکمت سے مراد نبوت ہے اور اگرانبیاء ؑکے لیے مستعمل ہوتو اس کے معنی ہیں:
رائے کا درست ہونا۔
بعض لوگوں نے کہا ہے کہ حکمت سے مراد وہ نور ہے جو الہام اور وسواس میں فرق کرتا ہے۔
امام بخاریؒ کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ حکمت کا لفظ جب غیرنبوت کے لیے ہوتو اس کے معنی اصابت کے ہیں۔
بہرحال حضرت ا بن عباس ؓ حبرالامت اورتفسیر قرآن کے سلسلے میں تمام صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے زیادہ علم رکھتے تھے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3756