(مرفوع) حدثنا عباس بن عبد العظيم العنبري، وغير واحد، قالوا: حدثنا ابو داود الطيالسي، حدثنا عمران القطان، عن قتادة، عن سعيد بن ابي الحسن، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ليس شيء اكرم على الله تعالى من الدعاء ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه مرفوعا إلا من حديث عمران القطان، وعمران القطان هو ابن داور ويكنى ابا العوام.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ الْقَطَّانُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيْسَ شَيْءٌ أَكْرَمَ عَلَى اللَّهِ تَعَالَى مِنَ الدُّعَاءِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِمْرَانَ الْقَطَّانِ، وَعِمْرَانُ الْقَطَّانُ هُوَ ابْنُ دَاوَرَ وَيُكْنَى أَبَا الْعَوَّامِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم کوئی چیز (عبادت) نہیں ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے مرفوع صرف عمران قطان کی روایت سے جانتے ہیں، عمران القطان یہ ابن داور ہیں اور ان کی کنیت ابوالعوام ہے۔
وضاحت: ۱؎: کیونکہ بندہ رب العالمین کی طاقت و قدرت کے سامنے دعا کرتے وقت اپنی انتہائی بے بسی اور عاجزی و محتاجگی کا اظہار کرتا ہے، اس لیے اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ معزز و مکرم چیز (عبادت) کوئی نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (3829)
قال الشيخ زبير على زئي: (3370) إسناده ضعيف / جه 3829 قتادة عنعن (تقدم:30)
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دعا عبادت کا مغز (حاصل و نچوڑ) ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ہم اسے صرف ابن لہیعہ کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 165) (ضعیف) (سند میں ”ابن لھیعہ“ ضعیف ہیں، اس لیے مخ العبادة کے لفظ سے حدیث ضعیف ہے، اور ”الدعاء ھو العبادة“ کے لفظ سے نعمان بن بشیر رضی الله عنہ کی روایت سے یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو اگلی حدیث)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ دعا عبادت کا خلاصہ اور اصل ہے، اس لیے جو شخص اپنی حاجت برآری اور مشکل کشائی کے لیے غیر اللہ کو پکارتا ہے، وہ گویا غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے، جب کہ غیر اللہ کی عبادت شرک ہے، اور شرک ایسا گناہ ہے جو بغیر توبہ کے ہرگز معاف نہیں ہو گا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف بهذا اللفظ، الروض النضير (2 / 289)، المشكاة (2231) // ضعيف الجامع الصغير (3003) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3371) إسناده ضعيف الوليد بن مسلم وابن لهيعة عنعنا (وليد بن مسلم مدلس تقدم:3291، ابن لهيعة تقدم:10)
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا مروان بن معاوية، عن الاعمش، عن ذر، عن يسيع، عن النعمان بن بشير، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الدعاء هو العبادة "، ثم قرا: وقال ربكم ادعوني استجب لكم إن الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين سورة غافر آية 60 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه منصور، والاعمش، عن ذر ولا نعرفه إلا من حديث ذر هو ذر بن عبد الله الهمداني ثقة والد عمر بن ذر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ يُسَيْعٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ "، ثُمَّ قَرَأَ: وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ سورة غافر آية 60 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ مَنْصُورٌ، وَالْأَعْمَشُ، عَنْ ذَرٍّ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ذَرٍّ هُوَ ذَرُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَمْدَانِيُّ ثِقَةٌ وَالِدُ عُمَرَ بْنِ ذَرٍّ.
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دعا ہی عبادت ہے، پھر آپ نے آیت: «وقال ربكم ادعوني أستجب لكم إن الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين»”تمہارا رب فرماتا ہے، تم مجھے پکارو، میں تمہاری پکار (دعا) کو قبول کروں گا، جو لوگ مجھ سے مانگنے سے گھمنڈ کرتے ہیں، وہ جہنم میں ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوں گے“(المومن: ۶) پڑھی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- منصور نے یہ حدیث اعمش سے اور اعمش نے ذر سے روایت کی ہے، ہم اسے صرف ذر کی روایت سے جانتے ہیں، یہ ذر بن عبداللہ ہمدانی ہیں ثقہ ہیں، عمر بن ذر کے والد ہیں۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن ابي المليح، عن ابي صالح، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من لم يسال الله يغضب عليه ". قال ابو عيسى: وقد روى وكيع، وغير واحد، عن ابي المليح هذا الحديث ولا نعرفه إلا من هذا الوجه، وابو المليح اسمه صبيح، سمعت محمدا يقوله: وقال: يقال له الفارسي، حدثنا إسحاق بن منصور، حدثنا ابو عاصم، عن حميد ابي المليح، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَمْ يَسْأَلِ اللَّهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى وَكِيعٌ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ هَذَا الْحَدِيثَ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو الْمَلِيحِ اسْمُهُ صَبِيحٌ، سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُهُ: وَقَالَ: يُقَالُ لَهُ الْفَارِسِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ حُمَيْدٍ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ سے سوال نہیں کرتا ۱؎ اللہ اس سے ناراض اور ناخوش ہوتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: وکیع اور کئی راویوں نے یہ حدیث ابوالملیح سے روایت کی ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ابوالملیح کا نام صبیح ہے، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو ایسا ہی کہتے ہوئے سنا ہے، انہوں نے کہا کہ انہیں فارسی بھی کہا جاتا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (حسن)»
وضاحت: ۱؎: یعنی نہ توبہ و استغفار کرتا ہے اور نہ دنیوی و اخروی اپنی ضرورت کی چیزیں طلب کرتا ہے، اللہ سے دعا سے بالکل ہی بے نیازی برتنا ہے۔
قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (3827)
قال الشيخ زبير على زئي: (3373) إسناده ضعيف / جه 3827 أبو صالح الخوزي: لين الحديث (تق:8172)
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا مرحوم بن عبد العزيز العطار، حدثنا ابو نعامة السعدي، عن ابي عثمان النهدي، عن ابي موسى الاشعري رضي الله عنه، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزاة، فلما قفلنا اشرفنا على المدينة فكبر الناس تكبيرة ورفعوا بها اصواتهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن ربكم ليس باصم ولا غائب، هو بينكم وبين رءوس رحالكم ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ثم قال: " يا عبد الله بن قيس، الا اعلمك كنزا من كنوز الجنة: لا حول ولا قوة إلا بالله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وابو عثمان النهدي اسمه عبد الرحمن بن مل، وابو نعامة السعدي اسمه عمرو بن عيسى.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مَرْحُومُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا أَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَلَمَّا قَفَلْنَا أَشْرَفْنَا عَلَى الْمَدِينَةِ فَكَبَّرَ النَّاسُ تَكْبِيرَةً وَرَفَعُوا بِهَا أَصْوَاتَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ رَبَّكُمْ لَيْسَ بِأَصَمَّ وَلَا غَائِبٍ، هُوَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ رُءُوسِ رِحَالِكُمْ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ثُمَّ قَالَ: " يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، أَلَا أُعَلِّمُكَ كَنْزًا مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ، وَأَبُو نَعَامَةَ السَّعْدِيُّ اسْمُهُ عَمْرُو بْنُ عِيسَى.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے جب ہم لوٹے اور ہمیں مدینہ دکھائی دینے لگا تو لوگوں نے تکبیر کہی اور بلند آواز سے تکبیر کہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا رب بہرہ نہیں ہے اور نہ ہی وہ غائب و غیر حاضر ہے، وہ تمہارے درمیان موجود ہے، وہ تمہارے کجاؤں اور سواریوں کے درمیان (یعنی بہت قریب) ہے پھر آپ نے فرمایا: ”عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتاؤں؟ «لا حول ولا قوة إلا بالله»(جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ابوعثمان نہدی کا نام عبدالرحمٰن بن مل ہے اور ابونعامہ سعدی کا نام عمرو بن عیسیٰ ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی: جو اس کلمے کا ورد کرے گا وہ جنت کے خزانوں میں ایک خزانے کا مالک ہو جائے گا، کیونکہ اس کلمے کا مطلب برائی سے پھر نے اور نیکی کی قوت اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ ”جب بندہ اس کا باربار اظہار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بے انتہا خوش ہوتا ہے، بندے کی طرف سے اس طرح کی عاجزی کا اظہار تو عبادت حاصل ہے۔
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، حدثنا ابو عاصم، عن حميد ابي المليح، عن ابي صالح، عن ابي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ حُمَيْدٍ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
اس سند سے ابوالملیح نے ابوصالح سے، اور ابوصالح نے ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا زيد بن حباب، عن معاوية بن صالح، عن عمرو بن قيس، عن عبد الله بن بسر رضي الله عنه، ان رجلا، قال: يا رسول الله، إن شرائع الإسلام قد كثرت علي، فاخبرني بشيء اتشبث به، قال: " لا يزال لسانك رطبا من ذكر الله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ قَدْ كَثُرَتْ عَلَيَّ، فَأَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ أَتَشَبَّثُ بِهِ، قَالَ: " لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن بسر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! اسلام کے احکام و قوانین تو میرے لیے بہت ہیں، کچھ تھوڑی سی چیزیں مجھے بتا دیجئیے جن پر میں (مضبوطی) سے جما رہوں، آپ نے فرمایا: ”تمہاری زبان ہر وقت اللہ کی یاد اور ذکر سے تر رہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس آدمی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ فرائض، سنن اور نوافل کی شکل میں نیکیوں کی بہت کثرت ہے، مجھے کوئی ایسا جامع نسخہ بتائیے جس سے صرف فرائض و سنن پر اگر عمل کر سکوں اور نوافل و مستحبات رہ جائیں تو بھی میری نیکیاں کم نہ ہوں، آپ نے فرمایا: ”ذکر الٰہی سے اپنی زبان تر رکھ اور اسے اپنی زندگی کا دائمی معمول بنا لے، ایسا کرنے کی صورت میں اگر تو نوافل و مستحبات پر عمل نہ بھی کر سکا تو ذکر الٰہی کی کثرت سے اس کا ازالہ ہو جائے گا۔ کیونکہ نوافل و مستحبات (عبادات) کا حاصل تو یہی ہے نہ کہ بندے بارگاہ الٰہی میں اپنی عاجزی و خاکساری کا اظہار کا نذرانہ پیش کرتا ہے، سو کثرت ذکر سے بھی یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن دراج، عن ابي الهيثم، عن ابي سعيد الخدري، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل: اي العباد افضل درجة عند الله يوم القيامة؟ قال: " الذاكرون الله كثيرا والذاكرات "، قلت: يا رسول الله، ومن الغازي في سبيل الله؟ قال: " لو ضرب بسيفه في الكفار والمشركين حتى ينكسر ويختضب دما لكان الذاكرون الله كثيرا افضل منه درجة ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب إنما نعرفه من حديث دراج.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ: أَيُّ الْعِبَادِ أَفْضَلُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: " الذَّاكِرُونَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتُ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمِنَ الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ: " لَوْ ضَرَبَ بِسَيْفِهِ فِي الْكُفَّارِ وَالْمُشْرِكِينَ حَتَّى يَنْكَسِرَ وَيَخْتَضِبَ دَمًا لَكَانَ الذَّاكِرُونَ اللَّهَ كَثِيرًا أَفْضَلَ مِنْهُ دَرَجَةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ دَرَّاجٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: قیامت کے دن اللہ کے نزدیک درجہ کے لحاظ سے کون سے بندے سب سے افضل اور سب سے اونچے مرتبہ والے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ”کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں“۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کی راہ میں لڑائی لڑنے والے (غازی) سے بھی بڑھ کر؟ آپ نے فرمایا: ”(ہاں) اگرچہ اس نے اپنی تلوار سے کفار و مشرکین کو مارا ہو، اور اتنی شدید جنگ لڑی ہو کہ اس کی تلوار ٹوٹ گئی ہو، اور وہ خود خون سے رنگ گیا ہو، تب بھی اللہ کا ذکر کرنے والے اس سے درجے میں بڑھے ہوئے ہوں گے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف دراج کی روایت سے جانتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا الحسين بن حريث، حدثنا الفضل بن موسى، عن عبد الله بن سعيد هو ابن ابي هند، عن زياد مولى ابن عياش، عن ابي بحرية، عن ابي الدرداء رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: " الا انبئكم بخير اعمالكم وازكاها عند مليككم وارفعها في درجاتكم، وخير لكم من إنفاق الذهب والورق، وخير لكم من ان تلقوا عدوكم فتضربوا اعناقهم ويضربوا اعناقكم "، قالوا: بلى، قال: " ذكر الله تعالى " قال معاذ بن جبل رضي الله عنه: ما شيء انجى من عذاب الله من ذكر الله قال ابو عيسى: وقد روى بعضهم هذا الحديث عن عبد الله بن سعيد مثل هذا بهذا الإسناد وروى بعضهم عنه فارسله.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ هُوَ ابْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ زِيَادٍ مَوْلَى ابْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي بَحْرِيَّةَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ وَأَزْكَاهَا عِنْدَ مَلِيكِكُمْ وَأَرْفَعِهَا فِي دَرَجَاتِكُمْ، وَخَيْرٌ لَكُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّهَبِ وَالْوَرِقِ، وَخَيْرٌ لَكُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَهُمْ وَيَضْرِبُوا أَعْنَاقَكُمْ "، قَالُوا: بَلَى، قَالَ: " ذِكْرُ اللَّهِ تَعَالَى " قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: مَا شَيْءٌ أَنْجَى مِنْ عَذَابِ اللَّهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ مِثْلَ هَذَا بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْهُ فَأَرْسَلَهُ.
ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہارے سب سے بہتر اور تمہارے رب کے نزدیک سب سے پاکیزہ اور سب سے بلند درجے والے عمل کی تمہیں خبر نہ دوں؟ وہ عمل تمہارے لیے سونا چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے، وہ عمل تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہے کہ تم (میدان جنگ میں) اپنے دشمن سے ٹکراؤ، وہ تمہاری گردنیں کاٹے اور تم ان کی (یعنی تمہارے جہاد کرنے سے بھی افضل)“ لوگوں نے کہا: جی ہاں، (ضرور بتائیے) آپ نے فرمایا: ”وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے“، معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں: اللہ کے ذکر سے بڑھ کر اللہ کے عذاب سے بچانے والی کوئی اور چیز نہیں ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: بعض نے یہ حدیث عبداللہ بن سعید اسی طرح اسی سند سے روایت کی ہے، اور بعضوں نے اسے ان سے مرسلاً روایت کیا ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کا ذکر اللہ کے عذاب سے نجات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، کیونکہ ذکر: رب العالمین کی توحید، اس کی ثنا، تحمید و تمجید وغیرہ کے کلمات کو دل اور زبان پر جاری رکھنے کا نام ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2790)
قال الشيخ زبير على زئي: (3377ب) إسناده ضعيف لإنقطاعه / جه 3790 ذياد بن أبى زياد مولي ابن عياش لم يدرك معاذ بن جبل رضى الله عنه والحديث المرفوع صحيح، انظر سنن الترمذي (الأصل: 3377)