(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا زيد بن حباب، عن معاوية بن صالح، عن عمرو بن قيس، عن عبد الله بن بسر رضي الله عنه، ان رجلا، قال: يا رسول الله، إن شرائع الإسلام قد كثرت علي، فاخبرني بشيء اتشبث به، قال: " لا يزال لسانك رطبا من ذكر الله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ شَرَائِعَ الْإِسْلَامِ قَدْ كَثُرَتْ عَلَيَّ، فَأَخْبِرْنِي بِشَيْءٍ أَتَشَبَّثُ بِهِ، قَالَ: " لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن بسر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! اسلام کے احکام و قوانین تو میرے لیے بہت ہیں، کچھ تھوڑی سی چیزیں مجھے بتا دیجئیے جن پر میں (مضبوطی) سے جما رہوں، آپ نے فرمایا: ”تمہاری زبان ہر وقت اللہ کی یاد اور ذکر سے تر رہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس آدمی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ فرائض، سنن اور نوافل کی شکل میں نیکیوں کی بہت کثرت ہے، مجھے کوئی ایسا جامع نسخہ بتائیے جس سے صرف فرائض و سنن پر اگر عمل کر سکوں اور نوافل و مستحبات رہ جائیں تو بھی میری نیکیاں کم نہ ہوں، آپ نے فرمایا: ”ذکر الٰہی سے اپنی زبان تر رکھ اور اسے اپنی زندگی کا دائمی معمول بنا لے، ایسا کرنے کی صورت میں اگر تو نوافل و مستحبات پر عمل نہ بھی کر سکا تو ذکر الٰہی کی کثرت سے اس کا ازالہ ہو جائے گا۔ کیونکہ نوافل و مستحبات (عبادات) کا حاصل تو یہی ہے نہ کہ بندے بارگاہ الٰہی میں اپنی عاجزی و خاکساری کا اظہار کا نذرانہ پیش کرتا ہے، سو کثرت ذکر سے بھی یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3375
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس آدمی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ فرائض، سنن اور نوافل کی شکل میں نیکیوں کی بہت کثرت ہے، مجھے کوئی ایسا جامع نسخہ بتائیے جس سے صرف فرائض و سنن پر اگر عمل کر سکوں اور نوافل و مستحبات رہ جائیں تو بھی میری نیکیاں کم نہ ہوں، آپﷺ نے فرمایا: ”ذکر الٰہی سے اپنی زبان تر رکھ اور اسے اپنی زندگی کا دائمی معمول بنا لے، ایسا کرنے کی صورت میں اگر تو نوافل و مستحبات پر عمل نہ بھی کر سکا تو ذکر الٰہی کی کثرت سے اس کا ازالہ ہو جائے گا۔ کیونکہ نوافل ومستحبات (عبادات) کاحاصل تو یہی ہے کہ بندہ بارگاہ الٰہی میں اپنی عاجزی وخاکساری کا اظہارکا نذرانہ پیش کرتا ہے، سو کثرت ذکرسے بھی یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3375
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3793
´ذکر الٰہی کی فضیلت۔` عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اسلام کے اصول و قواعد مجھ پر بہت ہو گئے ہیں ۱؎، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیجئیے جس پر میں مضبوطی سے جم جاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری زبان ہمیشہ ذکر الٰہی سے تر رہنی چاہیئے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3793]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) شرائع سےمراد اللہ کے مقرر کردہ احکام جن میں فرض بھی ہیں، نوافل بھی ہیں اور مستحبات بھی۔
(2) فرائض کی ادائیگی ہرحال میں ضروری ہے لیکن مستحبات کی بھی اپنی اہمیت ہے اور نوافل بھی قرب الہیٰ کا ذریعہ ہیں۔ بعض لوگ ان اعمال کی کثرت دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں، جیسے اس صحابی نے خواہش ظاہر کی کہ آسان سی نیکی سے کافی ثواب حاصل ہو جائے۔
(3) اللہ کے ذکر کو معمول بنالینے سے نفلی عبادات کی کمی کا ازالہ ہو جا تا ہے۔
(4) کثرت سے ذکر کرنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ مختلف اوقات کےلیے جواذکا ر بتائے گئےہیں، ان پر پابند ی کی جائے، مثلاً: صبح و شام کے اذکار، کھانے پینے کے اذکار وغیرہ اور یہ مطلب بھی ہے کہ عام اذکار کثرت سے کیے جائیں، مثلاً: (سبحان الله، الحمد الله، الله اكبر، لا إله إلا الله، لاحول ولاقوة إلا بالله) وغیرہ۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3793