سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
حدیث نمبر: 3304
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا وكيع، عن فضيل بن غزوان، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، ان رجلا من الانصار بات به ضيف فلم يكن عنده إلا قوته وقوت صبيانه، فقال لامراته: نومي الصبية، واطفئي السراج، وقربي للضيف ما عندك، فنزلت هذه الآية: ويؤثرون على انفسهم ولو كان بهم خصاصة سورة الحشر آية 9 ". هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ بَاتَ بِهِ ضَيْفٌ فَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ إِلَّا قُوتُهُ وَقُوتُ صِبْيَانِهِ، فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ: نَوِّمِي الصِّبْيَةَ، وَأَطْفِئِي السِّرَاجَ، وَقَرِّبِي لِلضَّيْفِ مَا عِنْدَكِ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ: وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ سورة الحشر آية 9 ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری شخص کے پاس رات میں ایک مہمان آیا، اس انصاری کے پاس (اس وقت) صرف اس کے اور اس کے بچوں بھر کا ہی کھانا تھا، اس نے اپنی بیوی سے کہا (ایسا کرو) بچوں کو (کسی طرح) سلا دو اور (کھانا کھلانے چلو تو) چراغ بجھا دو، اور جو کچھ تمہارے پاس ہو وہ مہمان کے قریب رکھ دو، اس پر آیت «ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة» یہ خود محتاج و ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی اپنے پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں (الحشر: ۹)، نازل ہوئی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/مناقب الأنصار 10 (3797)، وتفسیر سورة الحشر 6 (4889)، صحیح مسلم/الأشربة 32 (2054) (تحفة الأشراف: 13419) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ انصاری شخص ابوطلحہ رضی الله عنہ تھے، جیسا کہ صحیح مسلم میں صراحت ہے، اس واقعہ میں یہ بھی ہے کہ دونوں میاں بیوی اندھیرے میں برتن اپنے سامنے رکھ کر خود بھی کھانے کا مظاہرہ کر رہے تھے تاکہ مہمان کو یہ اندازہ ہو کہ وہ بھی کھا رہے ہیں، چراغ بجھا دینے کی یہی حکمت تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
60. باب وَمِنْ سُورَةِ الْمُمْتَحَنَةِ
60. باب: سورۃ الممتحنہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3305
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن الحسن بن محمد هو ابن الحنفية، عن عبيد الله بن ابي رافع، قال: سمعت علي بن ابي طالب، يقول: " بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم انا والزبير، والمقداد بن الاسود، فقال:" انطلقوا حتى تاتوا روضة خاخ، فإن فيها ظعينة معها كتاب فخذوه منها فاتوني به "، فخرجنا تتعادى بنا خيلنا حتى اتينا الروضة فإذا نحن بالظعينة، فقلنا: اخرجي الكتاب، فقالت: ما معي من كتاب، فقلنا: لتخرجن الكتاب او لتلقين الثياب، قال: فاخرجته من عقاصها، قال: فاتينا به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا هو من حاطب بن ابي بلتعة إلى ناس من المشركين بمكة يخبرهم ببعض امر النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " ما هذا يا حاطب؟ " قال: لا تعجل علي يا رسول الله، إني كنت امرا ملصقا في قريش ولم اكن من انفسها، وكان من معك من المهاجرين لهم قرابات يحمون بها اهليهم واموالهم بمكة، فاحببت إذ فاتني ذلك من نسب فيهم ان اتخذ فيهم يدا يحمون بها قرابتي، وما فعلت ذلك كفرا ولا ارتدادا عن ديني ولا رضا بالكفر بعد الإسلام، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " صدق "، فقال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: دعني يا رسول الله اضرب عنق هذا المنافق، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إنه قد شهد بدرا، فما يدريك لعل الله اطلع على اهل بدر "، فقال: " اعملوا ما شئتم فقد غفرت لكم "، قال: وفيه انزلت هذه السورة يا ايها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم اولياء السورة "، قال عمرو: وقد رايت ابن ابي رافع، وكان كاتبا لعلي بن ابي طالب. هذا حديث حسن صحيح، وفيه عن عمر وجابر بن عبد الله، وروى غير واحد عن سفيان بن عيينة هذا الحديث، نحو هذا، وذكروا هذا الحرف، وقالوا: لتخرجن الكتاب او لتلقين الثياب، وقد روي ايضا عن ابي عبد الرحمن السلمي، عن علي نحو هذا الحديث، ذكر بعضهم فيه، فقال لتخرجن الكتاب او لنجردنك.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ هُوَ ابْنُ الْحَنَفِيَّةِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، قَال: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، يَقُولُ: " بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَالزُّبَيْرَ، وَالْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ، فَقَالَ:" انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ، فَإِنَّ فِيهَا ظَعِينَةً مَعَهَا كِتَابٌ فَخُذُوهُ مِنْهَا فَأْتُونِي بِهِ "، فَخَرَجْنَا تَتَعَادَى بِنَا خَيْلُنَا حَتَّى أَتَيْنَا الرَّوْضَةَ فَإِذَا نَحْنُ بِالظَّعِينَةِ، فَقُلْنَا: أَخْرِجِي الْكِتَابَ، فَقَالَتْ: مَا مَعِي مِنْ كِتَابٍ، فَقُلْنَا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، قَالَ: فَأَخْرَجَتْهُ مِنْ عِقَاصِهَا، قَالَ: فَأَتَيْنَا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا هُوَ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى نَاسٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بِمَكَّةَ يُخْبِرُهُمْ بِبَعْضِ أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَا هَذَا يَا حَاطِبُ؟ " قَالَ: لَا تَعْجَلْ عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ امْرَأً مُلْصَقًا فِي قُرَيْشٍ وَلَمْ أَكُنْ مِنْ أَنْفُسِهَا، وَكَانَ مَنْ مَعَكَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ لَهُمْ قَرَابَاتٌ يَحْمُونَ بِهَا أَهْلِيهِمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِمَكَّةَ، فَأَحْبَبْتُ إِذْ فَاتَنِي ذَلِكَ مِنْ نَسَبٍ فِيهِمْ أَنْ أَتَّخِذَ فِيهِمْ يَدًا يَحْمُونَ بِهَا قَرَابَتِي، وَمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ كُفْرًا وَلَا ارْتِدَادًا عَنْ دِينِي وَلَا رِضًا بِالْكُفْرِ بَعْدَ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَدَقَ "، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: دَعْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا، فَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَى أَهْلِ بَدْرٍ "، فَقَالَ: " اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ "، قَالَ: وَفِيهِ أُنْزِلَتْ هَذِهِ السُّورَةُ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ السُّورَةَ "، قَالَ عَمْرٌو: وَقَدْ رَأَيْتُ ابْنَ أَبِي رَافِعٍ، وَكَانَ كَاتِبًا لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ. هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِيهِ عَنْ عُمَرَ وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، نَحْوَ هَذَا، وَذَكَرُوا هَذَا الْحَرْفَ، وَقَالُوا: لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَتُلْقِيَنَّ الثِّيَابَ، وَقَدْ رُوِيَ أَيْضًا عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، ذَكَرَ بَعْضُهُمْ فِيهِ، فَقَالَ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُجَرِّدَنَّكِ.
عبیداللہ بن ابورافع کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے زبیر اور مقداد بن اسود کو بھیجا، فرمایا: جاؤ، روضہ خاخ ۱؎ پر پہنچو وہاں ایک ھودج سوار عورت ہے، اس کے پاس ایک خط ہے، وہ خط جا کر اس سے لے لو، اور میرے پاس لے آؤ، چنانچہ ہم نکل پڑے، ہمارے گھوڑے ہمیں لیے لیے دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کی کوشش کر رہے تھے، ہم روضہ پہنچے، ہمیں ہودج سوار عورت مل گئی، ہم نے اس سے کہا: خط نکال، اس نے کہا: ہمارے پاس کوئی خط نہیں ہے، ہم نے کہا: خط نکالتی ہے یا پھر اپنے کپڑے اتارتی ہے؟ (یہ سن کر) اپنی چوٹی (جوڑے) سے اس نے خط نکالا، ہم اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے، وہ خط حاطب بن ابی بلتعہ رضی الله عنہ کی جانب سے تھا، مکہ کے کچھ مشرکین کے پاس بھیجا گیا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقدامات کی انہیں خبر دی گئی تھی، آپ نے فرمایا: حاطب! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہمارے خلاف حکم فرمانے میں جلدی نہ کریں، میں ایک ایسا شخص تھا جو قریش کے ساتھ مل جل کر رہتا تھا، لیکن (خاندانی طور پر) قریشی نہ تھا، باقی جو مہاجرین آپ کے ساتھ تھے ان کی وہاں رشتہ داریاں تھیں جس کی وجہ سے وہ رشتہ دار مکہ میں ان کے گھر والوں اور ان کے مالوں کی حفاظت و حمایت کرتے تھے، میں نے مناسب سمجھا کہ جب ہمارا ان سے کوئی خاندانی و نسبی تعلق نہیں ہے تو میں ان پر احسان کر کے کسی کا ہاتھ پکڑ لوں جس کی وجہ سے یہ اہل مکہ ہمارے گھر اور رشتہ داروں کی حفاظت و حمایت کریں، میں نے ایسا کفر اختیار کر لینے یا اپنے دین سے مرتد ہو جانے یا کفر کو پسند کر لینے کی وجہ سے نہیں کیا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حاطب نے سچ اور (صحیح) بات کہی ہے، عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیجئیے، میں اس منافق کی گردن مار دوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جنگ بدر میں موجود رہے ہیں، تمہیں معلوم نہیں، یقیناً اللہ نے بدر والوں کی حالت (یعنی ان کے جذبہ جاں فروشی) کو دیکھ کر کہہ دیا ہے: جو چاہو کرو ہم نے تمہارے گناہ بخش دیئے ہیں، اسی سلسلے میں یہ پوری سورۃ «يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا عدوي وعدوكم أولياء» اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ، تم انہیں دوستی کا پیغام بھیجتے ہو (الممتحنۃ: ۱)، آخر تک نازل ہوئی۔ عمرو (راوی حدیث) کہتے ہیں: میں نے عبیداللہ بن ابی رافع کو دیکھا ہے، وہ علی رضی الله عنہ کے کاتب (محرر) تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اسی طرح کئی ایک نے یہ حدیث سفیان بن عیینہ سے روایت کی ہے، اور ان سبھوں نے بھی یہی لفظ ذکر کیا ہے کہ علی اور زبیر رضی الله عنہما وغیرہ نے کہا: تمہیں خط نکال کر دینا ہو گا، ورنہ پھر تمہیں کپڑے اتارنے پڑیں گے،
۳- ابوعبدالرحمٰن السلمی سے بھی یہ حدیث مروی ہوئی ہے، انہوں نے علی رضی الله عنہ سے اسی حدیث کے مانند روایت کیا ہے،
۴- اس باب میں عمر اور جابر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور بعضوں نے ذکر کیا کہ انہوں نے کہا کہ تو خط نکال دے ورنہ ہم تجھے ننگا کر دیں گے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجھاد 141 (3700)، والمغازي 9 (3983)، وتفسیر سورة الممتحنة 1 (4890)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 36 (2494) (تحفة الأشراف: 10227)، و مسند احمد (1/79) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: خاخ ایک جگہ کا نام ہے اس کے اور مدینہ کے درمیان ۱۲ میل کا فاصلہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2381)
حدیث نمبر: 3306
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: " ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمتحن إلا بالآية التي قال الله: إذا جاءك المؤمنات يبايعنك سورة الممتحنة آية 12 الآية " قال معمر، فاخبرني ابن طاوس، عن ابيه، قال: " ما مست يد رسول الله صلى الله عليه وسلم يد امراة إلا امراة يملكها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْتَحِنُ إِلَّا بِالْآيَةِ الَّتِي قَالَ اللَّهُ: إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ سورة الممتحنة آية 12 الْآيَةَ " قَالَ مَعْمَرٌ، فَأَخْبَرَنِي ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " مَا مَسَّتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَ امْرَأَةٍ إِلَّا امْرَأَةً يَمْلِكُهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کا امتحان نہیں لیا کرتے تھے مگر اس آیت سے جس میں اللہ نے «إذا جاءك المؤمنات يبايعنك» اے مومنوا! جب تمہارے پاس مومن عورتیں (مکہ سے) ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لو، اللہ تو ان کے ایمان کو جانتا ہی ہے، اگر تم یہ جان لو کہ یہ واقعی مومن عورتیں ہیں تو ان کو ان کے کافر شوہروں کے پاس نہ لوٹاؤ، نہ تو وہ کافروں کے لیے حلال ہیں نہ کافر ان کے لیے حلال ہیں (الممتحنۃ: ۱۰)، کہا ہے ۱؎۔ معمر کہتے ہیں: ابن طاؤس نے مجھے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے خبر دی ہے کہ ان کے باپ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے اس عورت کے سوا جس کے آپ مالک ہوتے کسی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وانظر: صحیح البخاری/الأحکام 49 (7214) (تحفة الأشراف: 16640) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اور امتحان لینے کا مطلب یہ ہے کہ کافر ہوں اور اپنے شوہروں سے ناراض ہو کر، یا کسی مسلمان کے عشق میں گرفتار ہو کر آئی ہوں، اور جب تحقیق ہو جائے تب بھی صلح حدیبیہ کی شق کے مطابق ان عورتوں کو واپس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ مسلمان عورت کافر مرد کے لیے حرام ہے، (مردوں کو بھلے واپس کیا جائے گا)
۲؎: اس سے اشارہ اس بات کا ہے کہ آپ عورتوں سے بیعت زبانی لیتے تھے، اور بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر رکھ کر بیعت لیا وہ اکثر مرسل روایات ہیں، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے اپنے اور ان کے ہاتھوں کے درمیان کوئی حائل (موٹا کپڑا وغیرہ) رکھا ہو، جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے «لیس فی نسخۃالالبانی، وہوضعیف لأجل أبی نصرالاسدی فہومجہول» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3307
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا ابو نعيم، حدثنا يزيد بن عبد الله الشيباني، قال: سمعت شهر بن حوشب، قال: حدثتنا ام سلمة الانصارية، قالت: قالت امراة من النسوة: ما هذا المعروف الذي لا ينبغي لنا ان نعصيك فيه؟ قال: " لا تنحن "، قلت: يا رسول الله، إن بني فلان قد اسعدوني على عمي، ولا بد لي من قضائهن، فابى علي، فعاتبته مرارا، فاذن لي في قضائهن، فلم انح بعد قضائهن ولا على غيره حتى الساعة، ولم يبق من النسوة امراة إلا وقد ناحت غيري. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وفيه عن ام عطية رضي الله عنها، قال عبد بن حميد: ام سلمة الانصارية هي اسماء بنت يزيد بن السكن.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الشَّيْبَانِيُّ، قَال: سَمِعْتُ شَهْرَ بْنَ حَوْشَبٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنَا أُمُّ سَلَمَةَ الْأَنْصَارِيَّةُ، قَالَتْ: قَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ النِّسْوَةِ: مَا هَذَا الْمَعْرُوفُ الَّذِي لَا يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَعْصِيَكَ فِيهِ؟ قَالَ: " لَا تَنُحْنَ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بَنِي فُلَانٍ قَدْ أَسْعَدُونِي عَلَى عَمِّي، وَلَا بُدَّ لِي مِنْ قَضَائِهِنَّ، فَأَبَى عَلَيَّ، فَعَاتَبْتُهُ مِرَارًا، فَأَذِنَ لِي فِي قَضَائِهِنَّ، فَلَمْ أَنُحْ بَعْدَ قَضَائِهِنَّ وَلَا عَلَى غَيْرِهِ حَتَّى السَّاعَةَ، وَلَمْ يَبْقَ مِنَ النِّسْوَةِ امْرَأَةٌ إِلَّا وَقَدْ نَاحَتْ غَيْرِي. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَفِيهِ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَ عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ: أُمُّ سَلَمَةَ الْأَنْصَارِيَّةُ هِيَ أَسْمَاءُ بِنْتُ يَزِيدَ بْنِ السَّكَنِ.
ام سلمہ انصاریہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ عورتوں میں سے ایک عورت نے عرض کیا: (اللہ کے رسول!) اس معروف سے کیا مراد ہے جس میں ہمیں آپ کی نافرمانی نہیں کرنی چاہیئے، آپ نے فرمایا: وہ یہی ہے کہ تم (کسی کے مرنے پر) نوحہ مت کرو، میں نے کہا: اللہ کے رسول! فلاں قبیلے کی عورتوں نے نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی جب میں نے اپنے چچا پر نوحہ کیا تھا، اس لیے میرے لیے ضروری ہے کہ جب ان کے نوحہ کرنے کا وقت آئے تو میں ان کے ساتھ نوحہ میں شریک ہو کر اس کا بدلہ چکاؤں، آپ نے انکار کیا، (مجھے اجازت نہ دی) میں نے کئی بار آپ سے اپنی عرض دہرائی تو آپ نے مجھے ان کا بدلہ چکا دینے کی اجازت دے دی، اس بدلہ کے چکا دینے کے بعد پھر میں نے نہ ان پر اور نہ ہی کسی اور پر اب قیامت تک نوحہ (جبکہ) میرے سوا کوئی عورت ایسی باقی نہیں ہے جس نے نوحہ نہ کیا ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں ام عطیہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے،
۳- عبد بن حمید کہتے ہیں، ام سلمہ انصاریہ ہی اسماء بنت یزید بن السکن ہیں رضی الله عنہا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الجنائز 51 (1579) (15769) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ان عورتوں میں سے ہر عورت نے نوحہ کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1579)
حدیث نمبر: 3308
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سلمة بن شبيب، حدثنا محمد بن يوسف الفريابي، حدثنا قيس بن الربيع، عن الاغر بن الصباح، عن خليفة بن حصين، عن ابي نصر، عن ابن عباس في قوله تعالى: " إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن سورة الممتحنة آية 10، قال: كانت المراة إذا جاءت النبي صلى الله عليه وسلم لتسلم حلفها بالله ما خرجت من بغض زوجي ما خرجت إلا حبا لله ولرسوله ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنِ الْأَغَرِّ بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ خَلِيفَةَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي نَصْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: " إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ سورة الممتحنة آية 10، قَالَ: كَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا جَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِتُسْلِمَ حَلَّفَهَا بِاللَّهِ مَا خَرَجْتُ مِنْ بُغْضِ زَوْجِي مَا خَرَجْتُ إِلَّا حُبًّا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما اس آیت «إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن» کی تفسیر میں کہتے ہیں: جب کوئی عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایمان لانے کے لیے آتی تو آپ اسے اللہ تعالیٰ کی قسم دلا کر کہلاتے کہ میں اپنے شوہر سے ناراضگی کے باعث کفر سے نہیں نکلی ہوں بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت لے کر اسلام قبول کرنے آئی ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: لم یوردہ في ترجمة أبي نصر عن ابن عباس) (ضعیف) (سند میں راوی قیس بن الربیع کوفی صدوق راوی ہیں، لیکن بڑھاپے میں حافظہ میں تبدیلی آ گئی تھی، اور ان کے بیٹے نے اُن کی کتاب میں وہ احادیث داخل کر دیں جو اُن کی روایت سے نہیں تھیں، اور انہوں ان روایات کو بیان کیا، اور ابوالنصر اسدی بصری کو ابو زرعہ نے ثقہ کہا ہے، اور امام بخاری کہتے ہیں کہ ابو نصر کا سماع ابن عباس سے غیر معروف ہے (صحیح البخاری، النکاح (5105) تہذیب الکمال 34/343) اور حافظ ابن حجر ابو نصر أسدی کو مجہول کہتے ہیں (التقریب) 1؎۔»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث تحفۃ الأحوذی میں نہیں ہے، نیز سنن ترمذی کے مکتبۃ المعارف والے نسخے میں بھی نہیں ہے، جب کہ ضعیف سنن الترمذی میں یہ حدیث موجود ہے، اور شیخ البانی نے إتحاف الخیرۃ المہرۃ ۸/ ۱۷۴) کا حوالہ دیا ہے، واضح رہے کہ یہ حدیث عارضۃ الأحوذی شرح صحیح الترمذی لابن العربی المالکی کے مطبوعہ نسخے بتحقیق جمال مرعشلی میں موجود ہے، اور حاشیہ میں یہ نوٹ ہے کہ مزی نے اس حدیث کو تحفۃ الأشراف میں نہیں ذکر کیا ہے، اور یہ ترمذی کے دوسرے نسخوں میں موجود نہیں ہے ۱۲/۱۴۱)

قال الشيخ زبير على زئي: (3308) إسناده ضعيف
قيس بن الربيع ضعيف على الراجع (د 3761)
61. باب وَمِنْ سُورَةِ الصَّفِّ
61. باب: سورۃ الصف سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3309
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلمة، عن عبد الله بن سلام، قال: قعدنا نفر من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فتذاكرنا، فقلنا: لو نعلم اي الاعمال احب إلى الله لعملناه، فانزل الله تعالى: " سبح لله ما في السموات وما في الارض وهو العزيز الحكيم {1} يايها الذين آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون {2} سورة الصف آية 1-2 "، قال عبد الله بن سلام: فقراها علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابو سلمة: فقراها علينا ابن سلام، قال يحيى: فقراها علينا ابو سلمة، قال ابن كثير: فقراها علينا الاوزاعي، قال عبد الله: فقراها علينا ابن كثير. قال ابو عيسى: وقد خولف محمد بن كثير في إسناد هذا الحديث عن الاوزاعي، وروى ابن المبارك، عن الاوزاعي، عن يحيى بن ابي كثير، عن هلال بن ابي ميمونة، عن عطاء بن يسار، عن عبد الله بن سلام، او عن ابي سلمة، عن عبد الله بن سلام، وروى الوليد بن مسلم هذا الحديث عن الاوزاعي، نحو رواية محمد بن كثير.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، قَالَ: قَعَدْنَا نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَذَاكَرْنَا، فَقُلْنَا: لَوْ نَعْلَمُ أَيَّ الْأَعْمَالِ أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ لَعَمِلْنَاهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: " سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ {1} يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ {2} سورة الصف آية 1-2 "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ: فَقَرَأَهَا عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: فَقَرَأَهَا عَلَيْنَا ابْنُ سَلَامٍ، قَالَ يَحْيَى: فَقَرَأَهَا عَلَيْنَا أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ ابْنُ كَثِيرٍ: فَقَرَأَهَا عَلَيْنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَقَرَأَهَا عَلَيْنَا ابْنُ كَثِيرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ خُولِفَ مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ فِي إِسْنَادِ هَذَا الْحَدِيثِ عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، وَرَوَى ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، أَوْ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، وَرَوَى الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، نَحْوَ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ كَثِيرٍ.
عبداللہ بن سلام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم چند صحابہ بیٹھے ہوئے تھے، آپس میں باتیں کرنے لگے، ہم نے کہا: اگر ہم جان پاتے کہ کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے تو ہم اسی پر عمل کرتے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «سبح لله ما في السموات وما في الأرض وهو العزيز الحكيم يا أيها الذين آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون» زمین و آسمان کی ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے، اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو (الصف: ۱-۳) ۱؎ عبداللہ بن سلام کہتے ہیں: یہ سورۃ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ کر سنائی، ابوسلمہ کہتے ہیں: یہ سورۃ ہمارے سامنے ابن سلام نے پڑھی، اور یحییٰ کہتے ہیں: یہ سورۃ ہمارے سامنے ابوسلمہ نے پڑھ کر سنائی، اور محمد بن کثیر کہتے ہیں: ہمارے سامنے اسے اوزاعی نے پڑھ کر سنایا، اور عبداللہ کہتے ہیں: یہ سورۃ ہمیں ابن کثیر نے پڑھ کر سنائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کی اوزاعی سے روایت کرنے میں محمد بن کثیر کی مخالفت کی گئی ہے۔ (اس کی تفصیل یہ ہے)
۲- ابن مبارک نے اوزاعی سے روایت کی، اوزاعی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، یحییٰ نے ہلال بن ابومیمونہ سے، ہلال نے عطاء بن یسار سے، اور عطاء نے عبداللہ بن سلام سے، یا ابوسلمہ کے واسطہ سے عبداللہ بن سلام سے،
۳- ولید بن مسلم نے اوزاعی سے یہ حدیث اسی طرح روایت کی ہے جس طرح محمد بن کثیر نے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5340) (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: یعنی: یہ تمنا کیوں کرتے ہو کہ اے کاش ہم جان لیتے کہ کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسندیدہ ہے، تو ہم اس کو انجام دیتے، جبکہ تم ایسا نہیں کرتے (یعنی: اکثر ایسا نہیں کرتے) تو گویا تم وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
62. باب وَمِنْ سُورَةِ الْجُمُعَةِ
62. باب: سورۃ الجمعہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3310
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا عبد الله بن جعفر، حدثني ثور بن زيد الديلي، عن ابي الغيث، عن ابي هريرة، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم حين انزلت سورة الجمعة فتلاها، فلما بلغ: وآخرين منهم لما يلحقوا بهم سورة الجمعة آية 3، قال له رجل: يا رسول الله، من هؤلاء الذين لم يلحقوا بنا؟ فلم يكلمه، قال: وسلمان الفارسي فينا، قال: فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده على سلمان، فقال: " والذي نفسي بيده لو كان الإيمان بالثريا لتناوله رجال من هؤلاء ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وعبد الله بن جعفر هو والد علي بن المديني ضعفه يحيى بن معين، وقد روي هذا الحديث عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير هذا الوجه، ثور بن زيد مدني، وثور بن يزيد شامي، وابو الغيث اسمه سالم مولى عبد الله بن مطيع مدني ثقة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ الدِّيلِيُّ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُنْزِلَتْ سُورَةُ الْجُمُعَةِ فَتَلَاهَا، فَلَمَّا بَلَغَ: وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ سورة الجمعة آية 3، قَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِنَا؟ فَلَمْ يُكَلِّمْهُ، قَالَ: وَسَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ فِينَا، قَالَ: فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى سَلْمَانَ، فَقَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ بِالثُّرَيَّا لَتَنَاوَلَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلَاءِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ هُوَ وَالِدُ عَلِيِّ بْنِ الْمَدِينِيِّ ضَعَّفَهُ يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، ثَوْرُ بْنُ زَيْدٍ مَدَنِيٌّ، وَثَوْرُ بْنُ يَزِيدَ شَامِيٌّ، وَأَبُو الْغَيْثِ اسْمُهُ سَالِمٌ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُطِيعٍ مَدَنِيٌّ ثِقَةٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت سورۃ الجمعہ نازل ہوئی اس وقت ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، آپ نے اس کی تلاوت کی، جب آپ «وآخرين منهم لما يلحقوا بهم» اور اللہ نے اس نبی کو ان میں سے ان دوسرے لوگوں کے لیے بھی بھیجا ہے جو اب تک ان سے ملے نہیں ہیں (الجمعۃ: ۳)، پر پہنچے تو ایک شخص نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں جو اب تک ہم سے نہیں ملے ہیں؟ (آپ خاموش رہے) اس سے کوئی بات نہ کی، سلمان (فارسی) رضی الله عنہ ہمارے درمیان موجود تھے، آپ نے اپنا ہاتھ سلمان پر رکھ کر فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر ایمان ثریا پر ہوتا تو بھی (اتنی بلندی اور دوری پر پہنچ کر) ان کی قوم کے لوگ اسے حاصل کر کے ہی رہتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، اور عبداللہ بن جعفر، علی بن المدینی کے والد ہیں، یحییٰ بن معین نے انہیں ضعیف کہا ہے،
۲- ثور بن زید مدنی ہیں، اور ثور بن یزید شامی ہیں، اور ابوالغیث کا نام سالم ہے، یہ عبداللہ بن مطیع کے آزاد کردہ غلام ہیں، مدنی اور ثقہ ہیں،
۳- یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری سندوں سے بھی آئی ہے (اور اسی بنیاد پر صحیح ہے)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الجمعة 1 (4897)، صحیح مسلم/فضائل الصحابة 59 (2546/231) (تحفة الأشراف: 12917) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: سورۃ «محمد» آیت نمبر ۳۸ «وإن تتولوا يستبدل قوما غيركم» (محمد: ۳۸) کی تفسیر میں بھی یہی حدیث (رقم ۳۲۶۰) مؤلف لائے ہیں، حافظ ابن حجر کہتے ہیں: دونوں آیات کے نزول پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہو، ایسا بالکل ممکن ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1027)
حدیث نمبر: 3311
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا حصين، عن ابي سفيان، عن جابر قال: بينما النبي صلى الله عليه وسلم يخطب يوم الجمعة قائما إذ قدمت عير المدينة، فابتدرها اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى لم يبق منهم إلا اثنا عشر رجلا فيهم ابو بكر، وعمر ونزلت الآية: وإذا راوا تجارة او لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما سورة الجمعة آية 11 ". قال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَائِمًا إِذْ قَدِمَتْ عِيرُ الْمَدِينَةِ، فَابْتَدَرَهَا أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى لَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ إِلَّا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا فِيهِمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ وَنَزَلَتِ الْآيَةَ: وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا سورة الجمعة آية 11 ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اس دوران کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن کھڑے خطبہ دے رہے تھے، مدینہ کا (تجارتی) قافلہ آ گیا، (یہ سن کر) صحابہ بھی (خطبہ چھوڑ کر) ادھر ہی لپک لیے، صرف بارہ آدمی باقی رہ گئے جن میں ابوبکر و عمر رضی الله عنہما بھی تھے، اسی موقع پر آیت «وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما» اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشہ نظر آ جائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے (الجمعۃ: ۱۱)، نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجمعة 38 (936)، والبیوع 6 (2058)، و11 (2064)، وتفسیر الجمعة 1 (4899)، صحیح مسلم/الجمعة 11 (863) (تحفة الأشراف: 2292، و2239) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3311M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا حصين، عن سالم بن ابي الجعد، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بنحوه. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اس سند سے جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «0»

قال الشيخ الألباني: صحيح
63. باب وَمِنْ سُورَةِ الْمُنَافِقِينَ
63. باب: سورۃ منافقین سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3312
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن زيد بن ارقم، قال: كنت مع عمي، فسمعت عبد الله بن ابي ابن سلول، يقول لاصحابه: لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا، و لئن رجعنا إلى المدينة ليخرجن الاعز منها الاذل سورة المنافقون آية 8، فذكرت ذلك لعمي، فذكر ذلك عمي للنبي صلى الله عليه وسلم، فدعاني النبي صلى الله عليه وسلم فحدثته، فارسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عبد الله بن ابي واصحابه فحلفوا ما قالوا، فكذبني رسول الله صلى الله عليه وسلم وصدقه فاصابني شيء لم يصبني قط مثله، فجلست في البيت، فقال عمي: ما اردت إلا ان كذبك رسول الله صلى الله عليه وسلم ومقتك فانزل الله تعالى: إذا جاءك المنافقون سورة المنافقون آية 1 فبعث إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقراها ثم قال: " إن الله قد صدقك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَمِّي، فَسَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ ابْنَ سَلُولَ، يَقُولُ لِأَصْحَابِهِ: لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا، و لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الأَعَزُّ مِنْهَا الأَذَلَّ سورة المنافقون آية 8، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمِّي، فَذَكَرَ ذَلِكَ عَمِّي للنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ، فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ وَأَصْحَابِهِ فَحَلَفُوا مَا قَالُوا، فَكَذَّبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَدَّقَهُ فَأَصَابَنِي شَيْءٌ لَمْ يُصِبْنِي قَطُّ مِثْلُهُ، فَجَلَسْتُ فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ عَمِّي: مَا أَرَدْتَ إِلَّا أَنْ كَذَّبَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَقَتَكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ سورة المنافقون آية 1 فَبَعَثَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَهَا ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
زید بن ارقم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے چچا کے ساتھ تھا، میں نے عبداللہ بن ابی ابن سلول کو اپنے ساتھیوں سے کہتے ہوئے سنا کہ ان لوگوں پر خرچ نہ کرو، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں، یہاں تک کہ وہ تتربتر ہو جائیں، اگر ہم اب لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو عزت والا وہاں سے ذلت والے کو نکال دے گا، میں نے یہ بات اپنے چچا کو بتائی تو میرے چچا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کر دیا، آپ نے مجھے بلا کر پوچھا تو میں نے آپ کو (بھی) بتا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کو بلا کر پوچھا، تو انہوں نے قسم کھا لی کہ ہم نے نہیں کہی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جھوٹا اور اسے سچا تسلیم کر لیا، اس کا مجھے اتنا رنج و ملال ہوا کہ اس جیسا صدمہ، اور رنج و ملال مجھے کبھی نہ ہوا تھا، میں (مارے شرم و ندامت اور صدمہ کے) اپنے گھر میں ہی بیٹھ رہا، میرے چچا نے کہا: تو نے یہی چاہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں جھٹلا دیں اور تجھ پر خفا ہوں؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے «إذا جاءك المنافقون» والی سورت نازل فرمائی، تو آپ نے مجھے بلا بھیجا (جب میں آیا تو) آپ نے یہ سورۃ پڑھ کر سنائی، پھر فرمایا: اللہ نے تجھے سچا قرار دے دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر المنافقین 1 (4900)، و 2 (4901)، و3 (4903)، و4 (4904)، صحیح مسلم/المنافقین ح 1 (2772) (تحفة الأشراف: 3678) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

Previous    38    39    40    41    42    43    44    45    46    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.