سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
60. باب وَمِنْ سُورَةِ الْمُمْتَحَنَةِ
باب: سورۃ الممتحنہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3308
حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْفِرْيَابِيُّ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنِ الْأَغَرِّ بْنِ الصَّبَّاحِ، عَنْ خَلِيفَةَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي نَصْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: " إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ سورة الممتحنة آية 10، قَالَ: كَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا جَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِتُسْلِمَ حَلَّفَهَا بِاللَّهِ مَا خَرَجْتُ مِنْ بُغْضِ زَوْجِي مَا خَرَجْتُ إِلَّا حُبًّا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما اس آیت
«إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن» کی تفسیر میں کہتے ہیں: جب کوئی عورت نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایمان لانے کے لیے آتی تو آپ اسے اللہ تعالیٰ کی قسم دلا کر کہلاتے کہ میں اپنے شوہر سے ناراضگی کے باعث کفر سے نہیں نکلی ہوں بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت لے کر اسلام قبول کرنے آئی ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: لم یوردہ في ترجمة أبي نصر عن ابن عباس) (ضعیف) (سند میں راوی قیس بن الربیع کوفی صدوق راوی ہیں، لیکن بڑھاپے میں حافظہ میں تبدیلی آ گئی تھی، اور ان کے بیٹے نے اُن کی کتاب میں وہ احادیث داخل کر دیں جو اُن کی روایت سے نہیں تھیں، اور انہوں ان روایات کو بیان کیا، اور ابوالنصر اسدی بصری کو ابو زرعہ نے ثقہ کہا ہے، اور امام بخاری کہتے ہیں کہ ابو نصر کا سماع ابن عباس سے غیر معروف ہے (صحیح البخاری، النکاح (5105) تہذیب الکمال 34/343) اور حافظ ابن حجر ابو نصر أسدی کو مجہول کہتے ہیں (التقریب) 1؎۔»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث تحفۃ الأحوذی میں نہیں ہے، نیز سنن ترمذی کے مکتبۃ المعارف والے نسخے میں بھی نہیں ہے، جب کہ ضعیف سنن الترمذی میں یہ حدیث موجود ہے، اور شیخ البانی نے إتحاف الخیرۃ المہرۃ ۸/ ۱۷۴) کا حوالہ دیا ہے، واضح رہے کہ یہ حدیث عارضۃ الأحوذی شرح صحیح الترمذی لابن العربی المالکی کے مطبوعہ نسخے بتحقیق جمال مرعشلی میں موجود ہے، اور حاشیہ میں یہ نوٹ ہے کہ مزی نے اس حدیث کو تحفۃ الأشراف میں نہیں ذکر کیا ہے، اور یہ ترمذی کے دوسرے نسخوں میں موجود نہیں ہے ۱۲/۱۴۱)
قال الشيخ زبير على زئي: (3308) إسناده ضعيف
قيس بن الربيع ضعيف على الراجع (د 3761)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3308 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3308
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں راوی قیس بن الربیع کوفی صدوق راوی ہیں،
لیکن بوڑھاپے میں حافظہ میں تبدیلی آ گئی تھی،
اور ان کے بیٹے نے اُن کی کتاب میں وہ احادیث داخل کر دیں جو اُن کی روایت سے نہیں تھیں،
اور انہوں ان روایات کو بیان کیا،
اور ابوالنصر اسد ی بصری کو ابوزرعہ نے ثقہ کہا ہے،
اور امام بخاری کہتے ہیں کہ ابونصر کا سماع ابن عباس سے غیر معروف ہے (صحیح البخاري،
النکاح (5105) تہذیب الکمال: 34/343) اور حافظ ابن حجر ابونصر أسدی کو مجہول کہتے ہیں (التقریب)1؎۔
1؎:
یہ حدیث تحفۃ الأحوذی میں نہیں ہے،
نیز سنن ترمذی کے مکتبۃ المعارف والے نسخے میں بھی نہیں ہے،
جب کہ ضعیف سنن الترمذی میں یہ حدیث موجود ہے،
اور شیخ البانی نے إتحاف الخیرۃ المهرۃ 8/ 174) کا حوالہ دیا ہے،
واضح رہے کہ یہ حدیث عارضة الأحوذي شرح صحیح الترمذي لإبن العربي المالکي کے مطبوعہ نسخے بتحقیق جمال مرعشلی میں موجود ہے،
اور حاشہ میں یہ نوٹ ہے کہ مزی نے اس حدیث کو تحفة الأشراف میں نہیں ذکر کیا ہے،
اور یہ ترمذی کے دوسرے نسخوں میں موجود نہیں ہے 12 /141)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3308