سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
حدیث نمبر: 3238
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا سفيان، حدثني منصور، وسليمان الاعمش، عن إبراهيم، عن عبيدة، عن عبد الله، قال: جاء يهودي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا محمد إن الله يمسك السماوات على إصبع، والارضين على إصبع، والجبال على إصبع، والخلائق على إصبع، ثم يقول: انا الملك، قال: فضحك النبي صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه، قال: " وما قدروا الله حق قدره سورة الانعام آية 91 " قال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ، وَسُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: جَاءَ يَهُودِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْأَرَضِينَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْجِبَالَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْخَلَائِقَ عَلَى إِصْبَعٍ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، قَالَ: فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، قَالَ: " وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ سورة الأنعام آية 91 " قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: محمد! اللہ آسمانوں کو ایک انگلی پر روکے ہوئے ہے، زمینوں کو ایک انگلی پر اٹھائے ہوئے ہے، پہاڑوں کو ایک انگلی سے تھامے ہوئے ہے، اور مخلوقات کو ایک انگلی پر آباد کئے ہوئے ہے، پھر کہتا ہے: میں ہی (ساری کائنات کا) بادشاہ ہوں۔ (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھلکھلا کر ہنس پڑے، فرمایا: پھر بھی لوگوں نے اللہ کی قدر و عزت نہ کی جیسی کہ کرنی چاہیئے تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الزمر 2 (4811)، والتوحید 19 (7414)، و26 (7451)، و 36 (7513)، صحیح مسلم/المنافقین ح 19 (2786) (تحفة الأشراف: 4904) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الظلال (541 - 544)
حدیث نمبر: 3239
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، حدثنا فضيل بن عياض، عن منصور، عن إبراهيم، عن عبيدة، عن عبد الله، قال: فضحك النبي صلى الله عليه وسلم تعجبا وتصديقا. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَجُّبًا وَتَصْدِيقًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تعجب سے اور (اس کی باتوں کی) تصدیق میں ہنس پڑے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الظلال (541 - 544)
حدیث نمبر: 3240
Save to word مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا محمد بن الصلت، حدثنا ابو كدينة، عن عطاء بن السائب، عن ابي الضحى، عن ابن عباس، قال: مر يهودي بالنبي صلى الله عليه وسلم، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " يا يهودي، حدثنا "، فقال: كيف تقول يا ابا القاسم إذا وضع الله السموات على ذه، والارض على ذه، والماء على ذه، والجبال على ذه، وسائر الخلق على ذه واشار ابو جعفر محمد بن الصلت بخنصره اولا، ثم تابع حتى بلغ الإبهام، فانزل الله: وما قدروا الله حق قدره سورة الانعام آية 91. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح، لا نعرفه من حديث ابن عباس إلا من هذا الوجه، وابو كدينة اسمه يحيى بن المهلب، قال: رايت محمد بن إسماعيل روى هذا الحديث عن الحسن بن شجاع، عن محمد بن الصلت.(قدسي) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ، حَدَّثَنَا أَبُو كُدَيْنَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ يَهُودِيٌّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا يَهُودِيُّ، حَدِّثْنَا "، فَقَالَ: كَيْفَ تَقُولُ يَا أَبَا الْقَاسِمِ إِذَا وَضَعَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ عَلَى ذِهْ، وَالْأَرْضَ عَلَى ذِهْ، وَالْمَاءَ عَلَى ذِهْ، وَالْجِبَالَ عَلَى ذِهْ، وَسَائِرَ الْخَلْقِ عَلَى ذِهْ وَأَشَارَ أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ بِخِنْصَرِهِ أَوَّلًا، ثُمَّ تَابَعَ حَتَّى بَلَغَ الْإِبْهَامَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ سورة الأنعام آية 91. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو كُدَيْنَةَ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ الْمُهَلَّبِ، قَالَ: رَأَيْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ شُجَاعٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّلْتِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک یہودی کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزر ہوا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (یہودی) سے کہا: ہم سے کچھ بات چیت کرو، اس نے کہا: ابوالقاسم! آپ کیا کہتے ہیں: جب اللہ آسمانوں کو اس پر اٹھائے گا ۱؎ اور زمینوں کو اس پر اور پانی کو اس پر اور پہاڑوں کو اس پر اور ساری مخلوق کو اس پر، ابوجعفر محمد بن صلت نے (یہ بات بیان کرتے ہوئے) پہلے چھنگلی (کانی انگلی) کی طرف اشارہ کیا، اور یکے بعد دیگرے اشارہ کرتے , ہوئے انگوٹھے تک پہنچے، (اس موقع پر بطور جواب) اللہ تعالیٰ نے «وما قدروا الله حق قدره» انہوں نے اللہ کی (ان ساری قدرتوں کے باوجود) صحیح قدر و منزلت نہ جانی، نہ پہچانی (الزمر: ۶۷)، نازل کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،
۲- ہم اسے (ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت سے) صرف اسی سند سے جانتے ہیں،
۳- ابوکدینہ کا نام یحییٰ بن مہلب ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو دیکھا ہے، انہوں نے یہ حدیث حسن بن شجاع سے اور حسن نے محمد بن صلت سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 6457) (ضعیف) (سند میں عطاء بن السائب مختلط راوی ہیں)»

وضاحت:
۱؎: احمد کی روایت میں یوں ہے «یوم یحمل…» ۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف المصدر نفسه // هو كتاب ظلال الجنة في تخريج أحاديث كتاب " السنة " لابن أبي عاصم برقم (545) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3240) إسناده ضعيف
عطاء اختلط (تقدم:184)
حدیث نمبر: 3241
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، حدثنا عبد الله بن المبارك، عن عنبسة بن سعيد عن حبيب بن ابي عمرة، عن مجاهد، قال: قال ابن عباس: اتدري ما سعة جهنم؟ قلت: لا، قال: اجل والله ما تدري، حدثتني عائشة، انها سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قوله: والارض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه سورة الزمر آية 67، قالت: قلت: فاين الناس يومئذ يا رسول الله؟ قال: " على جسر جهنم "، وفي الحديث قصة. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي عَمْرَةَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَتَدْرِي مَا سَعَةُ جَهَنَّمَ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: أَجَلْ وَاللَّهِ مَا تَدْرِي، حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ، أَنَّهَا سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِهِ: وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سورة الزمر آية 67، قَالَتْ: قُلْتُ: فَأَيْنَ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " عَلَى جِسْرِ جَهَنَّمَ "، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
مجاہد کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما نے کہا: کیا تمہیں معلوم ہے جہنم کتنی بڑی ہے؟ میں نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: بیشک، قسم اللہ کی! مجھے بھی معلوم نہ تھا، (مگر) عائشہ رضی الله عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آیت «والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه» ساری زمین قیامت کے دن رب کی ایک مٹھی میں ہو گی اور سارے آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے (الزمر: ۶۷)، کے تعلق سے پوچھا: رسول اللہ! پھر اس دن لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: جہنم کے پل پر، (اس سے مجھے معلوم ہو گیا کہ جہنم بہت لمبی چوڑی ہو گی) اس حدیث کے سلسلے میں پوری ایک کہانی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 16228) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
حدیث نمبر: 3242
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن داود بن ابي هند، عن الشعبي، عن مسروق، عن عائشة انها قالت: يا رسول الله: والارض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه سورة الزمر آية 67 فاين المؤمنون يومئذ؟ قال: " على الصراط يا عائشة "، هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ: وَالأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سورة الزمر آية 67 فَأَيْنَ الْمُؤْمِنُونَ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: " عَلَى الصِّرَاطِ يَا عَائِشَةُ "، هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ اللہ کے رسول! «والأرض جميعا قبضته يوم القيامة والسموات مطويات بيمينه» زمین ساری کی ساری قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہو گی، اور آسمان سارے کے سارے اس کے ہاتھ لپٹے ہوئے ہوں گے پھر اس دن مومن لوگ کہاں پر ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: عائشہ! وہ لوگ (پل) صراط پر ہوں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (صحیح)»
حدیث نمبر: 3243
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن مطرف، عن عطية العوفي، عن ابي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كيف انعم وقد التقم صاحب القرن القرن وحنى جبهته واصغى سمعه ينتظر ان يؤمر ان ينفخ فينفخ "، قال المسلمون: فكيف نقول يا رسول الله؟ قال: " قولوا: حسبنا الله ونعم الوكيل، توكلنا على الله ربنا، "، وربما قال سفيان: " على الله توكلنا ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد رواه الاعمش ايضا عن عطية، عن ابي سعيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ عَطِيَّةَ الْعَوْفِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ أَنْعَمُ وَقَدِ الْتَقَمَ صَاحِبُ الْقَرْنِ الْقَرْنَ وَحَنَى جَبْهَتَهُ وَأَصْغَى سَمْعَهُ يَنْتَظِرُ أَنْ يُؤْمَرَ أَنْ يَنْفُخَ فَيَنْفُخَ "، قَالَ الْمُسْلِمُونَ: فَكَيْفَ نَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " قُولُوا: حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ، تَوَكَّلْنَا عَلَى اللَّهِ رَبِّنَا، "، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: " عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَاهُ الْأَعْمَشُ أَيْضًا عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کیسے چین سے رہ سکتا ہوں جب کہ صور پھونکنے والا صور کو منہ سے لگائے ہوئے اپنا رخ اسی کی طرف کئے ہوئے ہے، اسی کی طرف کان لگائے ہوئے ہے، انتظار میں ہے کہ اسے صور پھونکنے کا حکم دیا جائے تو وہ فوراً صور پھونک دے، مسلمانوں نے کہا: ہم (ایسے موقعوں پر) کیا کہیں اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: کہو: «حسبنا الله ونعم الوكيل توكلنا على الله ربنا وربما» ہمیں اللہ کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے، ہم نے اپنے رب اللہ پر بھروسہ کر رکھا ہے راوی کہتے ہیں: کبھی کبھی سفیان نے «توكلنا على الله ربنا» کے بجائے «على الله توكلنا» روایت کیا ہے۔ (اس کے معنی بھی وہی ہیں) ہم نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اعمش نے بھی اسے عطیہ سے اور عطیہ نے ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4244) (صحیح) (سند میں عطیہ ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»

وضاحت:
۱؎: مولف نے یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ: «ونفخ في الصور فصعق من في السماوات ومن في الأرض» (الزمر: 68) کی تفسیر میں ذکر کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1078 - 1079)

قال الشيخ زبير على زئي: (3243) إسناده ضعيف / تقدم طرفه:2431
عطية ضعيف (تقدم:477) وللحديث شواھد كثيرة ضعيفة كلھا
حدیث نمبر: 3244
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، اخبرنا سليمان التيمي، عن اسلم العجلي، عن بشر بن شغاف، عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: قال اعرابي: يا رسول الله، ما الصور؟ قال: " قرن ينفخ فيه "، قال: هذا حديث حسن إنما نعرفه من حديث سليمان التيمي.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَسْلَمَ الْعِجْلِيِّ، عَنْ بِشْرِ بْنِ شَغَافٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ أَعْرَابِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا الصُّورُ؟ قَالَ: " قَرْنٌ يُنْفَخُ فِيهِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے کہا: اللہ کے رسول! صور کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ایک سینگ (بھوپو) ہے جس میں پھونکا جائے گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے اور ہم اسے صرف سلیمان تیمی کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2430 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: تو آواز گونجتی اور دور تک جاتی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1080)
حدیث نمبر: 3245
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا عبدة بن سليمان، حدثنا محمد بن عمرو، حدثنا ابو سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال يهودي بسوق المدينة: لا والذي اصطفى موسى على البشر، قال: فرفع رجل من الانصار يده فصك بها وجهه، قال: تقول هذا وفينا نبي الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الارض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه اخرى فإذا هم قيام ينظرون سورة الزمر آية 68 فاكون اول من رفع راسه فإذا موسى آخذ بقائمة من قوائم العرش، فلا ادري ارفع راسه قبلي ام كان ممن استثنى الله، ومن قال: انا خير من يونس بن متى فقد كذب ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ يَهُودِيٌّ بِسُوقِ الْمَدِينَةِ: لَا وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ، قَالَ: فَرَفَعَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يَدَهُ فَصَكَّ بِهَا وَجْهَهُ، قَالَ: تَقُولُ هَذَا وَفِينَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ إِلا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ سورة الزمر آية 68 فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ رَفَعَ رَأْسَهُ فَإِذَا مُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي أَرَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلِي أَمْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللَّهُ، وَمَنْ قَالَ: أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى فَقَدْ كَذَبَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں میں سے چن لیا، (یہ سنا) تو ایک انصاری شخص نے ہاتھ اٹھا کر ایک طمانچہ اس کے منہ پر مار دیا، کہا: تو ایسا کہتا ہے جب کہ (تمام انسانوں اور جنوں کے سردار) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں۔ (دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون» جب صور پھونکا جائے گا آواز کی کڑک سے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے گا آسمانوں و زمین کے سبھی لوگ غشی کھا جائیں گے، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، تو وہ کھڑے ہو کر دیکھتے ہوں گے (کہ ان کے ساتھ) کیا کیا جاتا ہے؟ (الزمر: ۶۹)، پڑھی اور کہا: سب سے پہلا سر اٹھانے والا میں ہوں گا تو موسیٰ مجھے عرش کا ایک پایہ پکڑے ہوئے دکھائی دیں گے، میں نہیں کہہ سکتا کہ موسیٰ نے مجھ سے پہلے سر اٹھایا ہو گا یا وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے «إلا من شاء الله» کہہ کر مستثنیٰ کر دیا ہے ۲؎ اور جس نے کہا: میں یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہوں اس نے غلط کہا ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15062) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: روز حشر کا یہ واقعہ سنانے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موسیٰ علیہ السلام کی فضیلیت ذکر کرنا چاہتے ہیں نیز اپنی خاکساری کا اظہار فرما رہے ہیں، اپنی خاکساری ظاہری کرنا دوسری بات ہے، اور فی نفسہ موسیٰ علیہ السلام کا تمام انبیاء کے افضل ہونا اور بات ہے البتہ اس طرح کسی نبی کا نام لے کر آپ کے ساتھ مقابلہ کر کے آپ کی فضیلت بیان کرنے والے کو تاؤ میں آ کر مار دینا مناسب نہیں ہے، آپ نے اس وقت یہی تعلیم دہی ہے۔
۳؎: حقیقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل نبی ہیں، اور سیدالأنبیاء و الرسل ہیں، لیکن انبیاء کا آپس میں تقابل عام حالات میں صحیح نہیں ہے، بلکہ خلاف ادب ہے، اس کا تواضح و انکساری اور انبیاء و رسل کی غرض و احترام میں آپ نے ادب سکھایا اور اس طرح کے موازنہ پر تنقید فرمائی۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح تخريج الطحاوية ص // (160 - // 162)
حدیث نمبر: 3246
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، وغير واحد، قالوا: حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا الثوري، اخبرني ابو إسحاق، ان الاغر ابا مسلم حدثه، عن ابي سعيد، وابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ينادي مناد: إن لكم ان تحيوا فلا تموتوا ابدا، وإن لكم ان تصحوا فلا تسقموا ابدا، وإن لكم ان تشبوا فلا تهرموا ابدا، وإن لكم ان تنعموا فلا تباسوا ابدا، فذلك قوله تعالى: وتلك الجنة التي اورثتموها بما كنتم تعملون سورة الزخرف آية 72 ". قال ابو عيسى: وروى ابن المبارك وغيره هذا الحديث عن الثوري ولم يرفعوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ، أَخْبَرَنِي أَبُو إِسْحَاق، أَنَّ الْأَغَرَّ أَبَا مُسْلِمٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يُنَادِي مُنَادٍ: إِنَّ لَكُمْ أَنْ تَحْيَوْا فَلَا تَمُوتُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَصِحُّوا فَلَا تَسْقَمُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَشِبُّوا فَلَا تَهْرَمُوا أَبَدًا، وَإِنَّ لَكُمْ أَنْ تَنْعَمُوا فَلَا تَبْأَسُوا أَبَدًا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِي أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ سورة الزخرف آية 72 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى ابْنُ الْمُبَارَكِ وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الثَّوْرِيِّ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ.
ابوسعید اور ابوہریرہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پکارنے والا پکار کر کہے گا: (جنت میں) تم ہمیشہ زندہ رہو گے، کبھی مرو گے نہیں، تم صحت مند رہو گے، کبھی بیمار نہ ہو گے، کبھی محتاج و حاجت مند نہ ہو گے، اللہ تعالیٰ کے قول: «وتلك الجنة التي أورثتموها بما كنتم تعملون» یہی وہ جنت ہے جس کے تم اپنے نیک اعمال کے بدلے وارث بنائے جاؤ گے (الزخرف: ۷۲)، کا یہی مطلب ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ابن مبارک وغیرہ نے یہ حدیث ثوری سے روایت کی ہے، اور انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجنة 8 (2837) (تحفة الأشراف: 3963، 12193) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
41. باب وَمِنْ سُورَةِ الْمُؤْمِنِ
41. باب: سورۃ مومن سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3247
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن منصور والاعمش، عن ذر، عن يسيع الحضرمي، عن النعمان بن بشير، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " الدعاء هو العبادة، ثم قرا: وقال ربكم ادعوني استجب لكم إن الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين سورة غافر آية 60 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ وَالْأَعْمَشِ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ يُسَيْعٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ، ثُمَّ قَرَأَ: وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ سورة غافر آية 60 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: دعا ہی عبادت ہے، پھر آپ نے آیت: «وقال ربكم ادعوني أستجب لكم إن الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين» (غافر: 60) ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2969 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: تمہارے رب نے فرمایا: مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ جو لوگ بڑا بن کر میری عبادت (دعا) سے منہ پھیرتے ہیں وہ ذلت خواری کے ساتھ جہنم میں جائیں گے (المؤمن: ۶۰)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3828)

Previous    31    32    33    34    35    36    37    38    39    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.