سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
حدیث نمبر: 3210
Save to word اعراب
(مقطوع) حدثنا الحسن بن قزعة البصري، حدثنا مسلمة بن علقمة، عن داود بن ابي هند، عن عامر الشعبي، في قول الله عز وجل: ما كان محمد ابا احد من رجالكم سورة الاحزاب آية 40، قال: ما كان ليعيش له فيكم ولد ذكر.(مقطوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ البَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مَسْلَمَةُ بْنُ عَلْقَمَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيّ، فِي قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ سورة الأحزاب آية 40، قَالَ: مَا كَانَ لِيَعِيشَ لَهُ فِيكُمْ وَلَدٌ ذَكَرٌ.
‏‏‏‏ عامر شعبی اللہ کے اس قول «ما كان محمد أبا أحد من رجالكم» (لوگو!) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہیں (الاحزاب: ۴۰)، کے بارے میں کہتے ہیں: اس سے مراد زندہ نہ رہنے والی نرینہ اولاد ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (ضعیف الإسناد) (سند میں ”مسلمہ بن علقمہ“ صدوق ہیں، لیکن ان سے احادیث میں اوہام پائے جاتے ہیں)»

وضاحت:
۱؎: ورنہ نرینہ اولاد تو آپ کے یہاں بھی پیدا ہوئی ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف مقطوع
حدیث نمبر: 3211
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا محمد بن كثير، حدثنا سليمان بن كثير، عن حسين، عن عكرمة، عن ام عمارة الانصارية، انها اتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: ما ارى كل شيء إلا للرجال، وما ارى النساء يذكرن بشيء، فنزلت هذه الآية:إن المسلمين والمسلمات والمؤمنين والمؤمنات سورة الاحزاب آية 35 الآية. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وإنما نعرف هذا الحديث من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ حُسَيْنٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ أُمِّ عُمَارَةَ الْأَنْصَارِيَّةِ، أَنَّهَا أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: مَا أَرَى كُلَّ شَيْءٍ إِلَّا لِلرِّجَالِ، وَمَا أَرَى النِّسَاءَ يُذْكَرْنَ بِشَيْءٍ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ:إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ سورة الأحزاب آية 35 الْآيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَإِنَّمَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ام عمارہ انصاریہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض کیا: کیا بات ہے میں ہر چیز مردوں ہی کے لیے دیکھتی ہوں اور عورتوں کا (قرآن میں) کہیں ذکر نہیں ملتا؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «إن المسلمين والمسلمات والمؤمنين والمؤمنات» آخر آیت تک۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، اور یہ حدیث صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 18337) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
حدیث نمبر: 3212
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن عبدة الضبي، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن انس، قال: لما نزلت هذه الآية: وتخفي في نفسك ما الله مبديه وتخشى الناس سورة الاحزاب آية 37 في شان زينب بنت جحش جاء زيد يشكو، فهم بطلاقها، فاستامر النبي صلى الله عليه وسلم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " امسك عليك زوجك واتق الله ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ: وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ سورة الأحزاب آية 37 فِي شَأْنِ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ جَاءَ زَيْدٌ يَشْكُو، فَهَمَّ بِطَلَاقِهَا، فَاسْتَأْمَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ آیت «وتخفي في نفسك ما الله مبديه وتخشى الناس» تم اس چیز کو اپنے جی میں چھپا کر رکھ رہے ہو جس کو اللہ ظاہر کرنے والا ہے، اور تم (اللہ سے ڈرنے کی بجائے) لوگوں سے ڈر رہے ہو (الاحزاب: ۳۷)، زینب بنت جحش رضی الله عنہا کی شان میں نازل ہوئی ہے (ان کے شوہر) زید شکایت لے کر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) آئے اور انہوں نے زینب کو طلاق دینے کا ارادہ کر لیا، اس پر انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ لیا تو آپ نے فرمایا: «أمسك عليك زوجك واتق الله» اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو (طلاق نہ دو) اور اللہ سے ڈرو (الاحزاب: ۳۷) ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الأحزاب 6 (4787)، والتوحید 22 (7420) (تحفة الأشراف: 296) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہاں ایک جھوٹی روایت لوگوں نے گھڑ رکھی ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل میں ان کی بات چھپا رکھی تھی وہ یہ کہ وہ زینب سے محبت کرتے تھے اور خود ان سے شادی چاہتے تھے اس لیے چاہتے تھے کہ زید جلد طلاق دے دیں معاذاللہ، حالانکہ جس بات کے چھپانے کی طرف اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارہ کر رہا ہے، وہ یہ تھی کہ: اچھا ہوتا کہ زید زینب کو نہیں چھوڑتے، ورنہ بحکم الٰہی زینب سے مجھے ہی شادی کرنی ہو گی، تب لوگ کہیں گے: لو محمد نے اپنے لے پالک بیٹے کی مطلقہ سے شادی کر لی (یہ چیز ان کے یہاں معیوب سمجھی جاتی تھی) اسی کو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ایک دن اللہ اس کو ظاہر کر دے گا، اس شادی میں سماج سے ایک غلط روایت کو دور کرنا ہے، اور لوگوں کو صحیح بات بتانی ہے کہ لے پالک بیٹا صلبی بیٹا نہیں ہوتا کہ اس کی مطلقہ یا بیوہ حرام ہو جائے، اسی طرح لے پالک سے، دیگر خونی معاملات میں حرمت و حلت کی بات صحیح نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3213
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا محمد بن الفضل، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن انس، قال: نزلت هذه الآية في زينب بنت جحش فلما قضى زيد منها وطرا زوجناكها سورة الاحزاب آية 37 قال: فكانت تفخر على ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، تقول: زوجكن اهلكن، وزوجني الله من فوق سبع سماوات ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَلَمَّا قَضَى زَيْدٌ مِنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا سورة الأحزاب آية 37 قَالَ: فَكَانَتْ تَفْخَرُ عَلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: زَوَّجَكُنَّ أَهْلُكُنَّ، وَزَوَّجَنِي اللَّهُ مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَاوَاتٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت «فلما قضى زيد منها وطرا زوجناكها» زید نے جب ان سے اپنی حاجت پوری کر لی (انہیں طلاق دے دی) تو ہم نے تمہاری شادی اس سے کر دی (الاحزاب: ۳۷)، زینب بنت جحش رضی الله عنہا کے بارے میں اتری ہے۔ انس کہتے ہیں: چنانچہ اسی بناء پر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں پر یہ کہہ کر فخر کرتی تھیں کہ تمہاری شادیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہارے گھر والوں (رشتہ داروں) نے کی ہیں، اور میری شادی تو اللہ نے آپ سے ساتویں آسمان پر کر دی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التوحید 22 (7421)، سنن النسائی/النکاح 26 (3254) (تحفة الأشراف: 307، و مسند احمد (3/226) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح مختصر العلو (84 / 6)
حدیث نمبر: 3214
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن السدي، عن ابي صالح، عن ام هانئ بنت ابي طالب، قالت: " خطبني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاعتذرت إليه فعذرني، ثم انزل الله تعالى: إنا احللنا لك ازواجك اللاتي آتيت اجورهن وما ملكت يمينك مما افاء الله عليك وبنات عمك وبنات عماتك وبنات خالك وبنات خالاتك اللاتي هاجرن معك وامراة مؤمنة إن وهبت نفسها للنبي سورة الاحزاب آية 50 الآية، قالت: فلم اكن احل له لاني لم اهاجر، كنت من الطلقاء ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث السدي.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَتْ: " خَطَبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاعْتَذَرْتُ إِلَيْهِ فَعَذَرَنِي، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ سورة الأحزاب آية 50 الْآيَةَ، قَالَتْ: فَلَمْ أَكُنْ أَحِلُّ لَهُ لِأَنِّي لَمْ أُهَاجِرْ، كُنْتُ مِنَ الطُّلَقَاءِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ السُّدِّيِّ.
ام ہانی بنت ابی طالب رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شادی کا پیغام دیا، تو میں نے آپ سے معذرت کر لی ۱؎ تو آپ نے میری معذرت قبول کر لی، پھر اللہ نے یہ آیت «إنا أحللنا لك أزواجك اللاتي آتيت أجورهن وما ملكت يمينك مما أفاء الله عليك وبنات عمك وبنات عماتك وبنات خالك وبنات خالاتك اللاتي هاجرن معك وامرأة مؤمنة إن وهبت نفسها للنبي» اے نبی ہم نے تیرے لیے تیری وہ بیویاں حلال کر دی ہیں جنہیں تو ان کے مہر دے چکا ہے اور وہ لونڈیاں بھی جو اللہ نے غنیمت میں تجھے دی ہیں اور تیرے چچا کی لڑکیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیاں اور تیرے ماموؤں کی بیٹیاں اور تیری خالاؤں کی بیٹیاں بھی جنہوں نے تیرے ساتھ ہجرت کی ہے اور وہ باایمان عورت جو اپنا نفس نبی کو ہبہ کر دے (الاحزاب: ۵۰)، نازل فرمائی ام ہانی کہتی ہیں کہ اس آیت کی رو سے میں آپ کے لیے حلال نہیں ہوئی کیونکہ میں نے ہجرت نہیں کی تھی میں (فتح مکہ کے موقع پر) «الطلقاء» آزاد کردہ لوگوں میں سے تھی، (اور اسی موقع پر ایمان لائی تھی)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے اور ہم اس کو سُدّی کی روایت صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 17999) (ضعیف الإسناد) (سند میں ابو صالح باذام مولی ام ہانی ضعیف مدلس راوی ہے)»

وضاحت:
۱؎: یہ معذرت اس وجہ سے تھی کہ ان کے پاس چھوٹے چھوٹے بچے تھے اور وہ اس بات سے ڈریں کہ ان کے رونے پیٹنے سے کہیں آپ کو تکلیف نہ ہو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد جدا

قال الشيخ زبير على زئي: (3214) إسناده ضعيف
أبو صالح: ضعيف (تقدم:732)
حدیث نمبر: 3215
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا روح، عن عبد الحميد بن بهرام، عن شهر بن حوشب، قال: قال ابن عباس رضي الله عنهما " نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اصناف النساء إلا ما كان من المؤمنات المهاجرات "، قال: لا يحل لك النساء من بعد ولا ان تبدل بهن من ازواج ولو اعجبك حسنهن إلا ما ملكت يمينك سورة الاحزاب آية 52 فاحل الله فتياتكم المؤمنات وامراة مؤمنة إن وهبت نفسها للنبي سورة الاحزاب آية 50، وحرم كل ذات دين غير الإسلام، ثم قال: ومن يكفر بالإيمان فقد حبط عمله وهو في الآخرة من الخاسرين سورة المائدة آية 5 وقال: يايها النبي إنا احللنا لك ازواجك اللاتي آتيت اجورهن وما ملكت يمينك مما افاء الله عليك إلى قوله خالصة لك من دون المؤمنين سورة الاحزاب آية 50 وحرم ما سوى ذلك من اصناف النساء ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، إنما نعرفه من حديث عبد الحميد بن بهرام، قال: سمعت احمد بن الحسن يذكر، عن احمد بن حنبل، قال: لا باس بحديث عبد الحميد بن بهرام، عن شهر بن حوشب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدٌ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ بَهْرَامَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا " نُهِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَصْنَافِ النِّسَاءِ إِلَّا مَا كَانَ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ الْمُهَاجِرَاتِ "، قَالَ: لا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ وَلا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ سورة الأحزاب آية 52 فَأَحَلَّ اللَّهُ فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ وَامْرَأَةً مُؤْمِنَةً إِنْ وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ سورة الأحزاب آية 50، وَحَرَّمَ كُلَّ ذَاتِ دِينٍ غَيْرَ الْإِسْلَامِ، ثُمَّ قَالَ: وَمَنْ يَكْفُرْ بِالإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ سورة المائدة آية 5 وَقَالَ: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْكَ إِلَى قَوْلِهِ خَالِصَةً لَكَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ سورة الأحزاب آية 50 وَحَرَّمَ مَا سِوَى ذَلِكَ مِنْ أَصْنَافِ النِّسَاءِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ بَهْرَامَ، قَالَ: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَذْكُرُ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، قَالَ: لَا بَأْسَ بِحَدِيثِ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ بَهْرَامَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مومن اور مہاجر عورتوں کے سوا دوسری عورتوں سے شادی کرنے سے روک دیا گیا، (جیسا کہ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «لا يحل لك النساء من بعد ولا أن تبدل بهن من أزواج ولو أعجبك حسنهن إلا ما ملكت يمينك» آپ کے لیے آج کے بعد کوئی عورت حلال نہیں، اور آپ کے لیے یہ بھی حلال نہیں کہ موجودہ بیویوں میں سے کسی بیوی کو ہٹا کر من بھائی عورت سے شادی کر لیں، سوائے ان لونڈیوں کے جن کے آپ مالک بن جائیں (الاحزاب: ۵۲)، اللہ نے (نبی کے لیے) تمہاری جوان مومن مسلمان عورتیں حلال کر دی ہیں۔ «وامرأة مؤمنة إن وهبت نفسها للنبي» اور وہ ایمان والی عورت بھی اللہ نے حلال کر دی ہیں جو اپنے آپ کو نبی کو پیش کر دے، اور اسلام کے سوا ہر دین والی عورت کو حرام کر دیا ہے۔ پھر اللہ نے فرمایا: «ومن يكفر بالإيمان فقد حبط عمله وهو في الآخرة من الخاسرين» جو ایمان کا منکر ہوا اس کا عمل ضائع گیا، اور وہ آخرت میں گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہو گا (المائدہ: ۵)، اور اللہ نے یہ بھی فرمایا ہے «يا أيها النبي إنا أحللنا لك أزواجك اللاتي آتيت أجورهن وما ملكت يمينك مما أفاء الله عليك» سے لے کر «خالصة لك من دون المؤمن» اے نبی! ہم نے تیرے لیے تیری وہ بیویاں حلال کر دی ہیں جن کے مہر تم نے ادا کیے ہیں اور وہ باندیاں تمہارے لیے حلال کر دی ہیں جو اللہ نے تمہیں بطور مال فیٔ (غنیمت) میں عطا فرمائی ہیں (الاحزاب: ۵۰)، تک، یہ حکم تمہارے لیے خاص ہے ۱؎ اور دوسرے مومنین کے لیے نہیں (ان کا نکاح بغیر مہر کے نہیں ہو سکتا) ان کے علاوہ عورتوں کی اور قسمیں حرام کر دی گئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے۔ ہم اسے عبدالحمید بن بہرام کی روایت ہی سے جانتے ہیں،
۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں: عبدالحمید بن بہرام کی شہر بن حوشب سے روایات کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5683) (ضعیف الإسناد) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں)»

وضاحت:
۱؎: اس خاص حکم سے مراد یہ ہے کہ نبی کے سوا کسی اور مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ بغیر مہر اور بغیر ولی کے عورت سے شادی کر لے، اپنے آپ کو بغیر مہر کے ہبہ کرنا صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے، اس کا تعلق چچا زاد، پھوپھی زاد خالہ زاد اور ماموں زاد بہنوں سے شادی سے نہیں ہے، جبکہ اس دور کے بعض متجددین نے یہ شوشہ چھوڑا ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
حدیث نمبر: 3216
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو، عن عطاء، قال: قالت عائشة: " ما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى احل له النساء ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: " مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أُحِلَّ لَهُ النِّسَاءُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے آپ کے لیے سب عورتیں حلال ہو چکی تھیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/النکاح 2 (3206، 3207) (تحفة الأشراف: 7379)، وسنن الدارمی/النکاح 44 (2287) (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: یعنی پچھلی حدیث میں مذکور حرام کردہ عورتیں بعد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال کر دی گئیں تھیں، یہ استنباط عائشہ رضی الله عنہا یا دیگر نے اس ارشاد باری سے کیا ہے، «ترجي من تشاء منهن وتؤوي إليك من تشاء» (اے ہمارے حبیب و خلیل نبی!) تمہیں یہ بھی اختیار ہے کہ تم ان عورتوں میں سے جس کو چاہو پیچھے رہنے دو (اس سے شادی نہ کرو یا موجود بیویوں میں سے جس کی چاہو باری ٹال دو) اور جس کو چاہو اپنے پاس جگہ دو، (گو اس کو باری نہ بھی ہو) (الأحزاب: 51)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
حدیث نمبر: 3217
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا اشهل بن حاتم، قال ابن عون: حدثناه، عن عمرو بن سعيد، عن انس بن مالك، قال: " كنت عند النبي صلى الله عليه وسلم، فاتى باب امراة عرس بها، فإذا عندها قوم فانطلق فقضى حاجته فاحتبس، ثم رجع وعندها قوم فانطلق فقضى حاجته فرجع وقد خرجوا، قال: فدخل وارخى بيني وبينه سترا، قال: فذكرته لابي طلحة، قال: فقال: لئن كان كما تقول لينزلن في هذا شيء، فنزلت آية الحجاب ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، وعمرو بن سعيد، يقال له: الاصلع.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَشْهَلُ بْنُ حَاتِمٍ، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: حَدَّثَنَاهُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى بَابَ امْرَأَةٍ عَرَّسَ بِهَا، فَإِذَا عِنْدَهَا قَوْمٌ فَانْطَلَقَ فَقَضَى حَاجَتَهُ فَاحْتُبِسَ، ثُمَّ رَجَعَ وَعِنْدَهَا قَوْمٌ فَانْطَلَقَ فَقَضَى حَاجَتَهُ فَرَجَعَ وَقَدْ خَرَجُوا، قَالَ: فَدَخَلَ وَأَرْخَى بَيْنِي وَبَيْنَهُ سِتْرًا، قَالَ: فَذَكَرْتُهُ لِأَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: فَقَالَ: لَئِنْ كَانَ كَمَا تَقُولُ لَيَنْزِلَنَّ فِي هَذَا شَيْءٌ، فَنَزَلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَعَمْرُو بْنُ سَعِيدٍ، يُقَالُ لَهُ: الْأَصْلَعُ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ اپنی ایک بیوی کے کمرے کے دروازہ پر تشریف لائے جن کے ساتھ آپ کو رات گزارنی تھی، وہاں کچھ لوگوں کو موجود پایا تو آپ وہاں سے چلے گئے، اور اپنا کچھ کام کاج کیا اور کچھ دیر رکے رہے، پھر آپ دوبارہ لوٹ کر آئے تو لوگ وہاں سے جا چکے تھے، انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: پھر آپ اندر چلے گئے اور ہمارے اور اپنے درمیان پردہ ڈال دیا (لٹکا دیا) میں نے اس بات کا ذکر ابوطلحہ سے کیا: تو انہوں نے کہا اگر بات ایسی ہی ہے جیسا تم کہتے ہو تو اس بارے میں کوئی نہ کوئی حکم ضرور نازل ہو گا، پھر آیت حجاب نازل ہوئی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف، وراجع: صحیح البخاری/النکاح 67 (5166)، والأطعمة 59 (5466)، والاستئذان 10 (6238)، وصحیح مسلم/النکاح 15 (1428) (تحفة الأشراف: 1109) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: آیت حجاب سے مراد یہ آیت ہے «يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم» سے «إن ذلكم كان عند الله عظيما» تک یعنی اے ایمان والو! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، الا یہ کہ تمہیں کھانے کے لیے اجازت دی جائے، لیکن تم پہلے ہی اس کے پکنے کا انتظار نہ کرو، بلکہ جب بلایا جائے تو داخل ہو جاؤ اور جب کھا چکو تو فوراً منتشر ہو جاؤ، …اور جب تم امہات المؤمنین سے کوئی سامان مانگو تو پردے کی اوٹ سے مانگو … (الأحزاب: 53)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3218
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جعفر بن سليمان الضبعي، عن الجعد بن عثمان، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال: تزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم فدخل باهله، قال: فصنعت امي ام سليم حيسا فجعلته في تور، فقالت: يا انس اذهب بهذا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقل له: بعثت إليك بها امي وهي تقرئك السلام، وتقول: إن هذا لك منا قليل يا رسول الله، قال: فذهبت به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: إن امي تقرئك السلام، وتقول: إن هذا منا لك قليل، فقال: " ضعه "، ثم قال: " اذهب فادع لي فلانا وفلانا وفلانا ومن لقيت فسمى رجالا "، قال: فدعوت من سمى ومن لقيت، قال: قلت لانس عدد كم كانوا؟ قال: زهاء ثلاث مائة، قال: وقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا انس هات التور "، قال: فدخلوا حتى امتلات الصفة والحجرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ليتحلق عشرة عشرة، ولياكل كل إنسان مما يليه "، قال: فاكلوا حتى شبعوا، قال: فخرجت طائفة ودخلت طائفة حتى اكلوا كلهم، قال: فقال لي: " يا انس، ارفع "، قال: فرفعت فما ادري حين وضعت كان اكثر ام حين رفعت، قال: وجلس منهم طوائف يتحدثون في بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس وزوجته مولية وجهها إلى الحائط، فثقلوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلم على نسائه ثم رجع، فلما راوا رسول الله صلى الله عليه وسلم قد رجع ظنوا انهم قد ثقلوا عليه، قال: فابتدروا الباب فخرجوا كلهم، وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ارخى الستر ودخل وانا جالس في الحجرة، فلم يلبث إلا يسيرا حتى خرج علي وانزلت هذه الآيات، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فقراهن على الناس: " يايها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا ان يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه ولكن إذا دعيتم فادخلوا فإذا طعمتم فانتشروا ولا مستانسين لحديث إن ذلكم كان يؤذي النبي سورة الاحزاب آية 53 إلى آخر الآية "، قال الجعد: قال انس: انا احدث الناس عهدا بهذه الآيات، وحجبن نساء رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والجعد هو ابن عثمان، ويقال: هو ابن دينار، ويكنى ابا عثمان بصري وهو ثقة عند اهل الحديث، روى عنه يونس بن عبيد، وشعبة وحماد بن زيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الضُّبَعِيُّ، عَنِ الْجَعْدِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ بِأَهْلِهِ، قَالَ: فَصَنَعَتْ أُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ حَيْسًا فَجَعَلَتْهُ فِي تَوْرٍ، فَقَالَتْ: يَا أَنَسُ اذْهَبْ بِهَذَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْ لَهُ: بَعَثَتْ إِلَيْكَ بِهَا أُمِّي وَهِيَ تُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَتَقُولُ: إِنَّ هَذَا لَكَ مِنَّا قَلِيلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنَّ أُمِّي تُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَتَقُولُ: إِنَّ هَذَا مِنَّا لَكَ قَلِيلٌ، فَقَالَ: " ضَعْهُ "، ثُمَّ قَالَ: " اذْهَبْ فَادْعُ لِي فُلَانًا وَفُلَانًا وَفُلَانًا وَمَنْ لَقِيتَ فَسَمَّى رِجَالًا "، قَالَ: فَدَعَوْتُ مَنْ سَمَّى وَمَنْ لَقِيتُ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسٍ عَدَدُ كَمْ كَانُوا؟ قَالَ: زُهَاءَ ثَلَاثِ مِائَةٍ، قَالَ: وَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَنَسُ هَاتِ التَّوْرَ "، قَالَ: فَدَخَلُوا حَتَّى امْتَلَأَتْ الصُّفَّةُ وَالْحُجْرَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِيَتَحَلَّقْ عَشَرَةٌ عَشَرَةٌ، وَلْيَأْكُلْ كُلُّ إِنْسَانٍ مِمَّا يَلِيهِ "، قَالَ: فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا، قَالَ: فَخَرَجَتْ طَائِفَةٌ وَدَخَلَتْ طَائِفَةٌ حَتَّى أَكَلُوا كُلُّهُمْ، قَالَ: فَقَالَ لِي: " يَا أَنَسُ، ارْفَعْ "، قَالَ: فَرَفَعْتُ فَمَا أَدْرِي حِينَ وَضَعْتُ كَانَ أَكْثَرَ أَمْ حِينَ رَفَعْتُ، قَالَ: وَجَلَسَ مِنْهُمْ طَوَائِفُ يَتَحَدَّثُونَ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَزَوْجَتُهُ مُوَلِّيَةٌ وَجْهَهَا إِلَى الْحَائِطِ، فَثَقُلُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ عَلَى نِسَائِهِ ثُمَّ رَجَعَ، فَلَمَّا رَأَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ رَجَعَ ظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ ثَقُلُوا عَلَيْهِ، قَالَ: فَابْتَدَرُوا الْبَابَ فَخَرَجُوا كُلُّهُمْ، وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَرْخَى السِّتْرَ وَدَخَلَ وَأَنَا جَالِسٌ فِي الْحُجْرَةِ، فَلَمْ يَلْبَثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى خَرَجَ عَلَيَّ وَأُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَاتُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهُنَّ عَلَى النَّاسِ: " يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا وَلا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ سورة الأحزاب آية 53 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ "، قَالَ الْجَعْدُ: قَالَ أَنَسٌ: أَنَا أَحْدَثُ النَّاسِ عَهْدًا بِهَذِهِ الْآيَاتِ، وَحُجِبْنَ نِسَاءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْجَعْدُ هُوَ ابْنُ عُثْمَانَ، وَيُقَالُ: هُوَ ابْنُ دِينَارٍ، وَيُكْنَى أَبَا عُثْمَانَ بَصْرِيٌّ وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، رَوَى عَنْهُ يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَشُعْبَةُ وَحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور اپنی بیوی (زینب بنت جحش رضی الله عنہا) کے پاس تشریف لے گئے، اس موقع پر میری ماں ام سلیم رضی الله عنہا نے حیس ۱؎ تیار کیا، اسے ایک چھوٹے برتن میں رکھا، پھر (مجھ سے) کہا: (بیٹے) انس! اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور آپ سے کہو: اسے میری امی جان نے آپ کے پاس بھیجا ہے اور انہوں نے آپ کو سلام عرض کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تھوڑا سا ہدیہ میری طرف سے آپ کی خدمت میں پیش ہے، اللہ کے رسول! میں اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، میں نے عرض کیا: میری امی جان آپ کو سلام کہتی ہیں اور کہتی ہیں: یہ میری طرف سے آپ کے لیے تھوڑا سا ہدیہ ہے۔ آپ نے فرمایا: اسے رکھ دو، پھر فرمایا: جاؤ فلاں فلاں، اور فلاں کچھ لوگوں کے نام لیے اور جو بھی تمہیں ملے سب کو میرے پاس بلا کر لے آؤ، انس کہتے ہیں: جن کے نام آپ نے لیے تھے انہیں اور جو بھی مجھے آتے جاتے ملا اسے بلا لیا، راوی جعد بن عثمان کہتے ہیں: میں نے انس رضی الله عنہ سے پوچھا: کتنے لوگ رہے ہوں گے؟ انہوں نے کہا: تقریباً تین سو، انس رضی الله عنہ کہتے ہیں: پھر مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انس «تَور» پیالہ لے آؤ۔ انس کہتے ہیں: لوگ اندر آئے یہاں تک کہ صفہ (چبوترہ) اور کمرہ سب بھر گیا، آپ نے فرمایا: دس دس افراد کی ٹولی بنا لو اور ہر شخص اپنے قریب سے کھائے، لوگوں نے پیٹ بھر کر کھایا، ایک ٹولی (کھا کر) باہر جاتی اور دوسری ٹولی (کھانے کے لیے) اندر آ جاتی اس طرح سبھی نے کھا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: انس: اب (برتن) اٹھا لو۔ میں نے (پیالہ) اٹھا لیا، مگر (صحیح صحیح) بتا نہ پاؤں گا کہ جب میں نے پیالہ لا کر رکھا تھا تب اس میں حیس زیادہ تھا یا جب اٹھایا تھا تب؟ کچھ لوگ کھانے سے فارغ ہو کر آپ کے گھر میں بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگ گئے۔ (انہوں نے کچھ بھی خیال نہ کیا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور آپ کی اہلیہ محترمہ دیوار کی طرف منہ پھیرے بیٹھی ہیں، وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بوجھ بن گئے، آپ وہاں سے اٹھ کر اپنی دوسری بیویوں کی طرف چلے گئے اور انہیں سلام کیا (مزاج پرسی کی) اور پھر لوٹ آئے، جب لوگوں نے دیکھا کہ آپ لوٹ آئے ہیں تو انہیں احساس و گمان ہوا کہ وہ لوگ آپ کے لیے باعث اذیت بن گئے ہیں، تو وہ لوگ تیزی سے دروازہ کی طرف بڑھے اور سب کے سب باہر نکل گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے دروازہ کا پردہ گرا دیا اور خود اندر چلے گئے، میں کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور آپ پر یہ آیتیں اتریں پھر آپ نے باہر آ کر لوگوں کو یہ آیتیں «يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه ولكن إذا دعيتم فادخلوا فإذا طعمتم فانتشروا ولا مستأنسين لحديث إن ذلكم كان يؤذي النبي» اے ایمان والو! جب تک تمہیں اجازت نہ دی جائے تم نبی کے گھروں میں نہ جایا کرو کھانے کے لیے ایسے وقت میں کہ اس کے پکنے کا انتظار کرتے رہو، بلکہ جب بلایا جائے تب جاؤ اور جب کھا چکو نکل کھڑے ہو، وہیں باتوں میں مشغول نہ ہو جایا کرو، نبی کو تمہاری اس بات سے تکلیف ہوتی ہے (الاحزاب: ۵۳)، آخر تک پڑھ کر سنائیں۔ میں ان آیات سے سب سے پہلا واقف ہونے والا ہوں، اور اسی وقت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں پردہ کرنے لگیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- جعد: عثمان کے بیٹے ہیں، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ دینار کے بیٹے ہیں اور ان کی کنیت ابوعثمان بصریٰ ہے، اور یہ محدثین کے نزدیک ثقہ (قوی) ہیں، ان سے یونس بن عبید، شعبہ اور حماد بن زید نے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 65 (تعلیقا) صحیح مسلم/النکاح 15 (1421/94)، وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 513) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: حیس ایک قسم کا کھانا ہے جو کھجور، گھی اور ستو سے تیار کیا جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3219
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عمر بن إسماعيل بن مجالد، حدثني ابي، عن بيان، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال: " بنى رسول الله صلى الله عليه وسلم بامراة من نسائه، فارسلني فدعوت قوما إلى الطعام، فلما اكلوا وخرجوا قام رسول الله صلى الله عليه وسلم منطلقا قبل بيت عائشة، فراى رجلين جالسين فانصرف راجعا، فقام الرجلان فخرجا، فانزل الله عز وجل: يايها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا ان يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه سورة الاحزاب آية 53 "، وفي الحديث قصة. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من حديث بيان، وروى ثابت عن انس هذا الحديث بطوله.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ مُجَالِدٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ بَيَانٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " بَنَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِامْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِهِ، فَأَرْسَلَنِي فَدَعَوْتُ قَوْمًا إِلَى الطَّعَامِ، فَلَمَّا أَكَلُوا وَخَرَجُوا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْطَلِقًا قِبَلَ بَيْتِ عَائِشَةَ، فَرَأَى رَجُلَيْنِ جَالِسَيْنِ فَانْصَرَفَ رَاجِعًا، فَقَامَ الرَّجُلَانِ فَخَرَجَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلا أَنْ يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ سورة الأحزاب آية 53 "، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ بَيَانٍ، وَرَوَى ثَابِتٌ عَنْ أَنَسٍ هَذَا الْحَدِيثَ بِطُولِهِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں میں سے ایک بیوی کے ساتھ شادی والی رات گزاری، پھر آپ نے مجھے کچھ لوگوں کو کھانے پر بلانے کے لیے بھیجا۔ جب لوگ کھا پی کر چلے گئے، تو آپ اٹھے، عائشہ رضی الله عنہا کے گھر کا رخ کیا پھر آپ کی نظر دو بیٹھے ہوئے آدمیوں پر پڑی۔ تو آپ (فوراً) پلٹ پڑے (انہیں اس کا احساس ہو گیا) وہ دونوں اٹھے اور وہاں سے نکل گئے۔ اسی موقع پر اللہ عزوجل نے آیت «يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه» نازل فرمائی، اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- بیان کی روایت سے یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- ثابت نے انس کے واسطہ سے یہ حدیث پوری کی پوری بیان کی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 69 (5170)، وانظر ماقبلہ (تحفة الأشراف: 257) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ قصہ پچھلی حدیث میں گزرا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

Previous    28    29    30    31    32    33    34    35    36    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.