Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
34. باب وَمِنْ سُورَةِ الأَحْزَابِ
باب: سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3212
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ: وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ سورة الأحزاب آية 37 فِي شَأْنِ زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ جَاءَ زَيْدٌ يَشْكُو، فَهَمَّ بِطَلَاقِهَا، فَاسْتَأْمَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ آیت «وتخفي في نفسك ما الله مبديه وتخشى الناس» تم اس چیز کو اپنے جی میں چھپا کر رکھ رہے ہو جس کو اللہ ظاہر کرنے والا ہے، اور تم (اللہ سے ڈرنے کی بجائے) لوگوں سے ڈر رہے ہو (الاحزاب: ۳۷)، زینب بنت جحش رضی الله عنہا کی شان میں نازل ہوئی ہے (ان کے شوہر) زید شکایت لے کر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) آئے اور انہوں نے زینب کو طلاق دینے کا ارادہ کر لیا، اس پر انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ لیا تو آپ نے فرمایا: «أمسك عليك زوجك واتق الله» اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو (طلاق نہ دو) اور اللہ سے ڈرو (الاحزاب: ۳۷) ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الأحزاب 6 (4787)، والتوحید 22 (7420) (تحفة الأشراف: 296) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یہاں ایک جھوٹی روایت لوگوں نے گھڑ رکھی ہے کہ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل میں ان کی بات چھپا رکھی تھی وہ یہ کہ وہ زینب سے محبت کرتے تھے اور خود ان سے شادی چاہتے تھے اس لیے چاہتے تھے کہ زید جلد طلاق دے دیں معاذاللہ، حالانکہ جس بات کے چھپانے کی طرف اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اشارہ کر رہا ہے، وہ یہ تھی کہ: اچھا ہوتا کہ زید زینب کو نہیں چھوڑتے، ورنہ بحکم الٰہی زینب سے مجھے ہی شادی کرنی ہو گی، تب لوگ کہیں گے: لو محمد نے اپنے لے پالک بیٹے کی مطلقہ سے شادی کر لی (یہ چیز ان کے یہاں معیوب سمجھی جاتی تھی) اسی کو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ایک دن اللہ اس کو ظاہر کر دے گا، اس شادی میں سماج سے ایک غلط روایت کو دور کرنا ہے، اور لوگوں کو صحیح بات بتانی ہے کہ لے پالک بیٹا صلبی بیٹا نہیں ہوتا کہ اس کی مطلقہ یا بیوہ حرام ہو جائے، اسی طرح لے پالک سے، دیگر خونی معاملات میں حرمت و حلت کی بات صحیح نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3212 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3212  
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
تم اس چیز کو اپنے جی میں چھپا کر رکھ رہے ہو جس کو اللہ ظاہر کرنے والا ہے،
اور تم (اللہ سے ڈرنے کی بجائے) لوگوں سے ڈر رہے ہو) (الأحزاب: 37)

2؎:
اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو (طلاق نہ دو) اور اللہ سے ڈرو (الأحزاب: 37) یہاں ایک جھوٹی روایت لوگوں نے گھڑ رکھی ہے کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺنے اپنے دل میں ان کی بات چھپا رکھی تھی وہ یہ کہ وہ زینب سے محبت کرتے تھے اورخود ان سے شادی چاہتے تھے اس لیے چاہتے تھے کہ زید جلد طلاق دے دیں معاذاللہ،
حالانکہ جس بات کے چھپانے کی طرف اللہ آپﷺ کو اشارہ کر رہا ہے،
وہ یہ تھی کہ:
اچھا ہوتا کہ زید زینب کو نہیں چھوڑتے،
ورنہ بحکم الٰہی زینب سے مجھے ہی شادی کرنی ہو گی،
تب لوگ کہیں گے:
لو محمد نے اپنے لے پالک بیٹے کی مطلقہ سے شادی کر لی (یہ چیز ان کے یہاں معیوب سمجھی جاتی تھی) اسی کو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ایک دن اللہ اس کو ظاہر کر دے گا،
اس شادی میں سماج سے ایک غلط روایت کو دور کرنا ہے،
اور لوگوں کو صحیح بات بتانی ہے کہ لے پالک بیٹا صلبی بیٹا نہیں ہوتا کہ اس کی مطلقہ یا بیوہ حرام ہو جائے،
اسی طرح لے پالک سے،
دیگرخونی معاملات میں حرمت وحلت کی بات صحیح نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3212   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7420  
´سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت`
«. . . اتَّقِ اللَّهَ وَأَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ . . .»
۔۔۔ اللہ ڈرو اور اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھو۔۔۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7420]
فقہ الحدیث:
سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا مقام، سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی فضیلت:
➊ سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (اپنی بیوی کی) شکایت کرنے (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اتق الله وأمسك عليك زوجك» اللہ سے ڈرو اور اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھو۔ [بخاري: 7420]
➋ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت «وَتُخْفِيْ فِيْ نَفْسِكَ مَا اللهُ مُبْدِيْهِ» سیدہ زینب بنت جحش اور زید بن حارثہ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ [بخاري: 4787]
➌ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ چھپانے والے ہوتے تو اس (مذکورہ آیت) کو چھپاتے۔ [بخاري: 7420]
➍ اللہ تعالیٰ نے اولاً اہل اسلام پر منہ بولے بیٹے کی حیثیت کو منکشف کیا، ديكهئے: [الحديث شماره: 12]
پھر متبنیٰ کی (سابقہ) اہلیہ سے نکاح کروا کر یہ واضح کر دیا کہ منہ بولے بیٹے کی حقیقت «اِنّما المُؤمِنُونَ اِخوَةٌ» سے زیادہ نہیں ہے۔
➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شرم و حیا کے پیکر تھے۔
➏ حق کی نشر و اشاعت میں لوگوں کے طعن و تشنیع سے بے پروا ہو کر خوف الٰہی کو اختیار کرتے ہوئے اس کی تبلیغ و ترویج میں کوشاں رہنا چاہئیے۔
➐ سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام قرآن مجید میں درج کر کے قیامت تک کے لئے مومنوں کی زبان پر جاری کر دیا۔
➑ سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی فضیلت کا بیان کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نکاح (سات) آسمانوں پر (سے) طے پایا۔ [بخاري: 7420]
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 64   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7420  
7420. سیدنا انس ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: سیدنا زید بن حارثہ ؓ (اپنی بیوی کی) شکایت کرتے ہوئے آئے تو نبیﷺ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رکھو۔ سیدنا انس ؓ نے فرمایا: اگر رسول اللہ ﷺ کوئی بات (لوگوں سے) چھپانے والے ہوتے تو اسے ضرور چھپاتے۔ (راوی حدیث کہتے ہیں:) ام المومنین سیدہ زینب بنت حجش ؓ نبی ﷺ کو دیگر ازواج مطہرات کو بطور فخر کہا کرتی تھیں: تمہارے نکاح تمہارے گھر والوں نے کیے ہیں جبکہ میری شادی اللہ تعالیٰ نے ساتوں آسمانوں کے اوپر سے کی ہے۔ سیدنا ثابت کہتے ہیں کہ آیت (وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّـهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ) اور آپ اپنے دل میں جو بات چھپا رہے تھے اللہ تعالیٰ اسے ظاہر کرنے والا تھا اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے۔ سیدہ زینب اور سیدنا زید بن حارثہ ؓ کے متعلق نازل ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7420]
حدیث حاشیہ:
حدیث سے اللہ تعالیٰ کا ساتوں آسمانوں کے اوپر ہونا ثابت ہے۔
باب سے یہی مناسبت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7420