(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا سعيد بن الربيع ابو زيد، حدثنا شعبة، عن واصل الاحدب، عن ابي وائل، عن عبد الله، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم: اي الذنب اعظم؟ قال: " ان تجعل لله ندا وهو خلقك، وان تقتل ولدك من اجل ان ياكل معك او من طعامك، وان تزني بحليلة جارك "، قال: وتلا هذه الآية: والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلك يلق اثاما {68} يضاعف له العذاب يوم القيامة ويخلد فيه مهانا {69} سورة الفرقان آية 68-69. قال ابو عيسى: حديث سفيان، عن منصور، والاعمش، اصح من حديث واصل، لانه زاد في إسناده رجلا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ أَبُو زَيْدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ وَاصِلٍ الْأَحْدَبِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ؟ قَالَ: " أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ، وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ مِنْ أَجْلِ أَنْ يَأْكُلَ مَعَكَ أَوْ مِنْ طَعَامِكَ، وَأَنْ تَزْنِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ "، قَالَ: وَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا {68} يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا {69} سورة الفرقان آية 68-69. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَالْأَعْمَشِ، أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ وَاصِلٍ، لِأَنَّهُ زَادَ فِي إِسْنَادِهِ رَجُلًا.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”بڑا گناہ یہ ہے کہ تم کسی کو اللہ کا شریک ٹھہراؤ، جب کہ اسی نے تم کو پیدا کیا ہے، اور تم اپنے بیٹے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ رہے گا تو تمہارے ساتھ کھائے پیئے گا، یا تمہارے کھانے میں سے کھائے گا، اور تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرو، اور آپ نے یہ آیت پڑھی «والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلك يلق أثاما يضاعف له العذاب يوم القيامة ويخلد فيه مهانا»”اللہ کے بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود جان کر نہیں پکارتے، اور کسی جان کو جس کا قتل اللہ نے حرام کر دیا ہے، ناحق (یعنی بغیر قصاص وغیرہ) قتل نہیں کرتے، اور زنا نہیں کرتے، اور جو ایسا کچھ کرے گا وہ اپنے گناہوں کی سزا سے دوچار ہو گا، قیامت کے دن عذاب دوچند ہو جائے گا اور اس میں ہمیشہ ذلیل و رسوا ہو کر رہے گا“(الفرقان: ۶۸-۶۹)،۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سفیان کی وہ روایت جسے انہوں نے منصور اور اعمش سے روایت کی ہے، واصل کی روایت کے مقابلہ میں زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ انہوں نے اس حدیث کی سند میں ایک راوی (عمرو بن شرحبیل) کا اضافہ کیا ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎ سفیان کی صرف واصل سے روایت (رقم: ۳۱۸۲) میں بھی سند میں ”عمرو بن شرحبیل“ کا اضافہ ہے، دراصل سفیان کی دونوں روایتوں میں یہ اضافہ موجود ہے، شعبہ کی دونوں روایتوں میں یہ اضافہ نہیں ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2337)، صحيح أبي داود (2000)
اس سند سے شعبہ نے واصل سے، واصل نے ابووائل سے اور ابووائل عبداللہ بن مسعود کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے، ۳- اسی طرح شعبہ نے واصل سے واصل نے ابووائل سے اور ابووائل نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے اور انہوں نے اس میں عمرو بن شرحبیل کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2337)، صحيح أبي داود (2000)
(مرفوع) حدثنا ابو الاشعث احمد بن المقدام العجلي، حدثنا محمد بن عبد الرحمن الطفاوي، حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، قالت: لما نزلت هذه الآية: وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا صفية بنت عبد المطلب، يا فاطمة بنت محمد، يا بني عبد المطلب، إني لا املك لكم من الله شيئا، سلوني من مالي ما شئتم ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وهكذا روى وكيع وغير واحد عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، نحو حديث محمد بن عبد الرحمن الطفاوي، وروى بعضهم عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، ولم يذكر فيه عن عائشة، وفي الباب، عن علي، وابن عباس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةَ: وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا صَفِيَّةُ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ، يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رَوَى وَكِيعٌ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيِّ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَائِشَةَ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب یہ آیت «وأنذر عشيرتك الأقربين»”اے نبی! اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ“(الشعراء: ۲۱۴)، نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے صفیہ بنت عبدالمطلب، اے فاطمہ بنت محمد، اے بنی عبدالمطلب: سن لو میں اللہ سے متعلق معاملات میں تمہاری کچھ بھی حمایت، مدد و سفارش نہیں کر سکتا، ہاں (اس دنیا میں) میرے مال میں سے جو چاہو مانگ سکتے ہو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی طرح روایت کی ہے وکیع اور کئی راویوں نے ہشام بن عروہ سے، ہشام نے اپنے باپ سے اور عروہ نے عائشہ سے محمد بن عبدالرحمٰن طفاوی کی حدیث کی مانند، ۳- اور بعض راویوں نے ہشام بن عروہ سے، ہشام نے اپنے باپ عروہ سے اور عروہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے اور اس سند میں عائشہ رضی الله عنہا کا ذکر نہیں کیا، ۴- اس باب میں علی اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا زكريا بن عدي، حدثنا عبيد الله بن عمرو الرقي، عن عبد الملك بن عمير، عن موسى بن طلحة، عن ابي هريرة، قال: لما نزلت وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214 جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم قريشا فخص وعم، فقال: " يا معشر قريش، انقذوا انفسكم من النار، فإني لا املك لكم من الله ضرا ولا نفعا، يا معشر بني عبد مناف انقذوا انفسكم من النار، فإني لا املك لكم من الله ضرا ولا نفعا، يا معشر بني قصي انقذوا انفسكم من النار، فإني لا املك لكم ضرا ولا نفعا، يا معشر بني عبد المطلب انقذوا انفسكم من النار، فإني لا املك لكم ضرا ولا نفعا، يا فاطمة بنت محمد انقذي نفسك من النار فإني لا املك لك ضرا ولا نفعا إن لك رحما سابلها ببلالها ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه يعرف من حديث موسى بن طلحة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُرَيْشًا فَخَصَّ وَعَمَّ، فَقَالَ: " يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا، يَا مَعْشَرَ بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا، يَا مَعْشَرَ بَنِي قُصَيٍّ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا، يَا مَعْشَرَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَنْقِذُوا أَنْفُسَكُمْ مِنَ النَّارِ، فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا، يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ أَنْقِذِي نَفْسَكِ مِنَ النَّارِ فَإِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكِ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِنَّ لَكِ رَحِمًا سَأَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ يُعْرَفُ مِنْ حَدِيثِ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت «وأنذر عشيرتك الأقربين»”اے نبی! اپنے قرابت داروں کو ڈرایئے“ نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص و عام سبھی قریش کو اکٹھا کیا ۱؎، آپ نے انہیں مخاطب کر کے کہا: اے قریش کے لوگو! اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو، اس لیے کہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کوئی نقصان یا کوئی نفع پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے بنی عبد مناف کے لوگو! اپنے آپ کو جہنم سے بچا لو، کیونکہ میں تمہیں اللہ کے مقابل میں کسی طرح کا نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، اے بنی قصی کے لوگو! اپنی جانوں کو آگ سے بچا لو۔ کیونکہ میں تمہیں کوئی نقصان یا فائدہ پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اے بنی عبدالمطلب کے لوگو! اپنے آپ کو آگ سے بچا لو، کیونکہ میں تمہیں کسی طرح کا ضرر یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، اے فاطمہ بنت محمد! اپنی جان کو جہنم کی آگ سے بچا لے، کیونکہ میں تجھے کوئی نقصان یا نفع پہنچانے کا اختیار نہیں رکھتا، تم سے میرا رحم (خون) کا رشتہ ہے سو میں احساس کو تازہ رکھوں گا“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: موسیٰ بن طلحہ کی روایت سے یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن ابي زياد، حدثنا ابو زيد، عن عوف، عن قسامة بن زهير، حدثنا الاشعري، قال: لما نزل وانذر عشيرتك الاقربين سورة الشعراء آية 214 وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم اصبعيه في اذنيه فرفع من صوته، فقال: " يا بني عبد مناف يا صباحاه ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه من حديث ابي موسى، وقد رواه بعضهم، عن عوف، عن قسامة بن زهير، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، ولم يذكر فيه عن ابي موسى، وهو اصح ذاكرت به محمد بن إسماعيل فلم يعرفه من حديث ابي موسى.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْأَشْعَرِيُّ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَ وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُصْبُعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ فَرَفَعَ مِنْ صَوْتِهِ، فَقَالَ: " يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ يَا صَبَاحَاهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى، وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ قَسَامَةَ بْنِ زُهَيْرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِي مُوسَى، وَهُوَ أَصَحُّ ذَاكَرْتُ بِهِ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل فَلَمْ يَعْرِفْهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت: «وأنذر عشيرتك الأقربين» نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیاں کانوں میں (اذان کی طرح) ڈال کر بلند آواز سے پکار کہا: یا بنی عبد مناف! یا صباحاہ! اے عبد مناف کے لوگو! جمع ہو جاؤ (اور سنو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرو)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- بعض نے اس حدیث کو عوف سے، اور عوف نے قسامہ بن زہیر کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے اور انہوں نے اس میں ابوموسیٰ (اشعری) سے روایت کا ذکر نہیں کیا اور یہی زیادہ صحیح ہے، ۳- میں نے اس کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے مذاکرہ کیا تو انہوں نے ابوموسیٰ اشعری کے واسطہ سے اس حدیث کی معرفت سے اپنی لاعلمی ظاہر کی۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا روح بن عبادة، عن حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن اوس بن خالد، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " تخرج الدابة معها خاتم سليمان وعصا موسى فتجلو وجه المؤمن، وتختم انف الكافر بالخاتم حتى إن اهل الخوان ليجتمعون، فيقول: هاها يا مؤمن، ويقال: هاها يا كافر، ويقول هذا: يا مؤمن، ويقول هذا: يا كافر ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وقد روي هذا الحديث عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم من غير هذا الوجه في دابة الارض، وفي الباب، عن ابي امامة، وحذيفة بن اسيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَوْسِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تَخْرُجُ الدَّابَّةُ مَعَهَا خَاتَمُ سُلَيْمَانَ وَعَصَا مُوسَى فَتَجْلُو وَجْهَ الْمُؤْمِنِ، وَتَخْتِمُ أَنْفَ الْكَافِرِ بِالْخَاتَمِ حَتَّى إِنَّ أَهْلَ الْخُوَانِ لَيَجْتَمِعُونَ، فَيَقُولُ: هَاهَا يَا مُؤْمِنُ، وَيُقَالُ: هَاهَا يَا كَافِرُ، وَيَقُولُ هَذَا: يَا مُؤْمِنُ، وَيَقُولُ هَذَا: يَا كَافِرُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ فِي دَابَّةِ الْأَرْضِ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، وَحُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قیامت کے قریب زمین سے) ایک جانور نکلے گا جس کے پاس سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی (مہر) اور موسیٰ علیہ السلام کا عصا ہو گا، وہ اس عصا سے (لکیر کھینچ کر) مومن کے چہرے کو روشن و نمایاں کر دے گا، اور انگوٹھی کے ذریعہ کافر کی ناک پر مہر لگا دے گا یہاں تک کہ دستر خوان والے جب دستر خوان پر اکٹھے ہوں گے تو یہ کہے گا: اے مومن اور وہ کہے گا: اے کافر! ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- «دابة الأرض» کے سلسلے میں اس سند کے علاوہ دوسری سندوں سے بھی یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے جسے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، ۳- اس باب میں ابوامامہ اور حذیفہ بن اسید سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 31 (4066) (تحفة الأشراف: 12202)، و مسند احمد (2/295، 491) (ضعیف) (سند میں ”علی بن زید بن جدعان“ ضعیف، اور ”اوس بن خالد“ مجہول ہے)»
وضاحت: ۱؎: مولف اس حدیث کو ارشاد باری «وألق عصاك»(النمل: ۱۰) کی تفسیر ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1108) // ضعيف الجامع الصغير (2413)، ضعيف ابن ماجة (881 / 4066) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3187) إسناده ضعيف / جه 4066 علي بن زيد بن جدعان: ضعيف (تقدم:589) وأوس بن خالد: مجھول (تقدم:3142)
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، عن يزيد بن كيسان، حدثني ابو حازم الاشجعي هو كوفي اسمه سلمان مولى عزة الاشجعية، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعمه: " قل لا إله إلا الله اشهد لك بها يوم القيامة، قال: لولا ان تعيرني بها قريش انما يحمله عليه الجزع لاقررت بها عينك، فانزل الله عز وجل إنك لا تهدي من احببت ولكن الله يهدي من يشاء سورة القصص آية 56 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث يزيد بن كيسان.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ، حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ الْأَشْجَعِيُّ هُوَ كُوفِيٌّ اسْمُهُ سَلْمًانُ مَوْلَى عَزَّةَ الأَشْجَعِيَّةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ: " قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ لَكَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قَالَ: لَوْلَا أَنْ تُعَيِّرَنِي بِهَا قُرَيْشٌ أَنَّمَا يَحْمِلُهُ عَلَيْهِ الْجَزَعُ لَأَقْرَرْتُ بِهَا عَيْنَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّكَ لا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ سورة القصص آية 56 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ كَيْسَانَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) سے کہا: ”آپ «لا إله إلا الله»”کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اللہ کے“ کہہ دیجئیے میں آپ کے ایمان کی قیامت کے روز گواہی دوں گا، انہوں نے کہا: اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ قریش مجھے طعنہ دیں گے کہ موت کی گھبراہٹ سے اس نے ایمان قبول کر لیا ہے تو میں تمہارے سامنے ہی اس کلمے کا اقرار کر لیتا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت یہ نازل فرمائی: «إنك لا تهدي من أحببت ولكن الله يهدي من يشاء»”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہتا ہے“(القصص: ۵۶)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف یزید بن کیسان کی روایت سے جانتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، ومحمد بن المثنى، قالا: حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن سماك بن حرب، قال: سمعت مصعب بن سعد يحدث، عن ابيه سعد، قال: انزلت في اربع آيات، فذكر قصة، فقالت ام سعد: اليس قد امر الله بالبر؟ والله لا اطعم طعاما ولا اشرب شرابا حتى اموت او تكفر، قال: فكانوا إذا ارادوا ان يطعموها شجروا فاها، فنزلت هذه الآية: ووصينا الإنسان بوالديه حسنا وإن جاهداك لتشرك بي سورة العنكبوت آية 8 الآية. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، قَال: سَمِعْتُ مُصْعَبَ بْنَ سَعْدٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ، قَالَ: أُنْزِلَتْ فِيَّ أَرْبَعُ آيَاتٍ، فَذَكَرَ قِصَّةً، فَقَالَتْ أُمُّ سَعْدٍ: أَلَيْسَ قَدْ أَمَرَ اللَّهُ بِالْبِرِّ؟ وَاللَّهِ لَا أَطْعَمُ طَعَامًا وَلَا أَشْرَبُ شَرَابًا حَتَّى أَمُوتَ أَوْ تَكْفُرَ، قَالَ: فَكَانُوا إِذَا أَرَادُوا أَنْ يُطْعِمُوهَا شَجَرُوا فَاهَا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: وَوَصَّيْنَا الإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِنْ جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي سورة العنكبوت آية 8 الْآيَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میرے تعلق سے چار آیتیں نازل ہوئی ہیں، پھر انہوں نے ایک واقعہ وقصہ بیان کیا، ام سعد رضی الله عنہا نے کہا: کیا اللہ نے احسان کا حکم نہیں دیا ہے؟ ۱؎ قسم اللہ کی! نہ میں کھانا کھاؤں گی نہ کچھ پیوں گی یہاں تک کہ مر جاؤں یا پھر تم (اپنے ایمان سے) پھر جاؤ۔ (سعد) کہتے ہیں: جب لوگ اسے کھلانے کا ارادہ کرتے تو لکڑی ڈال کر اس کا منہ کھولتے، اسی موقع پر آیت «ووصينا الإنسان بوالديه حسنا وإن جاهداك لتشرك بي»”ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ احسان (و حسن سلوک) کا حکم دیا لیکن اگر وہ چاہیں کہ تم میرے ساتھ شرک کرو جس کا تمہیں علم نہیں تو تم ان کا کہنا نہ مانو“(العنکبوت: ۸)، نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3079 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی سعد رضی الله عنہ کی مشرک و کافر ماں ان کو ”اللہ نے اپنے ماں باپ کے ساتھ احسان کرنے“ کے حکم سے حوالے سے کفر و شرک پر ابھار رہی تھی۔
ام ہانی رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «وتأتون في ناديكم المنكر» کے بارے میں ۱؎ فرمایا: ”وہ (اپنی محفلوں میں) لوگوں پر کنکریاں پھینکتے تھے (بدتمیزی کرتے) اور ان کا مذاق اڑاتے تھے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے، اور ہم اسے صرف حاتم بن ابی صغیرہ کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ سماک سے روایت کرتے ہیں۔ اس سند سے سلیم بن اخضر نے حاتم بن ابی صغیرہ سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 17998) (ضعیف) (سند میں ابو صالح باذام مولی ام ہانی ضعیف اور مدلس راوی ہے)»
وضاحت: ۱؎: ”تم اپنی محفلوں میں منکر (گناہ اور ناپسندیدہ) فعل انجام دیتے ہو“(العنکبوت: ۲۹)،
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد جدا
قال الشيخ زبير على زئي: (3190) إسناده ضعيف أبو صالح باذام: ضعيف (تقدم:732)