حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ أَبُو زَيْدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ وَاصِلٍ الْأَحْدَبِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الذَّنْبِ أَعْظَمُ؟ قَالَ: " أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا وَهُوَ خَلَقَكَ، وَأَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ مِنْ أَجْلِ أَنْ يَأْكُلَ مَعَكَ أَوْ مِنْ طَعَامِكَ، وَأَنْ تَزْنِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ "، قَالَ: وَتَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا {68} يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا {69} سورة الفرقان آية 68-69. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، وَالْأَعْمَشِ، أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ وَاصِلٍ، لِأَنَّهُ زَادَ فِي إِسْنَادِهِ رَجُلًا.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا:
”بڑا گناہ یہ ہے کہ تم کسی کو اللہ کا شریک ٹھہراؤ، جب کہ اسی نے تم کو پیدا کیا ہے، اور تم اپنے بیٹے کو اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ رہے گا تو تمہارے ساتھ کھائے پیئے گا، یا تمہارے کھانے میں سے کھائے گا، اور تم اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرو، اور آپ نے یہ آیت پڑھی
«والذين لا يدعون مع الله إلها آخر ولا يقتلون النفس التي حرم الله إلا بالحق ولا يزنون ومن يفعل ذلك يلق أثاما يضاعف له العذاب يوم القيامة ويخلد فيه مهانا» ”اللہ کے بندے وہ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود جان کر نہیں پکارتے، اور کسی جان کو جس کا قتل اللہ نے حرام کر دیا ہے، ناحق
(یعنی بغیر قصاص وغیرہ) قتل نہیں کرتے، اور زنا نہیں کرتے، اور جو ایسا کچھ کرے گا وہ اپنے گناہوں کی سزا سے دوچار ہو گا، قیامت کے دن عذاب دوچند ہو جائے گا اور اس میں ہمیشہ ذلیل و رسوا ہو کر رہے گا
“ (الفرقان: ۶۸-۶۹)،۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- سفیان کی وہ روایت جسے انہوں نے منصور اور اعمش سے روایت کی ہے، واصل کی روایت کے مقابلہ میں زیادہ صحیح ہے اس لیے کہ انہوں نے اس حدیث کی سند میں ایک راوی
(عمرو بن شرحبیل) کا اضافہ کیا ہے
۱؎۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4477
4477. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے پوچھا: اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔“ میں نے کہا: یہ تو واقعی بہت بڑا گناہ ہے۔ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرنا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4477]
حدیث حاشیہ:
ند کہتے ہیں نظیر یعنی جوڑ اور برابر والے کو انداد اس کی جمع ہے۔
ند سے صرف یہی مراد نہیں ہے کہ اللہ کے سوا اور دوسرا کوئی اور خدا سمجھے کیونکہ عرب کے اکثر مشرک اور دوسرے ملکوں کے مشرکین بھی خدا کو ایک ہی سمجھتے تھے جیساکہ فرمایا ﴿وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ﴾ (لقمان: 25)
یعنی اگر تم ان مشرکوں سے پوچھو کہ زمین وآسمان کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ توفورا کہہ دیں گے کہ صرف اللہ پاک ہی خالق ہے۔
اس کہنے کے باوجود بھی اللہ نے ان کو مشرک ہی قرار دیا۔
بات یہ ہے کہ اللہ کی جوصفات خاص ہیں جیسے محیط، سمیع، علیم، قدرت کاملہ، تصرف کامل ان صفات کو کوئی شخص کسی دوسرے کے لیے ثابت کرے، اس نے بھی اللہ کا ند یعنی برابر والا اس دوسرے کو ٹھہرایا یا مثلا کوئی یوں سمجھے کہ فلاں پیر یا پیغمبر دور یا نزدیک ہر چیز کو دیکھ لیتے ہیں یا ہر بات ان کو معلوم ہوجاتی ہے یا وہ جو چاہیں سو کرسکتے ہیں تو وہ مشرک ہوگیا۔
اسی طرح جو کوئی اللہ کے سوا اور کسی کی پوجا پاٹ کرے، اس کے نام کا روزہ رکھے، اس کی منت مانے، اس کے نام پر جانور کاٹے، اس کی قبر پر نذر ونیازچڑھائے، اس کا نام اٹھتے بیٹھتے یاد کرے، اس کے نام کا وظیفہ پڑھے وہ بھی مشرک ہو جاتاہے۔
توحید یہ ہے کہ اللہ کے سوا نہ کسی اور کو پکا رے نہ اس کی پوجا کرے بلکہ سب کو صرف اسی ایک اللہ کا محتاج سمجھے اور یہ اعتقاد رکھے کہ نفع ونقصان صرف ایک اللہ رب العالمین ہی کے ہاتھ میں ہے۔
اولاد کا دینا، بارش برسانا، روزی میں فراخی عطا کرنا، مارنا، جلانا سب کچھ صرف اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
اگر کوئی یہ چیزیں اللہ کے سوا اور کسی پیر، پیغمبر سے مانگے تو وہ بھی بت پرستوں ہی کی طرح مشرک ہوجا تا ہے۔
الغرض تو حید کی دو قسمیں یا د رکھنے کے قابل ہیں۔
ایک تو حید ربوبیت ہے یعنی رب، خالق، مالک کے طور پر اللہ کو ایک جاننا جیسا کہ مشرکین مکہ کا قول نقل ہو ا ہے۔
یہ توحید نجات کے لیے کافی نہیں ہے۔
دوسرے قسم توحید الوہیت ہے یعنی بطور الٰہ، معبود، مسجود صرف ایک اللہ رب العالمین کو ماننا۔
عبادت بندگی کی جس قدر قسمیں ہیں ان سب کو صرف ایک اللہ رب العالمین ہی کے لیے بجالانا اسی کو توحید الولوہیت کہتے ہیں۔
یہی کلمہ طیبہ لاالٰه الا اللہ کا مطلب ہے اور تمام انبیاء کرام کی اولین دعوت یہی توحید الولوہیت رہی ہے۔
وباللہ التوفیق۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4477
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6001
6001. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔“ انہوں نے عرض کی: پھر کون سا؟ فرمایا: ”اولاد کو اس ڈر سے قتل کرو کہ تمہارے ساتھ کھائے گی۔“ عرض کی: اس نے بعد کونسا بڑا گناہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔“ پھر اللہ تعالٰی نے نبی ﷺ کے ان ارشادات کی تائید میں یہ آیت نازل فرمائی: ”وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہیں پکارتے“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6001]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ شرک اکبر الکبائر ہے اور دوسرے مذکورہ کبیرہ گناہ ہیں اگر ان کا مرتکب بغیر توبہ مر جائے تو اسے دوزخ میں پہنچا دیتے ہیں شرک کی حالت میں مرنے والا ہمیشہ کے لیے دوزخی ہے خواہ وہ نام نہاد مسلمان ہی ہوں کیونکہ قبروں کو سجدہ کرتا ہے، مردوں کو پکارتا اور ان سے حاجات طلب کرتا ہے تو وہ کاہے کا مسلمان ہے وہ مسلمان بھی مشرک ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6001
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6861
6861. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے“ اس نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”پھر یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔“ اس نے پوچھا: پھر کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”پھر یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔“ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی: ”اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کسی ایسے انسان کی جان ناحق لیتے ہیں جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اسے سخت گناہوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6861]
حدیث حاشیہ:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہذلی ہیں اسلام میں نمبر چھ پر ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص الخاص خادم ہیں سفر و حصر میں۔
دو دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی اور تیسری دفعہ مدینہ میں دائمی ہجرت کی اور خاص طور پر جنگ بدر اور احد، خندق، حدیبیہ، خیبر اور فتح مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے۔
آپ پستہ قد، لاغرجسم، گندم گوں رنگ اور سرپر کانوں تک نہایت نرم و خوبصورت زلف تھے اور علم و فضل میں بہت بڑھے ہوئے تھے۔
اس لیے خلافت فاروقی میں کوفہ کے قاضی مقرر ہوئے۔
بعد میں مدینہ آگئے اور سنہ 33ھ میں مدینہ میں ہی ساٹھ برس سے کچھ زیادہ عمر پا کر وفات پائی اور بقیع غرقد میں دفن ہوئے۔
رضي اللہ عنه و أرضاہ آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6861
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4761
4761. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے سوال کیا، یا رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کون سا گناہ اللہ کے ہاں سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔“ میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ تمہارے ساتھ کھائے گی۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: یہ آیت رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کے لیے نازل ہوئی: ”وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہو، ہاں حق کے ساتھ قتل ہو تو اور بات ہے اور وہ زنا بھی نہیں کرتے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4761]
حدیث حاشیہ:
کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ شرک ہے یعنی اللہ کی عبادت میں کسی بھی غیر کو شریک کرنا یہ وہ گناہ ہے کہ اس کے کرنے والے کی اگر وہ بغیر توبہ مر جائے اللہ کے یہاں کوئی بخشش نہیں ہے۔
مشرکین ہمیشہ ہمیش دوزخ میں رہیں گے۔
جنت ان کے لئے قطعاً حرام ہے۔
اسی طرح قتل ناحق بھی بڑا گناہ ہے اور زنا کاری بھی گنا ہ کبیرہ ہے۔
اللہ ہر مسلمان کو ان سے بچائے، آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4761
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6683
6683. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک کلمہ کہا اور میں نے (اس پر قیاس کرتے ہوئے) دوسرا کلمہ کہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اس حالت میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو تو جہنم میں جائے گا۔ میں نے دوسرا کلمہ کہا: جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ وہ اللہ کے ستاھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائےگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6683]
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ ان کلمات سے حانث نہ ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6683
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6811
6811. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا گناہ عظیم تر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس لیے قتل کرو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھانے میں شریک ہوں گے۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تمہارا اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرنا۔“ یحیٰی نے بیان کیا: ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے واصل نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! پهر اس حدیث کی طرح بیان کیا۔ عمرو نے کہا: پھر میں نے اس حدیث کا ذکر عبدالرحمن بن مہدی سے کیا: انہوں نے سفیان ثوری سے، انہوں نے اعمش منصور اور واصل سے، ان سب نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6811]
حدیث حاشیہ:
جس میں ابووائل اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بیچ میں ابومیسرہ کا واسطہ نہیں ہے۔
ان جملہ روایات میں بعض کبیرہ گناہوں کا ذکر ہے جو بہت بڑے گناہ ہیں مگر توبہ کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہوا ہے بشرطیکہ حقیقی توبہ ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6811
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7520
7520. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: تیرا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ ”میں نے کہا: یہ تو واقعی بہت بڑا گناہ ہے۔“ میں نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون سا گناہ عظیم تر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرنا وہ تیرے ساتھ کھانا کھائیں گے۔“ میں نے کہا:پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرنا.“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7520]
حدیث حاشیہ:
زنا بہر حال برا کام ہے مگر یہ بہت ہی زیادہ برا ہے۔
امام بخاری نے یہ حدیث لا کراس طرف اشارہ کیا کہ قدریہ اورمعتزلہ جو بندے کو اپنے کا افعال کا خالق کہتے ہیں وہ گویا اللہ کا برابر والا بندے کو بتاتے ہیں توان کا یہ اعتقاد بہت بڑا گناہ ہوا۔
اللہ کی عبادت کے کاموں میں کسی غیر کو شریک ساجھی بنانا شرک ہے جواتنا بڑا گناہ ہے کہ بغیر توبہ کئے مرنے والے مشرک کے لیے جنت قطعا حرام ہے۔
سارا قرآن مجید شرک کی برائی بیان کرنےسے بھرا ہواہے پھربھی نام نہاد مسلمان ہیں جنہوں نےمزارات بزرگان کاعبادت گاہ بنایا ہوا ہے۔
مزاروں پرسجدہ کرنا بزرگوں سےاپنی مرادیں مانگنا اس کے لیے نذر ونیاز کرناعام جہال نے معمول بنا رکھا ہے جو کھلا ہوا شرک ہے ایسے مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ اصل اسلام سے کس قدر دور جا پڑے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7520
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7532
7532. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! کون سا جرم اللہ کے ہاں سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیاہے۔“ اس نے پوچھا:پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو اپنے بچوں کو اس ڈر سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائیں گے۔“ اس نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نےفرمایا: ”یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے۔“ اللہ تعالیٰ نے اس تصدیق (ان الفاظ میں) نازل فرمائی: ”(اللہ کے بندے وہ ہیں) جو اللہ کے ساتھ کسی اور الہٰ کو نہیں پکارتے اور نہ اللہ کی حرام کردہ کسی کو ناحق قتل ہی کرتے ہیں اور نہ زنا ہی کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا وہ ان کی سزا پاکے رہے گا۔ اس کو دو گنا عذاب دیا جائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7532]
حدیث حاشیہ:
اثامہ ایک دوزخ کا نالہ ہے وہ اس میں ڈالا جائے گا۔
اس حدیث کا مناسبت ترجمہ باب سے اس طرح ہےکہ آنحضرت ﷺ کی تبلیغ دو قسم کی تھی۔
ایک تو یہ کہ خاص قرآن کو جو آیتیں اترتیں و ہ آپ لوگوں کو سناتے دوسرے قرآن سےجو تیں نکال کر آپ بیان کرتے پھر آپ کےاستنباط ارشاد کےمطابق قرآن میں صاف صاف وہی اللہ کی طرف سےاتارا جاتا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7532
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4477
4477. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے پوچھا: اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔“ میں نے کہا: یہ تو واقعی بہت بڑا گناہ ہے۔ اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائیں گے۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرنا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4477]
حدیث حاشیہ:
1۔
(نِدَّا)
ہمسر اور برابر والے کو کہتے ہیں، (أَندَاد)
اس کی جمع ہے۔
مشرکین مکہ اللہ تعالیٰ ہی کو خالق ارض وسماء مانتے تھے اس کے باوجود انھیں مشرک قراردیا ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی خاص صفات، مثلاً:
محیط، سمیع،علیم، قدیر کو اللہ کے ماسوا میں مانتے تھے، لہذا کوئی اللہ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت کرتا ہے، اس کے نام پر ذبح کرتا ہے یا اس کی نذر مانتا ہے یا اس کی قبر پر نذرونیاز چڑھاتا ہے یا اس کے نام کا وظیفہ پڑھتا ہے تو گویا وہ اسے اللہ کا ہمسر اور(نِد)
مانتا ہے۔
یہ توحید کے منافی ہے۔
توحید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرے بلکہ یہ عقیدہ رکھے کہ نفع ونقصان صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
اولاد دینا، بارش برسانا، رزق میں فراخی کرنا، زندگی دینا اورمارنا صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔
2۔
الغرض توحید کی دوقسمیں ہیں:
ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کوخالق اورمالک تسلیم کیا جائے، اسے توحید ربوبیت کہتے ہیں۔
اس توحید کے مشرکین بھی قائل تھے۔
یہ توحید نجات کے لیے کافی نہیں۔
دوسری قسم یہ ہے کہ معبود حقیقی صرف اللہ کو مانا جائے، عبادت کی جملہ اقسام صرف ایک کےلیے بجالائیں، اسے توحید الوہیت کہتے ہیں۔
تمام انبیاءؑ اسی توحید کے علمبردار تھے اور اسی کی دعوت دیتے تھے۔
اسی پر قیامت کے دن نجات کا دارومدار ہے، مشرکین مکہ اس توحید کے منکر تھے، اسی بنا پر انھیں ابدی جہنمی کہا گیا ہے۔
3۔
دور جاہلیت میں لوگ مفلسی کے ڈر سے اپنے بچوں کو پیدا ہوتے ہی ماردیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے انھیں اس پر تنبیہ فرمائی:
"مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو، انھیں اور تمھیں ہم ہی رزق دیتے ہیں، یقیناً ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔
" (فتح الباری: 204/8)
یہ گناہ درحقیقت کئی گناہوں پر مشتمل ہے، اول بے گناہ کو قتل کرنا، دوسرے اپنے بیٹے کو مارنا، تیسرے ایسے شخص کو قتل کرنا جو اپنا دفاع نہ کرسکتا ہو اور چوتھے اس خوف سے قتل کرنا کہ وہ ہمارے ساتھ کھائے گا، گویا وہ روزی رساں ہیں۔
اللہ کے روزی دینے پر اعتماد وتوکل نہیں۔
افسوس! کہ آج کا قتل اولاد کا گناہ عظیم خاندانی منصوبہ بندی کے نام پر پوری دنیا میں بڑے منظم طریقے سے ہورہاہے۔
مردحضرات ”بہتر تعلیم وتربیت“ کے نام پر اورخواتین اپنے مزعومہ حسن کو برقرار رکھنے کے لیے اس جرم کا سرعام ارتکاب کررہی ہیں۔
زمانہ جاہلیت کا یہ فعل ہمارے تعلیم یافتہ دور میں بڑے زور وشورسے جاری ہے۔
4۔
زنا بہت گھناؤنا جرم ہے۔
اس کی شناعت وقباحت کو ملاحظہ کریں کہ شادی شدہ زنا کار اس قابل نہیں کہ اسے دنیا میں زندہ رہنے دیا جائے بلکہ پتھر مار مار کر اسے صفحہ ہستی سے مٹادینا شریعت کا اہم تقاضا ہے، بالخصوص جب وہ اپنے پڑوسی کی بیوی سے منہ کالا کرے جس کے احترام و اکرام کی شریعت نے بہت تاکیدکی ہے۔
واللہ المستعان۔
5۔
صحیح بخاری کی ایک روایت میں صحابی کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کی تصدیق ان الفاظ میں نازل فرمائی ہے:
"اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور نہ کسی ناحق جان کو قتل کرتے ہیں اور وہ زنا بھی نہیں کرتے اور جو انسان یہ کام کرے گا، اس نے بڑے گناہ کا ارتکاب کیا، قیامت کے دن اسے دوگنا عذاب دیا جائے گا۔
" (بني إسرآئيل: 31: 17)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4477
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4761
4761. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے سوال کیا، یا رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ کون سا گناہ اللہ کے ہاں سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ، حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔“ میں نے پوچھا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ تمہارے ساتھ کھائے گی۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: یہ آیت رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کے لیے نازل ہوئی: ”وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہو، ہاں حق کے ساتھ قتل ہو تو اور بات ہے اور وہ زنا بھی نہیں کرتے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4761]
حدیث حاشیہ: اسلامی قانون میں قتل حق کی پانچ صورتیں حسب ذیل ہیں:
۔
قتل عمد کے مجرم کو قصاص میں قتل کردیا جائے۔
۔
دین حق کے راستے میں مزاحمت کرنے والوں سے جنگ کی جائے۔
۔
اسلامی نظام حکومت کو الٹنے کی کوشش اور بغاوت کرنے والوں کو کچل دیا جائے۔
۔
شادی شدہ مرد یا عورت کو زنا کرنے کی صورت میں رجم کیا جائے۔
۔
اسلام کے بعد دوبارہ کفر اختیار کرنے، یعنی مرتد ہونے کی سزا بھی قتل ہے۔
صرف یہی پانچ صورتیں ہیں، جن میں انسانی جان کی حرمت ختم ہوجاتی ہے اور اسے قتل کرنا حق کے زمرے میں آتاہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4761
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6001
6001. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔“ انہوں نے عرض کی: پھر کون سا؟ فرمایا: ”اولاد کو اس ڈر سے قتل کرو کہ تمہارے ساتھ کھائے گی۔“ عرض کی: اس نے بعد کونسا بڑا گناہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔“ پھر اللہ تعالٰی نے نبی ﷺ کے ان ارشادات کی تائید میں یہ آیت نازل فرمائی: ”وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہیں پکارتے“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6001]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے پہلے ایک حدیث (5977)
میں بیان ہوا ہے کہ جھوٹ یا جھوٹی گواہی دینا اکبر الکبائر ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑا گناہ شرک کرنا ہے، اس کے بعد حالات واشخاص کے اعتبار سے بڑے گناہ کا تعین کیا جائے گا، چنانچہ جھوٹ بولنا یا جھوٹی گواہی دینا زبان سے متعلق گناہوں میں بڑا ہے اور قتل ناحق عملی گناہوں میں بڑا گناہ ہے، پھر جن گناہوں کا لوگوں کے حقوق سے تعلق ہے ان میں ہمسائے کی بیوی سے زنا کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
(2)
بہر حال اپنے بچوں کو محدود وسائل کے پیش نظر قتل کرنا یا اس اس کے لیے منصوبہ بندی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
ہمارے رجحان کے پیش نظر آج کل ”بچے برائے فروخت“ کا ڈرامہ کرنا بھی اسی قسم سے ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی مکاری اور دھوکا دہی سے محفوظ رکھے۔
(آمین)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6001
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6683
6683. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک کلمہ کہا اور میں نے (اس پر قیاس کرتے ہوئے) دوسرا کلمہ کہا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اس حالت میں مرا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہو تو جہنم میں جائے گا۔ میں نے دوسرا کلمہ کہا: جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ وہ اللہ کے ستاھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو تو وہ جنت میں جائےگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6683]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث میں لا إله إلا الله اور سبحانَ اللہ و بحمدِہ سبحانَ اللہ العظیمِ پر کلمات کا اطلاق ہوا ہے۔
اگرچہ عرف عام میں یہ کلام نہیں ہیں، لیکن اگر کوئی شخص قسم اٹھاتے وقت ان اذکار کو بھی اپنی نیت میں شامل کرتے ہوئے قسم اٹھاتا ہے کہ میں آج کلام نہیں کروں گا اور پھر اذکار کرتا ہے تو اس کی قسم ٹوٹ جائے گی۔
(2)
اس مسئلے کی ایک نوعیت یہ ہے کہ اگر کسی نے قسم اٹھائی کہ وہ زید کو سلام نہیں کرے گا تو اگر زید نے اس کے ساتھ نماز پڑھی اور دوسرے شخص نے سلام پھیرا تو قسم نہیں ٹوٹے گی۔
اگرچہ شرعی طور پر اس کا سلام زید کو بھی شامل ہے لیکن عرف عام میں ایسا نہیں ہوتا، تاہم اگر اس نے اس قسم کے شرعی سلام کو بھی اپنی نیت میں شامل کیا تھا تو قسم ٹوٹ جائے گی۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 691/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6683
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6811
6811. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے دریافت کیا: اللہ کے رسول! کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا گناہ عظیم تر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تم اپنی اولاد کو اس لیے قتل کرو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھانے میں شریک ہوں گے۔“ میں نے پوچھا: اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تمہارا اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرنا۔“ یحیٰی نے بیان کیا: ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے واصل نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! پهر اس حدیث کی طرح بیان کیا۔ عمرو نے کہا: پھر میں نے اس حدیث کا ذکر عبدالرحمن بن مہدی سے کیا: انہوں نے سفیان ثوری سے، انہوں نے اعمش منصور اور واصل سے، ان سب نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:6811]
حدیث حاشیہ:
(1)
حلیلہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ خاوند کا اس سے مباشرت کرنا حلال ہوتا ہے یا دونوں ایک بستر میں پڑاؤ کرتے ہیں۔
(2)
اگرچہ زنا ہر لحاظ سے بے حد گندا اور برا ہے لیکن ہمسائے کی بیوی سے بدکاری کرنا اس لیے بہت بڑا اورعظیم گناہ ہے کہ اس کا احترام اور حق دوسرے لوگوں سےزیادہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس شخص کا ہمسایہ اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں، اس شخص کا ایمان کامل نہیں ہے۔
(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6016)
بہرحال اس حدیث سے زنا کی قباحت معلوم ہوتی ہے، خاص طور پر جب اپنے ہمسائے کی بیوی سے منہ کالا کیا جائے تو اس کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے۔
(فتح الباري: 142/12)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6811
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6861
6861. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ہے“ اس نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”پھر یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔“ اس نے پوچھا: پھر کون سا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”پھر یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔“ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی: ”اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کسی ایسے انسان کی جان ناحق لیتے ہیں جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اسے سخت گناہوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6861]
حدیث حاشیہ:
(1)
اپنی اولاد کو اس لیے قتل کرنا کہ وہ اس کے ساتھ کھائیں گے سنگین جرم ہے کیونکہ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی صفتِ رزاقیت سے انکار کرنا ہے اور یہ متعدد آیات قرآنی کے انکار کو لازم ہے۔
(2)
قتل اولاد تو مطلق طور پر کبیرہ گناہ ہے اور ساتھ کھانے کی قید بطور غالب کے ہے کیونکہ اس وقت کے کفار کی یہی عادت تھی۔
افسوس کہ آج کل مسلمان بھی اس کوتاہی کا شکار اور خاندانی ”منصوبہ بندی“ میں گرفتار ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6861
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7520
7520. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: تیرا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ ”میں نے کہا: یہ تو واقعی بہت بڑا گناہ ہے۔“ میں نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون سا گناہ عظیم تر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرنا وہ تیرے ساتھ کھانا کھائیں گے۔“ میں نے کہا:پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرنا.“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7520]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں کئی ایک فتنوں نے جنم لیا۔
ان میں سے ایک فتنہ خلق قرآن کا تھا۔
کچھ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرآن مخلوق ہے۔
اس کے برعکس رد عمل کے طور پر بعض حضرات نے یہ موقف اختیار کیا کہ قرآن ہی غیر مخلوق نہیں بلکہ قرآن تلاوت کرتے وقت قاری کی آواز اور حروف بھی غیر مخلوق ہیں حتی کہ اس حد تک مبالغہ کیا گیا کہ کتابت قرآن کے بعد جو سیاہی اور کاغذ استعمال ہوا ہے وہ بھی غیر مخلوق ہے۔
محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ قاری کی آواز اور ادا ہونے والے حروف تو مخلوق ہیں البتہ تلاوت کیا جانے والا کلام غیر مخلوق ہے کیونکہ تلاوت بندے کا فعل اور اس کا کسب ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہے پھر اسی بنیاد پر مسئلہ خلق افعال العباد پیدا ہوا۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق مستقل ایک رسالہ لکھا ہے جس میں دلائل و براہین سے ثابت کیا گیا کہ بندوں کے افعال ان کا کسب ہیں البتہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں وہ افعال اچھے ہوں یا برے۔
بہرحال انھیں پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے جبکہ معتزلہ اور جہمیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تمھیں اور جو تم عمل کرتے ہو۔
“ (الصافات: 37۔
96)
لہذا یہ عقیدہ رکھنا کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ہم سر ٹھہرانے کے مترادف ہے۔
یہ شرکیہ عقیدہ ہے۔
اگر انسان کی موت اسی عقیدے پر ہوئی تو ایسے مشرک پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کیا ہے قرآن مجید میں شرک کی قباحت و شناعت (گندگی)
بیان ہوئی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان آیات کا انتخاب کیا ہے جن میں شرک کی سنگینی کو بیان کیا گیا ہے پیش کردہ حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ بندہ اپنے فعل کا خالق نہیں۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ بندہ اپنے افعال کا خالق ہے شرک پر مبنی عقیدہ ہے۔
وہ ایسا ہے گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا اور اس کے متعلق سخت وعید ہے۔
احادیث میں شرک کو اکبر الکبائر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اس بنا پر یہ عقیدہ رکھنا حرام ہے کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7520
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7532
7532. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے رسول! کون سا جرم اللہ کے ہاں سب سے بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیاہے۔“ اس نے پوچھا:پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: ”یہ کہ تو اپنے بچوں کو اس ڈر سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائیں گے۔“ اس نے کہا: پھر کون سا؟ آپ نےفرمایا: ”یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے۔“ اللہ تعالیٰ نے اس تصدیق (ان الفاظ میں) نازل فرمائی: ”(اللہ کے بندے وہ ہیں) جو اللہ کے ساتھ کسی اور الہٰ کو نہیں پکارتے اور نہ اللہ کی حرام کردہ کسی کو ناحق قتل ہی کرتے ہیں اور نہ زنا ہی کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا وہ ان کی سزا پاکے رہے گا۔ اس کو دو گنا عذاب دیا جائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7532]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابلاغ دو قسم کا تھا:
ایک توخاص جو قرآنی آیات نازل ہوتیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو سناتے اور ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتے۔
دوسری قسم یہ تھی کہ وہ باتیں جن کا استنباط آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے کرتے اور اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتے، بعض اوقات اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کی تصدیق اپنی کتاب میں اتارتا تاکہ کوئی انسان ان کی صداقت میں شک وشبہ نہ کرے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔
2۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ابلاغ میں ہمیں اس عقیدے کا سراغ نہیں ملتا کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے۔
قرآن وحدیث کے مطابق یہ عقیدہ شرک پر مبنی ہے کیونکہ خالق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور صفت خلق میں کسی کو شریک کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑا جرم ہے جسے شریعت نے اکبر الکبائر قرار دیا ہے۔
اگر اس عقیدے سے توبہ کے بغیر موت آئی تو ایسے انسان کا ٹھکانا جہنم ہے جس میں ہمیشہ کے لیے رہنا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے عقائد سے محفوظ رکھے۔
آمین یا رب العالمین۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7532