(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم، اخبرنا عيسى بن يونس، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال: كنت امشي مع النبي صلى الله عليه وسلم في حرث بالمدينة وهو يتوكا على عسيب فمر بنفر من اليهود، فقال بعضهم: لو سالتموه، فقال بعضهم: لا تسالوه فإنه يسمعكم ما تكرهون، فقالوا له: يا ابا القاسم، حدثنا عن الروح، فقام النبي صلى الله عليه وسلم ساعة ورفع راسه إلى السماء، فعرفت انه يوحى إليه، حتى صعد الوحي، ثم قال: " الروح من امر ربي وما اوتيتم من العلم إلا قليلا سورة الإسراء آية 85 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ سَأَلْتُمُوهُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَسْأَلُوهُ فَإِنَّهُ يُسْمِعُكُمْ مَا تَكْرَهُونَ، فَقَالُوا لَهُ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، حَدِّثْنَا عَنِ الرُّوحِ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً وَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، حَتَّى صَعِدَ الْوَحْيُ، ثُمَّ قَالَ: " الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے ایک کھیت میں چل رہا تھا۔ آپ (کبھی کبھی) کھجور کی ایک ٹہنی کا سہارا لے لیا کرتے تھے، پھر آپ کچھ یہودیوں کے پاس سے گزرے تو ان میں سے بعض نے (چہ میگوئی کی) کہا: کاش ان سے کچھ پوچھتے، بعض نے کہا: ان سے کچھ نہ پوچھو، کیونکہ وہ تمہیں ایسا جواب دیں گے جو تمہیں پسند نہ آئے گا (مگر وہ نہ مانے) کہا: ابوالقاسم! ہمیں روح کے بارے میں بتائیے، (یہ سوال سن کر) آپ کچھ دیر (خاموش) کھڑے رہے، پھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، تو میں نے سمجھ لیا کہ آپ پر وحی آنے والی ہے، چنانچہ وحی آ ہی گئی، پھر آپ نے فرمایا: «الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا»”روح میرے رب کے حکم سے ہے، تمہیں بہت تھوڑا علم حاصل ہے“۔
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا الحسن بن موسى، وسليمان بن حرب، قالا: حدثنا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد، عن اوس بن خالد، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يحشر الناس يوم القيامة ثلاثة اصناف: صنفا مشاة، وصنفا ركبانا، وصنفا على وجوههم "، قيل: يا رسول الله، وكيف يمشون على وجوههم؟ قال: " إن الذي امشاهم على اقدامهم قادر على ان يمشيهم على وجوههم، اما إنهم يتقون بوجوههم كل حدب وشوك "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد روى وهيب، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم شيئا من هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَوْسِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَةَ أَصْنَافٍ: صِنْفًا مُشَاةً، وَصِنْفًا رُكْبَانًا، وَصِنْفًا عَلَى وُجُوهِهِمْ "، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ يَمْشُونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ؟ قَالَ: " إِنَّ الَّذِي أَمْشَاهُمْ عَلَى أَقْدَامِهِمْ قَادِرٌ عَلَى أَنْ يُمْشِيَهُمْ عَلَى وُجُوهِهِمْ، أَمَا إِنَّهُمْ يَتَّقُونَ بِوُجُوهِهِمْ كُلَّ حَدَبٍ وَشَوْكٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى وُهَيْبٌ، عَنِ ابْن طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مِنْ هَذَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن لوگ تین طرح سے جمع کئے جائیں گے، ایک گروہ چل کر آئے گا، اور ایک گروہ سوار ہو کر آئے گا اور ایک گروہ اپنے منہ کے بل آئے گا“۔ پوچھا گیا: اللہ کے رسول! وہ لوگ اپنے منہ کے بل کیسے چلیں گے؟ آپ نے فرمایا: ”جس نے انہیں قدموں سے چلایا ہے وہ اس پر بھی قادر ہے کہ وہ انہیں ان کے منہ کے بل چلا دے، سنو (یہی نہیں ہو گا کہ وہ چلیں گے بلکہ) وہ منہ ہی سے ہر بلندی (نشیب و فراز) اور کانٹے سے بچ کر چلیں گے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- وہیب نے ابن طاؤس سے اور انہوں نے اپنے باپ طاؤس سے اور طاؤس نے ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کا کچھ حصہ روایت کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12203) (ضعیف) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں)»
وضاحت: ۱؎: مؤلف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ «ونحشرهم يوم القيامة على وجوههم»(الإسراء: ۹۷)۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5546 / التحقيق الثاني)، التعليق الرغيب (4 / 194) // ضعيف الجامع الصغير (6417) //
قال الشيخ زبير على زئي: (3142) إسناده ضعيف علي بن زيد: ضعيف (تقدم:589) وشيخه أوس بن خالد: مجھول (تق: 574) ولأصل الحديث شواھد، انظر صحيح البخاري (2522) ومسلم (2861)
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا بهز بن حكيم، عن ابيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنكم محشورون رجالا وركبانا ويجرون على وجوههم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ رِجَالًا وَرُكْبَانًا وَيُجَرُّونَ عَلَى وُجُوهِهِمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم (قیامت میں) جمع کئے جاؤ گے: کچھ لوگ پیدل ہوں گے، کچھ لوگ سواری پر، اور کچھ لوگ اپنے منہ کے بل گھسیٹ کر اکٹھا کئے جائیں گے“۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، ويزيد بن هارون، وابو الوليد، واللفظ لفظ يزيد والمعنى واحد، عن شعبة، عن عمرو بن مرة، عن عبد الله بن سلمة، عن صفوان بن عسال، ان يهوديين قال احدهما لصاحبه اذهب بنا إلى هذا النبي نساله، فقال: لا تقل له نبي فإنه إن سمعنا نقول نبي كانت له اربعة اعين، فاتيا النبي صلى الله عليه وسلم، فسالاه عن قول الله عز وجل: ولقد آتينا موسى تسع آيات بينات سورة الإسراء آية 101، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تشركوا بالله شيئا، ولا تزنوا، ولا تقتلوا النفس التي حرم الله إلا بالحق، ولا تسرقوا، ولا تسحروا، ولا تمشوا ببريء إلى سلطان فيقتله، ولا تاكلوا الربا، ولا تقذفوا محصنة، ولا تفروا من الزحف شك شعبة وعليكم يا معشر اليهود خاصة ان لا تعدوا في السبت، فقبلا يديه ورجليه "، وقالا: نشهد انك نبي، قال: فما يمنعكما ان تسلما؟، قالا: إن داود دعا الله ان لا يزال في ذريته نبي وإنا نخاف إن اسلمنا ان تقتلنا اليهود "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، وَيَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَأَبُو الْوَلِيدِ، وَاللَّفْظُ لَفْظُ يَزِيدَ وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، أَنَّ يَهُودِيَّيْنِ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ اذْهَبْ بِنَا إِلَى هَذَا النَّبِيِّ نَسْأَلُهُ، فَقَالَ: لَا تَقُلْ لَهُ نَبِيٌّ فَإِنَّهُ إِنْ سَمِعَنَا نَقُولُ نَبِيٌّ كَانَتْ لَهُ أَرْبَعَةُ أَعْيُنٍ، فَأَتَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَاهُ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى تِسْعَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ سورة الإسراء آية 101، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَسْحَرُوا، وَلَا تَمْشُوا بِبَرِيءٍ إِلَى سُلْطَانٍ فَيَقْتُلَهُ، وَلَا تَأْكُلُوا الرِّبَا، وَلَا تَقْذِفُوا مُحْصَنَةً، وَلَا تَفِرُّوا مِنَ الزَّحْفِ شَكَّ شُعْبَةُ وَعَلَيْكُمْ يَا مَعْشَرَ الْيَهُودَ خَاصَّةً أَنْ لَا تَعْدُوا فِي السَّبْتِ، فَقَبَّلَا يَدَيْهِ وَرِجْلَيْهِ "، وَقَالَا: نَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ، قَالَ: فَمَا يَمْنَعُكُمَا أَنْ تُسْلِمَا؟، قَالَا: إِنَّ دَاوُدَ دَعَا اللَّهَ أَنْ لَا يَزَالَ فِي ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ أَسْلَمْنَا أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَهُودُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
صفوان بن عسال رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ یہود میں سے ایک یہودی نے دوسرے یہودی سے کہا: اس نبی کے پاس مجھے لے چلو، ہم چل کر ان سے (کچھ) پوچھتے ہیں، دوسرے نے کہا: انہیں نبی نہ کہو، اگر انہوں نے سن لیا کہ تم انہیں نبی کہتے ہو تو (مارے خوشی کے) ان کی چار آنکھیں ہو جائیں گی۔ پھر وہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول «ولقد آتينا موسى تسع آيات بينات»”ہم نے موسیٰ کو نو نشانیاں دیں“(اسرائیل: ۱۰۱)، کے بارے میں پوچھا کہ وہ نو نشانیاں کیا تھیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، زنا نہ کرو، ناحق کسی شخص کا قتل نہ کرو، چوری نہ کرو، جادو نہ کرو، کسی بری (بےگناہ) شخص کو (مجرم بنا کر) بادشاہ کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کر دے، سود نہ کھاؤ، کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت نہ لگاؤ، دشمن کی طرف بڑھتے ہوئے بڑے لشکر سے نکل کر نہ بھاگو“۔ شعبہ کو شک ہو گیا ہے (کہ آپ نے نویں چیز یہ فرمائی ہے) اور تم خاص یہودیوں کے لیے یہ بات ہے کہ ہفتے کے دن میں زیادتی (الٹ پھیر) نہ کرو، (یہ جواب سن کر) ان دونوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر تمہیں اسلام قبول کر لینے سے کیا چیز روک رہی ہے؟“ دونوں نے جواب دیا داود (علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی نبی ہو گا (اور آپ ان کی ذریت میں سے نہیں ہیں) اب ہمیں ڈر ہے کہ ہم اگر آپ پر ایمان لے آتے ہیں تو ہمیں یہود قتل نہ کر دیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2733، سنن ابن ماجہ/الأدب 16 (3705)، والنسائی فی الکبری فی السیر (8656) وفی المحاربة (3541) (تحفة الأشراف: 4951) وقد أخرجہ: مسند احمد (4/239) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن سلمہ صدوق ہیں، لیکن حافظہ میں تبدیلی آ گئی تھی)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3705) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (808)، وتقدم برقم (517 - 2889)، ضعيف سنن النسائي (275 / 4078) //
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا سليمان بن داود، عن شعبة، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، ولم يذكر عن ابن عباس، وهشيم، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ولا تجهر بصلاتك سورة الإسراء آية 110 قال: نزلت بمكة، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رفع صوته بالقرآن سبه المشركون، ومن انزله ومن جاء به، فانزل الله ولا تجهر بصلاتك سورة الإسراء آية 110 فيسبوا القرآن ومن انزله ومن جاء به ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110 عن اصحابك بان تسمعهم حتى ياخذوا عنك القرآن "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهُشَيْمٍ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 قَالَ: نَزَلَتْ بِمَكَّةَ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ سَبَّهُ الْمُشْرِكُونَ، وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 عَنْ أَصْحَابِكَ بِأَنْ تُسْمِعَهُمْ حَتَّى يَأْخُذُوا عَنْكَ الْقُرْآنَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ: «ولا تجهر بصلاتك»”اپنی صلاۃ بلند آواز سے نہ پڑھو“(بنی اسرائیل: ۱۱۰)، کے بارے میں کہتے ہیں: یہ مکہ میں نازل ہوئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بلند آواز کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے تو مشرکین اسے اور جس نے قرآن نازل کیا ہے اور جو قرآن لے کر آیا ہے سب کو گالیاں دیتے تھے، تو اللہ نے «ولا تجهر بصلاتك» نازل کر کے نماز میں قرآن بلند آواز سے پڑھنے سے منع فرما دیا تاکہ وہ قرآن، اللہ تعالیٰ اور جبرائیل علیہ السلام کو گالیاں نہ دیں اور آگے «ولا تخافت بها» نازل فرمایا، یعنی اتنے دھیرے بھی نہ پڑھو کہ آپ کے ساتھی سن نہ سکیں بلکہ یہ ہے کہ وہ آپ سے قرآن سیکھیں (بلکہ ان دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کرو)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر الإسراء 14 (4722)، والتوحید 134 (7490)، و 44 (7525)، و 52 (7547)، صحیح مسلم/الصلاة 31 (446)، سنن النسائی/الإفتتاح 80 (1012) (تحفة الأشراف: 5451)، و مسند احمد (1/23، 215) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، حدثنا ابو بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، في قوله: ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها وابتغ بين ذلك سبيلا سورة الإسراء آية 110، قال: نزلت ورسول الله صلى الله عليه وسلم مختف بمكة، فكان إذا صلى باصحابه رفع صوته بالقرآن فكان المشركون إذا سمعوه شتموا القرآن ومن انزله ومن جاء به فقال الله لنبيه: ولا تجهر بصلاتك سورة الإسراء آية 110 اي بقراءتك فيسمع المشركون فيسبوا القرآن ولا تخافت بها سورة الإسراء آية 110 عن اصحابكوابتغ بين ذلك سبيلا سورة الإسراء آية 110 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا سورة الإسراء آية 110، قَالَ: نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مختف بمكة، فَكَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ فَكَانَ الْمُشْرِكُونَ إِذَا سَمِعُوهُ شَتَمُوا الْقُرْآنَ وَمَنْ أَنْزَلَهُ وَمَنْ جَاءَ بِهِ فَقَالَ اللَّهُ لِنَبِيِّهِ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 أَيْ بِقِرَاءَتِكَ فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 عَنْ أَصْحَابِكَوَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا سورة الإسراء آية 110 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ: «ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها وابتغ بين ذلك سبيلا»”صلاۃ میں آواز بہت بلند نہ کیجئے اور نہ ہی بہت پست بلکہ دونوں کے درمیان کا راستہ اختیار کیجئے“(الاسراء: ۱۱۰)، کے بارے میں کہتے ہیں: یہ آیت مکہ میں اس وقت نازل ہوئی جب آپ مکہ میں چھپے چھپے رہتے تھے، جب آپ اپنے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے تو قرآن بلند آواز سے پڑھتے تھے، مشرکین جب سن لیتے تو قرآن، قرآن نازل کرنے والے اور قرآن لانے والے سب کو گالیاں دیتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: «ولا تجهر بصلاتك» بلند آواز سے نماز نہ پڑھو (یعنی بلند آواز سے قرأت نہ کرو) کہ جسے سن کر مشرکین قرآن کو گالیاں دینے لگیں اور نہ دھیمی آواز سے پڑھو (کہ تمہارے صحابہ سن نہ سکیں) بلکہ درمیان کا راستہ اختیار کرو۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن مسعر، عن عاصم بن ابي النجود، عن زر بن حبيش، قال: قلت لحذيفة بن اليمان " اصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيت المقدس؟، قال: لا، قلت: بلى، قال: انت تقول ذاك يا اصلع، بم تقول ذلك؟ قلت: بالقرآن، بيني وبينك القرآن، فقال حذيفة: من احتج بالقرآن فقد افلح، قال سفيان: يقول فقد احتج وربما قال قد فلج، فقال: سبحان الذي اسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الاقصى سورة الإسراء آية 1، قال: افتراه صلى فيه؟ قلت: لا، قال: لو صلى فيه لكتبت عليكم الصلاة فيه كما كتبت الصلاة في المسجد الحرام، قال حذيفة: اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بدابة طويلة الظهر ممدودة هكذا خطوه مد بصره، فما زايلا ظهر البراق حتى رايا الجنة والنار، ووعد الآخرة اجمع ثم رجعا عودهما على بدئهما، قال: ويتحدثون انه ربطه لم ايفر منه وإنما سخره له عالم الغيب والشهادة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: قُلْتُ لِحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ " أَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟، قَالَ: لَا، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: أَنْتَ تَقُولُ ذَاكَ يَا أَصْلَعُ، بِمَ تَقُولُ ذَلِكَ؟ قُلْتُ: بِالْقُرْآنِ، بَيْنِي وَبَيْنَكَ الْقُرْآنُ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: مَنِ احْتَجَّ بِالْقُرْآنِ فَقَدْ أَفْلَحَ، قَالَ سُفْيَانُ: يَقُولُ فَقَدِ احْتَجَّ وَرُبَّمَا قَالَ قَدْ فَلَجَ، فَقَالَ: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى سورة الإسراء آية 1، قَالَ: أَفَتُرَاهُ صَلَّى فِيهِ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: لَوْ صَلَّى فِيهِ لَكُتِبَتْ عَلَيْكُمُ الصَّلَاةُ فِيهِ كَمَا كُتِبَتِ الصَّلَاةُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، قَالَ حُذَيْفَةُ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدَابَّةٍ طَوِيلَةِ الظَّهْرِ مَمْدُودَةٍ هَكَذَا خَطْوُهُ مَدُّ بَصَرِهِ، فَمَا زَايَلَا ظَهْرَ الْبُرَاقِ حَتَّى رَأَيَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَوَعْدَ الْآخِرَةِ أَجْمَعَ ثُمَّ رَجَعَا عَوْدَهُمَا عَلَى بَدْئِهِمَا، قَالَ: وَيَتَحَدَّثُونَ أَنَّهُ رَبَطَهُ لِمَ أَيَفِرُّ مِنْهُ وَإِنَّمَا سَخَّرَهُ لَهُ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز پڑھی تھی؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: بیشک پڑھی تھی، انہوں نے کہا: اے گنجے سر والے، تم ایسا کہتے ہو؟ کس بنا پر تم ایسا کہتے ہو؟ میں نے کہا: میں قرآن کی دلیل سے کہتا ہوں، میرے اور آپ کے درمیان قرآن فیصل ہے۔ حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: جس نے قرآن سے دلیل قائم کی وہ کامیاب رہا، جس نے قرآن سے دلیل پکڑی وہ حجت میں غالب رہا، زر بن حبیش نے کہا: میں نے «سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجدالحرام إلى المسجد الأقصى»۱؎ آیت پیش کی، حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: کیا تم اس آیت میں کہیں یہ دیکھتے ہو کہ آپ نے نماز پڑھی ہے؟ میں نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: اگر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے وہاں نماز پڑھ لی ہوتی تو تم پر وہاں نماز پڑھنی ویسے ہی فرض ہو جاتی جیسا کہ مسجد الحرام میں پڑھنی فرض کر دی گئی ہے ۲؎، حذیفہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لمبی چوڑی پیٹھ والا جانور (براق) لایا گیا، اس کا قدم وہاں پڑتا جہاں اس کی نظر پہنچتی اور وہ دونوں اس وقت تک براق پر سوار رہے جب تک کہ جنت جہنم اور آخرت کے وعدہ کی ساری چیزیں دیکھ نہ لیں، پھر وہ دونوں لوٹے، اور ان کا لوٹنا ان کے شروع کرنے کے انداز سے تھا ۳؎ لوگ بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے اسے (یعنی براق کو بیت المقدس میں) باندھ دیا تھا، کیوں باندھ دیا تھا؟ کیا اس لیے کہ کہیں بھاگ نہ جائے؟ (غلط بات ہے) جس جانور کو عالم الغیب والشھادۃ غائب و موجود ہر چیز کے جاننے والے نے آپ کے لیے مسخر کر دیا ہو وہ کہیں بھاگ سکتا ہے؟ نہیں۔
وضاحت: ۱؎: پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک۔
۲؎: حذیفہ رضی الله عنہ کا یہ بیان ان کے اپنے علم کے مطابق ہے، ورنہ احادیث میں واضح طور سے آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں انبیاء کی امامت کی تھی، اور براق کو وہاں باندھا بھی تھا جہاں دیگر انبیاء اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے (التحفۃ مع الفتح)۔
۳؎: یعنی جس برق رفتاری سے وہ گئے تھے اسی برق رفتاری سے واپس بھی آئے۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن علي بن زيد بن جدعان، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انا سيد ولد آدم يوم القيامة ولا فخر، وبيدي لواء الحمد ولا فخر، وما من نبي يومئذ آدم فمن سواه إلا تحت لوائي، وانا اول من تنشق عنه الارض ولا فخر، قال: فيفزع الناس ثلاث فزعات، فياتون آدم، فيقولون: انت ابونا آدم فاشفع لنا إلى ربك، فيقول: إني اذنبت ذنبا اهبطت منه إلى الارض، ولكن ائتوا نوحا، فياتون نوحا، فيقول: إني دعوت على اهل الارض دعوة فاهلكوا، ولكن اذهبوا إلى إبراهيم، فياتون إبراهيم، فيقول: إني كذبت ثلاث كذبات، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما منها كذبة إلا ما حل بها عن دين الله ولكن ائتوا موسى، فياتون موسى، فيقول: إني قد قتلت نفسا، ولكن ائتوا عيسى، فياتون عيسى فيقول: إني عبدت من دون الله، ولكن ائتوا محمدا، قال: فياتونني فانطلق معهم، قال ابن جدعان: قال انس: فكاني انظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فآخذ بحلقة باب الجنة فاقعقعها، فيقال: من هذا؟ فيقال: محمد فيفتحون لي ويرحبون بي، فيقولون: مرحبا، فاخر ساجدا فيلهمني الله من الثناء والحمد، فيقال لي: ارفع راسك سل تعط، واشفع تشفع وقل يسمع لقولك وهو المقام المحمود الذي قال الله: عسى ان يبعثك ربك مقاما محمودا سورة الإسراء آية 79 "، قال سفيان: ليس عن انس إلا هذه الكلمة فآخذ بحلقة باب الجنة فاقعقعها، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد روى بعضهم هذا الحديث عن ابي نضرة، عن ابن عباس الحديث بطوله..(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمُ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ، قَالَ: فَيَفْزَعُ النَّاسُ ثَلَاثَ فَزَعَاتٍ، فَيَأْتُونَ آدَمَ، فَيَقُولُونَ: أَنْتَ أَبُونَا آدَمُ فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، فَيَقُولُ: إِنِّي أَذْنَبْتُ ذَنْبًا أُهْبِطْتُ مِنْهُ إِلَى الْأَرْضِ، وَلَكِنْ ائْتُوا نُوحًا، فَيَأْتُونَ نُوحًا، فَيَقُولُ: إِنِّي دَعَوْتُ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ دَعْوَةً فَأُهْلِكُوا، وَلَكِنْ اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ، فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُ: إِنِّي كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْهَا كَذِبَةٌ إِلَّا مَا حَلَّ بِهَا عَنْ دِينِ اللَّهِ وَلَكِنْ ائْتُوا مُوسَى، فَيَأْتُونَ مُوسَى، فَيَقُولُ: إِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا، وَلَكِنْ ائْتُوا عِيسَى، فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُ: إِنِّي عُبِدْتُ مِنْ دُونِ اللَّهِ، وَلَكِنْ ائْتُوا مُحَمَّدًا، قَالَ: فَيَأْتُونَنِي فَأَنْطَلِقُ مَعَهُمْ، قَالَ ابْنُ جُدْعَانَ: قَالَ أَنَسٌ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا، فَيُقَالُ: مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ: مُحَمَّدٌ فَيَفْتَحُونَ لِي وَيُرَحِّبُونَ بِي، فَيَقُولُونَ: مَرْحَبًا، فَأَخِرُّ سَاجِدًا فَيُلْهِمُنِي اللَّهُ مِنَ الثَّنَاءِ وَالْحَمْدِ، فَيُقَالُ لِي: ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَقُلْ يُسْمَعْ لِقَوْلِكَ وَهُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ الَّذِي قَالَ اللَّهُ: عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا سورة الإسراء آية 79 "، قَالَ سُفْيَانُ: لَيْسَ عَنْ أَنَسٍ إِلَّا هَذِهِ الْكَلِمَةُ فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ..
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن میں سارے انسانوں کا سردار ہوں گا، اور اس پر مجھے کوئی گھمنڈ نہیں ہے، میرے ہاتھ میں حمد (و شکر) کا پرچم ہو گا اور مجھے (اس اعزاز پر) کوئی گھمنڈ نہیں ہے۔ اس دن آدم اور آدم کے علاوہ جتنے بھی نبی ہیں سب کے سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے، میں پہلا شخص ہوں گا جس کے لیے زمین پھٹے گی (اور میں برآمد ہوں گا) اور مجھے اس پر بھی کوئی گھمنڈ نہیں ہے“، آپ نے فرمایا: ”(قیامت میں) لوگوں پر تین مرتبہ سخت گھبراہٹ طاری ہو گی، لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے: آپ ہمارے باپ ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری شفاعت (سفارش) کر دیجئیے، وہ کہیں گے: مجھ سے ایک گناہ سرزد ہو چکا ہے جس کی وجہ سے میں زمین پر بھیج دیا گیا تھا، تم لوگ نوح کے پاس جاؤ، وہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے، مگر نوح علیہ السلام کہیں گے: میں زمین والوں کے خلاف بد دعا کر چکا ہوں جس کے نتیجہ میں وہ ہلاک کیے جا چکے ہیں، لیکن ایسا کرو، تم لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے، ابراہیم علیہ السلام کہیں گے: میں تین جھوٹ بول چکا ہوں“، آپ نے فرمایا: ”ان میں سے کوئی جھوٹ جھوٹ نہیں تھا، بلکہ اس سے اللہ کے دین کی حمایت و تائید مقصود تھی، البتہ تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، تو وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے، موسیٰ علیہ السلام کہیں گے: میں ایک قتل کر چکا ہوں، لیکن تم عیسیی علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ۔ تو وہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے، وہ کہیں گے: اللہ کے سوا مجھے معبود بنا لیا گیا تھا، تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ“، آپ نے فرمایا: ”لوگ میرے پاس (سفارش کرانے کی غرض سے) آئیں گے، میں ان کے ساتھ (دربار الٰہی کی طرف) جاؤں گا“، ابن جدعان (راوی حدیث) کہتے ہیں: انس نے کہا: مجھے ایسا لگ رہا ہے تو ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، آپ نے فرمایا: ”میں جنت کے دروازے کا حلقہ (زنجیر) پکڑ کر اسے ہلاؤں گا، پوچھا جائے گا: کون ہے؟ کہا جائے گا: محمد ہیں، وہ لوگ میرے لیے دروازہ کھول دیں گے، اور مجھے خوش آمدید کہیں گے، میں (اندر پہنچ کر اللہ کے حضور) سجدے میں گر جاؤں گا اور حمد و ثنا کے جو الفاظ اور کلمے اللہ میرے دل میں ڈالے گا وہ میں سجدے میں ادا کروں گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا: اپنا سر اٹھائیے، مانگیے (جو کچھ مانگنا ہو) آپ کو دیا جائے گا۔ (کسی کی سفارش کرنی ہو تو) سفارش کیجئے آپ کی شفاعت (سفارش) قبول کی جائے گی، کہئے آپ کی بات سنی جائے گی۔ اور وہ جگہ (جہاں یہ باتیں ہوں گی) مقام محمود ہو گا جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا»”توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مقام محمود میں بھیجے“(بنی اسرائیل: ۷۹)۔ سفیان ثوری کہتے ہیں: انس کی روایت میں اس کلمے «فآخذ بحلقة باب الجنة فأقعقعها» کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- بعض محدثین نے یہ پوری حدیث ابونضرہ کے واسطہ سے ابن عباس سے روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 37 (4308) (تحفة الأشراف: 4367) (صحیح) (سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (4308)
قال الشيخ زبير على زئي: (3148) إسناده ضعيف علي بن زيد بن جدعان ضعيف (تقدم:589) ولأكثر ألفاظ شواھد صحيحة وھي تغني عن ھذا الحديث
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن سعيد بن جبير، قال: قلت لابن عباس: إن نوفا البكالي يزعم ان موسى صاحب بني إسرائيل ليس بموسى صاحب الخضر، قال: كذب عدو الله، سمعت ابي بن كعب، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " قام موسى خطيبا في بني إسرائيل فسئل اي الناس اعلم؟ فقال: انا اعلم فعتب الله عليه إذ لم يرد العلم إليه، فاوحى الله إليه ان عبدا من عبادي بمجمع البحرين هو اعلم منك، قال: اي رب فكيف لي به؟ فقال له: احمل حوتا في مكتل فحيث تفقد الحوت فهو ثم فانطلق وانطلق معه فتاه وهو يوشع بن نون فجعل ويقال يوسع، فحمل موسى حوتا في مكتل، فانطلق هو وفتاه يمشيان حتى اتيا الصخرة، فرقد موسى وفتاه فاضطرب الحوت في المكتل حتى خرج من المكتل فسقط في البحر، قال: وامسك الله عنه جرية الماء، حتى كان مثل الطاق وكان للحوت سربا، وكان لموسى ولفتاه عجبا، فانطلقا بقية يومهما وليلتهما ونسي صاحب موسى ان يخبره، فلما اصبح موسى قال لفتاه: آتنا غداءنا لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا سورة الكهف آية 62، قال: ولم ينصب حتى جاوز المكان الذي امر به قال ارايت إذ اوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت وما انسانيه إلا الشيطان ان اذكره واتخذ سبيله في البحر عجبا سورة الكهف آية 63 قال موسى: ذلك ما كنا نبغ فارتدا على آثارهما قصصا سورة الكهف آية 64، قال: فكانا يقصان آثارهما، قال سفيان: يزعم ناس ان تلك الصخرة عندها عين الحياة ولا يصيب ماؤها ميتا إلا عاش، قال: وكان الحوت قد اكل منه فلما قطر عليه الماء عاش، قال: فقصا آثارهما حتى اتيا الصخرة، فراى رجلا مسجى عليه بثوب فسلم عليه موسى، فقال: انى بارضك السلام، قال: انا موسى، قال: موسى بني إسرائيل؟ قال: نعم، قال: يا موسى إنك على علم من علم الله علمكه لا اعلمه وانا على علم من علم الله علمنيه لا تعلمه، فقال موسى: هل اتبعك على ان تعلمن مما علمت رشدا {66} قال إنك لن تستطيع معي صبرا {67} وكيف تصبر على ما لم تحط به خبرا {68} قال ستجدني إن شاء الله صابرا ولا اعصي لك امرا {69} سورة الكهف آية 66-69 قال له الخضر: فإن اتبعتني فلا تسالني عن شيء حتى احدث لك منه ذكرا سورة الكهف آية 70 قال: نعم، فانطلق الخضر وموسى يمشيان على ساحل البحر، فمرت بهما سفينة فكلماهم ان يحملوهما فعرفوا الخضر فحملوهما بغير نول، فعمد الخضر إلى لوح من الواح السفينة فنزعه، فقال له موسى: قوم حملونا بغير نول عمدت إلى سفينتهم فخرقتهالتغرق اهلها لقد جئت شيئا إمرا {71} قال الم اقل إنك لن تستطيع معي صبرا {72} قال لا تؤاخذني بما نسيت ولا ترهقني من امري عسرا {73} سورة الكهف آية 71-73 ثم خرجا من السفينة فبينما هما يمشيان على الساحل وإذا غلام يلعب مع الغلمان فاخذ الخضر براسه فاقتلعه بيده فقتله، فقال له موسى: اقتلت نفسا زكية بغير نفس لقد جئت شيئا نكرا {74} قال الم اقل لك إنك لن تستطيع معي صبرا {75} سورة الكهف آية 74-75، قال: وهذه اشد من الاولى قال إن سالتك عن شيء بعدها فلا تصاحبني قد بلغت من لدني عذرا {76} فانطلقا حتى إذا اتيا اهل قرية استطعما اهلها فابوا ان يضيفوهما فوجدا فيها جدارا يريد ان ينقض سورة الكهف آية 76 ـ 77، يقول: مائل، فقال الخضر بيده هكذا فاقامه سورة الكهف آية 77 فقال له موسى قوم اتيناهم فلم يضيفونا ولم يطعمونا لو شئت لاتخذت عليه اجرا {77} قال هذا فراق بيني وبينك سانبئك بتاويل ما لم تستطع عليه صبرا {78} سورة الكهف آية 77-78، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يرحم الله موسى لوددنا انه كان صبر حتى يقص علينا من اخبارهما، قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الاولى كانت من موسى نسيان، قال: وجاء عصفور حتى وقع على حرف السفينة ثم نقر في البحر، فقال له الخضر: ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا مثل ما نقص هذا العصفور من البحر، قال سعيد بن جبير: وكان يعني ابن عباس يقرا، وكان امامهم ملك ياخذ كل سفينة صالحة غصبا، وكان يقرا، واما الغلام فكان كافرا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ورواه الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، عن ابي بن كعب، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وقد رواه ابو إسحاق الهمداني، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، عن ابي بن كعب، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال ابو عيسى: سمعت ابا مزاحم السمرقندي، يقول: سمعت علي بن المديني، يقول: حججت حجة وليس لي همة إلا ان اسمع من سفيان يذكر في هذا الحديث الخبر حتى سمعته، يقول: حدثنا عمرو بن دينار وقد كنت سمعت هذا من سفيان من قبل ذلك ولم يذكر فيه الخبر. (مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ بِمُوسَى صَاحِبِ الْخَضِرِ، قَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، سَمِعْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " قَامَ مُوسَى خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ، فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ أَنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ: أَيْ رَبِّ فَكَيْفَ لِي بِهِ؟ فَقَالَ لَهُ: احْمِلْ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ فَحَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ فَتَاهُ وَهُوَ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ فَجَعَلَ وَيُقًالُ يُوسَعُ، فَحَمَلَ مُوسَى حُوتًا فِي مِكْتَلٍ، فَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ يَمْشِيَانِ حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ، فَرَقَدَ مُوسَى وَفَتَاهُ فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ حَتَّى خَرَجَ مِنَ الْمِكْتَلِ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ، قَالَ: وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْمَاءِ، حَتَّى كَانَ مِثْلَ الطَّاقِ وَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا، وَكَانَ لِمُوسَى وَلِفَتَاهُ عَجَبًا، فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتِهِمَا وَنُسِّيَ صَاحِبُ مُوسَى أَنْ يُخْبِرَهُ، فَلَمَّا أَصْبَحَ مُوسَى قَالَ لِفَتَاهُ: آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا سورة الكهف آية 62، قَالَ: وَلَمْ يَنْصَبْ حَتَّى جَاوَزَ الْمَكَانَ الَّذِي أُمِرَ بِهِ قَالَ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا سورة الكهف آية 63 قَالَ مُوسَى: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا سورة الكهف آية 64، قَالَ: فَكَانَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا، قَالَ سُفْيَانُ: يَزْعُمُ نَاسٌ أَنَّ تِلْكَ الصَّخْرَةَ عِنْدَهَا عَيْنُ الْحَيَاةِ وَلَا يُصِيبُ مَاؤُهَا مَيِّتًا إِلَّا عَاشَ، قَالَ: وَكَانَ الْحُوتُ قَدْ أُكِلَ مِنْهُ فَلَمَّا قُطِرَ عَلَيْهِ الْمَاءُ عَاشَ، قَالَ: فَقَصَّا آثَارَهُمَا حَتَّى أَتَيَا الصَّخْرَةَ، فَرَأَى رَجُلًا مُسَجًّى عَلَيْهِ بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى، فَقَالَ: أَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ، قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ: مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: يَا مُوسَى إِنَّكَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ لَا أَعْلَمُهُ وَأَنَا عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ، فَقَالَ مُوسَى: هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا {66} قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا {67} وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا {68} قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا {69} سورة الكهف آية 66-69 قَالَ لَهُ الْخَضِرُ: فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا سورة الكهف آية 70 قَالَ: نَعَمْ، فَانْطَلَقَ الْخَضِرُ وَمُوسَى يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ، فَمَرَّتْ بِهِمَا سَفِينَةٌ فَكَلَّمَاهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمَا فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُمَا بِغَيْرِ نَوْلٍ، فَعَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى لَوْحٍ مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ فَنَزَعَهُ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَالِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا {71} قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا {72} قَالَ لا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا {73} سورة الكهف آية 71-73 ثُمَّ خَرَجَا مِنَ السَّفِينَةِ فَبَيْنَمَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ وَإِذَا غُلَامٌ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ لَهُ مُوسَى: أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا {74} قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا {75} سورة الكهف آية 74-75، قَالَ: وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنَ الْأُولَى قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا {76} فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ سورة الكهف آية 76 ـ 77، يَقُولُ: مَائِلٌ، فَقَالَ الْخَضِرُ بِيَدِهِ هَكَذَا فَأَقَامَهُ سورة الكهف آية 77 فَقَالَ لَهُ مُوسَى قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا لَوْ شِئْتَ لاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا {77} قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا {78} سورة الكهف آية 77-78، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَوَدِدْنَا أَنَّهُ كَانَ صَبَرَ حَتَّى يَقُصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَخْبَارِهِمَا، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْأُولَى كَانَتْ مِنْ مُوسَى نِسْيَانٌ، قَالَ: وَجَاءَ عُصْفُورٌ حَتَّى وَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ ثُمَّ نَقَرَ فِي الْبَحْرِ، فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ: مَا نَقَصَ عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلُ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنَ الْبَحْرِ، قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ: وَكَانَ يَعْنِي ابْنَ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ، وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا، وَكَانَ يَقْرَأُ، وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَاهُ الزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت أَبَا مُزَاحِمٍ السَّمَرْقَنْدِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ، يَقُولُ: حَجَجْتُ حَجَّةً وَلَيْسَ لِي هِمَّةٌ إِلَّا أَنْ أَسْمَعَ مِنْ سُفْيَانَ يَذْكُرُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ الْخَبَرَ حَتَّى سَمِعْتُهُ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ وَقَدْ كُنْتُ سَمِعْتُ هَذَا مِنْ سُفْيَانَ مِنْ قَبْلِ ذَلِكَ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الْخَبَرَ.
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ بنی اسرائیل والے موسیٰ خضر والے موسیٰ علیہما السلام نہیں ہیں، ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا، میں نے ابی بن کعب کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ”موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں ایک دن تقریر کی، ان سے پوچھا گیا (اس وقت) لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ کہا: میں سب سے زیادہ علم والا ہوں، یہ بات اللہ کو ناگوار ہوئی کہ انہوں نے «اللہ اعلم»(اللہ بہتر جانتا ہے) نہیں کہا، اللہ نے ان کی سرزنش کی اور ان کی طرف وحی کی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ «مجمع البحرین»(دو سمندروں کے سنگم) کے مقام پر ہے، وہ تم سے بڑا عالم ہے، موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! میری ان سے ملاقات کی صورت کیا ہو سکتی ہے؟ اللہ نے کہا: «زنبیل»(تھیلے) میں ایک مچھلی رکھ لو پھر جہاں مچھلی غائب ہو جائے وہیں میرا وہ بندہ تمہیں ملے گا، موسیٰ چل پڑے ان کے ساتھ ان کے خادم یوشع بن نون بھی تھے، موسیٰ نے ایک مچھلی ٹوکری میں رکھ لی، دونوں چلتے چلتے صخرہ (چٹان) کے پاس پہنچے، اور وہاں سو گئے، (سونے کے دوران) مچھلی تڑپی، تھیلے سے نکل کر سمندر میں جا گری، ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: مچھلی کے گرتے ہی اللہ تعالیٰ نے پانی کے بہاؤ کو روک دیا، یہاں تک کہ ایک محراب کی صورت بن گئی اور مچھلی کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے کا راستہ بن گیا، موسیٰ اور ان کے خادم کے لیے یہ حیرت انگیز چیز تھی، وہ نیند سے بیدار ہو کر باقی دن و رات چلتے رہے، موسیٰ کا رفیق سفر انہیں یہ بتانا بھول گیا کہ فلاں مقام پر مچھلی تھیلے سے نکل کر سمندر میں جا چکی ہے، صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا: بھئی ہمارا ناشتہ لاؤ، ہم تو اس سفر میں بہت تھک چکے ہیں، ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: موسیٰ علیہ السلام کو تھکان اس جگہ سے آگے بڑھ جانے کے بعد ہی لاحق ہوئی جس جگہ اللہ نے انہیں پہنچنے کا حکم دیا تھا، غلام نے کہا: بھلا دیکھئیے تو سہی (کیسی عجیب بات ہوئی) جب ہم چٹان پر فروکش ہوئے تھے (کچھ دیر آرام کے لیے) تو میں آپ سے مچھلی کا ذکر کرنا بھول ہی گیا، اور شیطان کے سوا مجھے کسی نے بھی اس کے یاد دلانے سے غافل نہیں کیا ہے، وہ تو حیرت انگیز طریقے سے سمندر میں چلی گئی، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: یہی تو وہ جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم نکلے تھے، پھر وہ اپنے نشان قدم دیکھتے ہوئے پلٹے، وہ اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر چل رہے تھے (تاکہ صحیح جگہ پر پہنچ جائیں)(سفیان (راوی) کہتے ہیں: کچھ لوگ سمجھتے ہیں اس چٹان کے قریب چشمہ حیات ہے، جس کسی مردے کو اس کا پانی چھو جائے وہ زندہ ہو جاتا ہے)، مچھلی کچھ کھائی جا چکی تھی۔ مگر جب پانی کے قطرے اس پر پڑے تو وہ زندہ ہو گئی، دونوں اپنے نشانات قدم دیکھ کر چلے یہاں تک کہ چٹان کے پاس پہنچ گئے وہاں سر ڈھانپے ہوئے ایک شخص کو دیکھا، موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام عرض کیا، انہوں نے کہا: تمہارے اس ملک میں سلام کہاں ہے؟ انہوں نے کہا: میں موسیٰ ہوں، (اور میری شریعت میں سلام ہے) انہوں نے پوچھا: بنی اسرائیل والے موسیٰ؟ کہا: ہاں، انہوں نے کہا: اے موسیٰ اللہ کے (بےشمار اور بے انتہائی) علوم میں سے تمہارے پاس ایک علم ہے، اللہ نے تمہیں سکھایا ہے جسے میں نہیں جانتا، اور مجھے بھی اللہ کے علوم میں سے ایک علم حاصل ہے، اللہ نے مجھے وہ علم سکھایا ہے، جسے تم نہیں جانتے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا: میں آپ کے ساتھ ساتھ رہوں تو کیا آپ مجھے اللہ نے آپ کو رشد و ہدایت کی جو باتیں سکھائیں ہیں انہیں سکھا دیں گے؟ انہوں نے کہا: آپ میرے پاس ٹک نہیں سکتے، اور جس بات کا آپ کو علم نہیں آپ (اسے بظاہر خلاف شرع دیکھ کر) کیسے خاموش رہ سکتے ہیں؟ انہوں نے کہا: نہیں، میں ان شاءاللہ جموں (اور ٹکوں) گا اور کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی (اور مخالفت) نہیں کروں گا۔ ان سے خضر (علیہ السلام) نے کہا: اگر آپ میرے ساتھ رہنا ہی چاہتے ہیں تو (دھیان رہے) کسی چیز کے بارے میں بھی مجھ سے مت پوچھیں اور حجت بازی نہ کریں جب تک کہ میں خود ہی آپ کو اس کے بارے میں بتا نہ دوں، موسیٰ علیہ السلام نے کہا: ہاں ہاں، (بالکل ایسا ہی ہو گا) پھر خضر و موسیٰ چلے، دونوں سمندر کے ساحل سے لگ کر چلے جا رہے تھے کہ ان کے قریب سے ایک کشتی گزری، ان دونوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ ہمیں بھی کشتی پر سوار کر لو، (باتوں ہی باتوں میں) انہوں نے خضر کو پہچان لیا، ان دونوں کو کشتی پر چڑھا لیا، اور ان سے کرایہ نہ لیا، مگر خضر علیہ السلام کشتی کے تختوں میں سے ایک تختے کی طرف بڑھے اور اسے اکھاڑ دیا، (یہ دیکھ کر موسیٰ علیہ السلام سے صبر نہ ہوا) بول پڑے، ایک تو یہ (کشتی والے شریف) لوگ ہیں کہ انہوں نے بغیر کرایہ بھاڑا لیے ہمیں کشتی پر چڑھا لیا اور ایک آپ ہیں کہ آپ نے ان کی کشتی کی طرف بڑھ کر اسے توڑ دیا تاکہ انہیں ڈبو دیں، یہ تو آپ نے بڑا برا کام کیا، انہوں نے کہا: کیا میں آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ چکا ہوں کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکتے؟ (خاموش نہیں رہ سکتے) موسیٰ علیہ السلام نے کہا: آپ اس پر میری گرفت نہ کریں میں بھول گیا تھا (کہ میں نے آپ سے خاموش رہنے کا وعدہ کر رکھا ہے) اور آپ میرے کام و معاملے میں دشواریاں کھڑی نہ کریں، پھر وہ دونوں کشتی سے اتر کر ساحل کے کنارے کنارے چلے جا رہے تھے کہ اچانک ایک لڑکا انہیں اور لڑکوں کے ساتھ کھیلتا ہوا ملا، خضر نے اس کا سر پکڑا اور اپنے ہاتھ سے اس کی کھوپڑی سر سے اتار کر اسے مار ڈالا، (موسیٰ سے پھر رہا نہ گیا) موسیٰ نے کہا: آپ نے بغیر کسی قصاص کے ایک اچھی بھلی جان لے لی، یہ تو آپ نے بڑی گھناونی حرکت کی ہے۔ انہوں نے کہا: میں تو آپ سے پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کر سکیں گے۔ (کچھ نہ کچھ ضرور بول بیٹھیں گے راوی) کہتے ہیں اور یہ تو پہلے سے بھی زیادہ سخت معاملہ تھا، (اس میں وہ کیسے خاموش رہتے) موسیٰ علیہ السلام نے کہا: (یہ بھول بھی ہو ہی گئی) اب اگر میں اس کے بعد کسی چیز کے بارے میں کچھ پوچھ بیٹھوں تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھئیے، میرے سلسلے میں آپ عذر کو پہنچے ہوئے ہوں گے، پھر وہ دونوں آگے بڑھے، ایک گاؤں میں پہنچ کر گاؤں والوں سے کہا: آپ لوگ ہماری ضیافت کریں مگر گاؤں والوں نے انہیں اپنا مہمان بنانے سے انکار کر دیا، وہاں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو گری پڑتی تھی، راوی کہتے ہیں: جھکی ہوئی تھی تو خضر علیہ السلام نے ہاتھ (بڑھا کر) دیوار سیدھی کھڑی کر دی۔ موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا: یہ تو (ایسی گئی گزری) قوم ہے کہ ہم ان کے پاس آئے، مگر انہوں نے ہماری ضیافت تک نہ کی، ہمیں کھلایا پلایا تک نہیں، آپ چاہتے تو ان سے دیوار سیدھی کھڑی کر دینے کی اجرت لے لیتے۔ خضر علیہ السلام نے کہا: اب آ گئی ہے ہماری تمہاری جدائی کی گھڑی، جن باتوں پر تم صبر نہ سکے میں تمہیں ان کی حقیقت بتائے دیتا ہوں“۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ موسیٰ پر رحم فرمائے، ہمارے لیے تو یہ پسند ہوتا کہ وہ صبر کرتے تو ہم ان دونوں کی (عجیب و غریب) خبریں سنتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلی بار تو موسیٰ علیہ السلام سے بھول ہوئی تھی“، آپ نے فرمایا: ”(اسی موقع پر) ایک گوریا آئی اور کشتی کے ایک کنارے بیٹھ گئی پھر سمندر سے اپنی چونچ مار کر پانی نکالا، خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کو متوجہ کر کے کہا: اس چڑیا کے سمندر میں چونچ مارنے سے جو کمی ہوئی ہے وہی حیثیت اللہ کے علم کے آگے ہمارے اور تمہارے علم کی ہے، (اس لیے متکبرانہ جملہ کہنے کے بجائے «اللہ اعلم» کہنا زیادہ بہتر ہوتا)۔ سعید بن جبیر کہتے ہیں: ابن عباس «وكان أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا وكان يقرأ وأما الغلام فكان كافرا»۲؎ پڑھا کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث کو زہری نے عبیداللہ بن عتبہ سے عبیداللہ نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے ابی بن کعب رضی الله عنہم کے واسطہ سے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ اور اس حدیث کو ابواسحاق ہمدانی نے بھی سعید بن جبیر سے، سعید نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے ابی بن کعب رضی الله عنہم کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، ۳- میں نے ابومزاحم سمرقندی کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے علی ابن مدینی کو سنا وہ کہتے تھے: میں نے حج کیا، اور میرا حج سے مقصد صرف یہ تھا کہ میں سفیان سے خود سن لوں کہ وہ اس حدیث میں خبر یعنی لفظ «اخبرنا» استعمال کرتے ہیں (یا نہیں) چنانچہ میں نے سنا، انہوں نے «حدثنا عمرو بن دینار …» کا لفظ استعمال کیا۔ اور میں اس سے پہلے بھی سفیان سے یہ سن چکا تھا اور اس میں خبر (یعنی «اخبرنا») کا ذکر نہیں تھا۔
وضاحت: ۱؎: ”اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبرا ضبط کر لیتا تھا“(الکہف: ۷۹)، (موجودہ مصاحف میں «صالحۃ» کا لفظ نہیں ہے۔
۲؎: اور وہ لڑکا کافر تھا جیسا کہ قرآن میں ہے: «وأما الغلام فكان أبواه مؤمنين فخشينا أن يرهقهما طغيانا وكفرا»(الكهف: 80) اور جہاں تک اس لڑکے کا تعلق ہے تو اس کے ماں باپ ایمان والے تھے، چنانچہ ہم ڈر گئے کہ ایسا نہ ہو یہ لڑکا بڑا ہو کر اپنے ماں باپ کو بھی شرارت و سرکشی اور کفر میں ڈھانپ دے۔