بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(معراج کی رات) جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبرائیل علیہ السلام نے اپنی انگلی کے اشارے سے پتھر میں شگاف کر دیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن عقيل، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن جابر بن عبد الله، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لما كذبتني قريش قمت في الحجر فجلا الله لي بيت المقدس، فطفقت اخبرهم عن آياته وانا انظر إليه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب، عن مالك بن صعصعة، وابي سعيد، وابن عباس، وابي ذر، وابن مسعود.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَمَّا كَذَّبَتْنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلا اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب قریش نے مجھے (معراج کے سفر کے بارے میں) جھٹلا دیا کہ میں حجر (حطیم) میں کھڑا ہوا اور اللہ نے بیت المقدس کو میرے سامنے ظاہر کر دیا اور میں اسے دیکھ دیکھ کر انہیں اس کی نشانیاں (پہچان) بتانے لگا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں مالک بن صعصعہ ابوسعید، ابن عباس، ابوذر اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن عكرمة، عن ابن عباس، في قوله: وما جعلنا الرؤيا التي اريناك إلا فتنة للناس سورة الإسراء آية 60، قال: " هي رؤيا عين اريها النبي صلى الله عليه وسلم ليلة اسري به إلى بيت المقدس، قال: والشجرة الملعونة في القرآن هي شجرة الزقوم "، قال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ: وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ سورة الإسراء آية 60، قَالَ: " هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ، قَالَ: وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ هِيَ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ: «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس»”اور نہیں کیا ہم نے وہ مشاہدہ کہ جسے ہم نے تمہیں کروایا ہے (یعنی إسراء و معراج کے موقع پر جو کچھ دکھلایا ہے) مگر لوگوں کی آزمائش کے لیے“(بنی اسرائیل: ۶۰)، کے بارے میں کہتے ہیں: اس سے مراد (کھلی) آنکھوں سے دیکھنا تھا، جس دن آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تھی ۱؎ انہوں نے یہ بھی کہا «والشجرة الملعونة في القرآن» میں شجرہ «ملعونہ» سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبيد بن اسباط بن محمد قرشي كوفي، حدثنا ابي، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، في قوله: وقرءان الفجر إن قرءان الفجر كان مشهودا سورة الإسراء آية 78 قال: " تشهده ملائكة الليل وملائكة النهار "، قال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطِ بْنِ مُحَمَّدٍ قُرَشِيٌّ كُوفِيٌّ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي قَوْلِهِ: وَقُرْءَانَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْءَانَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا سورة الإسراء آية 78 قَالَ: " تَشْهَدُهُ مَلَائِكَةُ اللَّيْلِ وَمَلَائِكَةُ النَّهَارِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت «وقرآن الفجر إن قرآن الفجر كان مشهودا»”صبح کو قرآن پڑھا کرو کیونکہ صبح قرآن پڑھنے کا وقت فرشتوں کے حاضر ہونے کا ہوتا ہے“(بنی اسرائیل: ۷۸)، کے متعلق فرمایا: ”اس وقت رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے سب حاضر (و موجود) ہوتے ہیں“۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن السدي، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، في قول الله تعالى: يوم ندعو كل اناس بإمامهم سورة الإسراء آية 71، قال: " يدعى احدهم فيعطى كتابه بيمينه ويمد له في جسمه ستون ذراعا ويبيض وجهه ويجعل على راسه تاج من لؤلؤ يتلالا، فينطلق إلى اصحابه فيرونه من بعيد فيقولون: اللهم ائتنا بهذا وبارك لنا في هذا، حتى ياتيهم فيقول: ابشروا لكل رجل منكم مثل هذا، قال: واما الكافر فيسود وجهه ويمد له في جسمه ستون ذراعا على صورة آدم فيلبس تاجا، فيراه اصحابه فيقولون: نعوذ بالله من شر هذا اللهم لا تاتنا بهذا، قال: فياتيهم، فيقولون: اللهم اخزه، فيقول: ابعدكم الله فإن لكل رجل منكم مثل هذا "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، والسدي اسمه إسماعيل بن عبد الرحمن.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنِ السُّدِّيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ سورة الإسراء آية 71، قَالَ: " يُدْعَى أَحَدُهُمْ فَيُعْطَى كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ وَيُمَدُّ لَهُ فِي جِسْمِهِ سِتُّونَ ذِرَاعًا وَيُبَيَّضُ وَجْهُهُ وَيُجْعَلُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجٌ مِنْ لُؤْلُؤٍ يَتَلَأْلَأُ، فَيَنْطَلِقُ إِلَى أَصْحَابِهِ فَيَرَوْنَهُ مِنْ بَعِيدٍ فَيَقُولُونَ: اللَّهُمَّ ائْتِنَا بِهَذَا وَبَارِكْ لَنَا فِي هَذَا، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ فَيَقُولُ: أَبْشِرُوا لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْكُمْ مِثْلُ هَذَا، قَالَ: وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيُسَوَّدُ وَجْهُهُ وَيُمَدُّ لَهُ فِي جِسْمِهِ سِتُّونَ ذِرَاعًا عَلَى صُورَةِ آدَمَ فَيُلْبَسُ تَاجًا، فَيَرَاهُ أَصْحَابُهُ فَيَقُولُونَ: نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ هَذَا اللَّهُمَّ لَا تَأْتِنَا بِهَذَا، قَالَ: فَيَأْتِيهِمْ، فَيَقُولُونَ: اللَّهُمَّ أَخْزِهِ، فَيَقُولُ: أَبْعَدَكُمُ اللَّهُ فَإِنَّ لِكُلِّ رَجُلٍ مِنْكُمْ مِثْلَ هَذَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالسُّدِّيُّ اسْمُهُ إِسْمَاعِيل بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس قول «يوم ندعو كل أناس بإمامهم»”جس دن ہم ہر انسان کو اس کے امام (اگوا و پیشوا) کے ساتھ بلائیں گے“(بنی اسرائیل: ۷۱)، کے بارے میں فرمایا: ”ان میں سے جو کوئی (جنتی شخص) بلایا جائے گا اور اس کا نامہ اعمال اس کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا اور اس کا جسم بڑھا کر ساٹھ گز کا کر دیا جائے گا، اس کا چہرہ چمکتا ہوا ہو گا اس کے سر پر موتیوں کا جھلملاتا ہوا تاج رکھا جائے گا، پھر وہ اپنے ساتھیوں کے پاس جائے گا، اسے لوگ دور سے دیکھ کر کہیں گے: اے اللہ! ایسی ہی نعمتوں سے ہمیں بھی نواز، اور ہمیں بھی ان میں برکت عطا کر، وہ ان کے پاس پہنچ کر کہے گا: تم سب خوش ہو جاؤ۔ ہر شخص کو ایسا ہی ملے گا، لیکن کافر کا معاملہ کیا ہو گا؟ کافر کا چہرہ کالا کر دیا جائے گا، اور اس کا جسم ساٹھ گز کا کر دیا جائے گا جیسا کہ آدم علیہ السلام کا تھا، اسے تاج پہنایا جائے گا۔ اس کے ساتھی اسے دیکھیں گے تو کہیں گے اس کے شر سے ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ اے اللہ! ہمیں ایسا تاج نہ دے، کہتے ہیں: پھر وہ ان لوگوں کے پاس آئے گا وہ لوگ کہیں گے: اے اللہ! اسے ذلیل کر، وہ کہے گا: اللہ تمہیں ہم سے دور ہی رکھے، کیونکہ تم میں سے ہر ایک کے لیے ایسا ہی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سدی کا نام اسماعیل بن عبدالرحمٰن ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13616) (ضعیف الإسناد) (سند میں عبد الرحمن ابن ابی کریمہ والد سدی مجہول الحال راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (6424) //
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا وكيع، عن داود بن يزيد الزعافري، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: في قوله: " عسى ان يبعثك ربك مقاما محمودا سورة الإسراء آية 79 سئل عنها، قال: هي الشفاعة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وداود الزعافري هو داود الاودي بن يزيد بن عبد الرحمن وهو عم عبد الله بن إدريس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ يَزِيدَ الزَّعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فِي قَوْلِهِ: " عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا سورة الإسراء آية 79 سُئِلَ عَنْهَا، قَالَ: هِيَ الشَّفَاعَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَدَاوُدُ الزَّعَافِرِيُّ هُوَ دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ عَمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا»”عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا“(بنی اسرائیل: ۷۹)، کے بارے میں پوچھے جانے پر فرمایا: ”اس سے مراد شفاعت ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور داود زغافری: داود اود بن یزید بن عبداللہ اودی ہیں، اور یہ عبداللہ بن ادریس کے چچا ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14848)، و مسند احمد (2/441، 444، 528) (صحیح) (سند میں داود ضعیف اور ان کے باپ یزید عبد الرحمن الأودی الزعافری لین الحدیث راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة رقم: 2369، 2370)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2639 و 2370)، الظلال (784)
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابن ابي نجيح، عن مجاهد، عن ابي معمر، عن ابن مسعود، قال: " دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم مكة عام الفتح وحول الكعبة ثلاث مائة وستون نصبا، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يطعنها بمخصرة في يده وربما قال بعود ويقول: " جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا سورة الإسراء آية 81 جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد سورة سبا آية 49 "، قال: هذا حديث حسن صحيح وفيه عن ابن عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ وَحَوْلَ الْكَعْبَةِ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَسِتُّونَ نُصُبًا، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطْعَنُهَا بِمِخْصَرَةٍ فِي يَدِهِ وَرُبَّمَا قَالَ بِعُودٍ وَيَقُولُ: " جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا سورة الإسراء آية 81 جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ سورة سبأ آية 49 "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَفِيهِ عَنِ ابْنِ عُمَرَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جس سال مکہ فتح ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے، آپ اپنے ہاتھ میں لی ہوئی چھڑی سے انہیں کچوکے لگانے لگے (عبداللہ نے کبھی ایسا کہا) اور کبھی کہا کہ آپ اپنے ہاتھ میں ایک لکڑی لیے ہوئے تھے، اور انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے کہتے جاتے تھے «جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا»”حق آ گیا باطل مٹ گیا باطل کو مٹنا اور ختم ہونا ہی تھا“(بنی اسرائیل: ۸۱)، «جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد»”حق غالب آ گیا ہے، اب باطل نہ ابھر سکے گا اور نہ ہی لوٹ کر آئے گا“(سبا: ۴۹)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا جرير، عن قابوس بن ابي ظبيان، عن ابيه، عن ابن عباس، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم بمكة ثم امر بالهجرة فنزلت عليه: وقل رب ادخلني مدخل صدق واخرجني مخرج صدق واجعل لي من لدنك سلطانا نصيرا سورة الإسراء آية 80 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ ثُمَّ أُمِرَ بِالْهِجْرَةِ فَنَزَلَتْ عَلَيْهِ: وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا سورة الإسراء آية 80 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے، پھر آپ کو ہجرت کا حکم ملا، اسی موقع پر آیت: «وقل رب أدخلني مدخل صدق وأخرجني مخرج صدق واجعل لي من لدنك سلطانا نصيرا»”دعا کر، اے میرے رب! مجھے اچھی جگہ پہنچا اور مجھے اچھی طرح نکال، اور اپنی طرف سے مجھے قوی مددگار مہیا فرما“(بنی اسرائیل: ۸۰)، نازل ہوئی۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا يحيى بن زكريا بن ابي زائدة، عن داود بن ابي هند، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: " قالت قريش ليهود: اعطونا شيئا نسال هذا الرجل، فقال: سلوه عن الروح، قال: فسالوه عن الروح، فانزل الله تعالى: ويسالونك عن الروح قل الروح من امر ربي وما اوتيتم من العلم إلا قليلا سورة الإسراء آية 85، قالوا: اوتينا علما كثيرا، اوتينا التوراة ومن اوتي التوراة فقد اوتي خيرا كثيرا، فانزلت: قل لو كان البحر مدادا لكلمات ربي لنفد البحر سورة الكهف آية 109 إلى آخر الآية "، قال: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبَي هِنْدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " قَالَتْ قُرَيْشٌ لِيَهُودَ: أَعْطُونَا شَيْئًا نَسْأَلُ هَذَا الرَّجُلَ، فَقَالَ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، قَالَ: فَسَأَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85، قَالُوا: أُوتِينَا عِلْمًا كَثِيرًا، أُوتِينَا التَّوْرَاةُ وَمَنْ أُوتِيَ التَّوْرَاةَ فَقَدْ أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا، فَأُنْزِلَتْ: قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ سورة الكهف آية 109 إِلَى آخِرِ الْآيَةَ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ قریش نے یہود سے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سوال دو جسے ہم اس شخص (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) سے پوچھیں، انہوں نے کہا: اس شخص سے روح کے بارے میں سوال کرو، تو انہوں نے آپ سے روح کے بارے میں پوچھا (روح کی حقیقت کیا ہے؟) اس پر اللہ نے آیت «ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا»”تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو! روح امر الٰہی ہے، تمہیں بہت ہی تھوڑا علم دیا گیا ہے“(بنی اسرائیل: ۸۵)، انہوں نے کہا: ہمیں تو بہت زیادہ علم حاصل ہے، ہمیں توراۃ ملی ہے، اور جسے توراۃ دی گئی ہو اسے بہت بڑی خیر مل گئی، اس پر آیت «قل لو كان البحر مدادا لكلمات ربي لنفد البحر»”کہہ دیجئیے: اگر میرے رب کی باتیں، کلمے، معلومات و مقدرات لکھنے کے لیے سمندر سیاہی (روشنائی) بن جائیں تو سمندر ختم ہو جائے (مگر میرے رب کی حمد و ثناء ختم نہ ہو)“(الکہف: ۱۰۹)، نازل ہوئی ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔