سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
حدیث نمبر: 3074M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الوهاب الوراق البغدادي، حدثنا معاذ بن معاذ، عن حماد بن سلمة، عن ثابت، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الْوَرَّاقُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
اس سند سے معاذ حماد بن سلمہ سے، حماد بن سلمہ نے ثابت سے اور ثابت نے انس کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح ظلال الجنة (480)
حدیث نمبر: 3075
Save to word مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن زيد ابن ابي انيسة، عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب، عن مسلم بن يسار الجهني، ان عمر بن الخطاب سئل عن هذه الآية وإذ اخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم واشهدهم على انفسهم الست بربكم قالوا بلى شهدنا ان تقولوا يوم القيامة إنا كنا عن هذا غافلين سورة الاعراف آية 172، فقال عمر بن الخطاب: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسال عنها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله خلق آدم، ثم مسح ظهره بيمينه، فاستخرج منه ذرية، فقال: خلقت هؤلاء للجنة وبعمل اهل الجنة يعملون، ثم مسح ظهره فاستخرج منه ذرية، فقال: خلقت هؤلاء للنار وبعمل اهل النار يعملون "، فقال رجل: يا رسول، الله ففيم العمل؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله إذا خلق العبد للجنة استعمله بعمل اهل الجنة حتى يموت على عمل من اعمال اهل الجنة فيدخله الله الجنة، وإذا خلق العبد للنار استعمله بعمل اهل النار حتى يموت على عمل من اعمال اهل النار فيدخله الله النار "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، ومسلم بن يسار لم يسمع من عمر، وقد ذكر بعضهم في هذا الإسناد بين مسلم بن يسار وبين عمر رجلا مجهولا.(قدسي) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ سورة الأعراف آية 172، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ عَنْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَمِينِهِ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَعْمَلُونَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلنَّارِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ يَعْمَلُونَ "، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ، اللَّهِ فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيُدْخِلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ، وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ النَّارِ فَيُدْخِلَهُ اللَّهُ النَّارَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَمُسْلِمُ بْنُ يَسَارٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُمَرَ، وَقَدْ ذَكَرَ بَعْضُهُمْ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بَيْنَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ وَبَيْنَ عُمَرَ رَجُلًا مَجْهُولًا.
مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے آیت «وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم وأشهدهم على أنفسهم ألست بربكم قالوا بلى شهدنا أن تقولوا يوم القيامة إنا كنا عن هذا غافلين» ۱؎ کا مطلب پوچھا گیا، تو عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ سے اسی آیت کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو آپ نے فرمایا: اللہ نے آدم کو پیدا کیا پھر اپنا داہنا ہاتھ ان کی پیٹھ پر پھیرا اور ان کی ایک ذریت (نسل) کو نکالا، اور کہا: میں نے انہیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ لوگ جنت ہی کا کام کریں گے، پھر (دوبارہ) ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور وہاں سے ایک ذریت (ایک نسل) نکالی اور کہا کہ میں نے انہیں جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور جہنمیوں کا کام کریں گے۔ ایک شخص نے کہا: پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ کے رسول! ۲؎ راوی کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ جنتی شخص کو پیدا کرتا ہے تو اسے جنتیوں کے کام میں لگا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ جنتیوں کا کام کرتا ہوا مر جاتا ہے تو اللہ اسے جنت میں داخل فرما دیتا ہے۔ اور جب اللہ جہنمی شخص کو پیدا کرتا ہے تو اسے جہنمیوں کے کام میں لگا دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ جہنمیوں کا کام کرتا ہوا مرتا ہے تو اللہ اسے جہنم میں داخل کر دیتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- مسلم بن یسار نے عمر رضی الله عنہ سے سنا نہیں ہے،
۳- بعض راویوں نے اس اسناد میں مسلم بن یسار اور عمر رضی الله عنہ کے درمیان کسی غیر معروف راوی کا ذکر کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ السنة 17 (4703، و4704) (تحفة الأشراف: 10654)، و مسند احمد (1/4
4- 45) (ضعیف) (سند میں مسلم بن یسار اور عمر رضی الله عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اور ابوداود وغیرہ کی دوسری سند میں ان دونوں کے درمیان جو نعیم بن ربیعہ راوی ہے وہ مجہول ہے)»

وضاحت:
۱؎: جب تمہارے رب نے بنی آدم کی ذریت کو ان کی صلب سے نکلا اور انہیں کو ان پر (اس بات کا) گواہ بنایا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، (آپ ہمارے رب ہیں) ہم اس کے گواہ ہیں۔ (یہ گواہی اس لیے لی ہے کہ) کہیں تم قیامت کے دن یہ کہنے نہ لگو کہ ہمیں تو اس کی کچھ خبر نہیں نہ تھی (الاعراف: ۱۷۲)۔
۲؎: یعنی جب جہنمی اور جنتی کا فیصلہ پہلے ہی کر دیا گیا ہے تو اس کو لامحالہ، چار و ناچار وہیں پہنچنا ہے جہاں بھیجنے کے لیے اللہ نے اسے پیدا فرمایا ہے۔ تو پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟

قال الشيخ الألباني: ضعيف الظلال (196)، الضعيفة (3071) // ضعيف الجامع الصغير (1602) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3075) إسناده ضعيف / د 4703
حدیث نمبر: 3076
Save to word مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا ابو نعيم، حدثنا هشام بن سعد، عن زيد بن اسلم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لما خلق الله آدم مسح ظهره فسقط من ظهره كل نسمة هو خالقها من ذريته إلى يوم القيامة، وجعل بين عيني كل إنسان منهم وبيصا من نور، ثم عرضهم على آدم، فقال: اي رب من هؤلاء؟ قال: هؤلاء ذريتك، فراى رجلا منهم فاعجبه وبيص ما بين عينيه، فقال: اي رب من هذا؟، فقال: هذا رجل من آخر الامم من ذريتك يقال له: داود، فقال: رب كم جعلت عمره؟، قال: ستين سنة، قال: اي رب زده من عمري اربعين سنة، فلما قضي عمر آدم جاءه ملك الموت، فقال: اولم يبق من عمري اربعون سنة؟، قال: اولم تعطها ابنك داود، قال: فجحد آدم، فجحدت ذريته، ونسي آدم فنسيت ذريته، وخطئ آدم فخطئت ذريته "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(قدسي) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَسَقَطَ مِنْ ظَهْرِهِ كُلُّ نَسَمَةٍ هُوَ خَالِقُهَا مِنْ ذُرِّيَّتِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَجَعَلَ بَيْنَ عَيْنَيْ كُلِّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ وَبِيصًا مِنْ نُورٍ، ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى آدَمَ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ ذُرِّيَّتُكَ، فَرَأَى رَجُلًا مِنْهُمْ فَأَعْجَبَهُ وَبِيصُ مَا بَيْنَ عَيْنَيْهِ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ مَنْ هَذَا؟، فَقَالَ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ آخِرِ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ يُقَالُ لَهُ: دَاوُدُ، فَقَالَ: رَبِّ كَمْ جَعَلْتَ عُمْرَهُ؟، قَالَ: سِتِّينَ سَنَةً، قَالَ: أَيْ رَبِّ زِدْهُ مِنْ عُمْرِي أَرْبَعِينَ سَنَةً، فَلَمَّا قُضِيَ عُمْرُ آدَمَ جَاءَهُ مَلَكُ الْمَوْتِ، فَقَالَ: أَوَلَمْ يَبْقَ مِنْ عُمْرِي أَرْبَعُونَ سَنَةً؟، قَالَ: أَوَلَمْ تُعْطِهَا ابْنَكَ دَاوُدَ، قَالَ: فَجَحَدَ آدَمُ، فَجَحَدَتْ ذُرِّيَّتُهُ، وَنُسِّيَ آدَمُ فَنُسِّيَتْ ذُرِّيَّتُهُ، وَخَطِئَ آدَمُ فَخَطِئَتْ ذُرِّيَّتُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ نے آدم کو پیدا کیا اور ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے ان کی اولاد کی وہ ساری روحیں باہر آ گئیں جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے والا ہے۔ پھر ان میں سے ہر انسان کی آنکھوں کی بیچ میں نور کی ایک ایک چمک رکھ دی، پھر انہیں آدم کے سامنے پیش کیا، تو آدم نے کہا: میرے رب! کون ہیں یہ لوگ؟ اللہ نے کہا: یہ تمہاری ذریت (اولاد) ہیں، پھر انہوں نے ان میں ایک ایسا شخص دیکھا جس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کی چمک انہیں بہت اچھی لگی، انہوں نے کہا: اے میرے رب! یہ کون ہے؟ اللہ نے فرمایا: تمہاری اولاد کی آخری امتوں میں سے ایک فرد ہے۔ اسے داود کہتے ہیں: انہوں نے کہا: میرے رب! اس کی عمر کتنی رکھی ہے؟ اللہ نے کہا: ساٹھ سال، انہوں نے کہا: میرے رب! میری عمر میں سے چالیس سال لے کر اس کی عمر میں اضافہ فرما دے، پھر جب آدم کی عمر پوری ہو گئی، ملک الموت ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: کیا میری عمر کے چالیس سال ابھی باقی نہیں ہیں؟ تو انہوں نے کہا: کیا تو نے اپنے بیٹے داود کو دے نہیں دیئے تھے؟ آپ نے فرمایا: تو آدم نے انکار کیا، چنانچہ ان کی اولاد بھی انکاری بن گئی۔ آدم بھول گئے تو ان کی اولاد بھی بھول گئی۔ آدم نے غلطی کی تو ان کی اولاد بھی خطاکار بن گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12325) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: الظلال (206)، تخريج الطحاوية (220 و 221)
حدیث نمبر: 3077
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا عمر بن إبراهيم، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة بن جندب، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لما حملت حواء طاف بها إبليس وكان لا يعيش لها ولد، فقال: سميه عبد الحارث فسمته عبد الحارث فعاش، وكان ذلك من وحي الشيطان وامره "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب لا نعرفه مرفوعا إلا من حديث عمر بن إبراهيم، عن قتادة، ورواه بعضهم عن عبد الصمد ولم يرفعه، عمر بن إبراهيم شيخ بصري.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَمَّا حَمَلَتْ حَوَّاءُ طَافَ بِهَا إِبْلِيسُ وَكَانَ لَا يَعِيشُ لَهَا وَلَدٌ، فَقَالَ: سَمِّيهِ عَبْدَ الْحَارِثِ فَسَمَّتْهُ عَبْدَ الْحَارِثِ فَعَاشَ، وَكَانَ ذَلِكَ مِنْ وَحْيِ الشَّيْطَانِ وَأَمْرِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ، عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب حواء حاملہ ہوئیں تو ان کے پاس شیطان آیا، ان کے بچے جیتے نہ تھے، تو اس نے کہا: (اب جب تیرا بچہ پیدا ہو) تو اس کا نام عبدالحارث رکھ، چنانچہ حواء نے اس کا نام عبدالحارث ہی رکھا تو وہ جیتا رہا۔ ایسا انہوں نے شیطانی وسوسے اور اس کے مشورے سے کیا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے مرفوع صرف عمر بن ابراہیم کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں،
۲- بعض راویوں نے یہ حدیث عبدالصمد سے روایت کی ہے، لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے،
۳- عمر بن ابراہیم بصریٰ شیخ ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4604) (ضعیف) (حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، اور حسن کا سمرہ رضی الله عنہ سے سماع میں سخت اختلاف ہے، اور عمر بن ابراہیم کی قتادہ سے روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفة رقم 342)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (342) // ضعيف الجامع الصغير (4769) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3077) إسناده ضعيف
عمر بن إبراھيم العبدي: صدوق، في حديثه عن قتادة ضعف (تق: 4863)
حدیث نمبر: 3078
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا ابو نعيم، حدثنا هشام بن سعد، عن زيد بن اسلم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لما خلق آدم " الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو نَعَيْمٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدٍ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا خُلِقَ آَدَمُ " الْحَدِيثُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدم پیدا کئے گئے … (آگے) پوری حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3076 (صحیح) (حدیث پہلے گزری)۔»

قال الشيخ الألباني: *
9. باب وَمِنْ سُورَةِ الأَنْفَالِ
9. باب: سورۃ الانفال سے بعض آیات کی تفسیر​۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3079
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن عاصم بن بهدلة، عن مصعب بن سعد، عن ابيه، قال: لما كان يوم بدر جئت بسيف، فقلت: يا رسول الله، إن الله قد شفى صدري من المشركين او نحو هذا، هب لي هذا السيف، فقال: " هذا ليس لي ولا لك "، فقلت: عسى ان يعطى هذا من لا يبلي بلائي، فجاءني الرسول فقال: " إنك سالتني وليس لي وإنه قد صار لي وهو لك، قال: فنزلت يسالونك عن الانفال سورة الانفال آية 1 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه سماك بن حرب، عن مصعب بن سعد ايضا، وفي الباب، عن عبادة بن الصامت.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ جِئْتُ بِسَيْفٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ شَفَى صَدْرِي مِنَ الْمُشْرِكِينَ أَوْ نَحْوَ هَذَا، هَبْ لِي هَذَا السَّيْفَ، فَقَالَ: " هَذَا لَيْسَ لِي وَلَا لَكَ "، فَقُلْتُ: عَسَى أَنْ يُعْطَى هَذَا مَنْ لَا يُبْلِي بَلَائِي، فَجَاءَنِي الرَّسُولُ فَقَالَ: " إِنَّكَ سَأَلْتَنِي وَلِيس لِي وَإِنَّهُ قَدْ صَارَ لِي وَهُوَ لَكَ، قَالَ: فَنَزَلَتْ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ سورة الأنفال آية 1 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاه سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ مُصْعَبٍ بْنِ سَعْدٍ أَيْضًا، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن میں ایک تلوار لے کر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) پہنچا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ نے میرا سینہ مشرکین سے ٹھنڈا کر دیا (یعنی انہیں خوب مارا) یہ کہا یا ایسا ہی کوئی اور جملہ کہا (راوی کو شک ہو گیا) آپ یہ تلوار مجھے عنایت فرما دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نہ میری ہے اور نہ تیری ۱؎، میں نے (جی میں) کہا ہو سکتا ہے یہ ایسے شخص کو مل جائے جس نے میرے جیسا کارنامہ جنگ میں نہ انجام دیا ہو، (میں حسرت و یاس میں ڈوبا ہوا آپ کے پاس سے اٹھ کر چلا آیا) تو (میرے پیچھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آیا اور اس نے (آپ کی طرف سے) کہا: تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی، تب وہ میری نہ تھی اور اب وہ (بحکم الٰہی) میرے اختیار میں آ گئی ہے ۲؎، تو اب وہ تمہاری ہے (میں اسے تمہیں دیتا ہوں) راوی کہتے ہیں، اسی موقع پر «يسألونك عن الأنفال» ۳؎ والی آیت نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس حدیث کو سماک بن حرب نے بھی مصعب سے روایت کیا ہے،
۳- اس باب میں عبادہ بن صامت سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجھاد 12 (1748)، سنن ابی داود/ الجھاد 156 (2740) (تحفة الأشراف: 3930) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ یہ ابھی ایسے مال غنیمت میں سے ہے جس کی تقسیم ابھی نہیں ہوئی ہے، تو کیسے تم کو دے دوں۔
۲؎: کیونکہ اب تقسیم میں (بطور خمس کے) وہ میرے حصے میں آ گئی ہے۔
۳؎: یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کا حکم پوچھتے ہیں (الأنفال: ۱)۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، صحيح أبي داود (2747)
حدیث نمبر: 3080
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرزاق، عن إسرائيل، عن سماك، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: لما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من بدر قيل له: عليك العير ليس دونها شيء، قال: فناداه العباس وهو في وثاقه لا يصلح، وقال:" لان الله وعدك إحدى الطائفتين وقد اعطاك ما وعدك "، قال: صدقت، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَدْرٍ قِيلَ لَهُ: عَلَيْكَ الْعِيرَ لَيْسَ دُونَهَا شَيْءٌ، قَالَ: فَنَادَاهُ الْعَبَّاسُ وَهُوَ فِي وَثَاقِهِ لَا يَصْلُحُ، وَقَالَ:" لِأَنَّ اللَّهَ وَعَدَكَ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ وَقَدْ أَعْطَاكَ مَا وَعَدَكَ "، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ بدر سے نمٹ چکے تو آپ سے کہا گیا (شام سے آتا ہوا) قافلہ آپ کی زد اور نشانے پر ہے، اس پر غالب آنے میں کوئی چیز مانع اور رکاوٹ نہیں ہے۔ تو عباس نے آپ کو پکارا، اس وقت وہ (قیدی تھے) زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے، اور کہا: آپ کا یہ اقدام (اگر آپ نے ایسا کیا) تو درست نہ ہو گا، اور درست اس لیے نہ ہو گا کہ اللہ نے آپ سے دونوں گروہوں (قافلہ یا لشکر) میں سے کسی ایک پر فتح و غلبہ کا وعدہ کیا تھا ۱؎ اور اللہ نے آپ سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا ہے، آپ نے فرمایا: تم سچ کہتے ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۱؎: یہ اللہ تعالیٰ کا قول: «وإذ يعدكم الله إحدى الطائفتين أنها لكم» (الانفال: ۷) کی طرف اشارہ ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 612) (ضعیف الإسناد) (سماک کی عکرمہ سے روایت میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: (3080) إسناده ضعيف
سلسله سماك عن عكرمة: ضعيفة (تقدم: 65)
حدیث نمبر: 3081
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عمر بن يونس اليمامي، حدثنا عكرمة بن عمار، حدثنا ابو زميل، حدثنا عبد الله بن عباس، حدثنا عمر بن الخطاب، قال: " نظر نبي الله صلى الله عليه وسلم إلى المشركين وهم الف واصحابه ثلاث مائة وبضعة عشر رجلا، فاستقبل نبي الله صلى الله عليه وسلم القبلة ثم مد يديه وجعل يهتف بربه: اللهم انجز لي ما وعدتني، اللهم آتني ما وعدتني، اللهم إن تهلك هذه العصابة من اهل الإسلام لا تعبد في الارض، فما زال يهتف بربه مادا يديه مستقبل القبلة حتى سقط رداؤه من منكبيه، فاتاه ابو بكر فاخذ رداءه فالقاه على منكبيه ثم التزمه من ورائه، فقال: يا نبي الله كفاك مناشدتك ربك إنه سينجز لك ما وعدك فانزل الله تبارك وتعالى إذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم اني ممدكم بالف من الملائكة مردفين سورة الانفال آية 9 فامدهم الله بالملائكة "، قال: هذا حديث حسن صحيح غريب لا نعرفه من حديث عمر إلا من حديث عكرمة بن عمار، عن ابي زميل، وابو زميل اسمه سماك الحنفي، وإنما كان هذا يوم بدر.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عبَّاسٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: " نَظَرَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَهُمْ أَلْفٌ وَأَصْحَابُهُ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَبِضْعَةُ عَشَرَ رَجُلًا، فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ وَجَعَلَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ: اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ آتِنِي مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ، فَمَا زَالَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ مَادًّا يَدَيْهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ مِنْ مَنْكِبَيْهِ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَأَلْقَاهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ كَفَاكَ مُنَاشَدَتَكَ رَبَّكَ إِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ سورة الأنفال آية 9 فَأَمَدَّهُمُ اللَّهُ بِالْمَلَائِكَةِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي زُمَيْلٍ، وَأَبُو زُمَيْلٍ اسْمُهُ سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ، وَإِنَّمَا كَانَ هَذَا يَوْمَ بَدْرٍ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (جنگ بدر کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مشرکین مکہ پر) ایک نظر ڈالی، وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے صحابہ تین سو دس اور کچھ (کل ۳۱۳) تھے۔ پھر آپ قبلہ رخ ہو گئے اور اپنے دونوں ہاتھ اللہ کے حضور پھیلا دیئے اور اپنے رب کو پکارنے لگے: اے میرے رب! مجھ سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا فرما دے، جو کچھ تو نے مجھے دینے کا وعدہ فرمایا ہے، اسے عطا فرما دے، اے میرے رب! اگر اہل اسلام کی اس مختصر جماعت کو تو نے ہلاک کر دیا تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ کی جا سکے گی۔ آپ قبلہ کی طرف منہ کیے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے اپنے رب کے سامنے گڑگڑاتے رہے یہاں تک کہ آپ کی چادر آپ کے دونوں کندھوں پر سے گر پڑی۔ پھر ابوبکر رضی الله عنہ نے آ کر آپ کی چادر اٹھائی اور آپ کے کندھوں پر ڈال کر پیچھے ہی سے آپ سے لپٹ کر کہنے لگے۔ اللہ کے نبی! بس، کافی ہے آپ کی اپنے رب سے اتنی ہی دعا۔ اللہ نے آپ سے جو وعدہ کر کھا ہے وہ اسے پورا کرے گا (ان شاءاللہ) پھر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی «إذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم أني ممدكم بألف من الملائكة مردفين» ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- عمر رضی الله عنہ کی اس حدیث کو صرف عکرمہ بن عمار کی روایت سے جانتے ہیں۔ جسے وہ ابوزمیل سے روایت کرتے ہیں۔ ابوزمیل کا نام سماک حنفی ہے۔ ایسا بدر کے دن ہوا ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجھاد 18 (1763) (تحفة الأشراف: 10496)، و مسند احمد (1/30) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یاد کرو اس وقت کو جب تم اپنے رب سے فریاد رسی چاہتے تھے تو اللہ نے تمہاری درخواست قبول کر لی، اور فرمایا: میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا وہ پیہم یکے بعد دیگرے آتے رہیں گے، تو اللہ نے ان کی فرشتوں سے مدد کی۔ (الأنفال: ۹)
۲؎: یعنی فرشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کا واقعہ بدر کے دن پیش آیا۔

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 3082
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا ابن نمير، عن إسماعيل بن إبراهيم بن مهاجر، عن عباد بن يوسف، عن ابي بردة بن ابي موسى، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انزل الله علي امانين لامتي وما كان الله ليعذبهم وانت فيهم سورة الانفال آية 33 وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون سورة الانفال آية 33 فإذا مضيت تركت فيهم الاستغفار إلى يوم القيامة "، هذا حديث غريب، وإسماعيل بن مهاجر يضعف في الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ يُوسُفَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ أَمَانَيْنِ لِأُمَّتِي وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ سورة الأنفال آية 33 وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ سورة الأنفال آية 33 فَإِذَا مَضَيْتُ تَرَكْتُ فِيهِمُ الِاسْتِغْفَارَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "، هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ مُهَاجِرٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے لیے اللہ نے مجھ پر دو امان نازل فرمائے ہیں (ایک) «وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم» تمہارے موجود رہتے ہوئے اللہ انہیں عذاب سے دوچار نہ کرے گا (الأنفال: ۳۳)، (دوسرا) «وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون» دوسرے جب وہ توبہ و استغفار کرتے رہیں گے تو بھی ان پر اللہ عذاب نازل نہ کرے گا (الأنفال: ۳۳)، اور جب میں (اس دنیا سے) چلا جاؤں گا تو ان کے لیے دوسرا امان استغفار قیامت تک چھوڑ جاؤں گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے۔
۲- اسماعیل بن مہاجر حدیث میں ضعیف مانے جاتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9109) (ضعیف الإسناد) (سند میں اسماعیل بن ابراہیم بن مہاجر ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (1341) //

قال الشيخ زبير على زئي: (3082) إسناده ضعيف
عباد بن يوسف: مجھول و إسماعيل بن إبراھيم بن مھاجر: ضعيف (تق: 3155،417) و سفيان بن وكيع: ضعيف أيضاً (د4837) وللحديث شاھد ضعيف عند أحمد (393/4)
حدیث نمبر: 3083
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا وكيع، عن اسامة بن زيد، عن صالح بن كيسان، عن رجل لم يسمه، عن عقبة بن عامر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قرا هذه الآية على المنبر: واعدوا لهم ما استطعتم من قوة سورة الانفال آية 60، قال: الا إن القوة الرمي ثلاث مرات، الا إن الله سيفتح لكم الارض وستكفون المؤنة فلا يعجزن احدكم ان يلهو باسهمه "، قال ابو عيسى: وقد روى بعضهم هذا الحديث عن اسامة بن زيد، عن صالح بن كيسان، عن عقبة بن عامر، رواه ابو اسامة، وغير واحد، وحديث وكيع اصح، وصالح بن كيسان لم يدرك عقبة بن عامر وقد ادرك ابن عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ رَجُلٍ لَمْ يُسَمِّهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ عَلَى الْمِنْبَرِ: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ سورة الأنفال آية 60، قَالَ: أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، أَلَا إِنَّ اللَّهَ سَيَفْتَحُ لَكُمُ الْأَرْضَ وَسَتُكْفَوْنَ الْمُؤْنَةَ فَلَا يَعْجِزَنَّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَلْهُوَ بِأَسْهُمِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، رَوَاهُ أَبُو أُسَامَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، وَحَدِيثُ وَكِيعٍ أَصَحُّ، وَصَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ لَمْ يُدْرِكْ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ وَقَدْ أَدْرَكَ ابْنَ عُمَرَ.
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر آیت: «وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة» تم کافروں کے مقابلے کے لیے جتنی قوت فراہم کر سکتے ہو کرو (الانفال: ۶۰) پڑھی، اور فرمایا: «قوة» سے مراد تیر اندازی ہے۔ آپ نے یہ بات تین بار کہی، سنو عنقریب اللہ تمہیں زمین پر فتح دیدے گا۔ اور تمہیں مستغنی اور بے نیاز کر دے گا۔ تو ایسا ہرگز نہ ہو کہ تم میں سے کوئی بھی (نیزہ بازی اور) تیر اندازی سے عاجز و غافل ہو جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- بعض نے یہ حدیث اسامہ بن زید سے روایت کی ہے اور اسامہ نے صالح بن کیسان سے روایت کی ہے،
۲- ابواسامہ نے اور کئی لوگوں نے اسے عقبہ بن عامر سے روایت کیا ہے،
۳- وکیع کی حدیث زیادہ صحیح ہے،
۴- صالح بن کیسان کی ملاقات عقبہ بن عامر سے نہیں ہے، ہاں ان کی ملاقات ابن عمر سے ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 52 (1917)، سنن ابی داود/ الجھاد 24 (2514)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 19 (2813) (تحفة الأشراف: 9975)، و مسند احمد (4/157)، وسنن الدارمی/الجھاد 14 (2448) (صحیح) (سند میں ایک راوی مبہم ہے جو دوسروں کی سند میں نہیں ہے، لیکن متابعات کی بنا پر مؤلف کی یہ روایت صحیح لغیرہ ہے)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (2813)

Previous    12    13    14    15    16    17    18    19    20    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.