(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا وكيع، عن اسامة بن زيد، عن صالح بن كيسان، عن رجل لم يسمه، عن عقبة بن عامر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قرا هذه الآية على المنبر: واعدوا لهم ما استطعتم من قوة سورة الانفال آية 60، قال: الا إن القوة الرمي ثلاث مرات، الا إن الله سيفتح لكم الارض وستكفون المؤنة فلا يعجزن احدكم ان يلهو باسهمه "، قال ابو عيسى: وقد روى بعضهم هذا الحديث عن اسامة بن زيد، عن صالح بن كيسان، عن عقبة بن عامر، رواه ابو اسامة، وغير واحد، وحديث وكيع اصح، وصالح بن كيسان لم يدرك عقبة بن عامر وقد ادرك ابن عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ رَجُلٍ لَمْ يُسَمِّهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ عَلَى الْمِنْبَرِ: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ سورة الأنفال آية 60، قَالَ: أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، أَلَا إِنَّ اللَّهَ سَيَفْتَحُ لَكُمُ الْأَرْضَ وَسَتُكْفَوْنَ الْمُؤْنَةَ فَلَا يَعْجِزَنَّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَلْهُوَ بِأَسْهُمِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، رَوَاهُ أَبُو أُسَامَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، وَحَدِيثُ وَكِيعٍ أَصَحُّ، وَصَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ لَمْ يُدْرِكْ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ وَقَدْ أَدْرَكَ ابْنَ عُمَرَ.
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر آیت: «وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة»”تم کافروں کے مقابلے کے لیے جتنی قوت فراہم کر سکتے ہو کرو“(الانفال: ۶۰) پڑھی، اور فرمایا: «قوة» سے مراد تیر اندازی ہے۔ آپ نے یہ بات تین بار کہی، سنو عنقریب اللہ تمہیں زمین پر فتح دیدے گا۔ اور تمہیں مستغنی اور بے نیاز کر دے گا۔ تو ایسا ہرگز نہ ہو کہ تم میں سے کوئی بھی (نیزہ بازی اور) تیر اندازی سے عاجز و غافل ہو جائے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بعض نے یہ حدیث اسامہ بن زید سے روایت کی ہے اور اسامہ نے صالح بن کیسان سے روایت کی ہے، ۲- ابواسامہ نے اور کئی لوگوں نے اسے عقبہ بن عامر سے روایت کیا ہے، ۳- وکیع کی حدیث زیادہ صحیح ہے، ۴- صالح بن کیسان کی ملاقات عقبہ بن عامر سے نہیں ہے، ہاں ان کی ملاقات ابن عمر سے ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 52 (1917)، سنن ابی داود/ الجھاد 24 (2514)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 19 (2813) (تحفة الأشراف: 9975)، و مسند احمد (4/157)، وسنن الدارمی/الجھاد 14 (2448) (صحیح) (سند میں ایک راوی مبہم ہے جو دوسروں کی سند میں نہیں ہے، لیکن متابعات کی بنا پر مؤلف کی یہ روایت صحیح لغیرہ ہے)»
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2514
´تیر اندازی کا بیان۔` عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے ہوئے سنا: آپ آیت کریمہ «وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة»”تم ان کے مقابلہ کے لیے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو“(سورۃ الأنفال: ۶۰) پڑھ رہے تھے اور فرما رہے تھے: ”سن لو، قوت تیر اندازی ہی ہے، سن لو قوت تیر اندازی ہی ہے، سن لو قوت تیر اندازی ہی ہے۔“[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2514]
فوائد ومسائل: (رمی) کے معنی ہیں۔ کسی چیز کو پھینک کر مارنا تیر اندزی کا یہ بیان بطور رمز کے ہے، ورنہ مطلوب یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان مسلمان کے لئے رائج الوقت اسلحہ کے استعمال کی تربیت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور چلا کرمارنے والے اسلحے ہی سب سے اہم ترین ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2514
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2813
´اللہ کی راہ میں تیر اندازی کا بیان۔` عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر آیت کریمہ: «وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة»(سورۃ الانفال: ۶۰)”دشمن کے لیے طاقت بھر تیاری کرو“ کو پڑھتے ہوئے سنا: (اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے:)”آگاہ رہو! طاقت کا مطلب تیر اندازی ہی ہے“ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2813]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مسلمان کو کافروں کے مقابلے میں ہر قسم کے اسلحے میں برتر ہونا چاہیے۔
(2)(رمي) کے اصل معنی پھینکنے کے ہیں۔ دور نبوت میں صرف تیر ہی دور سے پھینک کر استعمال کیا جانےوالا ہتھیار تھا اس لیے اس کا ترجمہ تیر اندازی کیا جاتا ہے تاہم اصل لغوی معنی کے لحاظ سے ہر قسم کی رائفل، بندوق، کلاشنکوف، توپ اور میزائل وغیرہ اس میں شامل ہیں۔
(3) مسلمانوں کو اپنے دفاع کے لیے اس قسم کے اسلحے پر خاص توجہ دینی چاہیے جسے دور سے پھینکا جاتا ہے اور اسے پھینکنے کے آلات (راکٹ لانچر اور بمبار طیارے وغیرہ) بھی تیار کرنے چاہییں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2813
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4946
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا، ”جہاں تک تمہارے بس میں ہے، ان کے لیے قوت (طاقت، اسلحہ) تیار کرو، خبردار، قوت، تیر اندازی ہے، خبردار، قوت، تیر اندازی ہے خبردار، قوت، تیر اندازی ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4946]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بہترین اقدامی اور دفاعی اسلحہ تیر اندازی تھا، جس کے ذریعہ دشمن کو نقصان پہنچایا جا سکتا تھا، اس سے معلوم ہوتا ہے، اپنے اپنے دور کے اسلحہ سے بہترین ہتھیار تیار کرنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے، اس کا اصل معنی پھینکنا ہے، اس لیے اس کے تحت ہر قسم کا پھینکنے والا اسلحہ آ جاتا ہے۔