الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
حدیث نمبر: 3057
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، حدثنا إسماعيل بن ابي خالد، عن قيس بن ابي حازم، عن ابي بكر الصديق، انه قال: " يا ايها الناس، إنكم تقرءون هذه الآية يايها الذين آمنوا عليكم انفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم سورة المائدة آية 105، وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن الناس إذا راوا ظالما فلم ياخذوا على يديه اوشك ان يعمهم الله بعقاب منه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه غير واحد، عن إسماعيل بن ابي خالد نحو هذا الحديث مرفوعا، وروى بعضهم عن إسماعيل، عن قيس، عن ابي بكر، قوله: ولم يرفعوه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، أَنَّهُ قَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ تَقْرَءُونَ هَذِهِ الْآيَةَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ سورة المائدة آية 105، وَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا ظَالِمًا فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ مِنْهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ مَرْفُوعًا، وَرَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ إِسْمَاعِيل، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، قَوْلَهُ: وَلَمْ يَرْفَعُوهُ.
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم» ۱؎ اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا بھی ہے کہ جب لوگ ظالم کو (ظلم کرتے ہوئے) دیکھیں پھر بھی اس کے ہاتھ پکڑ نہ لیں (اسے ظلم کرنے سے روک نہ دیں) تو قریب ہے کہ ان پر اللہ کی طرف سے عمومی عذاب آ جائے (اور وہ ان سب کو اپنی گرفت میں لے لے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- کئی ایک نے یہ حدیث اسماعیل بن خالد سے مرفوعاً اسی حدیث کی طرح روایت کی ہے،
۳- بعض لوگوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے بلکہ ابوبکر رضی الله عنہ کے قول کے طور پر اسماعیل سے، اسماعیل نے قیس سے اور قیس نے ابوبکر سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2168 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مسلمانو! تمہارے ذمہ ہے اپنے آپ کو بچانا اور سنبھالنا، جب تم سیدھی راہ پر رہو گے تو تمہیں گمراہ شخص نقصان نہ پہنچا سکے گا (المائدہ: ۱۰۵)۔
۲؎: یعنی اپنے آپ کو بچانے اور سنبھالنے کے لیے ضروری ہے کہ ظالم کو ظلم سے روک دیا جائے ایسا نہ کرنے سے اللہ کی طرف سے عمومی عذاب آنے کا خطرہ ہے پھر وہ سب کو اپنی گرفت میں لے لے گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح مضى برقم (2257)
حدیث نمبر: 3058
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا سعيد بن يعقوب الطالقاني، حدثنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا عتبة بن ابي حكيم، حدثنا عمرو بن جارية اللخمي، عن ابي امية الشعباني، قال: اتيت ابا ثعلبة الخشني، فقلت له: كيف تصنع بهذه الآية؟ قال: اية آية؟ قلت: قوله تعالى:يايها الذين آمنوا عليكم انفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم سورة المائدة آية 105، قال: اما والله لقد سالت عنها خبيرا، سالت عنها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " بل ائتمروا بالمعروف، وتناهوا عن المنكر، حتى إذا رايت شحا مطاعا، وهوى متبعا، ودنيا مؤثرة، وإعجاب كل ذي راي برايه فعليك بخاصة نفسك ودع العوام، فإن من ورائكم اياما الصبر فيهن مثل القبض على الجمر، للعامل فيهن مثل اجر خمسين رجلا يعملون مثل عملكم "، قال عبد الله بن المبارك: وزادني غير عتبة، قيل: يا رسول الله، اجر خمسين منا او منهم؟ قال: بل اجر خمسين منكم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عُتْبَةُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ جَارِيَةَ اللَّخْمِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الشَّعْبَانِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ، فَقُلْتُ لَهُ: كَيْفَ تَصْنَعُ بِهَذِهِ الْآيَةِ؟ قَالَ: أَيَّةُ آيَةٍ؟ قُلْتُ: قَوْلُهُ تَعَالَى:يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ سورة المائدة آية 105، قَالَ: أَمَا وَاللَّهِ لَقَدْ سَأَلْتَ عَنْهَا خَبِيرًا، سَأَلْتُ عَنْهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " بَلِ ائْتَمِرُوا بِالْمَعْرُوفِ، وَتَنَاهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ، حَتَّى إِذَا رَأَيْتَ شُحًّا مُطَاعًا، وَهَوًى مُتَّبَعًا، وَدُنْيَا مُؤْثَرَةً، وَإِعْجَابَ كُلِّ ذِي رَأْيٍ بِرَأْيِهِ فَعَلَيْكَ بِخَاصَّةِ نَفْسِكَ وَدَعِ الْعَوَامَّ، فَإِنَّ مِنْ وَرَائِكُمْ أَيَّامًا الصَّبْرُ فِيهِنَّ مِثْلُ الْقَبْضِ عَلَى الْجَمْرِ، لِلْعَامِلِ فِيهِنَّ مِثْلُ أَجْرِ خَمْسِينَ رَجُلًا يَعْمَلُونَ مِثْلَ عَمَلِكُمْ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: وَزَادَنِي غَيْرُ عُتْبَةَ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَجْرُ خَمْسِينَ مِنَّا أَوْ مِنْهُمْ؟ قَالَ: بَلْ أَجْرُ خَمْسِينَ مِنْكُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابوامیہ شعبانی کہتے ہیں کہ میں نے ابوثعلبہ خشنی رضی الله عنہ کے پاس آ کر پوچھا: اس آیت کے سلسلے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا: کون سی آیت؟ میں نے کہا: آیت یہ ہے: «يا أيها الذين آمنوا عليكم أنفسكم لا يضركم من ضل إذا اهتديتم» انہوں نے کہا: آگاہ رہو! قسم اللہ کی تم نے اس کے متعلق ایک واقف کار سے پوچھا ہے، میں نے خود اس آیت کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا، آپ نے فرمایا: بلکہ تم اچھی باتوں کا حکم کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو، یہاں تک کہ جب تم دیکھو کہ لوگ بخالت کے راستے پر چل پڑے ہیں، خواہشات نفس کے پیرو ہو گئے ہیں، دنیا کو آخرت پر حاصل دی جا رہی ہے اور ہر عقل و رائے والا بس اپنی ہی عقل و رائے پر مست اور مگن ہے تو تم خود اپنی فکر میں لگ جاؤ، اپنے آپ کو سنبھالو، بچاؤ اور عوام کو چھوڑ دو، کیونکہ تمہارے پیچھے ایسے دن آنے والے ہیں کہ اس وقت صبر کرنا (کسی بات پر جمے رہنا) ایسا مشکل کام ہو گا جتنا کہ انگارے کو مٹھی میں پکڑے رہنا، اس زمانہ میں کتاب و سنت پر عمل کرنے والے کو تم جیسے پچاس کام کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا۔ (اس حدیث کے راوی) عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: عتبہ کے سوا اور کئی راویوں نے مجھ سے اور زیادہ بیان کیا ہے۔ کہا گیا: اللہ کے رسول! (ابھی آپ نے جو بتایا ہے کہ پچاس عمل صالح کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا تو) یہ پچاس عمل صالح کرنے والے ہم میں سے مراد ہیں یا اس زمانہ کے لوگوں میں سے مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ اس زمانہ کے، تم میں سے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الملاحم 17 (4341)، سنن ابن ماجہ/الفتن 21 (4014) (تحفة الأشراف: 11881) (ضعیف) (سند میں عمرو بن جاریہ اور ابو امیہ شعبانی لین الحدیث راوی ہیں، مگر اس کے بعض ٹکڑے صحیح ہیں، دیکھیے سابقہ حدیث)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن بعضه صحيح فانظر الحديث المتقدم (2361) نقد الكتاني (27 / 27)، المشكاة (5144)، //، صحيح أبي داود - باختصار السند (1844 - 2375) //، الصحيحة (594) // ضعيف الجامع الصغير (2344) //
حدیث نمبر: 3059
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن احمد بن ابي شعيب الحراني، حدثنا محمد بن سلمة الحراني، حدثنا محمد بن إسحاق، عن ابي النضر، عن باذان مولى ام هانئ، عن ابن عباس، عن تميم الداري، في هذه الآية " يايها الذين آمنوا شهادة بينكم إذا حضر احدكم الموت سورة المائدة آية 106، قال: برئ منها الناس غيري وغير عدي بن بداء، وكانا نصرانيين يختلفان إلى الشام قبل الإسلام، فاتيا الشام لتجارتهما وقدم عليهما مولى لبني سهم، يقال له: بديل بن ابي مريم بتجارة، ومعه جام من فضة يريد به الملك، وهو عظم تجارته، فمرض فاوصى إليهما وامرهما ان يبلغا ما ترك اهله، قال تميم: فلما مات اخذنا ذلك الجام فبعناه بالف درهم، ثم اقتسمناه انا وعدي بن بداء، فلما قدمنا إلى اهله دفعنا إليهم ما كان معنا، وفقدوا الجام فسالونا عنه، فقلنا: ما ترك غير هذا وما دفع إلينا غيره، قال تميم: فلما اسلمت بعد قدوم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة تاثمت من ذلك فاتيت اهله فاخبرتهم الخبر واديت إليهم خمس مائة درهم واخبرتهم ان عند صاحبي مثلها، فاتوا به رسول الله صلى الله عليه وسلم فسالهم البينة، فلم يجدوا،فامرهم ان يستحلفوه بما يعظم به على اهل دينه فحلف، فانزل الله يايها الذين آمنوا شهادة بينكم إذا حضر احدكم الموت إلى قوله او يخافوا ان ترد ايمان بعد ايمانهم سورة المائدة آية 106 ـ 108، فقام عمرو بن العاص ورجل آخر فحلفا، فنزعت الخمس مائة درهم من عدي بن بداء "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وليس إسناده بصحيح، وابو النضر الذي روى عنه محمد بن إسحاق هذا الحديث هو عندي محمد بن السائب الكلبي، يكنى ابا النضر، وقد تركه اهل العلم بالحديث وهو صاحب التفسير، سمعت محمد بن إسماعيل، يقول: محمد بن السائب الكلبي يكنى ابا النضر، قال ابو عيسى: ولا نعرف لسالم ابي النضر المدني رواية عن ابي صالح مولى ام هانئ وقد روي عن ابن عباس شيء من هذا على الاختصار من غير هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي شُعَيْبٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ بَاذَانَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، فِي هَذِهِ الْآيَةِ " يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ سورة المائدة آية 106، قَالَ: بَرِئَ مِنْهَا النَّاسُ غَيْرِي وَغَيْرَ عَدِيَّ بْنِ بَدَّاءٍ، وَكَانَا نَصْرَانِيَّيْنِ يَخْتَلِفَانِ إِلَى الشَّامِ قَبْلَ الْإِسْلَامِ، فَأَتَيَا الشَّامَ لِتِجَارَتِهِمَا وَقَدِمَ عَلَيْهِمَا مَوْلًى لِبَنِي سَهْمٍ، يُقَالُ لَهُ: بُدَيْلُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ بِتِجَارَةٍ، وَمَعَهُ جَامٌ مِنْ فِضَّةٍ يُرِيدُ بِهِ الْمَلِكَ، وَهُوَ عُظْمُ تِجَارَتِهِ، فَمَرِضَ فَأَوْصَى إِلَيْهِمَا وَأَمَرَهُمَا أَنْ يُبَلِّغَا مَا تَرَكَ أَهْلَهُ، قَالَ تَمِيمٌ: فَلَمَّا مَاتَ أَخَذْنَا ذَلِكَ الْجَامَ فَبِعْنَاهُ بِأَلْفِ دِرْهَمٍ، ثُمَّ اقْتَسَمْنَاهُ أَنَا وَعَدِيُّ بْنُ بَدَّاءٍ، فَلَمَّا قَدِمْنَا إِلَى أَهْلِهِ دَفَعْنَا إِلَيْهِمْ مَا كَانَ مَعَنَا، وَفَقَدُوا الْجَامَ فَسَأَلُونَا عَنْهُ، فَقُلْنَا: مَا تَرَكَ غَيْرَ هَذَا وَمَا دَفَعَ إِلَيْنَا غَيْرَهُ، قَالَ تَمِيمٌ: فَلَمَّا أَسْلَمْتُ بَعْدَ قُدُومِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ تَأَثَّمْتُ مِنْ ذَلِكَ فَأَتَيْتُ أَهْلَهُ فَأَخْبَرْتُهُمُ الْخَبَرَ وَأَدَّيْتُ إِلَيْهِمْ خَمْسَ مِائَةِ دِرْهَمٍ وَأَخْبَرْتُهُمْ أَنَّ عِنْدَ صَاحِبِي مِثْلَهَا، فَأَتَوْا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُمُ الْبَيِّنَةَ، فَلَمْ يَجِدُوا،فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَسْتَحْلِفُوهُ بِمَا يُعْظَمُ بِهِ عَلَى أَهْلِ دِينِهِ فَحَلَفَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِلَى قَوْلِهِ أَوْ يَخَافُوا أَنْ تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ سورة المائدة آية 106 ـ 108، فَقَامَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ وَرَجُلٌ آخَرُ فَحَلَفَا، فَنُزِعَتِ الْخَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ مِنْ عَدِيِّ بْنِ بَدَّاءٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِصَحِيحٍ، وَأَبُو النَّضْرِ الَّذِي رَوَى عَنْهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق هَذَا الْحَدِيثَ هُوَ عِنْدِي مُحَمَّدُ بْنُ السَّائِبِ الْكَلْبِيُّ، يُكْنَى أَبَا النَّضْرِ، وَقَدْ تَرَكَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ بِالْحَدِيثِ وَهُوَ صَاحِبُ التَّفْسِيرِ، سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، يَقُولُ: مُحَمَّدُ بْنُ السَّائِبِ الْكَلْبِيُّ يُكْنَى أَبَا النَّضْرِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَا نَعْرِفُ لِسَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ الْمَدَنِيِّ رِوَايَةً عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ شَيْءٌ مِنْ هَذَا عَلَى الِاخْتِصَارِ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
تمیم داری رضی الله عنہ سے روایت ہے، وہ اس آیت «يا أيها الذين آمنوا شهادة بينكم إذا حضر أحدكم الموت» ۱؎ کے سلسلے میں کہتے ہیں: میرے اور عدی بن بداء کے سواء سبھی لوگ اس آیت کی زد میں آنے سے محفوظ ہیں، ہم دونوں نصرانی تھے، اسلام سے پہلے شام آتے جاتے تھے تو ہم دونوں اپنی تجارت کی غرض سے شام گئے، ہمارے پاس بنی ہاشم کا ایک غلام بھی پہنچا، اسے بدیل بن ابی مریم کہا جاتا تھا، وہ بھی تجارت کی غرض سے آیا تھا، اس کے پاس چاندی کا ایک پیالہ تھا جسے وہ بادشاہ کے ہاتھ بیچ کر اچھے پیسے حاصل کرنا چاہتا تھا، یہی اس کی تجارت کے سامان میں سب سے بڑی چیز تھی۔ (اتفاق ایسا ہوا کہ) وہ بیمار پڑ گیا، تو اس نے ہم دونوں کو وصیت کی اور ہم سے عرض کیا کہ وہ جو کچھ چھوڑ کر مرے وہ اسے اس کے گھر والوں کو پہنچا دیں۔ جب وہ مر گیا تو ہم نے یہ پیالہ لے لیا اور ہزار درہم میں اسے بیچ دیا، پھر ہم نے اور عدی بن بداء نے اسے آپس میں تقسیم کر لیا، پھر ہم اس کے بیوی بچوں کے پاس آئے اور جو کچھ ہمارے پاس تھا وہ ہم نے انہیں واپس دے دیا، جب انہیں چاندی کا جام نہ ملا تو انہوں نے ہم سے اس کے متعلق پوچھا، ہم نے کہا کہ جو ہم نے آپ کو لا کر دیا اس کے سوا اس نے ہمارے پاس کچھ نہ چھوڑا تھا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ جانے کے بعد میں نے اسلام قبول کر لیا، تو میں اس گناہ سے ڈر گیا، چنانچہ میں اس کے گھر والوں کے پاس آیا اور پیالہ کی صحیح خبر انہیں دے دی، اور اپنے حصہ کے پانچ سو درہم انہیں ادا کر دئیے، اور انہیں یہ بھی بتایا کہ میری طرح (عدی بن بداء) کے پاس بھی پیالہ کی قیمت کے پانچ سو درہم ہیں پھر وہ لوگ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پکڑ کر لائے، آپ نے ان سے ثبوت مانگا تو وہ لوگ کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے۔ پھر آپ نے ان لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس سے اس چیز کی قسم لیں جسے اس کے اہل دین اہم اور عظیم تر سمجھتے ہوں تو اس نے قسم کھا لی۔ اس پر آیت «يا أيها الذين آمنوا شهادة بينكم إذا حضر أحدكم الموت» سے لے کر «أو يخافوا أن ترد أيمان بعد أيمانهم» ۲؎ تک نازل ہوئی۔ تو عمرو بن العاص رضی الله عنہ اور (بدیل کے وارثوں میں سے) ایک اور شخص کھڑے ہوئے اور انہوں نے قسم کھائی کہ عدی جھوٹا ہے، پھر اس سے پانچ سو درہم چھین لیے گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے، اور اس کی سند صحیح نہیں ہے،
۲- ابوالنضر جن سے محمد بن اسحاق نے یہ حدیث روایت کی ہے، وہ میرے نزدیک محمد بن سائب کلبی ہیں، ابوالنضر ان کی کنیت ہے، محدثین نے ان سے روایت کرنی چھوڑ دی ہے، وہ صاحب تفسیر ہیں (یعنی مفسرین میں جو کلبی مشہور ہیں وہ یہی شخص ہیں) میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا: محمد بن سائب کلبی کی کنیت ابوالنضر ہے،
۳- اور ہم سالم ابوالنضر مدینی کی کوئی روایت ام ہانی کے آزاد کردہ غلام صالح سے نہیں جانتے۔ اس حدیث کا کچھ حصہ مختصراً کسی اور سند سے ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے (جو آگے آ رہا ہے)۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: لم یذکرہ في مظانہ) (ضعیف الإسناد جداً) (سند میں باذان مولی ام ہانی سخت ضعیف راوی ہے)»

وضاحت:
۱؎: مسلمانو! جب تم میں سے کسی کے مرنے کا وقت آن پہنچے تو وصیت کرنے کے وقت تم مسلمانوں میں سے دو عادل گواہ موجود ہونے چاہیں۔ (مائدہ: ۱۰۷)
۲؎: اے ایمان والو! تمہارے آپس میں کے (مسلمانوں یا عزیزوں میں سے) معتبر شخصوں کا گواہ ہونا مناسب ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو وہ دو شخص ایسے ہوں کہ دیندار ہوں خواہ تم میں سے ہوں یا اور مذہب کے لوگوں میں سے دو شخص ہوں، اگر تم کہیں سفر میں گئے ہو اور موت آ جائے اگر تم کو شبہ ہو تو ان دونوں کو بعد نماز (عصر) کے بعد کھڑا کر لو پھر دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ ہم اس قسم کے عوض کوئی نفع نہیں لینا چاہیئے اگرچہ کوئی رشتہ دار بھی ہو اور نہ ہی ہم اللہ تعالیٰ کی گواہی کو ہم پوشیدہ رکھیں گے، اگر ہم ایسا کریں، تو ہم اس حالت میں سخت گنہگار ہوں گے، (یوں قسم کھا کر وہ گواہی دیں) پھر اگر اس کی اطلاع ہو کہ وہ دونوں گواہ کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان لوگوں میں سے کہ جن کے مقابلے میں گناہ کا ارتکاب ہوا تھا اور دو شخص جو سب میں قریب تر ہیں جہاں وہ دونوں کھڑے ہوئے تھے یہ دونوں کھڑے ہوں پھر دونوں اللہ کی قسم کھائیں کہ بالیقین ہماری قسم ان دونوں کی اس قسم سے زیادہ راست ہے اور ہم نے ذرا تجاوز نہیں کیا اگر ہم بھی ایسا کریں تو ہم اس حالت میں سخت ظالم ہوں گے، یہ قریب ذریعہ ہے اس امر کا کہ وہ لوگ واقعہ کو ٹھیک طور پر ظاہر کریں یا اس بات سے ڈر جائیں کہ ان سے قسمیں لینے کے بعد قسمیں الٹی پڑ جائیں گی، اور اللہ سے، ڈرتے رہو اور اس کا حکم کان لگا کر سنو! اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو (یعنی فاسقوں اور مجرموں کو) ہدایت کے راستے میں نہیں لگایا کرتا (المائدہ:، ۱۰۶ ۱۰۸)۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد جدا
حدیث نمبر: 3060
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا يحيى بن آدم، عن ابن ابي زائدة، عن محمد بن ابي القاسم، عن عبد الملك بن سعيد، عن ابيه، عن ابن عباس، قال: " خرج رجل من بني سهم مع تميم الداري، وعدي بن بداء فمات السهمي بارض ليس فيها مسلم، فلما قدما بتركته فقدوا جاما من فضة مخوصا بالذهب، فاحلفهما رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم وجد الجام بمكة، فقيل: اشتريناه من عدي، وتميم، فقام رجلان من اولياء السهمي، فحلفا بالله لشهادتنا احق من شهادتهما وان الجام لصاحبهم، قال: وفيهم نزلت يايها الذين آمنوا شهادة بينكم سورة المائدة آية 106 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب وهو حديث ابن ابي زائدة.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنِ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْقَاسِمِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَهْمٍ مَعَ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ، وَعَدِيِّ بْنِ بَدَّاءٍ فَمَاتَ السَّهْمِيُّ بِأَرْضٍ لَيْسَ فِيهَا مُسْلِمٌ، فَلَمَّا قَدِمَا بِتَرِكَتِهِ فَقَدُوا جَامًا مِنْ فِضَّةٍ مُخَوَّصًا بِالذَّهَبِ، فَأَحْلَفَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وُجِدَ الْجَامُ بِمَكَّةَ، فَقِيلَ: اشْتَرَيْنَاهُ مِنْ عَدِيٍّ، وَتَمِيمٍ، فَقَامَ رَجُلَانِ مِنْ أَوْلِيَاءِ السَّهْمِيِّ، فَحَلَفَا بِاللَّهِ لَشَهَادَتُنَا أَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا وَأَنَّ الْجَامَ لِصَاحِبِهِمْ، قَالَ: وَفِيهِمْ نَزَلَتْ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ سورة المائدة آية 106 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ وَهُوَ حَدِيثُ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ بنی سہم کا ایک شخص، تمیم داری اور عدی بن بداء کے ساتھ (سفر پر) نکلا اور یہ سہمی (جو تمیم داری اور عدی کا ہم سفر تھا) ایک ایسی سر زمین میں انتقال کر گیا جہاں کوئی مسلمان نہ تھا، جب اس کے دونوں ساتھی اس کا ترکہ لے کر آئے تو اس کے گھر والے (ورثاء) کو اس کے متروکہ سامان میں چاندی کا وہ پیالہ نہ ملا جس پر سونے کا جڑاؤ تھا، چنانچہ (جب مقدمہ پیش ہوا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے قسم کھلائی۔ (اور انہوں نے قسم کھا لی کہ ہمیں پیالہ نہیں ملا تھا) لیکن وہ پیالہ سہمی کے گھر والوں کو مکہ میں کسی اور کے پاس مل گیا، انہوں نے بتایا کہ ہم نے تمیم اور عدی سے اسے خریدا ہے۔ تب سہمی کے وارثین میں سے دو شخص کھڑے ہوئے۔ اور انہوں نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ ہماری شہادت ان دونوں کی گواہی سے زیادہ سچی ہے۔ اور پیالہ ہمارے ہی آدمی کا ہے۔ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: انہیں لوگوں کے بارے میں «يا أيها الذين آمنوا شهادة بينكم» والی آیت نازل ہوئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے، یہ ابن ابی زائدہ کی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوصایا 35 (2780)، سنن ابی داود/ الأقضیة 19 (3606) (تحفة الأشراف: 5551) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 3061
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن قزعة البصري، حدثنا سفيان بن حبيب، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن خلاس بن عمرو، عن عمار بن ياسر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انزلت المائدة من السماء خبزا ولحما، وامروا ان لا يخونوا ولا يدخروا لغد، فخانوا وادخروا ورفعوا لغد فمسخوا قردة وخنازير "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، قد رواه ابو عاصم وغير واحد عن سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة، عن خلاس، عن عمار بن ياسر موقوفا، ولا نعرفه مرفوعا إلا من حديث الحسن بن قزعة.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ خِلَاسِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُنْزِلَتْ الْمَائِدَةُ مِنَ السَّمَاءِ خُبْزًا وَلَحْمًا، وَأُمِرُوا أَنْ لَا يَخُونُوا وَلَا يَدَّخِرُوا لِغَدٍ، فَخَانُوا وَادَّخَرُوا وَرَفَعُوا لِغَدٍ فَمُسِخُوا قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، قَدْ رَوَاهُ أَبُو عَاصِمٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَن سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ خِلَاسٍ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ مَوْقُوفًا، وَلَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحَسَنِ بْنِ قَزَعَةَ.
عمار بن یاسر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (عیسیٰ علیہ السلام کی قوم پر) آسمان سے روٹی اور گوشت کا دستر خوان اتارا گیا اور حکم دیا گیا کہ خیانت نہ کریں نہ اگلے دن کے لیے ذخیرہ کریں، مگر انہوں نے خیانت بھی کی اور جمع بھی کیا اور اگلے دن کے لیے اٹھا بھی رکھا تو ان کے چہرے مسخ کر کے بندر اور سور جیسے بنا دئیے گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس حدیث کو ابوعاصم اور کئی دوسرے لوگوں بطریق: «سعيد بن أبي عروبة عن قتادة عن خلاس عن عمار ابن ياسر» موقوفاً روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10348) (ضعیف الإسناد) (قتادہ مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے)»

قال الشيخ الألباني: (حديث عمار) ضعيف الإسناد، (حديث ابن أبي عروبة) ضعيف أيضا
حدیث نمبر: 3061M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا سفيان بن حبيب، عن سعيد بن ابي عروبة نحوه ولم يرفعه، وهذا اصح من حديثا الحسن بن قزعة، ولا نعلم للحديث المرفوع اصلا.(مرفوع) حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِا الْحَسَنِ بْنِ قَزَعَةَ، وَلَا نَعْلَمُ لِلْحَدِيثِ الْمَرْفُوعِ أَصْلًا.
‏‏‏‏ اور ہم اسے صرف حسن بن قزعہ کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں۔ سفیان نے اس سند سے سعید بن ابی عروبہ سے اسی طرح روایت کی ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔ اور یہ حسن قزعہ کی روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ اور ہمیں مرفوع حدیث کی کوئی اصل معلوم نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: (حديث عمار) ضعيف الإسناد، (حديث ابن أبي عروبة) ضعيف أيضا
حدیث نمبر: 3062
Save to word اعراب
(قدسي) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن طاوس، عن ابي هريرة، قال: " يلقى عيسى حجته ولقاه الله في قوله: وإذ قال الله يا عيسى ابن مريم اانت قلت للناس اتخذوني وامي إلهين من دون الله سورة المائدة آية 116، قال ابو هريرة: عن النبي صلى الله عليه وسلم، فلقاه الله سبحانك ما يكون لي ان اقول ما ليس لي بحق سورة المائدة آية 116 الآية كلها "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(قدسي) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " يُلَقَّى عِيسَى حُجَّتَهُ وَلَقَّاهُ اللَّهُ فِي قَوْلِهِ: وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ سورة المائدة آية 116، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَقَّاهُ اللَّهُ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ سورة المائدة آية 116 الْآيَةَ كُلَّهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام اپنا جواب القاء کیے جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کو اپنا جواب اپنے اس قول کے جواب میں القاء کرے گا «وإذ قال الله يا عيسى ابن مريم أأنت قلت للناس اتخذوني وأمي إلهين من دون الله» جب اللہ تعالیٰ (قیامت میں) کہے گا اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو اللہ کو چھوڑ کر؟ (المائدہ: ۱۱۶)، ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اس کا جواب یہ القاء کرے گا «سبحانك ما يكون لي أن أقول ما ليس لي بحق» پاک ہے تیری ذات: میں بھلا وہ بات کیسے کہہ سکتا ہوں جس کے کہنے کا مجھے کوئی حق نہیں ہے (المائدہ: ۱۱۶)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 13531) (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
حدیث نمبر: 3063
Save to word اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الله بن وهب، عن حيي، عن ابي عبد الرحمن الحبلي، عن عبد الله بن عمرو، قال: " آخر سورة انزلت المائدة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وروي عن ابن عباس، انه قال: " آخر سورة انزلت " إذا جاء نصر الله والفتح ".(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ حُيَيٍّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: " آخِرُ سُورَةٍ أُنْزِلَتْ الْمَائِدَةُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَرُوِي عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: " آخِرُ سُورَةٍ أُنْزِلَتْ " إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ".
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورت سورۃ المائدہ (اور سورۃ الفتح) ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- اور ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: آخری سورۃ جو نازل ہوئی ہے وہ «إذا جاء نصر الله والفتح» ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 8862) (حسن الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: اور صحیح بخاری میں براء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ آخری آیت جو نازل ہوئی وہ ہے «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة» (النساء: ۱۷۶) ان سب اقوال کے درمیان اس طرح تطبیق دی جاتی ہے کہ ہر ایک نے اپنی معلومات کے مطابق خبر دی ہے، اس بابت کوئی مرفوع روایت تو ہے نہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
7. باب وَمِنْ سُورَةِ الأَنْعَامِ
7. باب: سورۃ الانعام سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3064
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا معاوية بن هشام، عن سفيان، عن ابي إسحاق، عن ناجية بن كعب، عن علي، ان ابا جهل، قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إنا لا نكذبك ولكن نكذب بما جئت به، فانزل الله تعالى " فإنهم لا يكذبونك ولكن الظالمين بآيات الله يجحدون سورة الانعام آية 33 ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّ أَبَا جَهْلٍ، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا لَا نُكَذِّبُكَ وَلَكِنْ نُكَذِّبُ بِمَا جِئْتَ بِهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى " فَإِنَّهُمْ لا يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ سورة الأنعام آية 33 ".
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ابوجہل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ہم آپ کو نہیں جھٹلاتے ہیں، بلکہ آپ جو (دین قرآن) لے کر آئے ہیں اسے جھٹلاتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ نے آیت «فإنهم لا يكذبونك ولكن الظالمين بآيات الله يجحدون» وہ لوگ تجھ کو نہیں جھٹلاتے ہیں بلکہ ظالم لوگ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں (الانعام: ۳۳)۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10288) (ضعیف الإسناد) (محمد بن اسحاق مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز معاویہ بن ہشام سے اوہام صادر ہوئے ہیں)»

قال الشيخ الألباني: (حديث علي) ضعيف الإسناد، (حديث ناجية) ضعيف أيضا
حدیث نمبر: 3064M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن ابي إسحاق، عن ناجية، ان ابا جهل، قال للنبي صلى الله عليه وسلم، فذكر نحوه ولم يذكر فيه عن علي وهذا اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ نَاجِيَةَ، أَنَّ أَبَا جَهْلٍ، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَلِيٍّ وَهَذَا أَصَحُّ.
‏‏‏‏ امام ترمذی کہتے ہیں:
اس سند سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے اور سفیان سے، سفیان نے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے ناجیہ سے روایت کی ہے کہ ابوجہل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، پھر مذکورہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی، اور اس حدیث میں علی رضی الله عنہ سے روایت کا ذکر نہیں کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
اور یہ (مرسل) روایت زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف)»

قال الشيخ الألباني: (حديث علي) ضعيف الإسناد، (حديث ناجية) ضعيف أيضا

Previous    10    11    12    13    14    15    16    17    18    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.