(مرفوع) حدثنا حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن ليث بن سعد، حدثني عامر بن يحيى، عن ابي عبد الرحمن المعافري ثم الحبلي , قال: سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص , يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله سيخلص رجلا من امتي على رءوس الخلائق يوم القيامة فينشر عليه تسعة وتسعين سجلا كل سجل مثل مد البصر، ثم يقول: اتنكر من هذا شيئا؟ اظلمك كتبتي الحافظون؟ فيقول: لا يا رب، فيقول: افلك عذر؟ فيقول: لا يا رب، فيقول: بلى، إن لك عندنا حسنة فإنه لا ظلم عليك اليوم، فتخرج بطاقة فيها اشهد ان لا إله إلا الله واشهد ان محمدا عبده ورسوله، فيقول: احضر وزنك، فيقول: يا رب ما هذه البطاقة مع هذه السجلات؟ فقال: إنك لا تظلم، قال: فتوضع السجلات في كفة والبطاقة في كفة، فطاشت السجلات وثقلت البطاقة، فلا يثقل مع اسم الله شيء " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن عامر بن يحيى بهذا الإسناد نحوه، بمعناه والبطاقة هي القطعة.(مرفوع) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَعَافِرِيِّ ثُمَّ الْحُبُلِيّ , قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ سَيُخَلِّصُ رَجُلًا مِنْ أُمَّتِي عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَنْشُرُ عَلَيْهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ سِجِلًّا كُلُّ سِجِلٍّ مِثْلُ مَدِّ الْبَصَرِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَتُنْكِرُ مِنْ هَذَا شَيْئًا؟ أَظَلَمَكَ كَتَبَتِي الْحَافِظُونَ؟ فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: أَفَلَكَ عُذْرٌ؟ فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: بَلَى، إِنَّ لَكَ عِنْدَنَا حَسَنَةً فَإِنَّهُ لَا ظُلْمَ عَلَيْكَ الْيَوْمَ، فَتَخْرُجُ بِطَاقَةٌ فِيهَا أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فَيَقُولُ: احْضُرْ وَزْنَكَ، فَيَقُولُ: يَا رَبِّ مَا هَذِهِ الْبِطَاقَةُ مَعَ هَذِهِ السِّجِلَّاتِ؟ فَقَالَ: إِنَّكَ لَا تُظْلَمُ، قَالَ: فَتُوضَعُ السِّجِلَّاتُ فِي كَفَّةٍ وَالْبِطَاقَةُ فِي كَفَّةٍ، فَطَاشَتِ السِّجِلَّاتُ وَثَقُلَتِ الْبِطَاقَةُ، فَلَا يَثْقُلُ مَعَ اسْمِ اللَّهِ شَيْءٌ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ يَحْيَى بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، بِمَعْنَاهُ وَالْبِطَاقَةُ هِيَ الْقِطْعَةُ.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ قیامت کے دن میری امت کے ایک شخص کو چھانٹ کر نکالے گا اور سارے لوگوں کے سامنے لائے گا اور اس کے سامنے (اس کے گناہوں کے) ننانوے دفتر پھیلائے جائیں گے، ہر دفتر حد نگاہ تک ہو گا، پھر اللہ عزوجل پوچھے گا: کیا تو اس میں سے کسی چیز کا انکار کرتا ہے؟ کیا تم پر میرے محافظ کاتبوں نے ظلم کیا ہے؟ وہ کہے گا: نہیں اے میرے رب! پھر اللہ کہے گا: کیا تیرے پاس کوئی عذر ہے؟ تو وہ کہے گا: نہیں، اے میرے رب! اللہ کہے گا (کوئی بات نہیں) تیری ایک نیکی میرے پاس ہے۔ آج کے دن تجھ پر کوئی ظلم (و زیادتی) نہ ہو گی، پھر ایک پرچہ نکالا جائے گا جس پر «أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله»”میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں“ لکھا ہو گا۔ اللہ فرمائے گا: جاؤ اپنے اعمال کے وزن کے موقع پر (کانٹے پر) موجود رہو، وہ کہے گا: اے میرے رب! ان دفتروں کے سامنے یہ پرچہ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اللہ فرمائے گا: تمہارے ساتھ زیادتی نہ ہو گی۔ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: پھر وہ تمام دفتر (رجسٹر) ایک پلڑے میں رکھ دیئے جائیں گے اور وہ پرچہ دوسرے پلڑے میں، پھر وہ سارے دفتر اٹھ جائیں گے، اور پرچہ بھاری ہو گا۔ (اور سچی بات یہ ہے کہ) اللہ کے نام کے ساتھ (یعنی اس کے مقابلہ میں) جب کوئی چیز تولی جائے گی، تو وہ چیز اس سے بھاری ثابت نہیں ہو سکتی“۔
(مرفوع) حدثنا الحسين بن حريث ابو عمار، حدثنا الفضل بن موسى، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " تفرقت اليهود على إحدى وسبعين او اثنتين وسبعين فرقة والنصارى مثل ذلك، وتفترق امتي على ثلاث وسبعين فرقة " , وفي الباب عن سعد، وعبد الله بن عمرو، وعوف بن مالك , قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " تَفَرَّقَتِ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ أَوِ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً وَالنَّصَارَى مِثْلَ ذَلِكَ، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً " , وفي الباب عن سَعْدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَعَوْفِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود اکہتر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور نصاریٰ بھی اسی طرح بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سعد، عبداللہ بن عمرو، اور عوف بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: بعض احادیث میں یہ آیا ہے کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، ان میں سے بہتر جہنمی ہوں گے، صرف ایک فرقہ جنتی ہو گا، امت کے یہ فرقے کون ہیں؟ صاحب تحفہ الأحوذی نے اس کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ فرق مذمومہ سے فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے فرقے مراد نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد وہ فرقے ہیں جو اہل حق سے اصول میں اختلاف رکھتے ہیں، مثلاً توحید، تقدیر، نبوت کی شرطیں اور موالات صحابہ وغیرہ، کیونکہ یہ ایسے مسائل ہیں جن میں اختلاف کرنے والوں نے ایک دوسرے کی تکفیر کی ہے جب کہ فروعی مسائل میں اختلاف کرنے والے ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کرتے، جنتی فرقہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو کتاب وسنت پر قائم رہنے والے اور صحابہ کرام سے محبت کے ساتھ ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود الحفري، عن سفيان الثوري، عن عبد الرحمن بن زياد بن انعم الافريقي، عن عبد الله بن يزيد، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لياتين على امتي ما اتى على بني إسرائيل، حذو النعل بالنعل حتى إن كان منهم من اتى امه علانية لكان في امتي من يصنع ذلك، وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة، وتفترق امتي على ثلاث وسبعين ملة كلهم في النار إلا ملة واحدة، قالوا: ومن هي يا رسول الله؟ قال: ما انا عليه واصحابي " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب مفسر، لا نعرفه مثل هذا إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ بْنِ أَنْعَمُ الْأَفْرِيقِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ، وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً، قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مُفَسَّرٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے ساتھ ہو بہو وہی صورت حال پیش آئے گی جو بنی اسرائیل کے ساتھ پیش آ چکی ہے، (یعنی مماثلت میں دونوں برابر ہوں گے) یہاں تک کہ ان میں سے کسی نے اگر اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ زنا کیا ہو گا تو میری امت میں بھی ایسا شخص ہو گا جو اس فعل شنیع کا مرتکب ہو گا، بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، اور ایک فرقہ کو چھوڑ کر باقی سبھی جہنم میں جائیں گے، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی جماعت ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ”یہ وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے نقش قدم پر ہوں گے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث جس میں ابوہریرہ رضی الله عنہ کے حدیث کے مقابلہ میں کچھ زیادہ وضاحت ہے حسن غریب ہے۔ ہم اسے اس طرح صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو تاریکی میں پیدا کیا پھر ان پر اپنا نور ڈالا (یعنی اپنے نور کا پر تو) تو جس پر یہ نور پڑ گیا وہ ہدایت یاب ہو گیا اور جس پر نور نہ پڑا (تجاوز کر گیا) تو وہ گمراہ ہو گیا، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ اللہ کے علم پر (تقدیر کا) قلم خشک ہو چکا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: لم یذکرہ المزي)، و مسند احمد (2/176، 197) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ہدایت و گمراہی کی پیشگی تحریر اللہ کے علم کے مطابق ازل میں لکھی جا چکی ہے، اس میں کسی قسم کا ردوبدل نہیں ہو سکتا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (101)، الصحيحة (1076)، الظلال (241 - 244)
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو احمد، حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، عن معاذ بن جبل، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اتدري ما حق الله على العباد؟ " قلت: الله ورسوله اعلم، قال: " فإن حقه عليهم ان يعبدوه ولا يشركوا به شيئا "، قال: " فتدري ما حقهم عليه إذا فعلوا ذلك؟ " قلت: الله ورسوله اعلم، قال: " ان لا يعذبهم " , هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن معاذ بن جبل.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟ " قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّ حَقَّهُ عَلَيْهِمْ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا "، قَالَ: " فَتَدْرِي مَا حَقُّهُمْ عَلَيْهِ إِذَا فَعَلَوْا ذَلِكَ؟ " قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ " , هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ.
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ بندوں پر اللہ کا حق کیا ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”اس کا حق بندوں پر یہ ہے کہ بندے اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں“۔ (پھر) آپ نے کہا: ”کیا تم یہ بھی جانتے ہو کہ جب لوگ ایسا کریں تو اللہ پر ان کا کیا حق ہے؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کا حق اللہ پر یہ ہے کہ وہ انہیں عذاب نہ دے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث متعدد سندوں سے معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے مروی ہے۔
ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس جبرائیل (علیہ السلام) آئے اور مجھے بشارت دی کہ جو شخص اس حال میں مر گیا کہ اس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا تو وہ جنت میں جائے گا“، میں نے کہا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں“، (اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو)۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو الدرداء سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاستقراض 3 (2388)، و بدء الخلق 6 (3222)، والاستئذان 30 (6268)، والرقاق 13 (6443)، و 14 (6444)، والتوحید 33 (7487)، صحیح مسلم/الإیمان 40 (94)، والزکاة 9 (94/32) (تحفة الأشراف: 11915)، و مسند احمد (5/159) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس کی صورت یہ ہو گی کہ وہ زنا اور چوری کی اپنی سزا کاٹ کر اپنے موحد ہونے کے صلہ میں لامحالہ جنت میں جائے گا، یا ممکن ہے رب العالمین اپنی رحمت سے اسے معاف کر دے۔