(مرفوع) حدثنا سويد، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا سعيد بن يزيد، عن ابي السمح، عن ابن حجيرة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن الحميم ليصب على رءوسهم، فينفذ الحميم حتى يخلص إلى جوفه، فيسلت ما في جوفه حتى يمرق من قدميه، وهو الصهر، ثم يعاد كما كان " , وسعيد بن يزيد يكنى: ابا شجاع وهو مصري، وقد روى عنه الليث بن سعد , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، وابن حجيرة هو عبد الرحمن بن حجيرة المصري.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي السَّمْحِ، عَنْ ابْنِ حُجَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ الْحَمِيمَ لَيُصَبُّ عَلَى رُءُوسِهِمْ، فَيَنْفُذُ الْحَمِيمُ حَتَّى يَخْلُصَ إِلَى جَوْفِهِ، فَيَسْلِتُ مَا فِي جَوْفِهِ حَتَّى يَمْرُقَ مِنْ قَدَمَيْهِ، وَهُوَ الصَّهْرُ، ثُمَّ يُعَادُ كَمَا كَانَ " , وَسَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ يُكْنَى: أَبَا شُجَاعٍ وَهُوَ مِصْرِيٌّ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَابْنُ حُجَيْرَةَ هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُجَيْرَةَ الْمِصْرِيُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنمیوں کے سر پر «ماء حمیم»(گرم پانی) انڈیلا جائے گا تو وہ (بدن میں) سرایت کر جائے گا یہاں تک کہ اس کے پیٹ تک جا پہنچے گا اور اس کے پیٹ کے اندر جو کچھ ہے اسے کاٹے گا یہاں تک کہ اس کے پیروں (یعنی سرین) سے نکل جائے گا۔ یہی وہ «صہر» ہے (جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے) پھر اسی طرح لوٹا دیا جائے گا جس طرح تھا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13591) (حسن) (سند میں دراج ابو السمح ضعیف راوی ہیں، لیکن امام ابوداود نے یہ فرق کیا ہے کہ ابو سمح کی ابوالہیثم سے ضعیف ہے، اور ابن حجیرہ سے روایت درست ہے، اور یہاں ابو السمح کے شیخ ابن حجیرہ ہیں، تراجع الالبانی 95، والصحیحہ 3470)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5679)، التعليق أيضا // ضعيف الجامع الصغير (1433) //
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا صفوان بن عمرو، عن عبيد الله بن بسر، عن ابي امامة، عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله: ويسقى من ماء صديد {16} يتجرعه سورة إبراهيم آية 15-16 , قال: " يقرب إلى فيه فيكرهه، فإذا ادني منه شوى وجهه ووقعت فروة راسه، فإذا شربه قطع امعاءه حتى يخرج من دبره " , يقول الله: وسقوا ماء حميما فقطع امعاءهم سورة محمد آية 15 ويقول: وإن يستغيثوا يغاثوا بماء كالمهل يشوي الوجوه بئس الشراب سورة الكهف آية 29 " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وهكذا قال محمد بن إسماعيل، عن عبيد الله بن بسر، ولا نعرف عبيد الله بن بسر إلا في هذا الحديث , وقد روى صفوان بن عمرو، عن عبد الله بن بسر صاحب النبي صلى الله عليه وسلم غير هذا الحديث، وعبد الله بن بسر له اخ قد سمع من النبي صلى الله عليه وسلم، واخته قد سمعت من النبي صلى الله عليه وسلم، وعبيد الله بن بسر الذي روى عنه صفوان بن عمرو حديث ابي امامة، لعله ان يكون اخا عبد الله بن بسر.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: وَيُسْقَى مِنْ مَاءٍ صَدِيدٍ {16} يَتَجَرَّعُهُ سورة إبراهيم آية 15-16 , قَالَ: " يُقَرَّبُ إِلَى فِيهِ فَيَكْرَهُهُ، فَإِذَا أُدْنِيَ مِنْهُ شَوَى وَجْهَهُ وَوَقَعَتْ فَرْوَةُ رَأْسِهِ، فَإِذَا شَرِبَهُ قَطَّعَ أَمْعَاءَهُ حَتَّى يَخْرُجَ مِنْ دُبُرِهِ " , يَقُولُ اللَّهُ: وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ سورة محمد آية 15 وَيَقُولُ: وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ سورة الكهف آية 29 " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَهَكَذَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، وَلَا نَعْرِفُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ بُسْرٍ إِلَّا فِي هَذَا الْحَدِيثِ , وَقَدْ رَوَى صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُسْرٍ لَهُ أَخٌ قَدْ سَمِعَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأُخْتُهُ قَدْ سَمِعَتْ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ بُسْرٍ الَّذِي رَوَى عَنْهُ صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو حَدِيثَ أَبِي أُمَامَةَ، لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ أَخَا عَبْدِ اللهِ بْنِ بُسْرٍ.
ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے اس قول «ويسقى من ماء صديد يتجرعه»(ابراہیم: ۱۶) کے بارے میں فرمایا: ” «صديد»(پیپ) اس کے منہ کے قریب کی جائے گی تو اسے ناپسند کرے گا جب اسے اور قریب کیا جائے گا تو اس کا چہرہ بھن جائے گا اور اس کے سر کی کھال گر جائے گی اور جب اسے پیئے گا تو اس کی آنت کٹ جائے گی یہاں تک کہ اس کے سرین سے نکل جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «وسقوا ماء حميما فقطع أمعاءهم»”وہ «ماء حمیم»(گرم پانی) پلائے جائیں گے تو وہ ان کی آنتوں کو کاٹ دے گا“(سورۃ محمد: ۱۵) اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «وإن يستغيثوا يغاثوا بماء كالمهل يشوي الوجوه بئس الشراب»”اور اگر وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی ایسے پانی سے کی جائے گی جو تلچھٹ کی طرح ہو گا چہرے کو بھون دے گا اور وہ نہایت برا مشروب ہے“(الکہف: ۲۹)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اسی طرح محمد بن اسماعیل بخاری نے بھی سند میں «عن عبيد الله بن بسر» کہا ہے اور ہم عبیداللہ بن بسر کو صرف اسی حدیث میں جانتے ہیں، ۳- صفوان بن عمر نے عبداللہ بن بسر سے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، ایک دوسری حدیث روایت کی ہے، عبداللہ بن بسر کے ایک بھائی ہیں جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے اور ان کی ایک بہن نے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنی ہے۔ جس عبیداللہ بن بسر سے صفوان بن عمرو نے یہ حدیث روایت کی ہے، یہ صحابی نہیں ہیں کوئی دوسرے آدمی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 4894) (سند میں عبید اللہ بن بسر مجہول راوی ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5680)، التعليق أيضا
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «كالمهل» یعنی تلچھٹ کی طرح ہو گا جب اسے (جہنمی) اپنے قریب کرے گا تو اس کے چہرے کی کھال اس میں گر جائے گی“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 2581 (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، وهو مكرر الحديث (2707) // (475 - 2720) //
(مرفوع) وبهذا الإسناد , وبهذا الإسناد , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لسرادق النار اربعة جدر كثف كل جدار مثل مسيرة اربعين سنة ".(مرفوع) وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ , وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لِسُرَادِقِ النَّارِ أَرْبَعَةُ جُدُرٍ كِثَفُ كُلِّ جِدَارٍ مِثْلُ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ سَنَةً ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے اسی سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم کا احاطہٰ چار دیواریں ہیں اور ہر دیوار کی موٹائی چالیس سال کی مسافت کے مانند ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، وهو مكرر الحديث (2707) // (475 - 2720) //
(مرفوع) وبهذا الإسناد، وبهذا الإسناد، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لو ان دلوا من غساق يهراق في الدنيا لانتن اهل الدنيا " , قال ابو عيسى: هذا حديث إنما نعرفه من حديث رشدين بن سعد، وفي رشدين مقال , وقد تكلم فيه من قبل حفظه، ومعنى قوله كثف كل جدار يعني: غلظه.(مرفوع) وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَوْ أَنَّ دَلْوًا مِنْ غَسَّاقٍ يُهَرَاقُ فِي الدُّنْيَا لَأَنْتَنَ أَهْلَ الدُّنْيَا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ، وَفِي رِشْدِينَ مَقَالٌ , وَقَدْ تُكُلِّمَ فِيهِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ كِثَفُ كُلِّ جِدَارٍ يَعْنِي: غِلَظَهُ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے اسی سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر «غساق»(جہنمیوں کے مواد) کا ایک ڈول دنیا میں بہا دیا جائے تو دنیا والے سڑ جائیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کو ہم صرف رشدین بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں اور رشدین کے بارے میں لوگوں نے کلام کیا ہے، ان کے حافظے کے تعلق سے کلام کیا گیا ہے، ۲- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «كثف كل جدار» کا مطلب ہے ہر دیوار کی موٹائی۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، وهو مكرر الحديث (2707) // (475 - 2720) //
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، اخبرنا شعبة، عن الاعمش، عن مجاهد، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قرا هذه الآية: اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وانتم مسلمون سورة آل عمران آية 102 , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو ان قطرة من الزقوم قطرت في دار الدنيا لافسدت على اهل الدنيا معايشهم، فكيف بمن يكون طعامه " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ: اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ سورة آل عمران آية 102 , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَنَّ قَطْرَةً مِنَ الزَّقُّومِ قُطِرَتْ فِي دَارِ الدُّنْيَا لَأَفْسَدَتْ عَلَى أَهْلِ الدُّنْيَا مَعَايِشَهُمْ، فَكَيْفَ بِمَنْ يَكُونُ طَعَامَهُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «اتقوا الله حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون»”تم اللہ سے ڈرنے کی طرح ڈرو اور مسلمان ہی رہتے ہوئے مرو“(آل عمران: ۱۰۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر «زقوم» تھوہڑ کا ایک قطرہ بھی دنیا کی زمین میں ٹپکا دیا جائے تو دنیا والوں کی معیشت بگڑ جائے، بھلا اس آدمی کا کیا ہو گا جس کی غذا ہی «زقوم» ہو۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا عاصم بن يوسف، حدثنا قطبة بن عبد العزيز، عن الاعمش، عن شمر بن عطية، عن شهر بن حوشب، عن ام الدرداء، عن ابي الدرداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يلقى على اهل النار الجوع فيعدل ما هم فيه من العذاب فيستغيثون فيغاثون بطعام من ضريع لا يسمن ولا يغني من جوع، فيستغيثون بالطعام فيغاثون بطعام ذي غصة فيذكرون انهم كانوا يجيزون الغصص في الدنيا بالشراب، فيستغيثون بالشراب فيرفع إليهم الحميم بكلاليب الحديد، فإذا دنت من وجوههم شوت وجوههم، فإذا دخلت بطونهم قطعت ما في بطونهم، فيقولون: ادعوا خزنة جهنم، فيقولون: الم تك تاتيكم رسلكم بالبينات، قالوا: بلى، قالوا: فادعوا وما دعاء الكافرين إلا في ضلال، قال: فيقولون: ادعوا مالكا فيقولون: يا مالك ليقض علينا ربك سورة الزخرف آية 77 , قال: فيجيبهم إنكم ماكثون سورة الزخرف آية 77 " , قال الاعمش: نبئت ان بين دعائهم وبين إجابة مالك إياهم الف عام، قال: " فيقولون: ادعوا ربكم فلا احد خير من ربكم، فيقولون: ربنا غلبت علينا شقوتنا وكنا قوما ضالين {106} ربنا اخرجنا منها فإن عدنا فإنا ظالمون {107} سورة المؤمنون آية 106-107 قال: فيجيبهم اخسئوا فيها ولا تكلمون سورة المؤمنون آية 108 قال: فعند ذلك يئسوا من كل خير وعند ذلك ياخذون في الزفير والحسرة والويل " , قال عبد الله بن عبد الرحمن والناس لا يرفعون هذا الحديث , قال ابو عيسى: إنما نعرف هذا الحديث عن الاعمش، عن شمر بن عطية، عن شهر بن حوشب، عن ام الدرداء، عن ابي الدرداء، قوله: وليس بمرفوع، وقطبة بن عبد العزيز هو ثقة عند اهل الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا قُطْبَةُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُلْقَى عَلَى أَهْلِ النَّارِ الْجُوعُ فَيَعْدِلُ مَا هُمْ فِيهِ مِنَ الْعَذَابِ فَيَسْتَغِيثُونَ فَيُغَاثُونَ بِطَعَامٍ مِنْ ضَرِيعٍ لَا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِنْ جُوعٍ، فَيَسْتَغِيثُونَ بِالطَّعَامِ فَيُغَاثُونَ بِطَعَامٍ ذِي غُصَّةٍ فَيَذْكُرُونَ أَنَّهُمْ كَانُوا يُجِيزُونَ الْغَصَصَ فِي الدُّنْيَا بِالشَّرَابِ، فَيَسْتَغِيثُونَ بِالشَّرَابِ فَيُرْفَعُ إِلَيْهِمُ الْحَمِيمُ بِكَلَالِيبِ الْحَدِيدِ، فَإِذَا دَنَتْ مِنْ وُجُوهِهِمْ شَوَتْ وُجُوهَهُمْ، فَإِذَا دَخَلَتْ بُطُونَهُمْ قَطَّعَتْ مَا فِي بُطُونِهِمْ، فَيَقُولُونَ: ادْعُوا خَزَنَةَ جَهَنَّمَ، فَيَقُولُونَ: أَلَمْ تَكُ تَأْتِيكُمْ رُسُلُكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ، قَالُوا: بَلَى، قَالُوا: فَادْعُوا وَمَا دُعَاءُ الْكَافِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَالٍ، قَالَ: فَيَقُولُونَ: ادْعُوا مَالِكًا فَيَقُولُونَ: يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ سورة الزخرف آية 77 , قَالَ: فَيُجِيبُهُمْ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ سورة الزخرف آية 77 " , قَالَ الْأَعْمَشُ: نُبِّئْتُ أَنَّ بَيْنَ دُعَائِهِمْ وَبَيْنَ إِجَابَةِ مَالِكٍ إِيَّاهُمْ أَلْفَ عَامٍ، قَالَ: " فَيَقُولُونَ: ادْعُوا رَبَّكُمْ فَلَا أَحَدَ خَيْرٌ مِنْ رَبِّكُمْ، فَيَقُولُونَ: رَبَّنَا غَلَبَتْ عَلَيْنَا شِقْوَتُنَا وَكُنَّا قَوْمًا ضَالِّينَ {106} رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْهَا فَإِنْ عُدْنَا فَإِنَّا ظَالِمُونَ {107} سورة المؤمنون آية 106-107 قَالَ: فَيُجِيبُهُمْ اخْسَئُوا فِيهَا وَلا تُكَلِّمُونِ سورة المؤمنون آية 108 قَالَ: فَعِنْدَ ذَلِكَ يَئِسُوا مِنْ كُلِّ خَيْرٍ وَعِنْدَ ذَلِكَ يَأْخُذُونَ فِي الزَّفِيرِ وَالْحَسْرَةِ وَالْوَيْلِ " , قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَالنَّاسُ لَا يَرْفَعُونَ هَذَا الْحَدِيثَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: إِنَّمَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَوْلَهُ: وَلَيْسَ بِمَرْفُوعٍ، وَقُطْبَةُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ هُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
ابو الدرداء رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنمیوں پر بھوک مسلط کر دی جائے گی اور یہ عذاب کے برابر ہو جائے گی جس سے وہ دوچار ہوں گے، لہٰذا وہ فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی «ضريع»(خاردار پودا) کے کھانے سے کی جائے گی جو نہ انہیں موٹا کرے گا اور نہ ان کی بھوک ختم کرے گا، پھر وہ دوبارہ کھانے کی فریاد کریں گے تو ان کی فریاد رسی گلے میں اٹکنے والے کھانے سے کی جائے گی، پھر وہ یاد کریں گے کہ دنیا میں اٹکے ہوئے نوالے کو پانی کے ذریعہ نگلتے تھے، چنانچہ وہ پانی کی فریاد کریں گے اور ان کی فریاد رسی «حميم»(جہنمیوں کے مواد) سے کی جائے گی جو لوہے کے برتنوں میں دیا جائے گا جب مواد ان کے چہروں سے قریب ہو گا تو ان کے چہروں کو بھون ڈالے گا اور جب ان کے پیٹ میں جائے گا تو ان کے پیٹ کے اندر جو کچھ ہے اسے کاٹ ڈالے گا، وہ کہیں گے: جہنم کے داروغہ کو بلاؤ، داروغہ کہیں گے: کیا تمہارے پاس رسول روشن دلائل کے ساتھ نہیں گئے تھے؟ وہ کہیں گے: کیوں نہیں، داروغہ کہیں گے: پکارتے رہو، کافروں کی پکار بیکار ہی جائے گی“۔ آپ نے فرمایا: ”جہنمی کہیں گے: مالک کو بلاؤ اور کہیں گے: اے مالک! چاہیئے کہ تیرا رب ہمارا فیصلہ کر دے (ہمیں موت دیدے)“، آپ نے فرمایا: ”ان کو مالک جواب دے گا: تم لوگ (ہمیشہ کے لیے) اسی میں رہنے والے ہو“۔ اعمش کہتے ہیں: مجھ سے بیان کیا گیا کہ ان کی پکار اور مالک کے جواب میں ایک ہزار سال کا وقفہ ہو گا، آپ نے فرمایا: ”جہنمی کہیں گے: اپنے رب کو پکارو اس لیے کہ تمہارے رب سے بہتر کوئی نہیں ہے، وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! ہمارے اوپر شقاوت غالب آ گئی تھی اور ہم گمراہ لوگ تھے، اے ہمارے رب! ہمیں اس سے نکال دے اگر ہم پھر ویسا ہی کریں گے تو ظالم ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ انہیں جواب دے گا: پھٹکار ہو تم پر اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو“، آپ نے فرمایا: ”اس وقت وہ ہر خیر سے محروم ہو جائیں گے اور اس وقت گدھے کی طرح رینکنے لگیں گے اور حسرت و ہلاکت میں گرفتار ہوں گے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن عبدالرحمٰن (دارمی) کہتے ہیں: لوگ اس حدیث کو مرفوعاً نہیں روایت کرتے ہیں، ۲- ہم اس حدیث کو صرف «عن الأعمش عن شمر بن عطية عن شهر بن حوشب عن أم الدرداء عن أبي الدرداء» کی سند سے جانتے ہیں جو ابودرداء کا اپنا قول ہے، مرفوع حدیث نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10984) (ضعیف) (سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5686)، التعليق الرغيب (4 / 236) // ضعيف الجامع الصغير (6444) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2586) إسناده ضعيف الأعمش عنعن (تقدم:169) وقال أحمد: الأعمش لم يسمع من شمر بن عطية (المراسيل لا بن أبى حاتم ص82)
(مرفوع) حدثنا سويد، اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن سعيد بن يزيد ابي شجاع، عن ابي السمح، عن ابي الهيثم، عن ابي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: وهم فيها كالحون سورة المؤمنون آية 104 , قال: " تشويه النار فتقلص شفته العليا حتى تبلغ وسط راسه وتسترخي شفته السفلى حتى تضرب سرته " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، وابو الهيثم اسمه: سليمان بن عمرو بن عبد العتواري، وكان يتيما في حجر ابي سعيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ أَبِي شُجَاعٍ، عَنْ أَبِي السَّمْحِ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَهُمْ فِيهَا كَالِحُونَ سورة المؤمنون آية 104 , قَالَ: " تَشْوِيهِ النَّارُ فَتَقَلَّصُ شَفَتُهُ الْعُلْيَا حَتَّى تَبْلُغَ وَسَطَ رَأْسِهِ وَتَسْتَرْخِي شَفَتُهُ السُّفْلَى حَتَّى تَضْرِبَ سُرَّتَهُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَأَبُو الْهَيْثَمِ اسْمُهُ: سُلَيْمَانُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدٍ الْعُتْوَارِيُّ، وَكَانَ يَتِيمًا فِي حِجْرِ أَبِي سَعِيدٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ «وهم فيها كالحون»”کافر جہنم کے اندر بد شکل ہوں گے“(المؤمنون: ۱۰۴) کے بارے میں فرمایا: ”ان کے چہروں کو آگ جھلس دے گی تو ان کے اوپر کا ہونٹ سکڑ کر بیچ سر تک پہنچ جائے گا اور نیچے کا ہونٹ لٹک کر ناف سے جا لگے گا“۔
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله، اخبرنا سعيد بن يزيد، عن ابي السمح، عن عيسى بن هلال الصدفي، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو ان رصاصة مثل هذه واشار إلى مثل الجمجمة ارسلت من السماء إلى الارض هي مسيرة خمس مائة سنة لبلغت الارض قبل الليل، ولو انها ارسلت من راس السلسلة لسارت اربعين خريفا الليل والنهار قبل ان تبلغ اصلها او قعرها " , قال ابو عيسى: هذا حديث إسناده حسن صحيح، وسعيد بن يزيد هو مصري , وقد روى عنه الليث بن سعد وغير واحد من الائمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي السَّمْحِ، عَنْ عِيسَى بْنِ هِلَالٍ الصَّدَفِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَنَّ رُصَاصَةً مِثْلَ هَذِهِ وَأَشَارَ إِلَى مِثْلِ الْجُمْجُمَةِ أُرْسِلَتْ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ هِيَ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ لَبَلَغَتَ الْأَرْضَ قَبْلَ اللَّيْلِ، وَلَوْ أَنَّهَا أُرْسِلَتْ مِنْ رَأْسِ السِّلْسِلَةِ لَسَارَتْ أَرْبَعِينَ خَرِيفًا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ قَبْلَ أَنْ تَبْلُغَ أَصْلَهَا أَوْ قَعْرَهَا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَسَعِيدُ بْنُ يَزِيدَ هُوَ مِصْرِيٌّ , وَقَدْ رَوَى عَنْهُ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس کے برابر ایک ٹکڑا (اور آپ نے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا) آسمان سے زمین کی طرف جو پانچ سو سال کی مسافت ہے، چھوڑا جائے تو زمین پر رات سے پہلے پہنچ جائے گا اور اگر وہی ٹکڑا زنجیر (جس کا ذکر) قرآن میں آیا ہے: «ثم في سلسلة ذرعها سبعون ذراعا فاسلكوه»(الحاقة: ۳۲) کے سر سے چھوڑا جائے تو اس زنجیر کی جڑ یا اس کی تہہ تک پہنچنے سے پہلے چالیس سال رات اور دن کے گزر جائیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند حسن صحیح ہے، ۲- سعید بن یزید مصری ہیں۔ ان سے لیث بن سعد اور کئی ائمہ نے حدیث روایت کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله، اخبرنا معمر، عن همام بن منبه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " ناركم هذه التي يوقد بنو آدم جزء واحد من سبعين جزءا من حر جهنم " , قالوا: والله إن كانت لكافية يا رسول الله، قال: " فإنها فضلت بتسعة وستين جزءا كلهن مثل حرها " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وهمام بن منبه هو اخو وهب بن منبه وقد روى عنه وهب.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدٌ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " نَارُكُمْ هَذِهِ الَّتِي يُوِقِدُ بَنُو آدَمَ جُزْءٌ وَاحِدٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ حَرِّ جَهَنَّمَ " , قَالُوا: وَاللَّهِ إِنْ كَانَتْ لَكَافِيَةً يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " فَإِنَّهَا فُضِّلَتْ بِتِسْعَةٍ وَسِتِّينَ جُزْءًا كُلُّهُنَّ مِثْلُ حَرِّهَا " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَمَّامُ بْنُ مُنَبِّهٍ هُوَ أَخُو وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ وَقَدْ رَوَى عَنْهُ وَهْبٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری (دنیا کی) آگ جسے تم جلاتے ہو جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک ٹکڑا (حصہ) ہے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر یہی آگ رہتی تو کافی ہوتی، آپ نے فرمایا: ”وہ اس سے انہتر حصہ بڑھی ہوئی ہے، ہر حصے کی گرمی اسی آگ کی طرح ہے“۔