(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال: " إن في الجنة لشجرة يسير الراكب في ظلها مائة سنة " , وفي الباب عن انس وابي سعيد، قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَشَجَرَةً يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ سَنَةٍ " , وفي الباب عن أَنَسٍ وَأَبِي سَعِيدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایسے درخت ہیں کہ سوار ان کے سایہ میں سو برس تک چلتا رہے (پھر بھی اس کا سایہ ختم نہ ہو گا“)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس اور ابو سعید خدری رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا عباس الدوري، حدثنا عبيد الله بن موسى، عن شيبان، عن فراس، عن عطية، عن ابي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " في الجنة شجرة يسير الراكب في ظلها مائة عام لا يقطعها، وقال: ذلك الظل الممدود " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من حديث ابي سعيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ شَيْبَانَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " فِي الْجَنَّةِ شَجَرَةٌ يَسِيرُ الرَّاكِبُ فِي ظِلِّهَا مِائَةَ عَامٍ لَا يَقْطَعُهَا، وَقَالَ: ذَلِكَ الظِّلُّ الْمَمْدُودُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مَنْ حَدِيثِ أَبِي سَعِيدٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایسے درخت ہیں کہ سوار ان کے سایہ میں سو برس تک چلتا رہے پھر بھی ان کا سایہ ختم نہ ہو گا“، نیز آپ نے فرمایا: ”یہی «ظل الممدود» ہے (یعنی جس کا ذکر قرآن میں ہے)“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی روایت سے یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4221) (صحیح) (سند میں عطیہ عوفی ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا محمد بن فضيل، عن حمزة الزيات، عن زياد الطائي، عن ابي هريرة، قال: قلنا: يا رسول الله , ما لنا إذا كنا عندك رقت قلوبنا وزهدنا في الدنيا وكنا من اهل الآخرة , فإذا خرجنا من عندك فآنسنا اهالينا وشممنا اولادنا انكرنا انفسنا! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو انكم تكونون إذا خرجتم من عندي كنتم على حالكم ذلك لزارتكم الملائكة في بيوتكم، ولو لم تذنبوا لجاء الله بخلق جديد كي يذنبوا فيغفر لهم ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: قال: قلت: يا رسول الله , مم خلق الخلق؟ قال: " من الماء "، قلنا: الجنة ما بناؤها؟ قال: " لبنة من فضة ولبنة من ذهب وملاطها المسك الاذفر وحصباؤها اللؤلؤ والياقوت وتربتها الزعفران، من دخلها ينعم ولا يباس، ويخلد ولا يموت، لا تبلى ثيابهم، ولا يفنى شبابهم ". (حديث قدسي) (حديث موقوف) ثم قال: " ثلاثة لا ترد دعوتهم، الإمام العادل، والصائم حين يفطر، ودعوة المظلوم يرفعها فوق الغمام، وتفتح لها ابواب السماء، ويقول الرب عز وجل: وعزتي لانصرنك ولو بعد حين " , قال ابو عيسى: هذا حديث ليس إسناده بذاك القوي وليس هو عندي بمتصل، وقد روي هذا الحديث بإسناد آخر، عن ابي مدلة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ حَمْزَةَ الزَّيَّاتِ، عَنْ زِيَادٍ الطَّائِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا لَنَا إِذَا كُنَّا عِنْدَكَ رَقَّتْ قُلُوبُنَا وَزَهِدْنَا فِي الدُّنْيَا وَكُنَّا مِنْ أَهْلِ الْآخِرَةِ , فَإِذَا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِكَ فَآنَسْنَا أَهَالِينَا وَشَمَمْنَا أَوْلَادَنَا أَنْكَرْنَا أَنْفُسَنَا! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَنَّكُمْ تَكُونُونَ إِذَا خَرَجْتُمْ مِنْ عِنْدِي كُنْتُمْ عَلَى حَالِكُمْ ذَلِكَ لَزَارَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ فِي بُيُوتِكُمْ، وَلَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَجَاءَ اللَّهُ بِخَلْقٍ جَدِيدٍ كَيْ يُذْنِبُوا فَيَغْفِرَ لَهُمْ ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مِمَّ خُلِقَ الْخَلْقُ؟ قَالَ: " مِنَ الْمَاءِ "، قُلْنَا: الْجَنَّةُ مَا بِنَاؤُهَا؟ قَالَ: " لَبِنَةٌ مِنْ فِضَّةٍ وَلَبِنَةٌ مِنْ ذَهَبٍ وَمِلَاطُهَا الْمِسْكُ الْأَذْفَرُ وَحَصْبَاؤُهَا اللُّؤْلُؤُ وَالْيَاقُوتُ وَتُرْبَتُهَا الزَّعْفَرَانُ، مَنْ دَخَلَهَا يَنْعَمْ وَلَا يَبْأَسْ، وَيَخْلُدْ وَلَا يَمُوتْ، لَا تَبْلَى ثِيَابُهُمْ، وَلَا يَفْنَى شَبَابُهُمْ ". (حديث قدسي) (حديث موقوف) ثُمَّ قَالَ: " ثَلَاثَةٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ، الْإِمَامُ الْعَادِلُ، وَالصَّائِمُ حِينَ يُفْطِرُ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا فَوْقَ الْغَمَامِ، وَتُفَتَّحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَيْسَ إِسْنَادُهُ بِذَاكَ الْقَوِيِّ وَلَيْسَ هُوَ عِنْدِي بِمُتَّصِلٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ بِإِسْنَادٍ آخَرَ، عَنْ أَبِي مُدِلَّةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آخر کیا وجہ ہے کہ جب ہم آپ کی خدمت میں ہوتے ہیں تو ہمارے دلوں پر رقت طاری رہتی ہے اور ہم دنیا سے بیزار ہوتے ہیں اور آخرت والوں میں سے ہوتے ہیں، لیکن جب ہم آپ سے جدا ہو کر اپنے بال بچوں میں چلے جاتے ہیں اور ان میں گھل مل جاتے ہیں تو ہم اپنے دلوں کو بدلا ہوا پاتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم اسی حالت و کیفیت میں رہو جس حالت و کیفیت میں میرے پاس سے نکلتے ہو تو تم سے فرشتے تمہارے گھروں میں ملاقات کریں، اور اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ دوسری مخلوق کو پیدا کرے گا جو گناہ کریں گے ۱؎، پھر اللہ تعالیٰ ان کے گناہ معاف فرمائے گا“۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مخلوق کو کس چیز سے پیدا کیا گیا؟ آپ نے فرمایا: ”پانی سے“، ہم نے عرض کیا: جنت کس چیز سے بنی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”ایک اینٹ چاندی کی ہے اور ایک سونے کی اور اس کا گارا مشک اذفر کا ہے اور اس کے کنکر موتی اور یاقوت کے ہیں، اور زعفران اس کی مٹی ہے، جو اس میں داخل ہو گا وہ عیش و آرام کرے گا، کبھی تکلیف نہیں پائے گا اور اس میں ہمیشہ رہے گا اسے کبھی موت نہیں آئے گی، ان کے کپڑے پرانے نہیں ہوں گے اور ان کی جوانی کبھی فنا نہیں ہو گی“، پھر آپ نے فرمایا: ”تین لوگوں کی دعائیں رد نہیں کی جاتیں: پہلا امام عادل ہے، دوسرا روزہ دار جب وہ افطار کرے، اور تیسرا مظلوم جب کہ وہ بد دعا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ (اس کی بد دعا کو) بادل کے اوپر اٹھا لیتا ہے، اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے: قسم ہے میری عزت کی میں ضرور تیری مدد کروں گا اگرچہ کچھ دیر ہی سہی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے اور نہ ہی میرے نزدیک یہ متصل ہے، ۲- یہ حدیث دوسری سند سے ابومدلہ کے واسطہ سے بھی آئی ہے جسے وہ ابوہریرہ رضی الله عنہ سے اور ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12905) وانظر مسند احمد (2/304، 305) (ضعیف) (مؤلف نے اس سند کو ضعیف اور منقطع قرار دیا ہے، سند میں زیاد الطائی مجہول راوی ہے، جس نے ابوہریرہ سے مرسل روایت کی ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے، جیسا کہ مؤلف نے صراحت فرمائی، پھر ابو مدلہ کی روایت کا ذکر کیا، جو ضعیف راوی ہیں، لیکن حدیث کے اکثر فقرے ثابت ہیں، حافظ ابن حجر نے ابو مدلہ مولی عائشہ کو مقبول کہا ہے، حدیث میں مما خلق الخلق کا فقرہ شاہد نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے، نیز ثلاث لا ترد...آخر حدیث تک بھی ضعیف ہے (ضعیف الجامع 2592، والضعیفة 1359)، لیکن حدیث کا پہلا فقرہ صحیح ہے، جو صحیح مسلم (التوبة 2 /2749)، ترمذی (2514، 2452)، ابن ماجہ (4236) اور مسند احمد (4/187، 346) میں حنظلہ الاسیدی سے مروی ہے اور دوسرے فقرہ ولو لم تذنبوا کی مختلف طرق سے البانی نے تخریج کر کے اس کی تصحیح کی ہے: الصحیحة رقم 967، 968، 969، 970 و 1950، 1951، 1965) اور الجنة بناؤها لبنة...ولا يفنى شبابهم کا فقرہ بھی حسن ہے (السراج المنیر8083)»
وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ گناہ تو ہر انسان سے ہوتا ہے، لیکن وہ لوگ اللہ کو زیادہ پسند ہیں جو گناہ کر کے اس پر اڑتے نہیں بلکہ توبہ و استغفار کرتے ہیں، اور اللہ کے سامنے اپنے گناہوں کے ساتھ گڑگڑاتے اور عاجزی کا اظہار کرتے ہیں، اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ اللہ کو گناہ کا ارتکاب کرنا پسند ہے، بلکہ اس حدیث کا مقصد توبہ و استغفار کی اہمیت کو واضح کرنا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح - دون قوله: " مم خلق الخلق ... " -، الصحيحة (2 / 692 - 693)، غاية المرام في تخريج أحاديث الحلال والحرام (373)
قال الشيخ زبير على زئي: (2526) إسناده ضعيف زياد الطائي لم يثبت سماعه من أبي ھريرة . ولبعض الحديث شاھد يأتي (الأصل:3598 وسنده حسن)
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا علي بن مسهر، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن النعمان بن سعد، عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن في الجنة لغرفا يرى ظهورها من بطونها، وبطونها من ظهورها، فقام إليه اعرابي فقال: لمن هي يا رسول الله؟ قال: " هي لمن اطاب الكلام، واطعم الطعام، وادام الصيام، وصلى لله بالليل والناس نيام " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وقد تكلم بعض اهل العلم في عبد الرحمن بن إسحاق هذا من قبل حفظه وهو كوفي، وعبد الرحمن بن إسحاق القرشي مدني وهو اثبت من هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَغُرَفًا يُرَى ظُهُورُهَا مِنْ بُطُونِهَا، وَبُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا، فَقَامَ إِلَيْهِ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: لِمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " هِيَ لِمَنْ أَطَابَ الْكَلَامَ، وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَأَدَامَ الصِّيَامَ، وَصَلَّى لِلَّهِ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق هَذَا مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ وَهُوَ كُوفِيٌّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاق الْقُرَشِيُّ مَدَنِيٌّ وَهُوَ أَثْبَتُ مِنْ هَذَا.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایسے کمرے ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا“۔ ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کن لوگوں کے لیے ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: ”یہ اس کے لیے ہوں گے جو اچھی گفتگو کرے، کھانا کھلائے، پابندی سے روزے رکھے اور جب لوگ سو رہے ہوں تو اللہ کی رضا کے لیے رات میں نماز پڑھے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- بعض اہل علم نے عبدالرحمٰن بن اسحاق کے بارے میں ان کے حافظہ کے تعلق سے کلام کیا ہے، یہ کوفی ہیں اور عبدالرحمٰن بن اسحاق جو قریشی ہیں وہ مدینہ کے رہنے والے ہیں اور یہ عبدالرحمٰن کوفی سے اثبت ہیں۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1984 (حسن لغیرہ) (دیکھیے مذکورہ حدیث کے تحت اس پر بحث)»
قال الشيخ الألباني: حسن، التعليق الرغيب (2 / 46)، المشكاة (1233)
قال الشيخ زبير على زئي: (2527) إسناده ضعيف / تقدم:1984
ابوموسیٰ اشعری عبداللہ بن قیس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں دو ایسے باغ ہیں کہ جن کے برتن اور اس کی تمام چیزیں چاندی کی ہیں اور دو ایسے باغ ہیں جس کے برتن اور جس کی تمام چیزیں سونے کی ہیں، جنت عدن میں لوگوں کے اور ان کے رب کے دیدار کے درمیان صرف وہ کبریائی چادر حائل ہو گی جو اس کے چہرے پر ہے“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الرحمن 1 (4878)، و 2 (4880)، والتوحید 24 (7444)، صحیح مسلم/الإیمان 80 (180)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 13 (186) (تحفة الأشراف: 9135)، و مسند احمد (4/411، 416)، وسنن الدارمی/الرقاق 101 (2864) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جب اللہ رب العالمین اپنی رحمت سے اس کبریائی والی چادر کو ہٹا دے گا تو اہل جنت اپنے رب کے دیدار سے فیضیاب ہوں گے، اور جنت کی نعمتوں میں سے یہ ان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہو گی۔
(مرفوع) وبهذا الإسناد وبهذا الإسناد عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن في الجنة لخيمة من درة مجوفة عرضها ستون ميلا في كل زاوية منها اهل ما يرون الآخرين يطوف عليهم المؤمن " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو عمران الجوني اسمه: عبد الملك بن حبيب , وابو بكر بن ابي موسى، قال احمد بن حنبل: لا يعرف اسمه، وابو موسى الاشعري اسمه: عبد الله بن قيس، وابو مالك الاشعري اسمه: سعد بن طارق بن اشيم.(مرفوع) وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ فِي الْجَنَّةِ لَخَيْمَةً مِنْ دُرَّةٍ مُجَوَّفَةٍ عَرْضُهَا سِتُّونَ مِيلًا فِي كُلِّ زَاوِيَةٍ مِنْهَا أَهْلٌ مَا يَرَوْنَ الْآخَرِينَ يَطُوفُ عَلَيْهِمُ الْمُؤْمِنُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عِمْرَانَ الْجَوْنِيُّ اسْمُهُ: عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حَبِيبٍ , وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مُوسَى، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: لَا يُعْرَفُ اسْمُهُ، وَأَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ اسْمُهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ قَيْسٍ، وَأَبُو مَالِكٍ الْأَشْعَرِيُّ اسْمُهُ: سَعْدُ بْنُ طَارِقِ بْنِ أَشْيَمَ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ اسی سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں موتی کا ایک لمبا چوڑا خیمہ ہے جس کی چوڑائی ساٹھ میل ہے۔ اس کے ہر گوشے میں مومن کے گھر والے ہوں گے، مومن ان پر گھومے گا تو (اندرونی) ایک دوسرے کو نہیں دیکھ سکے گا۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں سو درجے ہیں، ہر ایک درجہ سے دوسرے درجہ کے درمیان سو سال کا فاصلہ ہے“۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، واحمد بن عبدة الضبي البصري , قالا: حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن معاذ بن جبل، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " من صام رمضان وصلى الصلوات وحج البيت لا ادري اذكر الزكاة ام لا إلا كان حقا على الله ان يغفر له إن هاجر في سبيل الله او مكث بارضه التي ولد بها "، قال معاذ: الا اخبر بهذا الناس؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ذر الناس يعملون، فإن في الجنة مائة درجة ما بين كل درجتين كما بين السماء والارض، والفردوس اعلى الجنة واوسطها، وفوق ذلك عرش الرحمن، ومنها تفجر انهار الجنة فإذا سالتم الله فسلوه الفردوس " , قال ابو عيسى: هكذا روي هذا الحديث عن هشام بن سعد، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن معاذ بن جبل، وهذا عندي اصح من حديث همام، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن عبادة بن الصامت، وعطاء لم يدرك معاذ بن جبل، ومعاذ قديم الموت مات في خلافة عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ البصري , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَصَلَّى الصَّلَوَاتِ وَحَجَّ الْبَيْتَ لَا أَدْرِي أَذَكَرَ الزَّكَاةَ أَمْ لَا إِلَّا كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يَغْفِرَ لَهُ إِنْ هَاجَرَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ مَكَثَ بِأَرْضِهِ الَّتِي وُلِدَ بِهَا "، قَالَ مُعَاذٌ: أَلَا أُخْبِرُ بِهَذَا النَّاسَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ذَرِ النَّاسَ يَعْمَلُونَ، فَإِنَّ فِي الْجَنَّةِ مِائَةَ دَرَجَةٍ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَالْفِرْدَوْسُ أَعْلَى الْجَنَّةِ وَأَوْسَطُهَا، وَفَوْقَ ذَلِكَ عَرْشُ الرَّحْمَنِ، وَمِنْهَا تُفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَسَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، وَهَذَا عِنْدِي أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ هَمَّامٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، وَعَطَاءٌ لَمْ يُدْرِكْ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ، وَمُعَاذٌ قَدِيمُ الْمَوْتِ مَاتَ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ.
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے، نمازیں پڑھیں اور حج کیا (- عطاء بن یسار کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ معاذ نے زکاۃ کا ذکر کیا یا نہیں -) تو اللہ تعالیٰ پر یہ حق بنتا ہے کہ اس کو بخش دے اگرچہ وہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرے یا اپنی پیدائشی سر زمین میں ٹھہرا رہے“۔ معاذ نے کہا: کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ دے دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کو چھوڑ دو، وہ عمل کرتے رہیں، اس لیے کہ جنت میں سو درجے ہیں اور ایک درجہ سے دوسرے درجہ کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا کہ زمین و آسمان کے درمیان کا، فردوس جنت کا اعلیٰ اور سب سے اچھا درجہ ہے، اسی کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں بہتی ہیں، لہٰذا جب تم اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس مانگو“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اسی طرح یہ حدیث «عن هشام بن سعد عن زيد بن أسلم عن عطاء بن يسار عن معاذ بن جبل» کی سند سے مروی ہے، اور یہ میرے نزدیک ہمام کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے، جسے انہوں نے «عن زيد بن أسلم عن عطاء بن يسار عن عبادة بن الصامت» کی سند سے روایت کی ہے (جو آگے آ رہی ہے)، عطاء نے معاذ بن جبل کو نہیں پایا ہے (یعنی ان کی ملاقات ثابت نہیں ہے) اور معاذ بن جبل کی وفات (عبادہ بن صامت سے پہلے) عمر رضی الله عنہ کے عہد خلافت میں ہوئی ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا همام، حدثنا زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن عبادة بن الصامت، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " في الجنة مائة درجة ما بين كل درجتين كما بين الارض والسماء، والفردوس اعلاها درجة ومنها تفجر انهار الجنة الاربعة، ومن فوقها يكون العرش، فإذا سالتم الله فسلوه الفردوس ".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " فِي الْجَنَّةِ مِائَةُ دَرَجَةٍ مَا بَيْنَ كُلِّ دَرَجَتَيْنِ كَمَا بَيْنَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاءِ، وَالْفِرْدَوْسُ أَعْلَاهَا دَرَجَةً وَمِنْهَا تُفَجَّرُ أَنْهَارُ الْجَنَّةِ الْأَرْبَعَةُ، وَمِنْ فَوْقِهَا يَكُونُ الْعَرْشُ، فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللَّهَ فَسَلُوهُ الْفِرْدَوْسَ ".
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں سو درجے ہیں اور ہر دو درجہ کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان ہے، درجہ کے اعتبار سے فردوس اعلیٰ جنت ہے، اسی سے جنت کی چاروں نہریں بہتی ہیں اور اسی کے اوپر عرش ہے، لہٰذا جب تم اللہ سے جنت مانگو تو فردوس مانگو“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5104) (صحیح) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے حدیث نمبر (2530)»