معاذ بن انس جہنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص زینت کا لباس خالص اللہ کی رضا مندی اور اس کی تواضع کی خاطر چھوڑ دے باوجود یہ کہ وہ اسے میسر ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو قیامت کے دن تمام خلائق کے سامنے بلائے گا تاکہ وہ اہل ایمان کے لباس میں سے جسے چاہے پسند کرے، اور پہنے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- «حلل الإيمان» سے جنت کے وہ لباس مراد ہیں جو اہل ایمان کو دیئے جائیں گے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن حميد الرازي، حدثنا زافر بن سليمان، عن إسرائيل، عن شبيب بن بشير، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " النفقة كلها في سبيل الله إلا البناء فلا خير فيه " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، هكذا قال محمد بن حميد، شبيب بن بشير وإنما هو شبيب بن بشر.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا زَافِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " النَّفَقَةُ كُلُّهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا الْبِنَاءَ فَلَا خَيْرَ فِيهِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، هَكَذَا قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ حَمَيْدٍ، شَبِيبُ بْنُ بَشِيرٍ وَإِنَّمَا هُوَ شَبِيبُ بْنُ بِشْرٍ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نفقہ سب کا سب اللہ کی راہ میں ہے سوائے اس نفقہ کے جو گھر بنانے میں صرف ہوتا ہے کیونکہ اس میں کوئی خیر نہیں ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 901) (ضعیف) (سند میں زافر سخت وہم کے شکار ہو جاتے تھے، اور شبیب روایت میں غلطیاں کر جاتے تھے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1061)، التعليق الرغيب (2 / 113) // ضعيف الجامع الصغير (5994) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2482) إسناده ضعيف زافر: ضعيف يعتبر به،كما فى التحرير (1979)
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا شريك، عن ابي إسحاق، عن حارثة بن مضرب، قال: اتينا خبابا نعوده وقد اكتوى سبع كيات، فقال: لقد تطاول مرضي، ولولا اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لا تمنوا الموت " لتمنيت، وقال: " يؤجر الرجل في نفقته كلها إلا التراب، او قال: في البناء " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ، قَالَ: أَتَيْنَا خَبَّابًا نَعُودُهُ وَقَدِ اكْتَوَى سَبْعَ كَيَّاتٍ، فَقَالَ: لَقَدْ تَطَاوَلَ مَرَضِي، وَلَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا تَمَنَّوْا الْمَوْتَ " لَتَمَنَّيْتُ، وَقَالَ: " يُؤْجَرُ الرَّجُلُ فِي نَفَقَتِهِ كُلِّهَا إِلَّا التُّرَابَ، أَوْ قَالَ: فِي الْبِنَاءِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
حارثہ بن مضرب کہتے ہیں کہ ہم خباب رضی الله عنہ کے پاس عیادت کرنے کے لیے آئے، انہوں نے اپنے بدن میں سات داغ لگوا رکھے تھے، انہوں نے کہا: یقیناً میرا مرض بہت لمبا ہو گیا ہے، اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے نہ سنا ہوتا کہ ”موت کی تمنا نہ کرو“، تو میں ضرور اس کی تمنا کرتا، اور آپ نے فرمایا: ”آدمی کو ہر خرچ میں ثواب ملتا ہے سوائے مٹی میں خرچ کرنے کے“، یا فرمایا: ”گھر بنانے میں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 970 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی جو اپنی ضرورت سے زائد عمارت پر خرچ ہوتا ہے اس پر کچھ بھی ثواب نہیں ملتا، ویسے انسان کو سر چھپانے، گرمی، سردی کی شدت اور بارش وغیرہ سے بچاؤ کے لیے ایک مکان کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ یہ انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہے، حدیث میں مذکورہ وعید ایسی تعمیرات سے متعلق ہے جو ضرورت سے زائد ہوں یا جن پر اسراف سے خرچ کیا جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ومضى (970) // هذا رقم الدعاس، وهو عندنا برقم (776 - 984) //
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو احمد الزبيري، حدثنا خالد بن طهمان ابو العلاء، حدثنا حصين، قال: جاء سائل فسال ابن عباس , فقال ابن عباس للسائل: اتشهد ان لا إله إلا الله؟ قال: نعم، قال: اتشهد ان محمدا رسول الله؟ قال: نعم، قال: وتصوم رمضان؟ قال: نعم، قال: سالت وللسائل حق إنه لحق علينا ان نصلك، فاعطاه ثوبا , ثم قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ما من مسلم كسا مسلما ثوبا إلا كان في حفظ من الله ما دام منه عليه خرقة " , قال: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ طَهْمَانَ أَبُو الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، قَالَ: جَاءَ سَائِلٌ فَسَأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ , فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لِلسَّائِلِ: أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَتَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَتَصُومُ رَمَضَانَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: سَأَلْتَ وَلِلسَّائِلِ حَقٌّ إِنَّهُ لَحَقٌّ عَلَيْنَا أَنْ نَصِلَكَ، فَأَعْطَاهُ ثَوْبًا , ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ كَسَا مُسْلِمًا ثَوْبًا إِلَّا كَانَ فِي حِفْظِ مِنَ اللَّهِ مَا دَامَ مِنْهُ عَلَيْهِ خِرْقَةٌ " , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
حصین کہتے ہیں کہ ایک سائل نے آ کر ابن عباس رضی الله عنہما سے کچھ مانگا تو ابن عباس نے سائل سے کہا: کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے کہا: کیا تم یہ گواہی دیتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے کہا: کیا تم رمضان کے روزے رکھتے ہو؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے کہا: تم نے سوال کیا اور سائل کا حق ہوتا ہے، بیشک ہمارے اوپر ضروری ہے کہ ہم تمہارے ساتھ حسن سلوک کریں، چنانچہ انہوں نے اسے ایک کپڑا دیا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو کوئی مسلمان کسی مسلمان بھائی کو کوئی کپڑا پہناتا ہے تو وہ اللہ کی امان میں اس وقت تک رہتا ہے جب تک اس کپڑے کا ایک ٹکڑا بھی اس پر باقی رہتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 5409) (ضعیف) (سند میں خالد بن طہمان مختلط ہو گئے تھے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1920)، التعليق الرغيب (3 / 112) // ضعيف الجامع الصغير (5217) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2484) إسناده ضعيف حصين اختلط وتلميذه خالد بن طهمان اختلط قبل موتة بعشر سنين (الكواكب النيرات ص 23،28) وانظر التقريب (1369،1644)
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الوهاب الثقفي، ومحمد بن جعفر، وابن ابي عدي، ويحيى بن سعيد، عن عوف بن ابي جميلة الاعرابي، عن زرارة بن اوفى، عن عبد الله بن سلام، قال: " لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة انجفل الناس إليه وقيل: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجئت في الناس لانظر إليه فلما استثبت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم عرفت ان وجهه ليس بوجه كذاب، وكان اول شيء تكلم به ان قال: " ايها الناس افشوا السلام، واطعموا الطعام، وصلوا والناس نيام، تدخلوا الجنة بسلام " , قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ الْأَعْرَابِيِّ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، قَالَ: " لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ انْجَفَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ وَقِيلَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُ فِي النَّاسِ لِأَنْظُرَ إِلَيْهِ فَلَمَّا اسْتَثْبَتُّ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ، وَكَانَ أَوَّلُ شَيْءٍ تَكَلَّمَ بِهِ أَنْ قَالَ: " أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن سلام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، چنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا تاکہ آپ کو دیکھوں، پھر جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک اچھی طرح دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا، اور سب سے پہلی بات جو آپ نے کہی وہ یہ تھی ”لوگو! سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو، تم لوگ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو گے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 174 (1334)، والأطعمة 1 (3251) (تحفة الأشراف: 5331)، و مسند احمد (5/451) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ وہ مومنانہ خصائل و عادات ہیں کہ ان میں سے ہر خصلت جنت میں لے جانے کا سبب ہے۔
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کرنے والا (اجر و ثواب میں) صبر کرنے والے روزہ دار کے برابر ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصوم 55 (1764، 1765) (تحفة الأشراف: 13072)، و مسند احمد (2/283) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا الحسين بن الحسن المروزي بمكة، حدثنا ابن ابي عدي، حدثنا حميد، عن انس، قال: لما قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، اتاه المهاجرون , فقالوا: يا رسول الله , ما راينا قوما ابذل من كثير ولا احسن مواساة من قليل من قوم نزلنا بين اظهرهم، لقد كفونا المؤنة، واشركونا في المهنإ حتى لقد خفنا ان يذهبوا بالاجر كله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا ما دعوتم الله لهم واثنيتم عليهم " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَكَّةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، أَتَاهُ الْمُهَاجِرُونَ , فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا رَأَيْنَا قَوْمًا أَبْذَلَ مِنْ كَثِيرٍ وَلَا أَحْسَنَ مُوَاسَاةً مِنْ قَلِيلٍ مِنْ قَوْمٍ نَزَلْنَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ، لَقَدْ كَفَوْنَا الْمُؤْنَةَ، وَأَشْرَكُونَا فِي الْمَهْنَإِ حَتَّى لَقَدْ خِفْنَا أَنْ يَذْهَبُوا بِالْأَجْرِ كُلِّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا مَا دَعَوْتُمُ اللَّهَ لَهُمْ وَأَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِمْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ کے پاس مہاجرین نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! جس قوم کے پاس ہم آئے ہیں ان سے بڑھ کر ہم نے کوئی قوم ایسی نہیں دیکھی جو اپنے مال بہت زیادہ خرچ کرنے والی ہے اور تھوڑے مال ہونے کی صورت میں بھی دوسروں کے ساتھ غم خواری کرنے والی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ہم کو محنت و مشقت سے باز رکھا اور ہم کو آرام و راحت میں شریک کیا یہاں تک کہ ہمیں خوف ہے کہ ہماری ساری نیکیوں کا ثواب کہیں انہیں کو نہ مل جائے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بات ایسی نہیں ہے جیسا تم نے سمجھا ہے جب تک تم لوگ اللہ سے ان کے لیے دعائے خیر کرتے رہو گے اور ان کا شکریہ ادا کرتے رہو گے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جب تک تم ان کے حق میں خیر کی دعا کرتے رہو گے تو تمہاری یہ دعائیں ان کی نیکیوں کے بالمقابل ہوں گی، اور اس کا ثواب تمہیں ملے گا، اور تمہاری یہی دعائیں ان کی اس محنت و مشقت کا بدل ہوں گی جو انہوں نے تمہاری خاطر کیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3206)، التعليق الرغيب (2 / 56)
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں ایسے لوگوں کی خبر نہ دوں جو جہنم کی آگ پر یا جہنم کی آگ ان پر حرام ہے؟ جہنم کی آگ لوگوں کے قریب رہنے والے، آسانی کرنے والے، اور نرم اخلاق والے پر حرام ہے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جو اپنے حسن اخلاق اور حسن معاملہ سے لوگوں کے دلوں میں اور دنیاوی معاملات میں دوسروں کے ساتھ آسانی، نرمی، تواضع اور مشفقانہ طرز اپنانے والا ہے اس کے لیے جہنم کی آگ حرام ہے۔
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن شعبة، عن الحكم، عن إبراهيم، عن الاسود بن يزيد , قال: قلت عائشة: اي شيء كان النبي صلى الله عليه وسلم يصنع إذا دخل بيته؟ قالت: " كان يكون في مهنة اهله فإذا حضرت الصلاة قام فصلى " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ , قَالَ: قُلْتُ عَائِشَةَ: أَيُّ شَيْءٍ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ إِذَا دَخَلَ بَيْتَهُ؟ قَالَتْ: " كَانَ يَكُونَ فِي مَهْنَةِ أَهْلِهِ فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ قَامَ فَصَلَّى " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اسود بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تھے تو کیا کرتے تھے؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کے کام کاج میں مشغول ہو جاتے تھے، پھر جب نماز کا وقت ہو جاتا تو کھڑے ہوتے اور نماز پڑھنے لگتے تھے ۱؎۔
(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن عمران بن زيد التغلبي، عن زيد العمي، عن انس بن مالك، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا استقبله الرجل فصافحه لا ينزع يده من يده حتى يكون الرجل ينزع، ولا يصرف وجهه عن وجهه حتى يكون الرجل هو الذي يصرفه، ولم ير مقدما ركبتيه بين يدي جليس له " , قال: هذا حديث غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ زَيْدٍ التَّغْلَبِيِّ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَقْبَلَهُ الرَّجُلُ فَصَافَحَهُ لَا يَنْزِعُ يَدَهُ مِنْ يَدِهِ حَتَّى يَكُونَ الرَّجُلُ يَنْزِعُ، وَلَا يَصْرِفُ وَجْهَهُ عَنْ وَجْهِهِ حَتَّى يَكُونَ الرَّجُلُ هُوَ الَّذِي يَصْرِفُهُ، وَلَمْ يُرَ مُقَدِّمًا رُكْبَتَيْهِ بَيْنَ يَدَيْ جَلِيسٍ لَهُ " , قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب کوئی شخص آتا اور آپ سے مصافحہ کرتا تو آپ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے نہیں نکالتے جب تک وہ شخص خود اپنا ہاتھ نہ نکال لیتا، اور آپ اپنا رخ اس کی طرف سے نہیں پھیرتے، جب تک کہ وہ خود اپنا رخ نہ پھیر لیتا، اور آپ نے اپنے کسی ساتھی کے سامنے کبھی پاؤں نہیں پھیلائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الأدب 21 (3716) (تحفة الأشراف: 841) (ضعیف) (سند میں زید العمی ضعیف راوی ہیں، مگر مصافحہ والا ٹکڑا دیگر احادیث سے ثابت ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف إلا جملة المصافحة فهي ثابتة، ابن ماجة (3716)
قال الشيخ زبير على زئي: (2490) إسناده ضعيف / جه 3716 زيد العمي: ضعيف (تقدم: 1442) وتلميذه عمران بن زيد: لين (تق: 5156) وللحديث شاهد ضعيف عند أبى داود: 4794