(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الوهاب الثقفي، ومحمد بن جعفر، وابن ابي عدي، ويحيى بن سعيد، عن عوف بن ابي جميلة الاعرابي، عن زرارة بن اوفى، عن عبد الله بن سلام، قال: " لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة انجفل الناس إليه وقيل: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجئت في الناس لانظر إليه فلما استثبت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم عرفت ان وجهه ليس بوجه كذاب، وكان اول شيء تكلم به ان قال: " ايها الناس افشوا السلام، واطعموا الطعام، وصلوا والناس نيام، تدخلوا الجنة بسلام " , قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ أَبِي جَمِيلَةَ الْأَعْرَابِيِّ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، قَالَ: " لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ انْجَفَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ وَقِيلَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُ فِي النَّاسِ لِأَنْظُرَ إِلَيْهِ فَلَمَّا اسْتَثْبَتُّ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَفْتُ أَنَّ وَجْهَهُ لَيْسَ بِوَجْهِ كَذَّابٍ، وَكَانَ أَوَّلُ شَيْءٍ تَكَلَّمَ بِهِ أَنْ قَالَ: " أَيُّهَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن سلام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، اور کہنے لگے: اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، چنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ آیا تاکہ آپ کو دیکھوں، پھر جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک اچھی طرح دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا، اور سب سے پہلی بات جو آپ نے کہی وہ یہ تھی ”لوگو! سلام پھیلاؤ، کھانا کھلاؤ اور رات میں جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو، تم لوگ سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو گے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
وضاحت: ۱؎: یہ وہ مومنانہ خصائل و عادات ہیں کہ ان میں سے ہر خصلت جنت میں لے جانے کا سبب ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 174 (1334)، والأطعمة 1 (3251) (تحفة الأشراف: 5331)، و مسند احمد (5/451) (صحیح)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1334
´تہجد (قیام اللیل) پڑھنے کا بیان۔` عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے، اور انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں، تو لوگوں کے ساتھ آپ کو دیکھنے کے لیے میں بھی آیا، جب میں نے کوشش کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دیکھا، تو پہچان لیا کہ آپ کا چہرہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہے، پہلی بات آپ نے جو کہی وہ یہ تھی کہ ”لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، اور رات کو نماز پڑھو، جب کہ لوگ سوئے ہوں، تب تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1334]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام لانے سے پہلے یہودی تھے۔ لہٰذا ان علامات سے باخبر تھے۔ جوسابقہ کتب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بیان کی گیئں تھیں۔ اسی بنیاد پر وہ قبول اسلام سے مشرف ہوئے۔
(2) نیکی اور بدی سچ اور جھوٹ کا اثرانسان کے ظاہر پر بھی پڑتا ہے۔ جس کیوجہ سے سمجھدار آدمی چہرے سے پہچان لیتا ہے۔ کہ کونسا آدمی سچا ہے۔ اور کونسا جھوٹا۔ سلام عام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کو کثرت سے سلام کہیں۔ حتیٰ کہ جس مسلمان سے براہ راست قرابت یا دوستی کا تعلق نہ ہو یا جو مسلمان اجنبی ہو۔ اسے بھی سلام کہا جائے۔
(4) کھانا کھلانے سے مراد غریب محتاج اور مستحق افراد کی مادی امداد ہے جو مسلمانوں کی باہمی ہمدردی کی وجہ سے اسلامی معاشرے کی ایک اہم خوبی ہے۔ اس کے علاوہ مہمان کی خدمت اور اس کے لئے عام کھانے سے بہتر کھانا تیار کرنا بھی اس میں شامل ہے۔
(5) نماز تہجد گناہوں کی معافی اور درجات کی بلندی کا باعث ہے۔
(6) حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادایئگی سے جنت ملتی ہے۔ سلامتی کے ساتھ جنت میں جانے کا مطلب گناہوں یا نیک اعمال کی کثرت کی وجہ سے جہنم کی سزا برداشت کیے بغیر جنت میں داخلہ ہے۔ ایک روایت کے مطابق اس حدیث میں یہ جملہ بھی ہے۔ (وَصِلُو الْأَرْحَام) اور صلہ رحمی کرو۔ یعنی رشتہ داروں کے حقوق ادا کرو۔ (مسند أحمد: 451/4)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1334
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3251
´کھانا کھلانے کا بیان۔` عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو لوگ آپ کی طرف تیزی سے بڑھے، اور کہا گیا کہ اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، اللہ کے رسول آ گئے، یہ تین بار کہا، چنانچہ میں بھی لوگوں کے ساتھ پہنچا تاکہ (آپ کو) دیکھوں، جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ اچھی طرح دیکھا تو پہچان گیا کہ یہ چہرہ کسی جھوٹے کا نہیں ہو سکتا، اس وقت سب سے پہلی بات جو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنی وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلاؤ، رشتوں کو جوڑو، اور رات میں جب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3251]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کسی عظیم نیک شخصیت یا بڑے عالم کی تشریف آوری پر اس کا استقبال کرنا چاہیے اوراس سے ملاقات کے لیے حاضر ہونا چاہیے۔
(2) نیک آدمی کی نیکی اور برے کی برائی چہرے سے ظاہر ہو جاتی ہے لیکن بعض لوگ اس کی پہچان نہیں رکھتے۔
(3) جب لوگ کسی عالم کی زیارت کے لیے جمع ہوں تواسے چاہیے کہ مناسب وعظ نصیحت کرے۔
(4) سلام عام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان کو سلام کہا جائے اور جب بھی ملاقات ہو سلام کہا جائے۔ اور جسے سلام کہا جائے وہ اس کا جواب دے۔
(5) کھانا کھلانے سےمراد مہمانوں کی خدمت بھی اور غریب ومستحق افراد کی امداد بھی۔
(6) صلہ رحمی سے مراد قریبی رشتے داروں سے حسن سلوک ہے جس میں ان سے میل ملاقات، مشکل میں ان کی مدد اور حسن سلوک کی دیگر سب صورتیں شامل ہیں۔
(7) نماز تہجد ایک عظیم نیکی ہے جس میں خلوص اللہ کی طرف توجہ دعا ومناجات اور بہت سے فوائد اور برکات موجود ہیں۔
(8) حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ا دائیگی سے جنت ملتی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3251