(مرفوع) حدثنا الحسين بن الحسن المروزي بمكة، حدثنا ابن ابي عدي، حدثنا حميد، عن انس، قال: لما قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، اتاه المهاجرون , فقالوا: يا رسول الله , ما راينا قوما ابذل من كثير ولا احسن مواساة من قليل من قوم نزلنا بين اظهرهم، لقد كفونا المؤنة، واشركونا في المهنإ حتى لقد خفنا ان يذهبوا بالاجر كله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا ما دعوتم الله لهم واثنيتم عليهم " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَكَّةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، أَتَاهُ الْمُهَاجِرُونَ , فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا رَأَيْنَا قَوْمًا أَبْذَلَ مِنْ كَثِيرٍ وَلَا أَحْسَنَ مُوَاسَاةً مِنْ قَلِيلٍ مِنْ قَوْمٍ نَزَلْنَا بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ، لَقَدْ كَفَوْنَا الْمُؤْنَةَ، وَأَشْرَكُونَا فِي الْمَهْنَإِ حَتَّى لَقَدْ خِفْنَا أَنْ يَذْهَبُوا بِالْأَجْرِ كُلِّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا مَا دَعَوْتُمُ اللَّهَ لَهُمْ وَأَثْنَيْتُمْ عَلَيْهِمْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ کے پاس مہاجرین نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! جس قوم کے پاس ہم آئے ہیں ان سے بڑھ کر ہم نے کوئی قوم ایسی نہیں دیکھی جو اپنے مال بہت زیادہ خرچ کرنے والی ہے اور تھوڑے مال ہونے کی صورت میں بھی دوسروں کے ساتھ غم خواری کرنے والی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ہم کو محنت و مشقت سے باز رکھا اور ہم کو آرام و راحت میں شریک کیا یہاں تک کہ ہمیں خوف ہے کہ ہماری ساری نیکیوں کا ثواب کہیں انہیں کو نہ مل جائے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بات ایسی نہیں ہے جیسا تم نے سمجھا ہے جب تک تم لوگ اللہ سے ان کے لیے دعائے خیر کرتے رہو گے اور ان کا شکریہ ادا کرتے رہو گے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی جب تک تم ان کے حق میں خیر کی دعا کرتے رہو گے تو تمہاری یہ دعائیں ان کی نیکیوں کے بالمقابل ہوں گی، اور اس کا ثواب تمہیں ملے گا، اور تمہاری یہی دعائیں ان کی اس محنت و مشقت کا بدل ہوں گی جو انہوں نے تمہاری خاطر کیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3206)، التعليق الرغيب (2 / 56)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2487
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یعنی جب تک تم ان کے حق میں خیر کی دعا کرتے رہو گے تو تمہاری یہ دعائیں ان کی نیکیوں کے بالمقابل ہوں گی، اور اس کا ثواب تمہیں ملے گا، اور تمہاری یہی دعائیں ان کی اس محنت ومشقت کا بدل ہوں گی جو انہوں نے تمہاری خاطر کیا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2487
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4812
´نیکی و احسان کا شکریہ ادا کرنے کا بیان۔` انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مہاجرین نے کہا: اللہ کے رسول! سارا اجر تو انصار لے گئے، آپ نے فرمایا: ”نہیں (ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم اجر سے محروم رہو) جب تک تم اللہ سے ان کے لیے دعا کرتے رہو گے اور ان کی تعریف کرتے رہو گے۔“[سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4812]
فوائد ومسائل: زبانی اور عملی احسان مندی اور شکریے کےساتھ ساتھ اہم عمل یہ ہے کہ انسان اپنے محسن کے لیئے دعائیں کیا کرے۔ یعنی محض زبان سے شکریہ کا لفظ نہ کہے بلکہ دُعائیہ کلمات کہے اللہ تعالی تمھیں بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ اس کے علاوہ اپنے محسنوں کے لیئے غائیبانہ طور پر خصوصی دُعائیں بھی کرتا رہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4812