(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، حدثنا سفيان، عن حبيب بن ابي ثابت، عن مجاهد، عن ابي معمر، قال: قام رجل فاثنى على امير من الامراء، فجعل المقداد يحثو في وجهه التراب، وقال: " امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نحثو في وجوه المداحين التراب " , وفي الباب عن ابي هريرة، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روى زائدة، عن يزيد بن ابي زياد، عن مجاهد، عن ابن عباس، وحديث مجاهد، عن ابي معمر اصح، وابو معمر اسمه: عبد الله بن سخبرة، والمقداد بن الاسود هو المقداد بن عمرو الكندي ويكنى: ابا معبد وإنما نسب إلى الاسود بن عبد يغوث لانه كان قد تبناه وهو صغير.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ فَأَثْنَى عَلَى أَمِيرٍ مِنَ الْأُمَرَاءِ، فَجَعَلَ الْمِقْدَادُ يَحْثُو فِي وَجْهِهِ التُّرَابَ، وَقَالَ: " أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَحْثُوَ فِي وُجُوهِ الْمَدَّاحِينَ التُّرَابَ " , وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَى زَائِدَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَحَدِيثُ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ أَصَحُّ، وَأَبُو مَعْمَرٍ اسْمُهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَخْبَرَةَ، وَالْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ هُوَ الْمِقْدَادُ بْنُ عَمْرٍو الْكِنْدِيُّ وَيُكْنَى: أَبَا مَعْبَدٍ وَإِنَّمَا نُسِبَ إِلَى الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ لِأَنَّهُ كَانَ قَدْ تَبَنَّاهُ وَهُوَ صَغِيرٌ.
ابومعمر عبداللہ بن سخبرہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر ایک امیر کی تعریف شروع کی تو مقداد بن عمرو کندی رضی الله عنہ اس کے چہرے پر مٹی ڈالنے لگے، اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ تعریف کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈال دیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- زائدہ نے یہ حدیث مجاہد سے، مجاہد نے ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت کی ہے حالانکہ مجاہد کی روایت جو ابومعمر سے ہے وہ زیادہ صحیح ہے، ۳- ابومعمر کا نام عبداللہ بن سخبرہ ہے اور مقداد بن اسود مقداد بن عمرو الکندی ہیں، جن کی کنیت ابو معبد ہے۔ اسود بن عبدیغوث کی طرف ان کی نسبت اس لیے کی گئی کیونکہ انہوں نے مقداد کو لڑکپن میں اپنا متبنی بیٹا بنا لیا تھا، ۴- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزہد 14 (3002)، سنن ابی داود/ الأدب 10 (4804)، سنن ابن ماجہ/الأدب 36 (3742) (تحفة الأشراف: 11545)، و مسند احمد (6/5) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مٹی ڈالنے کا حکم شاید اس لیے ہے کہ جب کسی کی تعریف اس کے منہ پر کی جائے گی تو اس کے اندر کبر و غرور پیدا ہونے کا احتمال ہے اور اپنے عیب کو ہنر اور دوسرے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھنے کا خدشہ ہے، اس لیے تعریف کرنے والا کسی کی بے جا تعریف سے اور جس سے مذکورہ خطرہ محسوس ہو اپنے آپ کو بچائے کیونکہ اسے محرومی کے سوا کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
۴- ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم بے جا تعریف کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈال دیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت سے غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12249) (صحیح) (سند میں حسن بصری کا سماع ابوہریرہ رضی الله عنہ سے نہیں ہے، لیکن سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح ہے)»
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”مومن کے سوا کسی کی صحبت اختیار نہ کرو، اور تمہارا کھانا صرف متقی ہی کھائے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے، اسے ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الأدب 19 (4832) (تحفة الأشراف: 4049 و 4399)، و مسند احمد (3/38) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں اشارہ اس طرف ہے کہ ایک مسلمان دنیا میں رہتے ہوئے اچھے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرے، یہاں تک کہ کھانے کی دعوت دیتے وقت ایسے لوگوں کا انتخاب کرے جو متقی و پرہیزگار ہوں، کیونکہ دعوت سے آپسی الفت و محبت میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے کوشش یہ ہو کہ الف و محبت کسی پرہیزگار شخص سے ہو۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن سعد بن سنان، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا اراد الله بعبده الخير عجل له العقوبة في الدنيا، وإذا اراد الله بعبده الشر امسك عنه بذنبه حتى يوافي به يوم القيامة ".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِهِ الْخَيْرَ عَجَّلَ لَهُ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا، وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِعَبْدِهِ الشَّرَّ أَمْسَكَ عَنْهُ بِذَنْبِهِ حَتَّى يُوَافِيَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کے ساتھ خیر اور بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دنیا ہی میں جلد سزا دے دیتا ہے ۱؎، اور جب اپنے کسی بندے کے ساتھ شر (برائی) کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے گناہوں کی سزا کو روکے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ قیامت کے دن اسے پوری پوری سزا دیتا ہے“۔
قال الشيخ الألباني: (حديث: " إذا أراد الله ... ") حسن صحيح، (حديث: " إن عظم الجزاء.. ") حسن (حديث: " إذا أراد الله.. ")، الصحيحة (1220)، المشكاة (1565)، (حديث: " إن عظم الجزاء ... ")، ابن ماجة (4031)
قال الشيخ زبير على زئي: (2396) إسناده ضعيف / جه 4031 سعد بن سنان صدوق لكن رواية يزيد بن أبى حبيب عنه منكرة (انظر كتاب الضعفاء للعقيلي 119/2، رواه عن الامام أحمد و سنده قوي) وللحديث شواهد ضعيفة عندالحاكم (349/1،376/4،377)وغيره
(موقوف) وبهذا الإسناد، وبهذا الإسناد، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن عظم الجزاء مع عظم البلاء، وإن الله إذا احب قوما ابتلاهم فمن رضي فله الرضا، ومن سخط فله السخط " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه.(موقوف) وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ عِظَمَ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلَاءِ، وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلَاهُمْ فَمَنْ رَضِيَ فَلَهُ الرِّضَا، وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السَّخَطُ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بڑا ثواب بڑی بلا (آزمائش) کے ساتھ ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزماتا ہے پس جو اللہ کی تقدیر پر راضی ہو اس کے لیے اللہ کی رضا ہے اور جو اللہ کی تقدیر سے ناراض ہو تو اللہ بھی اس سے ناراض ہو جاتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اللہ تعالیٰ اسے مشکلات سے دو چار کرتا ہے، اور مختلف قسم کی آزمائشوں میں ڈال کر اس کا امتحان لیتا ہے، گویا دنیا کی آزمائشیں مومن کے لیے نعمت ہیں، یہ گناہوں کی بخشش اور ثواب میں اضافہ کا باعث ہیں، شرف و فضیلت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ بندہ ہر آزمائش و تکلیف میں صبر و رضا کا پیکر ہو۔
قال الشيخ الألباني: (حديث: " إذا أراد الله ... ") حسن صحيح، (حديث: " إن عظم الجزاء.. ") حسن (حديث: " إذا أراد الله.. ")، الصحيحة (1220)، المشكاة (1565)، (حديث: " إن عظم الجزاء ... ")، ابن ماجة (4031)
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، اخبرنا شعبة، عن الاعمش، قال: سمعت ابا وائل يقول: قالت عائشة: " ما رايت الوجع على احد اشد منه على رسول الله صلى الله عليه وسلم " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يَقُولُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: " مَا رَأَيْتُ الْوَجَعَ عَلَى أَحَدٍ أَشَدَّ مِنْهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درد سے زیادہ درد کسی شخص کا نہیں دیکھا ۱؎۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن عاصم بن بهدلة، عن مصعب بن سعد، عن ابيه، قال: قلت: يا رسول الله , اي الناس اشد بلاء؟ قال: " الانبياء، ثم الامثل، فالامثل، فيبتلى الرجل على حسب دينه، فإن كان دينه صلبا اشتد بلاؤه، وإن كان في دينه رقة ابتلي على حسب دينه، فما يبرح البلاء بالعبد حتى يتركه يمشي على الارض ما عليه خطيئة " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وفي الباب عن ابي هريرة , واخت حذيفة بن اليمان , ان النبي صلى الله عليه وسلم سئل اي الناس اشد بلاء؟ قال: الانبياء ثم الامثل فالامثل.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ: " الْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ، فَالْأَمْثَلُ، فَيُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَإِنْ كَانَ دِينُهُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلَاؤُهُ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ، فَمَا يَبْرَحُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الْأَرْضِ مَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ , وَأُخْتِ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلَاءً؟ قَالَ: الْأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سب سے زیادہ مصیبت کس پر آتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ”انبیاء و رسل پر، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر بندہ اپنے دین میں سخت ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتا ہے تو اس کے دین کے مطابق مصیبت بھی ہوتی ہے، پھر مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس باب میں ابوہریرہ اور حذیفہ بن یمان کی بہن فاطمہ رضی الله عنہم سے بھی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ مصیبتیں کس پر زیادہ آتی ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انبیاء و رسل پر پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں پھر جو ان کے بعد میں ہوں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الفتن 23 (4023) (تحفة الأشراف: 3934)، وسنن الدارمی/الرقاق 67 (2825)، و مسند احمد (1/172، 174، 180، 185) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ جو بندہ اپنے ایمان میں جس قدر مضبوط ہو گا اسی قدر اس کی ابتلاء و آزمائش بھی ہو گی، لیکن اس ابتلاء و آزمائش میں اس کے لیے ایک بھلائی کا بھی پہلو ہے کہ اس سے اس کے گناہ معاف ہوتے رہیں گے، اور بندہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الاعلى، حدثنا يزيد بن زريع، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما يزال البلاء بالمؤمن والمؤمنة في نفسه وولده وماله حتى يلقى الله وما عليه خطيئة " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَةِ فِي نَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَمَالِهِ حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن مرد اور مومن عورت کی جان، اولاد، اور مال میں آزمائشیں آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ مرنے کے بعد اللہ سے ملاقات کرتے ہیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہوتا“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مومن ہمیشہ آزمائش سے دو چار رہے گا، لیکن یہ آزمائشیں اس کے لیے اس کے گناہوں کا کفارہ بنتی رہیں گی، بشرطیکہ وہ صبر کا دامن پکڑے رہے اور ایمان پر مضبوطی سے قائم رہے۔
(قدسي) حدثنا حدثنا عبد الله بن معاوية الجمحي، حدثنا عبد العزيز بن مسلم، حدثنا ابو ظلال، عن انس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله يقول: " إذا اخذت كريمتي عبدي في الدنيا لم يكن له جزاء عندي إلا الجنة " , وفي الباب عن ابي هريرة , وزيد بن ارقم، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه، وابو ظلال اسمه: هلال.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو ظِلَالٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: " إِذَا أَخَذْتُ كَرِيمَتَيْ عَبْدِي فِي الدُّنْيَا لَمْ يَكُنْ لَهُ جَزَاءٌ عِنْدِي إِلَّا الْجَنَّةَ " , وفي الباب عن أَبِي هُرَيْرَةَ , وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو ظِلَالٍ اسْمُهُ: هِلَالٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جب میں اپنے بندے کی پیاری آنکھیں چھین لیتا ہوں تو میرے پاس اس کا بدلہ صرف جنت ہی ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور زید بن ارقم رضی الله عنہما سے احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المرضی 7 (تعلیقا عقب حدیث رقم 5653، وھو أیضا عن أنس نحوہ) (تحفة الأشراف: 1643) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: انسان کو جو نعمتیں رب العالمین کی جانب سے حاصل ہیں، ان میں آنکھ ایک بڑی عظیم نعمت ہے، یہی وجہ ہے کہ رب العالمین جب کسی بندے سے یہ نعمت چھین لیتا ہے اور بندہ اس پر صبر و رضا سے کام لیتا ہے تو اسے قیامت کے دن اس نعمت کے بدل میں جس چیز سے نوازا جائے گا وہ جنت ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (4 / 155 و 156)
(قدسي) حدثنا حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا سفيان، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال: يقول الله عز وجل: " من اذهبت حبيبتيه فصبر واحتسب لم ارض له ثوابا دون الجنة " , وفي الباب عن عرباض بن سارية، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: " مَنْ أَذْهَبْتُ حَبِيبَتَيْهِ فَصَبَرَ وَاحْتَسَبَ لَمْ أَرْضَ لَهُ ثَوَابًا دُونَ الْجَنَّةِ " , وفي الباب عن عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے جس کی پیاری آنکھیں چھین لیں اور اس نے اس پر صبر کیا اور ثواب کی امید رکھی تو میں اسے جنت کے سوا اور کوئی بدلہ نہیں دوں گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عرباض بن ساریہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12386)، و مسند احمد (2/265) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (4 / 156)