(مرفوع) حدثنا هشام بن يونس الكوفي، حدثنا القاسم بن مالك المزني، عن الجريري، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتعوذ من الجان وعين الإنسان حتى نزلت المعوذتان، فلما نزلتا اخذ بهما وترك ما سواهما "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن انس وهذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُونُسَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ الْمُزَنِيُّ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنَ الْجَانِّ وَعَيْنِ الْإِنْسَانِ حَتَّى نَزَلَتِ الْمُعَوِّذَتَانِ، فَلَمَّا نَزَلَتَا أَخَذَ بِهِمَا وَتَرَكَ مَا سِوَاهُمَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ أَنَسٍ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنوں اور انسان کی نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے، یہاں تک کہ معوذتین (سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) نازل ہوئیں، جب یہ سورتیں اتر گئیں تو آپ نے ان دونوں کو لے لیا اور ان کے علاوہ کو چھوڑ دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں انس سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: ان دونوں سورتوں یعنی «قل أعوذ برب الفلق» اور «قل أعوذ برب الناس» کے بہت سارے فائدے ہیں، انہیں صبح و شام تین تین بار پڑھنے والا إن شاء اللہ مختلف قسم کی بلاؤں اور آفتوں سے محفوظ رہے گا، ان سورتوں کے نازل ہونے کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دونوں کے ذریعہ پناہ مانگا کرتے تھے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3511)
قال الشيخ زبير على زئي: (2058) إسناده ضعيف / ن 5496، جه 3511 الجريري اختلط (د 1555) ولم أجد راويًا عنه فى ھذا الحديث قبل اختلاطه
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، عن عروة وهو ابو حاتم بن عامر، عن عبيد بن رفاعة الزرقي، ان اسماء بنت عميس، قالت: يا رسول الله، إن ولد جعفر تسرع إليهم العين، افاسترقي لهم، فقال: " نعم، فإنه لو كان شيء سابق القدر لسبقته العين "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن عمران بن حصين، وبريدة، وهذا حديث حسن صحيح، وقد روي هذا عن ايوب، عن عمرو بن دينار، عن عروة بن عامر، عن عبيد بن رفاعة، عن اسماء بنت عميس، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ وَهُوَ أَبُو حَاتِمْ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ الزُّرَقِيِّ، أَنَّ أَسْمَاءَ بِنْتَ عُمَيْسٍ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ وَلَدَ جَعْفَرٍ تُسْرِعُ إِلَيْهِمُ الْعَيْنُ، أَفَأَسْتَرْقِي لَهُمْ، فَقَالَ: " نَعَمْ، فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ لَسَبَقَتْهُ الْعَيْنُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَبُرَيْدَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبید بن رفاعہ زرقی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ اسماء بنت عمیس رضی الله عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جعفر طیار رضی الله عنہ کے لڑکوں کو بہت جلد نظر بد لگ جاتی ہے، کیا میں ان کے لیے جھاڑ پھونک کراؤں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، اس لیے کہ اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت کر سکتی تو اس پر نظر بد ضرور سبقت کرتی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث «عن أيوب عن عمرو بن دينار عن عروة بن عامر عن عبيد بن رفاعة عن أسماء بنت عميس عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے بھی مروی ہے، ۳- اس باب میں عمران بن حصین اور بریدہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطب 33 (3510)، (والنسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 15758) (صحیح)»
(مرفوع) حدثنا بذلك الحسن بن علي الخلال، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن ايوب بهذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ بِهَذَا.
اس سند سے بھی اسماء بنت عمیس رضی الله عنہا سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
فائدہ ۱؎: معلوم ہوا کہ نظر بد کا اثر بے انتہائی نقصان دہ اور تکلیف دہ ہے، یہاں تک کہ اگر کوئی چیز خلاف تقدیر پیش آ سکتی اور ضرر پہنچا سکتی تو وہ نظر بد ہوتی۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3510)
18. باب
18. باب: نظر بد کی وجہ سے جھاڑ پھونک پر ایک اور باب۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، ويعلى، عن سفيان، عن منصور، عن المنهال بن عمرو، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعوذ الحسن والحسين، يقول: " اعيذكما بكلمات الله التامة، من كل شيطان وهامة، ومن كل عين لامة، ويقول: هكذا كان إبراهيم يعوذ إسحاق وإسماعيل عليهم السلام ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، وَيَعْلَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ، يَقُولُ: " أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ، مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ، وَيَقُولُ: هَكَذَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يُعَوِّذُ إِسْحَاق وَإِسْمَاعِيل عَلَيْهِمُ السَّلَام ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول حسن اور حسین رضی الله عنہما پر یہ کلمات پڑھ کر جھاڑ پھونک کرتے تھے: «أعيذكما بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة ومن كل عين لامة»”میں تمہارے لیے اللہ کے مکمل اور پورے کلمات کے وسیلے سے ہر شیطان اور ہلاک کرنے والے زہریلے کیڑے اور نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں“، اور آپ فرماتے تھے: ”اسماعیل اور اسحاق کے لیے اسی طرح ابراہیم علیہم السلام پناہ مانگتے تھے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/احادیث الأنبیاء 10 (3669)، سنن ابی داود/ السنة 22 (4737)، سنن ابن ماجہ/الطب 36 (3525) (صحیح)»
حابس تمیمی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: الو (کے سلسلے میں لوگوں کے اعتقاد) کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نظر بد کا اثر حقیقی چیز ہے (یعنی سچ ہے)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3272)، وانظر مسند احمد (4/67) (صحیح) (سند میں حیہ بن حابس متابعت کے باب میں مقبول راوی ہیں، اس لیے حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، تراجع الالبانی/5، السراج المنیر 5590)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، لكن قوله: " العين حق " صحيح.، الضعيفة (4804)، الصحيحة (1248) // ضعيف الجامع الصغير (6295)، صحيح الجامع الصغير (7503) //
(مرفوع) حدثنا احمد بن الحسن بن خراش البغدادي، حدثنا احمد بن إسحاق الحضرمي، حدثنا وهيب، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو كان شيء سابق القدر لسبقته العين، وإذا استغسلتم فاغسلوا "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن عبد الله بن عمرو، وهذا حديث حسن صحيح غريب، وحديث حية بن حابس حديث غريب، وروى شيبان، عن يحيى بن ابي كثير، عن حية بن حابس، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وعلي بن المبارك، وحرب بن شداد، لا يذكران فيه عن ابي هريرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ خِرَاشٍ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاق الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ كَانَ شَيْءٌ سَابَقَ الْقَدَرَ لَسَبَقَتْهُ الْعَيْنُ، وَإِذَا اسْتُغْسِلْتُمْ فَاغْسِلُوا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَحَدِيثُ حَيَّةَ بْنِ حَابِسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ حَيَّةَ بْنِ حَابِسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَحَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ، لَا يَذْكُرَانِ فِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت (پہل) کر سکتی تو اس پر نظر بد ضرور سبقت (پہل) کرتی، اور جب لوگ تم سے غسل کرائیں تو تم غسل کر لو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- حیہ بن حابس کی روایت (جو اوپر مذکور ہے) غریب ہے، ۳- شیبان نے اسے «عن يحيى بن أبي كثير عن حية بن حابس عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کیا ہے جب کہ علی بن مبارک اور حرب بن شداد نے اس سند میں ابوہریرہ کے واسطہ کا ذکر نہیں کیا ہے، ۴- اس باب میں عبداللہ بن عمرو سے بھی روایت ہے۔
وضاحت: ۱؎: زمانہ جاہلیت میں نظر بد کا ایک علاج یہ تھا کہ جس آدمی کی نظر لگنے کا اندیشہ ہوتا اس سے غسل کرواتے، اور اس پانی سے نظر لگنے والے کو غسل دیتے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل کو سند جواز عطا فرمایا، اور فرمایا کہ اگر کسی سے ایسے غسل کی طلب کی جائے تو وہ برا نہ مانے اور غسل کر کے غسل کیا ہوا پانی نظر بد لگنے والے کو دیدے۔ مگر اس غسل کا طریقہ عام غسل سے سے قدرے مختلف ہے، تفصیل کے لیے ہماری کتاب ”مسنون وظائف واذکار اور شافی طریقہ علاج“ کا مطالعہ کریں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1251 - 1252)، الكلم الطيب (242)
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن جعفر بن إياس، عن ابي نضرة، عن ابي سعيد الخدري، قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية فنزلنا بقوم، فسالناهم القرى فلم يقرونا، فلدغ سيدهم فاتونا، فقالوا: هل فيكم من يرقي من العقرب، قلت: نعم انا، ولكن لا ارقيه حتى تعطونا غنما، قال: فإنا نعطيكم ثلاثين شاة، فقبلنا، فقرات عليه الحمد لله سبع مرات فبرا، وقبضنا الغنم، قال: فعرض في انفسنا منها شيء، فقلنا: لا تعجلوا حتى تاتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فلما قدمنا عليه ذكرت له الذي صنعت، قال: " وما علمت انها رقية، اقبضوا الغنم واضربوا لي معكم بسهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وابو نضرة اسمه المنذر بن مالك بن قطعة، ورخص الشافعي للمعلم ان ياخذ على تعليم القرآن اجرا، ويرى له ان يشترط على ذلك، واحتج بهذا الحديث، وجعفر بن إياس هو جعفر بن ابي وحشية، وهو ابو بشر، وروى شعبة، وابو عوانة، وغير واحد، عن ابي بشر هذا الحديث، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ فَنَزَلْنَا بِقَوْمٍ، فَسَأَلْنَاهُمُ الْقِرَى فَلَمْ يَقْرُونَا، فَلُدِغَ سَيِّدُهُمْ فَأَتَوْنَا، فَقَالُوا: هَلْ فِيكُمْ مَنْ يَرْقِي مِنَ الْعَقْرَبِ، قُلْتُ: نَعَمْ أَنَا، وَلَكِنْ لَا أَرْقِيهِ حَتَّى تُعْطُونَا غَنَمًا، قَالَ: فَإِنَّا نُعْطِيكُمْ ثَلَاثِينَ شَاةً، فَقَبِلْنَا، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَبْعَ مَرَّاتٍ فَبَرَأَ، وَقَبَضْنَا الْغَنَمَ، قَالَ: فَعَرَضَ فِي أَنْفُسِنَا مِنْهَا شَيْءٌ، فَقُلْنَا: لَا تَعْجَلُوا حَتَّى تَأْتُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَيْهِ ذَكَرْتُ لَهُ الَّذِي صَنَعْتُ، قَالَ: " وَمَا عَلِمْتَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ، اقْبِضُوا الْغَنَمَ وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَهْمٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو نَضْرَةَ اسْمُهُ الْمُنْذِرُ بْنُ مَالِكِ بْنِ قُطَعَةَ، وَرَخَّصَ الشَّافِعِيُّ لِلْمُعَلِّمِ أَنْ يَأْخُذَ عَلَى تَعْلِيمِ الْقُرْآنِ أَجْرًا، وَيَرَى لَهُ أَنْ يَشْتَرِطَ عَلَى ذَلِكَ، وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَجَعْفَرُ بْنُ إِيَاسٍ هُوَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ، وَهُوَ أَبُو بِشْرٍ، وَرَوَى شُعْبَةُ، وَأَبُو عَوَانَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا، ہم نے ایک قوم کے پاس پڑاؤ ڈالا اور ان سے ضیافت کی درخواست کی، لیکن ان لوگوں نے ہماری ضیافت نہیں کی، اسی دوران ان کے سردار کو بچھو نے ڈنک مار دیا، چنانچہ انہوں نے ہمارے پاس آ کر کہا: کیا آپ میں سے کوئی بچھو کے ڈنک سے جھاڑ پھونک کرتا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، میں کرتا ہوں، لیکن اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک کہ تم مجھے کچھ بکریاں نہ دے دو، انہوں نے کہا: ہم تم کو تیس بکریاں دیں گے، چنانچہ ہم نے قبول کر لیا اور میں نے سات بار سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کیا تو وہ صحت یاب ہو گیا اور ہم نے بکریاں لے لیں ۱؎، ہمارے دل میں بکریوں کے متعلق کچھ خیال آیا ۲؎، لہٰذا ہم نے کہا: جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جائیں، جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو میں نے جو کچھ کیا تھا آپ سے بیان کر دیا، آپ نے فرمایا: ”تم نے کیسے جانا کہ سورۃ فاتحہ رقیہ (جھاڑ پھونک کی دعا) ہے؟ تم لوگ بکریاں لے لو اور اپنے ساتھ اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- شعبہ، ابو عوانہ ہشام اور کئی لوگوں نے یہ حدیث «عن أبي المتوكل عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے، ۳- تعلیم قرآن پر معلم کے لیے اجرت لینے کو امام شافعی نے جائز کہا ہے اور وہ معلم کے لیے اجرت کی شرط لگانے کو درست سمجھتے ہیں، انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإجارة 16 (2276)، وفضائل القرآن 9 (5007)، والطب 33 (5736)، و39 (5749)، صحیح مسلم/السلام 23 (2201)، سنن ابی داود/ الطب 19 (3900)، سنن ابن ماجہ/التجارات 7 (2156) (تحفة الأشراف: 4307)، و مسند احمد (3/44) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ خیال آیا کہ یہ ہمارے لیے حلال ہیں یا نہیں۔
۲؎: جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اذان، قضاء، امامت، اور تعلیم قرآن کی اجرت لی جا سکتی ہے، کیونکہ صحیح بخاری میں کتاب اللہ کی تعلیم کی بابت اجرت لینے سے متعلق ابن عباس کی روایت اور سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کر کے اس کی اجرت لینے سے متعلق ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی یہ حدیث جو صحیح بخاری میں بھی ہے، اسی طرح صحیحین میں سہل بن سعد رضی الله عنہ کی حدیث جس میں ہے کہ آپ نے ایک شخص کے نکاح میں قرآن کی چند آیات کو مہر قرار دیا یہ ساری کی ساری روایات اس کے جواز پر دلیل ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثني عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا شعبة، حدثنا ابو بشر، قال: سمعت ابا المتوكل يحدث، عن ابي سعيد، ان ناسا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم مروا بحي من العرب، فلم يقروهم ولم يضيفوهم، فاشتكى سيدهم فاتونا، فقالوا: هل عندكم دواء: قلنا: نعم، ولكن لم تقرونا ولم تضيفونا، فلا نفعل حتى تجعلوا لنا جعلا، فجعلوا على ذلك قطيعا من الغنم، قال: فجعل رجل منا يقرا عليه بفاتحة الكتاب فبرا، فلما اتينا النبي صلى الله عليه وسلم ذكرنا ذلك له قال: " وما يدريك انها رقية "، ولم يذكر نهيا منه، وقال: " كلوا واضربوا لي معكم بسهم "، قال ابو عيسى: هذا حديث صحيح، وهذا اصح من حديث الاعمش، عن جعفر بن إياس، وهكذا روى غير واحد هذا الحديث، عن ابي بشر جعفر بن ابي وحشية، عن ابي المتوكل، عن ابي سعيد، وجعفر بن إياس هو جعفر بن ابي وحشية.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا الْمُتَوَكِّلِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرُّوا بِحَيٍّ مِنَ الْعَرَبِ، فَلَمْ يَقْرُوهُمْ وَلَمْ يُضَيِّفُوهُمْ، فَاشْتَكَى سَيِّدُهُمْ فَأَتَوْنَا، فَقَالُوا: هَلْ عِنْدَكُمْ دَوَاءٌ: قُلْنَا: نَعَمْ، وَلَكِنْ لَمْ تَقْرُونَا وَلَمْ تُضَيِّفُونَا، فَلَا نَفْعَلُ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا، فَجَعَلُوا عَلَى ذَلِكَ قَطِيعًا مِنَ الْغَنَمِ، قَالَ: فَجَعَلَ رَجُلٌ مِنَّا يَقْرَأُ عَلَيْهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَبَرَأَ، فَلَمَّا أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهُ قَالَ: " وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ "، وَلَمْ يَذْكُرْ نَهْيًا مِنْهُ، وَقَالَ: " كُلُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ بِسَهْمٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي وَحْشِيَّةَ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَجَعْفَرُ بْنُ إِيَاسٍ هُوَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِي وَحْشِيَّةَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کچھ صحابہ (جن میں شامل میں بھی تھا) عرب کے ایک قبیلہ کے پاس سے گزرے، انہوں نے ان کی مہمان نوازی نہیں کی، اسی دوران ان کا سردار بیمار ہو گیا، چنانچہ ان لوگوں نے ہمارے پاس آ کر کہا: آپ لوگوں کے پاس کوئی علاج ہے؟ ہم نے کہا: ہاں، لیکن تم نے ہماری مہمان نوازی نہیں کی ہے اس لیے ہم اس وقت تک علاج نہیں کریں گے جب تک تم ہمارے لیے اجرت نہ متعین کر دو، انہوں نے اس کی اجرت میں بکری کا ایک گلہ مقرر کیا، ہم میں سے ایک آدمی (یعنی میں خود) اس کے اوپر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے لگا تو وہ صحت یاب ہو گیا، پھر جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اس واقعہ کو بیان کیا تو آپ نے فرمایا: ”تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ جھاڑ پھونک (کی دعا) ہے؟ ابو سعید خدری رضی الله عنہ نے آپ سے اس پر کوئی نکیر ذکر نہیں کی، آپ نے فرمایا: ”کھاؤ اور اپنے ساتھ اس میں میرا بھی حصہ لگاؤ“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- یہ حدیث اعمش کی اس روایت سے جو جعفر بن ایاس کے واسطہ سے آئی ہے زیادہ صحیح ہے، ۳- کئی لوگوں نے یہ حدیث «عن أبي بشر جعفر بن أبي وحشية عن أبي المتوكل عن أبي سعيد» کی سند سے روایت کی ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن ابي خزامة، عن ابيه، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، ارايت رقى نسترقيها ودواء نتداوى به وتقاة نتقيها: هل ترد من قدر الله شيئا؟ قال: " هي من قدر الله! "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح،(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رُقًى نَسْتَرْقِيهَا وَدَوَاءً نَتَدَاوَى بِهِ وَتُقَاةً نَتَّقِيهَا: هَلْ تَرُدُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ شَيْئًا؟ قَالَ: " هِيَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ! "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،
ابوخزامہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! جس دم سے ہم جھاڑ پھونک کرتے ہیں، جس دوا سے علاج کرتے ہیں اور جن بچاؤ کی چیزوں سے ہم اپنا بچاؤ کرتے ہیں (ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟) کیا یہ اللہ کی تقدیر میں کچھ تبدیلی کرتی ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”یہ سب بھی اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر ہی کا حصہ ہیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الطب 1 (3437) (تحفة الأشراف: 11898) (ضعیف) (اس کی سند میں اضطراب ہے۔یعنی ”أبوخزامة، عن أبيه“ یا ”ابن أبي خزامة، عن أبيه“ نیز ابو خزامہ تابعی ہیں یا صحابی؟، اگر ”ابو خزامہ“ تابعی ہیں تو ان کا حال معلوم نہیں، اگر یہ صحابی ہیں تو ان کے بیٹے ”ابن أبی خزمہ“ ہیں، تراجع الالبانی 344)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ان کی توفیق حسب تقدیر الٰہی ہوتی ہے، اس لیے اسباب کو اپنانا چاہیئے، لیکن یہ اعتقاد نہ ہو کہ ان سے تقدیر بدل جاتی ہے، کیونکہ اللہ اپنے فیصلہ کو نہیں بدلتا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3437) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (749)، وسيأتي برقم (379 / 2252) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2065) إسناده ضعيف / جه 3437 وسيأتي:2148 ابن أبى خزامة مجھول الحال، وثقه التزمزي وحده