قتادہ بن نعمان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے دنیا سے اسی طرح بچاتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی آدمی اپنے بیمار کو پانی سے بچاتا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث محمود بن لبید کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسل طریقہ سے آئی ہے، ۳- اس باب میں صہیب اور ام منذر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اللہ کی نظر میں جب اس کا کوئی بندہ محبوب ہو جاتا ہے تو اس کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ اس کی دنیا ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے اس محبوب بندے کو دنیا سے ٹھیک اسی طرح بچاتا اور اسے محفوظ رکھتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے بیمار کو کھانے اور پانی سے بچاتا ہے، کیونکہ اسے جو مرض لاحق ہے اس میں کھانا پانی اس کے لیے بےحد مضر اور نقصان دہ ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (5250 / التحقيق الثاني)
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن جعفر، عن عمرو بن ابي عمرو، عن عاصم بن عمر بن قتادة، عن محمود بن لبيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه، ولم يذكر فيه عن قتادة بن النعمان، قال ابو عيسى: وقتادة بن النعمان الظفري هو اخو ابي سعيد الخدري لامه، ومحمود بن لبيد قد ادرك النبي صلى الله عليه وسلم ورآه وهو غلام صغير.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَتَادَةُ بْنُ النُّعْمَانِ الظَّفَرِيُّ هُوَ أَخُو أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ لِأُمِّهِ، وَمَحْمُودُ بْنُ لَبِيدٍ قَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَآهُ وَهُوَ غُلَامٌ صَغِيرٌ.
اس سند سے محمود بن لبید سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں قتادہ بن نعمان رضی الله عنہ کا تذکرہ نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- قتادہ بن نعمان ظفری، ابو سعید خدری کے اخیافی (ماں شریک) بھائی ہیں، ۲- محمود بن لبید نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا ہے اور کم سنی میں آپ کو دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (5250 / التحقيق الثاني)
(مرفوع) حدثنا عباس بن محمد الدوري، حدثنا يونس بن محمد، حدثنا فليح بن سليمان، عن عثمان بن عبد الرحمن التيمي، عن يعقوب بن ابي يعقوب، عن ام المنذر، قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم ومعه علي ولنا دوال معلقة، قالت: فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم ياكل، وعلي معه ياكل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي: " مه مه يا علي، فإنك ناقه "، قال: فجلس علي والنبي صلى الله عليه وسلم ياكل، قالت: فجعلت لهم سلقا وشعيرا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا علي، " من هذا فاصب فإنه اوفق لك "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث فليح، ويروى عن فليح، عن ايوب بن عبد الرحمن(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، عَنْ أُمِّ الْمُنْذِرِ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعَهُ عَلِيٌّ وَلَنَا دَوَالٍ مُعَلَّقَةٌ، قَالَتْ: فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ، وَعَلِيٌّ مَعَهُ يَأْكُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ: " مَهْ مَهْ يَا عَلِيُّ، فَإِنَّكَ نَاقِهٌ "، قَالَ: فَجَلَسَ عَلِيٌّ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْكُلُ، قَالَتْ: فَجَعَلْتُ لَهُمْ سِلْقًا وَشَعِيرًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَلِيُّ، " مِنْ هَذَا فَأَصِبْ فَإِنَّهُ أَوْفَقُ لَكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ فُلَيْحٍ، وَيُرْوَى عَنْ فُلَيْحٍ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ
ام منذر رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی رضی الله عنہ کے ساتھ میرے گھر تشریف لائے، ہمارے گھر کھجور کے خوشے لٹکے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے کھانے لگے اور آپ کے ساتھ علی رضی الله عنہ بھی کھانے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی الله عنہ سے فرمایا: علی! ٹھہر جاؤ، ٹھہر جاؤ، اس لیے کہ ابھی ابھی بیماری سے اٹھے ہو، ابھی کمزوری باقی ہے، ام منذر کہتی ہیں: علی رضی الله عنہ بیٹھ گئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھاتے رہے، پھر میں نے ان کے لیے چقندر اور جو تیار کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: علی! اس میں سے لو (کھاؤ)، یہ تمہارے مزاج کے موافق ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف فلیح کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- یہ حدیث فلیح سے بھی مروی ہے جسے وہ ایوب بن عبدالرحمٰن سے روایت کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطب 2 (3856)، سنن ابن ماجہ/الطب 3 (3442) (تحفة الأشراف: 18362)، و مسند احمد (6/364) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مریض اپنے مزاج و طبیعت کا خیال رکھتے ہوئے کھانے پینے کی چیزوں سے پرہیز کرے، ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ مرض سے شفاء یابی کے بعد بھی بیمار احتیاط برتتے ہوئے نقصان دہ چیزوں کے کھانے پینے سے پرہیز کرے۔
اس سند سے بھی ام منذر انصاریہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے۔ اس کے بعد راوی نے یونس بن محمد کی حدیث جیسی حدیث بیان کی جسے وہ فلیح بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں مگر اس میں «أوفق لك» کے بجائے «أنفع لك»”تمہارے لیے زیادہ مفید ہے“ بیان کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث جید غریب ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن انظر ما بعده (2038)
2. باب مَا جَاءَ فِي الدَّوَاءِ وَالْحَثِّ عَلَيْهِ
2. باب: علاج کرنے کی ترغیب کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Remedies And Encouragement For Them
(مرفوع) حدثنا بشر بن معاذ العقدي، حدثنا ابو عوانة، عن زياد بن علاقة، عن اسامة بن شريك، قال: قالت الاعراب: يا رسول الله، الا نتداوى؟ قال: " نعم يا عباد الله، تداووا، فإن الله لم يضع داء إلا وضع له شفاء، او قال: دواء، إلا داء واحدا، قالوا: يا رسول الله، وما هو؟ قال: الهرم "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابن مسعود، وابي هريرة، وابي خزامة، عن ابيه، وابن عباس، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُعَاذٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ، قَالَ: قَالَتْ الْأَعْرَابُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نَتَدَاوَى؟ قَالَ: " نَعَمْ يَا عِبَادَ اللَّهِ، تَدَاوَوْا، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ لَهُ شِفَاءً، أَوْ قَالَ: دَوَاءً، إِلَّا دَاءً وَاحِدًا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا هُوَ؟ قَالَ: الْهَرَمُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي خُزَامَةَ، عَنْ أَبِيهِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اسامہ بن شریک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اعرابیوں (بدوؤں) نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ہم (بیماریوں کا) علاج کریں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، اللہ کے بندو! علاج کرو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بیماری پیدا کی ہے اس کی دوا بھی ضرور پیدا کی ہے، سوائے ایک بیماری کے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون سی بیماری ہے؟ آپ نے فرمایا: ”بڑھاپا“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، ابوہریرہ، «ابو خزامہ عن أبیہ»، اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطب 1 (3855)، سنن ابن ماجہ/الطب 1 (3436) (تحفة الأشراف: 127) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ مرض کے ساتھ ساتھ رب العالمین نے دوا اور علاج کا بھی بندوبست فرمایا ہے، لیکن بڑھاپا ایسا مرض ہے جس کا کوئی علاج نہیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس سے پناہ مانگتے تھے، یہ بھی معلوم ہوا کہ علاج و معالجہ کرنا مباح ہے اور مرض کی شفاء کے لیے اسباب تلاش کرنا جائز ہے۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، اخبرنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثنا محمد بن السائب بن بركة، عن امه، عن عائشة، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اخذ اهله الوعك امر بالحساء فصنع، ثم امرهم فحسوا منه، وكان يقول: " إنه ليرتو فؤاد الحزين، ويسرو عن فؤاد السقيم كما تسرو إحداكن الوسخ بالماء عن وجهها "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ السَّائِبِ بْنِ بَرَكَةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَخَذَ أَهْلَهُ الْوَعَكُ أَمَرَ بِالْحِسَاءِ فَصُنِعَ، ثُمَّ أَمَرَهُمْ فَحَسَوْا مِنْهُ، وَكَانَ يَقُولُ: " إِنَّهُ لَيَرْتُو فُؤَادَ الْحَزِينِ، وَيَسْرُو عَنْ فُؤَادِ السَّقِيمِ كَمَا تَسْرُو إِحْدَاكُنَّ الْوَسَخَ بِالْمَاءِ عَنْ وَجْهِهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کو تپ دق آتا تو آپ «حساء»۱؎ تیار کرنے کا حکم دیتے، «حساء» تیار کیا جاتا، پھر آپ ان کو تھوڑا تھوڑا پینے کا حکم دیتے، تو وہ اس میں سے پیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ” «حساء» غمگین کے دل کو تقویت دیتا ہے، اور مریض کے دل سے اسی طرح تکلیف دور کرتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی پانی کے ذریعہ اپنے چہرے سے میل دور کرتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/في الکبری: الطب (7573) سنن ابن ماجہ/الطب 5 (3445) (تحفة الأشراف: 17990) مسند احمد (6/79) (حسن) (سند میں أم محمد مقبول راوی ہیں، یعنی متابعت کے وقت، اور مؤلف نے عروہ کی متابعت ذکر کی ہے، جو صحیحین میں ہے، لیکن كما تسرو...الخ شاہد اور متابع نہ ہونے کی بنا پر ضعیف ہے، حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس آخری فقرے کو بھی نسائی کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور احمد اور ترمذی کی اس حدیث کو بھی ذکر کیا ہے، اور سکوت اختیار کیا ہے، یہ بھی اس حدیث کی ان کے نزدیک تقویت کی دلیل ہے)»
وضاحت: ۱؎: جو کے آٹے کا شہد یا دودھ کے ساتھ (حریرہ)۔ آج کل جو سے بنی بارلی بہت مشہور غذا ہے، جس کو میٹھا اور نمکین دونوں طرح استعمال کرتے ہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3445) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (752)، المشكاة (4234) //
(مرفوع) وقد رواه ابن المبارك، عن يونس، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، حدثنا بذلك الحسين بن محمد، حدثنا به ابو إسحاق الطالقاني، عن ابن المبارك.(مرفوع) وَقَدْ رَوَاهُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا بِهِ أَبُو إِسْحَاق الطَّالْقَانِيُّ، عَنِ ابْنِ الْمُبَارَكِ.
ابن مبارک نے یہ حدیث «عن يونس عن الزهري عن عروة عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے روایت کی ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأطعمة 24 (5417)، والطب 8 (5689، 5690)، صحیح مسلم/السلام 30 (2216) (تحفة الأشراف: 16539، 16744) (صحیح) (تحفة الأشراف میں ہے کہ ترمذی نے کہا: وقد روى الزهري عن عروة عن عائشة شيئا من هذا)»
وضاحت: ۱؎: کتاب الطب میں روایت ہے کہ عائشہ رضی الله عنہا مریض اور میت پر غم کرنے والے کو تلبینہ پینے کا حکم دیتی تھیں اور کہتی تھیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے: تلبینہ مریض کے دل کو راحت اور سکون پہنچاتا ہے، اور غم کو کچھ ہلکا کرتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (3445) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (752)، المشكاة (4234) //
4. باب مَا جَاءَ لاَ تُكْرِهُوا مَرْضَاكُمْ عَلَى الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ
4. باب: ارشاد نبوی ہے: مریض کو کھانے پینے پر مجبور نہ کرو۔
Chapter: What Has Been Related About: Sick To Eat And Drink
عقبہ بن عامر جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے بیماروں کو کھانے پر مجبور نہ کرو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کھلاتا پلاتا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، وسعيد بن عبد الرحمن المخزومي، قالا: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " عليكم بهذه الحبة السوداء، فإن فيها شفاء من كل داء " إلا السام، والسام: الموت، قال ابو عيسى: وفي الباب عن بريدة، وابن عمر، وعائشة، وهذا حديث حسن صحيح، والحبة السوداء: هي الشونيز.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " عَلَيْكُمْ بِهَذِهِ الْحَبَّةِ السَّوْدَاءِ، فَإِنَّ فِيهَا شِفَاءً مِنْ كُلِّ دَاءٍ " إِلَّا السَّامَ، وَالسَّامُ: الْمَوْتُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ بُرَيْدَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْحَبَّةُ السَّوْدَاءُ: هِيَ الشُّونِيزُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اس کالے دانہ (کلونجی) کو لازمی استعمال کرو اس لیے کہ اس میں «سام» کے علاوہ ہر بیماری کی شفاء موجود ہے، «سام» موت کو کہتے ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں بریدہ، ابن عمر اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- «الحبة السوداء»، «شونيز»(کلونجی) کو کہتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا الحسن بن محمد الزعفراني، حدثنا عفان، حدثنا حماد بن سلمة، اخبرنا حميد، وثابت، وقتادة، عن انس، ان ناسا من عرينة قدموا المدينة فاجتووها، فبعثهم رسول الله صلى الله عليه وسلم في إبل الصدقة، وقال: " اشربوا من البانها وابوالها، " قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابن عباس، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ، وَثَابِتٌ، وَقَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ نَاسًا مِنْ عُرَيْنَةَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ فَاجْتَوَوْهَا، فَبَعَثَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِبِلِ الصَّدَقَةِ، وَقَالَ: " اشْرَبُوا مِنْ أَلْبَانِهَا وَأَبْوَالِهَا، " قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ عرینہ کے کچھ لوگ مدینہ آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہیں آئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صدقہ کے اونٹوں کے ساتھ (چراگاہ کی طرف) روانہ کیا اور فرمایا: ”تم لوگ اونٹنیوں کے دودھ اور پیشاب پیو“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس سے بھی روایت ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 72 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ اور اونٹنی کا پیشاب علاج کی غرض سے انہیں پینے کا حکم دیا، اس سے معلوم ہوا کہ حلال جانوروں کا پیشاب پاک ہے، اگر ناپاک ہوتا تو اس کے پینے کی اجازت نہ ہوتی، کیونکہ حرام اور نجس چیز سے علاج درست نہیں۔