(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن منصور، عن إبراهيم، عن همام بن الحارث، قال: مر رجل على حذيفة بن اليمان، فقيل له: إن هذا يبلغ الامراء الحديث عن الناس، فقال حذيفة: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا يدخل الجنة قتات "، قال سفيان: والقتات: النمام، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: مَرَّ رَجُلٌ عَلَى حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ هَذَا يُبَلِّغُ الْأُمَرَاءَ الْحَدِيثَ عَنِ النَّاسِ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَتَّاتٌ "، قَالَ سُفْيَانُ: وَالْقَتَّاتُ: النَّمَّامُ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ کے پاس سے ایک آدمی گزرا، ان سے کہا گیا کہ یہ شخص حکام کے پاس لوگوں کی باتیں پہنچاتا ہے، تو حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”چغل خور جنت میں نہیں داخل ہو گا“۱؎۔ سفیان کہتے ہیں: «قتات»، «نمام»”چغل خور“ کو کہتے ہیں۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت: ۱؎: حاکموں اور حکومتی عہدہ داروں کے پاس اہل ایمان اور صالح لوگوں کی چغلی کرنے والوں، ان کی رپورٹیں بنا بنا کر پیش کرنے والوں اور جھوٹ سچ ملا کر اپنے مفادات حاصل کرنے والوں کو اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کو ہمیشہ مدنظر رکھنا چاہیئے، دنیاوی مفادات چار دن کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں جب کہ اخروی حیات کا آخری کوئی سرا نہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1034)، غاية المرام (433)
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، عن ابي غسان محمد بن مطرف، عن حسان بن عطية، عن ابي امامة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الحياء والعي شعبتان من الإيمان، والبذاء والبيان شعبتان من النفاق "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، إنما نعرفه من حديث ابي غسان محمد بن مطرف، قال: والعي: قلة الكلام، والبذاء: هو الفحش في الكلام، والبيان: هو كثرة الكلام مثل هؤلاء الخطباء الذين يخطبون فيوسعون في الكلام ويتفصحون فيه من مدح الناس فيما لا يرضي الله.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ أَبِي غَسَّانَ مُحَمَّدِ بْنِ مُطَرِّفٍ، عَنْ حَسَّانَ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْحَيَاءُ وَالْعِيُّ شُعْبَتَانِ مِنَ الْإِيمَانِ، وَالْبَذَاءُ وَالْبَيَانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي غَسَّانَ مُحَمَّدِ بْنِ مُطَرِّفٍ، قَالَ: وَالْعِيُّ: قِلَّةُ الْكَلَامِ، وَالْبَذَاءُ: هُوَ الْفُحْشُ فِي الْكَلَامِ، وَالْبَيَانُ: هُوَ كَثْرَةُ الْكَلَامِ مِثْلُ هَؤُلَاءِ الْخُطَبَاءِ الَّذِينَ يَخْطُبُونَ فَيُوَسِّعُونَ فِي الْكَلَامِ وَيَتَفَصَّحُونَ فِيهِ مِنْ مَدْحِ النَّاسِ فِيمَا لَا يُرْضِي اللَّهَ.
ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیاء اور کم گوئی ایمان کی دو شاخیں ہیں، جب کہ فحش کلامی اور کثرت کلام نفاق کی دو شاخیں ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب، ہم اسے صرف ابوغسان محمد بن مطرف ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- «عي» کا معنی ”کم گوئی“ اور «بذاء» کا معنی ”فحش گوئی“ ہے، «بيان» کا معنی ”کثرت کلام“ ہے، مثلا وہ مقررین جو لمبی تقریریں کرتے ہیں اور لوگوں کی تعریف میں ایسی فصاحت بگھاڑتے ہیں جو اللہ کو پسند نہیں ہے۔
وضاحت: ۱؎: یعنی: حیاء اور کم گوئی کے سبب انسان بہت سے گناہوں سے بچ جاتا ہے، یہ دونوں خصلتیں انسان کو بہت سے گناہوں کے ارتکاب سے روک دیتی ہیں، جب کہ بک بک کرتے رہنے سے انسان جھوٹ گوئی کا بھی ارتکاب کر بیٹھتا ہے، اور جو دل میں ہو اس کے خلاف بھی بول پڑتا ہے، یہی نفاق ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح إيمان ابن أبى شيبة (118)، المشكاة (4796 / التحقيق الثانى)
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن زيد بن اسلم، عن ابن عمر، ان رجلين قدما في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم فخطبا، فعجب الناس من كلامهما، فالتفت إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " إن من البيان سحرا "، او " إن بعض البيان سحر "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن عمار، وابن مسعود، وعبد الله بن الشخير، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلَيْنِ قَدِمَا فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَا، فَعَجِبَ النَّاسُ مِنْ كَلَامِهِمَا، فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا "، أَوْ " إِنَّ بَعْضَ الْبَيَانِ سِحْرٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَمَّارٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو آدمی آئے ۱؎ اور انہوں نے تقریر کی، لوگ ان کی تقریر سن کر تعجب کرنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”کچھ باتیں جادو ہوتی ہیں“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمار، ابن مسعود اور عبداللہ بن شخیر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: ۹ ھ میں بنو تمیم کے وفد میں یہ دونوں شامل تھے، ان میں سے ایک کا نام زبرقان اور دوسرے کا نام عمرو بن اہیم تھا۔
۲؎: اگر حق کی دفاع اور اخروی زندگی کی کامیابی سے متعلق اسی طرح کی خوبی کسی میں ہے تو قابل تعریف ہے، اور اگر باطل کی طرف پھیرنے کے لیے ہے تو لائق مذمت ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ما نقصت صدقة من مال، وما زاد الله رجلا بعفو إلا عزا، وما تواضع احد لله إلا رفعه الله "، قال ابو عيسى: وفي الباب عن عبد الرحمن بن عوف، وابن عباس، وابي كبشة الانماري واسمه عمر بن سعد، وهذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللهُ رَجُلًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي كَبْشَةَ الْأَنَّمَارِيِّ وَاسْمُهُ عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ مال کو کم نہیں کرتا، اور عفو و درگزر کرنے سے آدمی کی عزت بڑھتی ہے، اور جو شخص اللہ کے لیے تواضع و انکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا رتبہ بلند فرما دیتا ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبدالرحمٰن بن عوف، ابن عباس اور ابوکبشہ انماری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابوکبشہ انماری کا نام عمر بن سعد ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/البر والصلة 19 (2588) (تحفة الأشراف: 14072)، و مسند احمد (2/386)، و سنن الدارمی/الزکاة 35 (1718) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: حدیث میں تواضع اور خاکساری کا مذکور مرتبہ تو دنیا میں دیکھی حقیقت ہے، اے کاش لوگ نصیحت پکڑتے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2200)، الصحيحة (2328)
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم کرنا قیامت کے دن تاریکیوں کا سبب ہے“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابن عمر کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، عائشہ، ابوموسیٰ، ابوہریرہ، اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن محمد، اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن سفيان، عن الاعمش، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، قال: " ما عاب رسول الله صلى الله عليه وسلم طعاما قط كان إذا اشتهاه اكله وإلا تركه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو حازم هو الاشجعي الكوفي واسمه سلمان مولى عزة الاشجعية.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " مَا عَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَعَامًا قَطُّ كَانَ إِذَا اشْتَهَاهُ أَكَلَهُ وَإِلَّا تَرَكَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حَازِمٍ هُوَ الْأَشْجَعِيُّ الْكُوفِيُّ وَاسْمُهُ سَلْمَانُ مَوْلَى عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایا، جب آپ کو پسند آتا تو کھا لیتے نہیں تو چھوڑ دیتے۔
(مرفوع) حدثنا يحيى بن اكثم، والجارود بن معاذ، قالا: حدثنا الفضل بن موسى، حدثنا الحسين بن واقد، عن اوفى بن دلهم، عن نافع، عن ابن عمر، قال: صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر فنادى بصوت رفيع، فقال: " يا معشر من اسلم بلسانه، ولم يفض الإيمان إلى قلبه، لا تؤذوا المسلمين، ولا تعيروهم، ولا تتبعوا عوراتهم، فإنه من تتبع عورة اخيه المسلم تتبع الله عورته، ومن تتبع الله عورته يفضحه ولو في جوف رحله "، قال: ونظر ابن عمر يوما إلى البيت او إلى الكعبة، فقال: ما اعظمك واعظم حرمتك، والمؤمن اعظم حرمة عند الله منك، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من حديث الحسين بن واقد، وروى إسحاق بن إبراهيم السمرقندي، عن حسين بن واقد، نحوه، وروي عن ابي برزة الاسلمي، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَكْثَمَ، وَالْجَارُودُ بْنُ مُعَاذٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ أَوْفَى بْنِ دَلْهَمٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ فَنَادَى بِصَوْتٍ رَفِيعٍ، فَقَالَ: " يَا مَعْشَرَ مَنْ أَسْلَمَ بِلِسَانِهِ، وَلَمْ يُفْضِ الْإِيمَانُ إِلَى قَلْبِهِ، لَا تُؤْذُوا الْمُسْلِمِينَ، وَلَا تُعَيِّرُوهُمْ، وَلَا تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ، فَإِنَّهُ مَنْ تَتَبَّعَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ، وَمَنْ تَتَبَّعَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ وَلَوْ فِي جَوْفِ رَحْلِهِ "، قَالَ: وَنَظَرَ ابْنُ عُمَرَ يَوْمًا إِلَى الْبَيْتِ أَوْ إِلَى الْكَعْبَةِ، فَقَالَ: مَا أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ، وَالْمُؤْمِنُ أَعْظَمُ حُرْمَةً عِنْدَ اللَّهِ مِنْكِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، وَرَوَى إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ السَّمَرْقَنْدِيُّ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، نَحْوَهُ، وَرُوِي عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے، بلند آواز سے پکارا اور فرمایا: ”اے اسلام لانے والے زبانی لوگوں کی جماعت ان کے دلوں تک ایمان نہیں پہنچا ہے! مسلمانوں کو تکلیف مت دو، ان کو عار مت دلاؤ اور ان کے عیب نہ تلاش کرو، اس لیے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب ڈھونڈتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھونڈتا ہے، اور اللہ تعالیٰ جس کے عیب ڈھونڈتا ہے، اسے رسوا و ذلیل کر دیتا ہے، اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہو“۔ راوی (نافع) کہتے ہیں: ایک دن ابن عمر رضی الله عنہما نے خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کر کہا: کعبہ! تم کتنی عظمت والے ہو! اور تمہاری حرمت کتنی عظیم ہے، لیکن اللہ کی نظر میں مومن (کامل) کی حرمت تجھ سے زیادہ عظیم ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف حسین بن واقد کی روایت سے جانتے ہیں، ۲-اسحاق بن ابراہیم سمر قندی نے بھی حسین بن واقد سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ۳- ابوبرزہ اسلمی رضی الله عنہ کے واسطہ سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد الله بن وهب، عن عمرو بن الحارث، عن دراج، عن ابي الهيثم، عن ابي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا حليم إلا ذو عثرة، ولا حكيم إلا ذو تجربة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ دَرَّاجٍ، عَنْ أَبِي الْهَيْثَمِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا حَلِيمَ إِلَّا ذُو عَثْرَةٍ، وَلَا حَكِيمَ إِلَّا ذُو تَجْرِبَةٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غلطی کرنے والے ہی بردبار ہوتے ہیں اور تجربہ والے ہی دانا ہوتے ہیں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4055)، وانظر: مسند احمد (3/69) (ضعیف) (سند میں ”دراج أبوالسمح“ أبوالھیثم سے روایت میں ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (5056)، الضعيفة (5646) // ضعيف الجامع الصغير (6283) //
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا إسماعيل بن عياش، عن عمارة بن غزية، عن ابي الزبير، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من اعطي عطاء فوجد فليجز به، ومن لم يجد فليثن، فإن من اثنى فقد شكر، ومن كتم فقد كفر، ومن تحلى بما لم يعطه كان كلابس ثوبي زور "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب، وفي الباب عن اسماء بنت ابي بكر، وعائشة، ومعنى قوله: " ومن كتم فقد كفر " يقول: قد كفر تلك النعمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أُعْطِيَ عَطَاءً فَوَجَدَ فَلْيَجْزِ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَلْيُثْنِ، فَإِنَّ مَنْ أَثْنَى فَقَدْ شَكَرَ، وَمَنْ كَتَمَ فَقَدْ كَفَرَ، وَمَنْ تَحَلَّى بِمَا لَمْ يُعْطَهُ كَانَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَعَائِشَةَ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: " وَمَنْ كَتَمَ فَقَدْ كَفَرَ " يَقُولُ: قَدْ كَفَرَ تِلْكَ النِّعْمَةَ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے کوئی تحفہ دیا جائے پھر اگر اسے میسر ہو تو اس کا بدلہ دے اور جسے میسر نہ ہو تو وہ (تحفہ دینے والے کی) تعریف کرے، اس لیے کہ جس نے تعریف کی اس نے اس کا شکریہ ادا کیا اور جس نے نعمت کو چھپا لیا اس نے کفران نعمت کیا، اور جس نے اپنے آپ کو اس چیز سے سنوارا جو وہ نہیں دیا گیا ہے، تو وہ جھوٹ کے دو کپڑے پہننے والے کی طرح ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں اسماء بنت ابوبکر اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- «ومن كتم فقد كفر» کا معنی یہ ہے: اس نے اس نعمت کی ناشکری کی۔
(مرفوع) حدثنا الحسين بن الحسن المروزي بمكة، وإبراهيم بن سعيد الجوهري، قالا: حدثنا الاحوص بن جواب، عن سعير بن الخمس، عن سليمان التيمي، عن ابي عثمان النهدي، عن اسامة بن زيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صنع إليه معروف فقال لفاعله: جزاك الله خيرا فقد ابلغ في الثناء "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن جيد غريب، لا نعرفه من حديث اسامة بن زيد إلا من هذا الوجه، وقد روي عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله، وسالت محمدا فلم يعرفه، حدثني عبد الرحيم بن حازم البلخي، قال: سمعت المكي بن إبراهيم، يقول: كنا عند ابن جريج المكي، فجاء سائل فساله، فقال ابن جريج لخازنه: اعطه دينارا، فقال: ما عندي إلا دينار إن اعطيته لجعت وعيالك، قال: فغضب وقال: اعطه، قال المكي: فنحن عند ابن جريج إذ جاءه رجل بكتاب وصرة وقد بعث إليه بعض إخوانه، وفي الكتاب إني قد بعثت خمسين دينارا، قال: فحل ابن جريج الصرة: فعدها فإذا هي احد وخمسون دينارا، قال: فقال ابن جريج لخازنه: قد اعطيت واحدا فرده الله عليك وزادك خمسين دينارا.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَكَّةَ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ، عَنْ سُعَيْرِ بْنِ الْخِمْسِ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِهِ: جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا فَقَدْ أَبْلَغَ فِي الثَّنَاءِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ جَيِّدٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ، وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا فَلَمْ يَعْرِفْهُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ حَازِمٍ الْبَلْخِيُّ، قَال: سَمِعْتُ الْمَكِّيَّ بْنَ إِبْرَاهِيمَ، يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ ابْنِ جُرَيْجٍ الْمَكِّيِّ، فَجَاءَ سَائِلٌ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ لِخَازِنِهِ: أَعْطِهِ دِينَارًا، فَقَالَ: مَا عِنْدِي إِلَّا دِينَارٌ إِنْ أَعْطَيْتُهُ لَجُعْتَ وَعِيَالُكَ، قَالَ: فَغَضِبَ وَقَالَ: أَعْطِهِ، قَالَ الْمَكِّيُّ: فَنَحْنُ عِنْدَ ابْنِ جُرَيْجٍ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ بِكِتَابٍ وَصُرَّةٍ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْهِ بَعْضُ إِخْوَانِهِ، وَفِي الْكِتَابِ إِنِّي قَدْ بَعَثْتُ خَمْسِينَ دِينَارًا، قَالَ: فَحَلَّ ابْنُ جُرَيْجٍ الصُّرَّةَ: فَعَدَّهَا فَإِذَا هِيَ أَحَدٌ وَخَمْسُونَ دِينَارًا، قَالَ: فَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ لِخَازِنِهِ: قَدْ أَعْطَيْتَ وَاحِدًا فَرَدَّهُ اللَّهُ عَلَيْكَ وَزَادَكَ خَمْسِينَ دِينَارًا.
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے ساتھ کوئی بھلائی کی گئی اور اس نے بھلائی کرنے والے سے «جزاك الله خيراً»”اللہ تعالیٰ تم کو بہتر بدلا دے“ کہا، اس نے اس کی پوری پوری تعریف کر دی“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن جید غریب ہے، ہم اسے اسامہ بن زید رضی الله عنہ کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل حدیث مروی ہے، میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا، ۳- مکی بن ابراہیم کہتے ہیں کہ ہم لوگ ابن جریج مکی کے پاس تھے، ایک مانگنے والا آیا اور ان سے کچھ مانگا، ابن جریج نے اپنے خزانچی سے کہا: اسے ایک دینار دے دو، خازن نے کہا: میرے پاس صرف ایک دینار ہے اگر میں اسے دے دوں تو آپ اور آپ کے اہل و عیال بھوکے رہ جائیں گے، یہ سن کر ابن جریج غصہ ہو گئے اور فرمایا: اسے دینار دے دو، ہم ابن جریج کے پاس ہی تھے کہ ایک آدمی ان کے پاس ایک خط اور تھیلی لے کر آیا جسے ان کے بعض دوستوں نے بھیجا تھا، خط میں لکھا تھا: میں نے پچاس دینار بھیجے ہیں، ابن جریج نے تھیلی کھولی اور شمار کیا تو اس میں اکاون دینار تھے، ابن جریج نے اپنے خازن سے کہا: تم نے ایک دینار دیا تو اللہ تعالیٰ نے تم کو اسے مزید پچاس دینار کے ساتھ لوٹا دیا۔
وضاحت: ۱؎: یعنی کسی پر احسان کیا گیا ہو، اس نے اپنے محسن کے لیے «جزاك الله خيرا» کہا تو اس احسان کا اس نے پورا پورا شکر یہ ادا کر دیا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، المشكاة (3024)، التعليق الرغيب (2 / 55)، الروض النضير (8)
قال الشيخ زبير على زئي: (2035) إسناده ضعيف سليمان التيمي مدلس وعنعن (د 1488) ولبعض الحديث شواھد . فائدة: أثر عبد الملك بن عبد العزيز بن جريح: سنده حسن .